جمیل نقوی - لائبریرین ، شاعر، مصنف و مولف

تابشؔ دہلوی کے بقول’ عظیم شخصیتوں کو دیکھ لینا بھی عظمت ہے‘۔ میں اپنے آپ کو ان خوش نصیبوں میں تصور کرتا ہوں کہ جس نے پاکستان لائبریرین شپ کی عظیم شخصیات کو نہ صرف دیکھا بلکہ بہت ہی قریب سے دیکھا، ان محترم شخصیات میں جمیل نقوی مرحوم بھی شامل ہیں۔ آپ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پاکستان میں لائبریرین شپ کی بنیاد رکھی اور اس پیشہ کو اپنی منجملہ صلاحیتوں اور انتھک محنت سے اسے ایک تناور درخت بنا یا۔ پاکستان لائبریرین شپ کی تاریخ میں ان اکابرین کی خدمات کو ہمیشہ بلند مقام حاصل رہے گا۔مجھے ان میں سے اکثر کا قرب حاصل رہا اور بعض کے ساتھ عمروں کے فرق اورنیازمندی کے باوجود دوستی کا شرف حاصل ہوا۔جمیل نقوی مرحوم نہ صرف ایک فرض شناس لائبریرین ، لائبریری سائنس کے استاد بلکہ استاد لااساتذہ میں سے تھے۔انگریزی اور اردو کے شاعر،نثر نگار ، لائبریرین شپ اور دیگرموضوعات پر آپ نے متعدد کتب تصیف کیں۔ نعتیہ شاعر کی حیثیت سے آپ کی بعض نعتیں بہت مقبول ہیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پیش ہوتی ہیں۔

لائبریرین شپ کے موضوع پر آپ اردو زبان کے ابتدائی مصنفین میں سے ہیں، آپ کے تحریرکردہ مضامین مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے رسالہ ’’کتاب نما ‘‘ میں مسلسل ایک سال (۱۹۳۸ء) تک شائع ہوئے۔اردومیں معاشیات ِکتب خانہ پر فنی حیثیت سے یہ مضامین نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان مضامین پر مشتمل آپ کی کتاب ’’انتظام کتب خانہ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۴۱ء میں مکتبہ جامعہ دہلی نے شائع کی تھی۔اس وقت جمیل نقوی برطانوی عہد کی امپیریل لائبریری کلکتہ میں دار المطالعہ اور عملی شعبہ کے سربراہ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس تصنیف کو بجا طور پر اردو زبان میں لائبریری سائنس کی اولین کتا ب کا درجہ حاصل ہے۔بقول ڈاکٹر انیس خورشید’’جمیل نقوی صاحب کا کتاب سے بہت پرانا تعلق ہے، کتاب کی خوشبو کے نصف سے زائد طویل سفر میں جمیل نقوی کو خط کیٹلاگ سے لے کر کمپیو ٹرائی نوری نستعلیق تک کئی منزلیں طے کرنا پڑیں اس سفر میں جب بھی آپ رکے ‘ کتاب ہی آپ کا مسلک رہا اور اس حوالہ سے آپ نے جو بھی کام انجام دیا اتنے سلیقہ اوررچاؤ کے ساتھ کیا کہ آپ خود بھی لوگوں کی نگاہ کے مرکز بنے رہے‘‘۔

