جنت کی تلاش

بھلا ہو محترم مولانا محمد خان شیرانی کا جنہوں نے میرے جیسے بہت سے لوگوں کی مشکل آسان کر دی۔ کمال بات کہہ دی کہ دوسری شادی کے لیے آئین کی دفعہ 6اسلامی قوانین کے متصادم ہے۔ ایک سے زائد شادیوں کا قانون سہل بنانے اور نکاح، طلاق، بلوغت اور میراث پر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ سود سمیت دیگر اسلامی احکامات کے مقدمات کی جلد سماعت کے لیے بھی اسلامی نظریاتی کونسل، سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کو خط لکھے گی۔ گزشتہ دنوں ہونے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں جس کی صدارت مولانا محمد خان شیرانی نے کی ایک سے زائد بیویوں کا مسئلہ زیر بحث آیا اور کہا گیا کہ اسلام میں ایک سے زائد شادیوں پر کوئی پابندی نہیں لیکن آئین کی دفعہ 6 جس کے تحت دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے تحریری اجازت لینا ضروری ہے غیر اسلامی ہے۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ایک سے زائد شادیوں کے قانون کو سہل بنائے۔

مولانا کی یہ قیمتی آراء سننے کے بعد میں کچھ خوش بھی ہوں اور کچھ اداس بھی۔ خوشی تو اس بات کی کہ کہاں ایک اکلوتی بیگم پر قناعت اور کہاں دو، دو بیویاں۔ دو بیویاں ہوں تو دو گھر بھی ہوتے ہیں اور جب دو گھر ہوتے ہیں تو اقبال کے شاہین صورتِ خورشید جیتے ہیں۔ سورج کی طرح چمکتے دمکتے ادھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے۔

فارسی کا ایک مصرعہ ہے ’’وقت پیری گرگ ظالم مے شود پرہیزگار‘‘ یعنی بڑھاپے میں ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار ہو جاتا ہے۔ میں نہ تو ظالم تھا اور نہ ہی بھیڑیا، مگر بڑھاپا آگیا ہے اور جب سے بالوں میں سفیدی کا غلبہ شروع ہوا ہے پرہیزگاری خودبخود طاری ہونے لگی ہے۔ جوں جوں بدن کے جوڑ کام کرنا چھوڑ رہے ہیں جنت کی طلب بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے بتایا تھا کہ دو بیویوں والا شخص پکا جنتی ہے تو جنت کی طلب کے لیے دوسری شادی ضروری ہو گئی ہے۔ مولانا کا شکریہ کہ اس ملک کی اگلی نسلوں کو جنت کا راستہ دکھا رہے ہیں۔

دوسری شادی کے ذریعے جنت کی بشارت دینے والا دوست کل پھر ملا تھا۔ پوچھا کہ میں دوسری شادی کا ارادہ کر رہا ہوں، تم نے جنتی ہونے کا مژدہ دیا تھا، تو کوشش کر لوں؟ کہنے لگاہاں ہاں ضرور کرو۔ میں نے سنا کہ رب العزت کا دربار لگا تھا۔ لوگ تھر تھر کانپتے آرہے تھے۔ فرشتے پوری طرح حساب لے رہے تھے۔ ایک شخص آیا تو حکم ہوا حساب چھوڑو اور اسے سیدھا جنت کو بھیج دو۔حکم پر عملدرآمد ہوا۔ ڈرتے ڈرتے فرشتوں نے پوچھا۔ رب العزت اس میں کیا خوبی تھی جو بغیر حساب ہی جنت میں چلا گیا۔ جواب ملا اُس کی دو بیویاں تھیں۔ کافی سے بھی زیادہ بھگت چکا۔

