مرشدی اور مائی فرینڈ

معروف کالم نگارمرشدی ہارون الرشید کے کالم میں بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔وہ کیا لکھتے ہیں اس پہ بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے لیکن جوزبان وہ لکھتے ہیں آنکھوں کے راستے دل میں اترنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔جس پہ فدا ہوں اسے آسمان میں عین عرش معلیٰ کے سائے میں بٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جو ان کے بائیں ہاتھ آ گیا اسے اسفل السافلین ثابت کرنا بھی ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔کسی زمانے میں طالبان کے ایسے حامی تھے کہ انہیں ساری دنیا پہ حکمرانی کرتے دیکھا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے پاکستان میں اپنی فرنچائز کھولی تو مرشدی کا غصہ دیکھنے والا تھا۔تحریک انصاف کے عمران خان کے عشق میں گرفتار ہوئے تو اپنا تن من دھن سب اس پہ قربان کر دیا۔آج کل اس سے بھی ان بن ہے۔وہ بھی اپنے مزاج کا ایک ہی ہے جو سوچ لے نتائج کی پرواہ کئے بغیر کر گذرتا ہے۔اس نے بھی مرشدی کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا۔جو شخص اپنے دو بچوں کی ماں کو الودا ع کہہ سکتا ہے اسے مرشدی جیسے مہربانوں سے کیا مہر ہو سکتی ہے۔سیاست میں موروثیت کے سخت خلاف لیکن صحافت میں اپنے قلم کے وارث کی تربیت کر رہے ہیں ۔صاحبزادہ ماشاء اﷲ خوب لکھتا ہے۔سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے مداح اور گوجرخان کے پروفیسر احمد رفیق اختر کے دیوانے ہیں۔دیکھئیے ان دونوں صاحبان کی قسمت کب تلک یاوری کرتی ہے۔ ان کا غصہ خطرناک ،پیار اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔مجھے ان کا پیار اور غصہ دیکھ کے جوانی کے زمانے کا ایک شعریاد آتا ہے ۔
نو عمر ہیں ابھی ،،،تلون مزاج میں
غصے کا اعتبار ہے نہ ان کے پیار کا
نو عمر تو نہیں لیکن مزاج میں تلون اور تلخی ہے، منافقت ہر گز نہیں۔ جو سمجھ میں آئے لکھتے ہیں۔قلم جن کی انگلیوں کو چومتا ہے مرشدی ان کے سرخیل ہیں۔

کچھ دنوں پہلے میں نے اپنے ایک کالم" مائی بیسٹ فرینڈ" میں اپنی ایک مشکل کا ذکر کیا تھا کہ جو بھی لکھوں تان ہمیشہ طالبان اور حکومت مخالفت پہ توڑتا ہوں۔مرشدی بھی چاہے کوئی ساز چھیڑیں اس میں کہیں نہ کہیں عمران خان ضرور ہوتا ہے۔انہی کی سن کے ہم نے بھی کچھ عرصہ عمران خان کی پارٹی کی خاک چھانی۔معروف مزاح نگار انور مقصود کا ایک فقرہ قابل غور ہے کہ انگلینڈ میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کا بیٹا وزیر بن گیا لیکن پاکستان میں وزیروں کے بیٹے ٹیکسی ڈرائیور بننے کے بھی لائق نہیں اسی لئے وہ سیاستدان بن جاتے ہیں۔مرشدی کی محبوب تحریک انصاف کو دو سال تک اندر سے دیکھا۔ تحریک انصاف اب وہ تحریک انصاف نہیں جو عمران خان کے دیوانوں کی پارٹی تھی۔یہ اب بھان متی کا کنبہ ہے۔اب یہ کعبہ عمران خان کے بڑے بت کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے بوسیدہ اور از کارفتہ بتوں سے مزین ہے۔پجاری ہیں کہ آنکھیں بند کر کے انہی بتوں سے تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔اپنی دو سالہ خواری کے دوران ایسے ایسے نمونوں اور نابغوں سے واسطہ پڑا کہ اپنے وطن پہ ترس آتا تھا کہ الہی یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے کل کو میرے وطن کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔دنیا میں سیاست اور وژن کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں اندھا دھند فائرنگ کے لئے اندھے چنے جاتے ہیں۔

ملک میں آج کل فوج اور حکومت کے تعلقات کی باسی کڑھی میں ابال آیا ہوا ہے۔حکومت کے دو وزیروں نے ایسی آگ جلائی کہ برداشت اور حلم کی عالمی شہرت رکھنے والے آرمی چیف کو بھی بالآخر کہنا پڑا کہ فوج جس طرح دوسرے اداروں کی عزت اور توقیر کا احترام کرتی ہے اسی طرح وہ اپنے ادارے کے تقدس کا بھی احترام کرے گی۔آزاد میڈیا کو یہ خبر آئی ایس پی آر کے ذریعے سے ملی اور پھر اس بیان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو قوال کلام اقبال کے ساتھ کرتے ہیں۔پنگچر دوبارہ لیکن ہونے لگے۔ حکومت مخالف حلقوں کے چہروں پہ بھی مسکراہٹیں کھیلنے لگیں۔امیدوں کی نودمیدہ کونپلیں اپنی بہار دکھانے لگیں۔وہ لوگ کل تک جو فوج پہ طرنہ زن تھے اور فوجیوں کو اغواء کر کے انہیں بوریوں میں بند کیا کرتے تھے ۔بغض ِ معاویہ میں فوج کے پشتیبان بننے کی کوشش کرنے لگے۔

یہ سارے طنبورے شاید یہ بات بھول گئے کہ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جس کے فیصلہ ساز سخت تربیت اور انتہائی نگرانی کی کٹھالی میں پس کے فیصلہ سازی کے منصب پہ فائز ہوتے ہیں۔ اولاََ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی نا اہل اہل قرار پائے لیکن پھر بھی کوئی سسٹم کو دھوکہ دے کے گھس بیٹھ کر لے تو بھی احتساب کا خود کار نظام اسے مختلف مراحل اور مدارج میں رد کر دیتا ہے۔انفرادی حیثیت میں لوگ اچھے یا برے ہو سکتے ہیں لیکن اجتماعی طور پہ قوالوں کی سنگت میں فوج تال نہیں دیا کرتی۔فوج اصولی طور پہ اپنے آپ کو کارزار و کاروبارِ سیاست سے علیحدہ کر چکی۔اسے کسی بیان سے اپنی طے شدہ پالیسی سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والے جان لیں کہ ان تلوں میں تیل تو ہے لیکن اب کی بار فوج کی گود میں بیٹھ کے اقتدار کے مزے لوٹنے والے خاطر جمع رکھیں ان کے ارمانوں کے پھول بن کھلے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

ڈر اس بات کا ہے کہ مرشدی بھی اس سارے قضئیے اور قصے میں فوج کے حامی ہیں۔ خدا خیر کرے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268544 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More