نان ایشوز کی سیاست

اب اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ ایک منظم مہم کے ذریعہ عوام کو ان کے اصل مسائل سے دور کیا جارہا ہے۔ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر چاند کے مسئلے پر ہونے والی لا یعنی بحث اور میرا کی شادی کے ٹوٹے چلا کر عوام کو ان کے اصل مسئلے سے دور کیا جارہا ہے۔ کیا ہم نے اس بحث میں اخبارات کے صفحے کے صفحے ضائع نہیں کردیئے کہ مشرف پر مقدمہ چلایا جائے، انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، روزانہ اخبارات میں بیان دینے والے، پریس کانفرنس کرنے والے، میڈیا پر منہ سے جھاگ اگلنے والے اب کیوں اچانک خاموش ہوگئے۔ کیا عوام کی حمایت کے دعوے کرنے والے، لال مسجد کے معصوم بچوں اور بچیوں کے قاتلوں کو سزا دلانے کے دعوے کرنے والے حج عمرے اور شاہی ملاقاتوں میں سب کچھ بھول گئے۔ چار دن تک دو عیدوں پر دن رات بیانات دینے والوں نے مشرف کی باقیات، یا اسلام کی باقیات پر فخر کرنے والوں نے اپنے بیانات سے عوام کی کوئی خدمت کی ہے یا عوام میں مزید تفرقہ پھیلایا ہے۔ اگر سرحد والوں نے اس بار بھی ایک دن پہلے عید کرلی تو کونسی قیامت آگئی۔ کتنے برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اب کسی کی اتھارٹی کوئی ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ ورنہ برصغیر پاک وہند میں دہلی کے جامع مسجد سے چاند کا اعلان ہوتا اور توپوں کے داغنے، اور نقاروں کے ذریعے رات تک پورے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ پیغام مل جاتا کہ کل عید ہے۔ نہ اس میں سرکار کا دخل تھا، نہ کوئی رویت ہلال کمیٹی تھی، نہ چیئرمین کا استحقاق تھا کہ وہ ٹی وی پر آکر اعلان کریں گے۔ اجلاس میں آنے والوں کو ٹی اے ڈے اے ملے گا۔ بس شہادتیں مل جاتی تھیں اور اس کے بعد اعلان ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں تو ۰۲، ۲۲ منزلہ عمارتیں اور ایسی دوربین بھی نہ تھی۔ پھر بھی مسلمان دہلی کی جامع مسجد کے اعلان پر کان لگائے رہتے۔ کبھی دو عیدوں کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ کتنے دن تک ہم طالبان کی سوات میں شکست کا جشن منائیں، ہم کامیابیوں پر فخر سے پھولے نہیں سماتے اور جب کوئی دھماکہ ہوجاتا ہے تو پھر خاموش ہوجاتے ہیں، کیا فائدہ ایسی بڑھکوں کا، ٹی وی چینلوں پر ایک دوسرے پر گندے الزامات میں ہم نے عوام کا کتنا وقت ضائع کیا۔ مشرف پر آئین توڑ مقدمہ چلانے کی بحث سے کیا حاصل ہوا، ذکر نہ ہوا تو بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل کا نہ ہوا، رمضان کے دوران عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی آٹے اور چینی کی لمبی لمبی لائنوں میں عورتیں ہلاک ہوئیں تو بھی کوئی طوفان نہیں آیا۔ ایک دن سے زیادہ اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔ اس سے زیادہ وقت تو اداکارہ میرا کی شادی یا نا شادی کی خبر پر بحث ہوتی رہی۔

بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت مانگے جارہے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھے کہ جب امریکی شہری پاکستان میں غیر محفوظ ہیں تو بلیک واٹر کی طرف سے اردو اور پنجابی زبان پر عبور رکھنے والوں کو بطور ایجنٹ بھرتی کیوں کیا جارہا ہے۔ پشاور اور اسلام آباد میں منظم ہونے کے بعد اب کراچی میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کا کیا جواز ہے، ڈیفنس اور گلشن اقبال میں بنگلے کرائے پر کیوں حاصل کئے جارہے ہیں۔ ڈیفنس کے علاقے خیابان شمشیر میں ریجنل ہیڈ کوارٹر کس تنظیم کا بن رہا ہے۔ اب تو اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں غیر ملکیوں کے زیر استعمال پرائیوٹ رہائش گاہوں اور گاڑیوں کا سروے مکمل کر لیا ہے۔ جس کے مطابق غیر ملکیوں کے پاس تقریباً 13سو رہائش گاہیں ہیں جو کہ ڈپلومیٹک انکلیوژر سے باہر سیکٹر ایف‘ جی‘ ای اور آئی سیکٹرز میں ہیں۔ امریکی سفارتخانہ کو سیکورٹی فراہم کرنے والی نجی سیکورٹی کمپنی سے غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کے بعد اب کونسے ثبوت کا انتظار ہے۔ عوام کا حقیقی مسئلہ تو چینی کا تھا۔ چینی کی قیمتوں میں جو لوٹ مچی ہے۔ کوئی پوچھے ٹریڈنگ کارپوریشن سے کہ اس نے بروقت چینی درآمد کرنے کے اقدامات کیوں نہیں کیئے جس کی وجہ سے چینی کا بحران پیدا ہوا۔ اگست 2009 میں شوگر ڈیلرز نے مل مالکان کے ساتھ ایڈوانس معاہدے کیسے کیے، اگست 2009 میں ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی خریدی گئی تاہم ڈیلرز نے یہ چینی کیوں نہیں اٹھائی٬ سول سوسائٹی٬ وکلا اور عوام کی ہمدرد چند سیاسی جماعتوں کو ایک ایسی تحریک چلانی چاہیئے جو حقیقت میں عوام کی نمائندہ ہو۔ اگر سوسائٹی کا پڑھا لکھا طبقہ آج بھی کوئی تبدیلی لانے کا ارادہ کرلے تو پھر یہ تبدیلی لاکر رہتا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 391034 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More