مولانا کے بیان سے کچھ اداسی بھی ہوئی کہ مہربان نے کچھ دیر کر دی ہے۔ جسم کے زیادہ تر عضو کام نہیں کرتے۔ پھر سوچتا ہوں کہ ہرصبح تو بیگم ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہے تو بمشکل بستر سے اٹھتا ہوں۔ کچھ باتیں ضرور سناتی ہے اور دوسری آگئی تو باتیں زیادہ سننا پڑیں گی۔ لیکن جس طرح بدن ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے دوسری ہوئی تو دونوں مل کر اٹھا تو لیا کریں گی۔ بڑھاپے میں نرس رکھنے کا خرچہ بچ جائے گا۔ بیگم کی بیگم، نرس کی نرس۔

ہمارے محلے میں ایک بٹ صاحب تھے۔ محلے میں ایک تھڑے پر تمام دن بیٹھے رہتے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ اہل محلہ گزرتے ان سے گپ شپ بھی کرتے۔ انہیں میں نے کبھی گھر جاتے نہیں دیکھا تھا۔ محلے کے رہنے والے ایک میاں صاحب ایک دن ان کے پاس آئے تو رازدارانہ لہجے میں پوچھا بٹ صاحب کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کی افتاد آپڑی ہے کروں یا نہ کروں۔ آپ کا تجربہ کیسا ہے؟ بٹ صاحب نے مسکرا کر کہا بہت اچھا میں گھر جاتا ہوں۔ ایک بیوی لمحوں میں پراٹھا بنا لے آتی ہے، دوسری بھاگ کر سالن گرم کرتی ہے۔ میں کھاتا ہوں تو دونوں اردگرد برے پیار سے بیٹھی ہوتی ہیں۔ مجھے کہیں جانا ہو تو ایک بھاگ کر شلوار میں ازاربند ڈالتی ہے، دوسری قمیص استری کرتی ہے۔ بڑی مزے کی زندگی ہے۔ ایک بیوی والا ایسی زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میاں صاحب بٹ صاحب کی باتوں میں آگئے اور جھٹ سے دوسری شادی کر لی۔دو چار دن بعد جس کے پاس جائیں وہ پوچھے کہ اس ماں سے مل آئے۔ بیچارے نے دو بیویاں کی تھیں۔ دو مائیں آمنے سامنے آگئیں۔ گھر جانا مشکل ہو گیا۔ میاں صاحب جو پہلے محلے میں کبھی نظر نہیں آتے تھے۔ آج کل بٹ صاحب کے بالکل دوسرے تھڑے پر بیٹھے ہیں۔ بٹ صاحب کسی کو کوئی بات بتاتے ہیں تو میاں صاحب کی اونچی سی آواز آتی ہے۔ جھوٹے پر خدا کی لعنت۔

ویسے دوسری بیوی کی خواہش بھی بڑی عجیب ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ابھی پہلی بیوی گھر نہیں آتی تو بھی لوگ دوسری کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ چند سال پہلے اخبار میں ایک اشتہار تھا۔ رشتہ درکار ہے ایک ارب پتی بیوہ کے لیے۔ بیوہ کی تین فیکٹریاں، دو پلازے، وسیع زرعی جائیدادہے۔ کوئی اولاد نہیں۔ مخلص سہارے کی ضرورت مند۔ پہلی بیوی والے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ پہلی بیوی کا پورا بندوبست کر دیا جائے گا۔ اتنی زبردست بیوہ کا پڑھ کر زبان باہر آگئی۔ مخلص تو ہم ہمیشہ سے ہی ہیں، سوچا کوشش کر لی جائے۔ ایک دوست سے مشورہ کیا، اتفاق سے وہ بٹ نہیں تھے، کہنے لگے، اپنی بیوی کو جانتے ہو اس نے تمہارا بندوبست کیا خوب کیا ہوا ہے۔ آنے والی اس کا بھی بندوبست کرنے کو تیار ہے، سوچ لو کیا چیز ہوگی۔ تم جنت کا سوچ رہے ہوں، وہ ایسی پروازکرائے گی کہ جنت بھی عبور کر جاؤ گے۔ میں ٹھہرا کچھ بزدل، کانوں کو ہاتھ لگائے اور آج تک اپنی دنیا پر قناعت کیے بیٹھا ہوں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444810 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More