کاغذ کا حسن……اور احمد راہی مرحوم

گذشتہ روز میرے ایک دوست کی فون کال آئی ۔ اس دوست سے بات کرنے کے بعد معروف اور عظیم شاعر احمد راہی کاشدت سے احساس دلادیا۔فون کرنے والے دوست نے بنا کسی تمہید کے کہا کہ ’’ انور صاحب ! اگر آپ کے پاس اپنے پڑھنے والوں سے شیئر کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو نہ لکھا کریں۔ بعض اوقات تو آپکے آرٹیکل میں ’’بلا‘‘ کی انفارمیشن اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کا درست تجزیہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ بڑی بڑی اندر کی ایسی ایسی خبریں ہوتی ہیں کہ مزہ آ جاتا ہے۔مگر کبھی کبھار ایسی بونگی مارتے ہیں کہ سوائے وقت کے ضیاع کے کچھ ’’پلے ‘‘ نہیں پڑتا بلکہ ’’ اگلا سواد‘‘ بھی جاتا رہتا ہے…… میرے اس مہربان دوست نے میرے کسی ایسے آرٹیکل کی نشاندہی تو نہیں کی جس کے مطالع سے انکا قیمتی وقت ضائع ہوا ہو ……لیکن میں پھر بھی میں اپنے اس مہربان دوست کا نہایت صدق دل سے مشکور و ممنون ہوں کہ اس نے مجھے اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکال کر کال کی۔ اور میری کمزوریوں اور خامیوں سے مجھے آگاہ فرمایا۔میرے اس دوست کے اس جملے نے مجھے عظیم شاعر اور گیت نگار جناب احمد راہی مرحوم کی دل و دماغ میں شدت سے یاد تازہ کروادی کہ’’ اگر آپکے پاس اپنے پڑھنے والوں سے شیئر کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو نہ لکھا کریں‘‘

اداکار اعجاز اور فردوس پر فلمائے جانے والے شہرہ آفاق پنجابی فلم ’’ ہیر رانجھا ‘‘ کے لازوال گیتوں ’’ سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے……میں تاں ہو ہو گئی قربان وے‘‘’’ونجلی والڑیا وے تو تاں موہ اک مٹیار‘‘
تیری خیر ہوئے ڈولی چڑھ جان والیے……قول ہار تے پیار نوں بھلان والیے‘‘’’ توں چور میں تیری چور بلوچا ہانیا ‘‘کے خالق عظیم شاعر احمد راہی مرحوم سے کسی نے پوچھا کہ ’’ راہی صاحب آپ نے لکھنا کیوں کم کردیا ہے‘‘ تو احمد راہی مرحوم نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا برجستہ جواب دیا کہ ’’ کاکا!اگر کوئی لکھنے کی چیز ہو تو بندہ لکھے ورنہ کاغذ کا اپنا جوحسن ہوتا ہے اسے کیوں خراب کیا جائے‘‘ احمد راہی مرحوم کے ان لازوال گیتوں کو امر کرنے میں موسیقار خورشید انور کی مدھر دھنوں اور ملکہ ترنم نورجہاں کی سریلی آواز نے شاہکار بنا دیا تھا جو آج بھی عوام الناس کے ذہنوں میں تازہ ہیں اور انکے کانوں میں رس گول رہے ہیں۔احمد راہی مرحوم نے ایک جملے کے جواب میں واقعی کوزے میں دریا کو بند کر دیا تھا۔سوہ چاہتے تو اپنے کم لکھنے کی وضاخت میں لمبی چوڑی تمہید باندھ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے مطلب کی بات کی اور بس……

میرے بزرگ ظہور عالم شہید اور محمود شام بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ میں اپنی بات کو ہمیشہ چھوٹے جملوں میں کہنے کی کوشش کیا کرو ں۔ لیکن کوشش تو بڑی کرتا ہوں مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں کوتاہی سرزد ہو ہی جاتی ہے…… چلو میں تو کم عقل ہوں اور کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث اکثر اوقات اپنی بات کو لمبا کر جاتا ہوں لیکن ہمارے انتہائی قابل احترام صحافی بھی ایسا کر جاتے ہیں ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ میں جب ان کی خامیوں پر تنقید کرتا ہوں تو مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں بھی ایسا ہی لکھو۔محض کالم کولمباکرنے کے شوق میں بے سروپا گپیں ہانکتا پھروں…… انشا اﷲ آئندہ میری پوری کوشش ہوگی کہ اپنا مافی الضمیر یا مدعا بیان کرنے پر دھیاں ن دوں اور ادھر ادھر آواراہ نہ پھرتا پھرو کہ قاری کو بات کا سراور پیر ہی نہ سمجھ آئے۔