جمیل نقوی مرحوم ۹ جنوری ۱۹۱۴ء میں ہندوستان کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ پورا نام جمیل احمد نقوی، فقہ کے اعتبار سے حنفی اور والدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ سر سید احمدخان سے ملتا ہے غالباً اسی تعلق کے باعث آپ میں ادب دوستی اور علم پروری کے ساتھ ساتھ ترسیل علم کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔معلومات کا وسیع خزانہ اپنے اندر رکھتے ہیں، حافظہ بھی لاجواب تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کوکتابوں کا چلتا پھر تا انسائیکلو پیڈیاجیسے خطابات سے نوازا گیا۔ابتدائی تعلیم ا مروہہ ہی میں حاصل کی ، لائبریری سائنس میں ڈپلومہ اور اردو میں ایم اے کی سند حاصل کی۔لائبریری سائنس کے علاوہ ادب ان کا خاص موضوع تھا۔ نثر اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی۔خوشگور ازدواجی زندگی گزاری۔ ایک بیٹا طاہر جمیل نقوی اور چار بیٹیاں ہیں۔آپ کی دنیاوی زندگی ۸۶ سالوں پر محیط ہے جو ہندوستان کے شہر امروہہ سے شروع
ہوکر ۱۹۹۹ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں اختتام پذیر ہوئی، یعنی ۳۴ سال غیر منقسم ہندوستان میں اور
۵۲ سال پاکستان میں خدمات انجام دیں۔

جمیل نقوی نے ۱۹۳۳ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ علوم شرقی کی ’’لٹن لائبریری‘‘ (حالیہ مولانا آزاد لائبریری) سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور اسسٹنٹ لائبریرین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں بعد ازاں امپریل لائبریری کلکتہ میں شعبہ دار المطالعہ کے نگراں اور مخطوطات کی کیٹلاگ سازی کا اہم کام آپ کے سپرد کیا گیا۔ اس کے علاوہ آپ وائس رائے آف انڈیا نیو دہلی کے اکنامکس ایڈوائزر کے لائبریرین اور ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔امپریل لائبریری کلکتہ کے اسکول آف لائبریرین شپ سے بھی آپ وابستہ رہے ۔ اسکول کے منتظم خان بہادر اسد اﷲ خان تھے اور ایک استاد کی حیثیت سے لائبریری سائنس کی تعلیم کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا لائبریری منصوبہ بندی و کیٹلاگ سازی آپ کے مخصوص موضوعات تھے، آپ کو بمبئی یونیورسٹی کے اسکول آف لائبریرین شپ کے وزیٹنگ استاد (۶۰ء۔۱۹۶۱ء) کی حیثیت بھی حاصل تھی۔

لائبریری تحریک میں بھی آپ کی خدمات قابل ستائش ہیں، انڈین لائبریری ایسو سی ایشن (۱۹۳۳ء) کے بنیادی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایسو سی ایشن کے بہت ہی ممتاز اور مستعد سیکریٹری(۱۹۶۰ء ۔۱۹۶۶ء) خلیفہ محمد اسد اﷲ خان کے بااعتماد اسسٹنٹ سیکریٹری کے فرائض بھی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے۔آپ انڈین لائبریری ایسوسی ایشن کے ماہانہ میگزین ’’انڈین لائبریرین‘‘ کی اداراتی ذمہ داریوں میں خان بہادر صاحب کے شریک کار رہے۔ ہندوستان کے کتب خانوں میں جامعہ ملیہ لائبریری دہلی، مسلم یونیورسٹی ڈے اسکالر لائبریری ،علی گڑھ، انڈین میوزیم لائبریری، کلکتہ اور کلکتہ کلب لائبریری کی تنظیم و ترتیب بھی آپ کے ہاتھوں عمل میں آئی۔

۱۹۴۸ء میں جمیل نقوی نے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا ۔پاکستان میں آپ کی لائبریری خدمات ۵۲ برس پر محیط ہیں ۔ حکومت پاکستان کے ادارہ فروغ برآمدات سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور ۱۹۷۱ء تک لائبریری خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ آپ نے خیر پور اسٹیٹ کے وزیر اعلیٰ کے لائبریری ایڈوائزر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ سرکاری عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ ایک بڑے طباعتی ادارے ’الیٹ پبلشر ز لمیٹڈ ‘ سے وابستہ ہوگئے۔