سابق وزیر داخلہ رحمن ملک جو خود کو آج بھی وزیر داخلہ سمجھتے ہیں اور موجودہ وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں بھی خود کو اپوزیشن کا لیڈر ہی تصور کرتے ہیں۔ دونوں آج ایک دوسرے پر خوب برس رہے ہیں۔ چودہری نثار کا کہنا ہے کہ سابق حکومت نے اربوں کے ناکارہ سکینرز منگوائے جبکہ رحمن ملک کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ بات واضع ہونے چاہیے کیونکہ قومی خزانے کے ضیاع کا معاملہ ہے۔ چودہری نثار علی خان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ناکارہ سکینروں کی خریداری کے ثبوت قوم کے سامنے لائیں اور رحمن ملک کا فرض ہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ بے گناہ ہیں۔ناکارہ چیزیں درآمد کرنے کرنے کے قصے ماضی میں بھی بہت سننے اور پڑھنے کو ملتے رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جناب شیخ رشید احمد پنڈی والے اور جاوید اشرف قاضی جب وزیر ریلوے ہوا کرتے تھے تو چین سے ایسے ریلوے انجن منگوائے گے جا ناکارہ سے بھی بدتر تھے۔ کئی دفعہ ہم نے بھارت سے پیاز اور گندم بھی ناکارہ خریدی ……لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ناکارہ چیزیں منگوانے والوں کے خلاف کبھی کوئی ایکشن لیا ہے؟ ناکارہ اور کم معیار والی چیزیں محض کمیشن کی وصولی کے لیے خریدی جاتی ہیں……

اس حوالے سے مجھے ایک واپڈا اہلکار بابا مولوی طالب حسین کی ایک بات بہت یاد آ رہی ہے۔وہ بتا تا ہے کہ جن دوں واپڈا کو فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا ۔اور لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیف اینگزیکٹو آفیسر برگیڈیئر طارق ارشد ہوا کرتے تھے اور کبھی وہ ملازمین کے مسائل سے آگاہی کے لیے ’’دربار ‘‘لگایا کرتے تھے۔ بابا مولوی طالب حسین کہتا ہے کہ ایک دربار میں وہ بھی موجود تھا ۔اور فوجی چیف کو بتایا گیا کہ جناب آپ نے جو ٹیسٹر ملازمین کو فراہم کیے ہیں ۔انکا معیار اچھا نہیں ہے اس ملازم کی تائید کرتے ہوئے ایک اور ملازم نے بھی ایسا ہی کہا تو بریگیڈئر طارق ارشد نے غصے سے کہا ’’ایسا کیسا ہو سکتا ہے ۔ہم نے یہ ٹیسٹر ایک سو بیس روپے میں خریدا ہے‘‘ جس پر ایک اور ملازم نے انہیں بتایا کہ جناب آپکے ایک سو بیس روپے سے خریدے ہوئے ٹیسٹر سے زیادہ بہتر کام بازار میں دس روپے میں ملنے والا ٹیسٹر کام کرتا ہے ‘‘‘

جس دن سے میں نے طالب حسین کی زبانی یہ واقعہ سنا ہے ۔میری حیرت کی انتہا نہیں رہی…… میں سوچنے لگا ہوں کہ بازار مین دس روپے میں ملنے والے ٹیسٹر کو ایک سو بیس میں کیونکر خریدا گیا……حالانکہ خریدنے والوں کا دعوی تھا کہ یہ سودے کرپشن اور کمیشن سے پاک ہیں؟ اسی طرح تمام سرکاری ٹھکیداروں کے کام بھی کمیشن اور کرپشن کے بغیر مکمل ہونے والی بات عقل میں نہیں آتی۔پھر بھلا ہم یہ کیسے تصور کر لیں کہ اربوں روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والامیٹرو بس پراجیکٹ رشوت اور کمیشن کے بغیر کیسا مکمل ہوا ہوگا؟ ضلعی حکومت کے زیر انتظام ہونے والے ترقیاتی کام بھلا کیسے صاف اور شفاف ہو سکتے ہیں۔

ایک اور واقعہ سن لیجیے کہ کالے یرقان کے علاج میں استعمال ہونے والے انجکشن اور کیپسول لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں بتیس یا تیتیس سو میں فراہم کیے جاتے ہیں۔جبکہ نجی سٹور سے خریدے جائیں تو وہیں انجکشن اور کیپسول کہیں مہنگے دستیاب ہوتے ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سرکاری ہسپتالوں میں یرقان کے علاج کے لیے لگائے جانے والے انجکشن غلط ہیں یا انکے ساتھ کسی قسم کی اضافی قیمت کے بغیر فراہم کیے جانے والے کیپسول غلط اور غیر معیاری ہیں؟ میرے مشاہدے میں ہے کہ ایک مریض نے سرکاری ہسپتال سے لکھے ہوئے انجکشن لاہور کے معروف فضل دین اینڈ سنز مال روڈ سے خریدے تو محکمہ نے اسکے بل کو پاس کرنے سے انکار کردیا تھا۔اب سوچتا ہوں کہ اس صورت حال میں بھلا ہم پاکستان کو ہیپا ٹائٹس کی وبا سے کیسے پاک کر پائیں گے؟ صلاح عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے-

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.