جمیل نقوی جو ہندوستان میں انڈین لائبریری ایسو سی ایشن سے وابستہ رہ چکے تھے پاکستان میں قائم ہونے والے لائبریرین شپ کے ان ابتدائی اداروں کے قیام اور تنظیم میں فعال ثابت ہوئے ۔ آپ کراچی لائبریری ایسو سی ایشن اورپاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے بنیادی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ جوائنٹ سیکریٹری مقرر ہوئے ۔ ان دونوں اداروں نے یکے بعد دیگرے لائبریری کورسز کا آغاز کیا تو جمیل نقوی ان کورسزکا اہم حصہ ہی نہیں بلکہ ایک تجربہ کار استاد بھی تھے۔اس کورس میں جمیل نقوی کو ڈاکٹر انیس خورشید اور محمد عادل عثمانی صاحب کے استاد ہونے کا رتبہ بھی حاصل ہے۔آپ نے پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے انتظامی امور میں بھی اہم کردار ادا کیا ، اسکول آف لائبریرین شپ کی داغ بیل ڈالی اورایک استادکی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

لائبریرین شپ کے حوالے سے جمیل نقوی مرحوم کا ایک اہم کارنامہ ڈیوی اعشاریائی درجہ بندی کے نمبر ۲۹۷ کی اسلام اور مشرقی علوم کی توسیعات ہیں۔اپنے موضوع پر ابتدائی کام ہونے کے باوجود ان توسیعات کو ’شفیع توسیعات‘ کے مقابلے میں مقبولیت حاصل نہ ہوسکی ، شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ جمیل نقوی کو نہ تو ستائش کی تمنا تھی اور نہ ہی انہوں نے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی عملی کوشش کی ، البتہ اس بات کا شکوہ انہوں نے اپنی کتاب ’انتظام کتب خانہ اور اس کی فن وار تقسیم‘ اشاعت دوم ۱۹۹۲ء میں ان الفاظ میں کیا’’پاکستان میں اس موضوع پر کام کیا گیا اور اس خاکسار کی کاوش کا اشارتاً بھی حوالہ دیے بغیر اس میں کتر بونت کر کے بین الا قوامی طور پر پیش کرنے کا فخر حاصل کیا گیا نہ صرف یہ بلکہ میرے ہی ایک نامور شاگرد نے (غالباً بغیر تحقیق کے سہواً میرے ایک مرحوم بزرگ ہمعصر لائبریرین کے سیکشن ۲۹۷ کی توسیع کا کریڈٹ دیتے ہوئے (شاید گزشتہ سے پیوستہ سال)اس موضوع پر ایک کتابچہ بھی شائع کردیا۔ درآنحالیکہ شاگرد موصوف کے پاس ڈیوی اعشاریائی اسکیم کے کئی شعبوں کی (بشمول ۲۹۷) میری توسیعات کے اصل مسودے تک موجودہیں‘‘۔ اس ضمن مین جمیل نقوی مرحوم مزید لکھتے ہیں کہ ’’بہر حال ایسی صورت میں یہ مناسب معلوم ہوا کہ تاریخی ریکارڈ صحیح کرنے کی غرض سے مذکورہ الصدر میلول ڈیوی اسکیم سیکشن۲۹۷ کی اولین توسیع’’انتظام کتب خانہ ‘‘ (جواپنے موضوع پر اردو میں سب سے
پہلی کتاب اور اپنی نوعیت کی مختصر تالیف بھی ہے) کی طبع ثانی میں ضمیمہ کے طور پر شامل کررہاہوں تاکہ سند رہے ‘‘ ؂
’’رکھنا غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف‘‘۔

جمیل نقوی کی اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر انیس خورشید صاحب ہی کا تحریر کردہ ہے جس
میں جمیل نقوی کی کاوش کو اولین کوشش قرار دیاگیا ہے۔ جمیل نقوی کے اس شکوہ کی وضاحت ڈاکٹر انیس خورشید صاحب نے اپنے ایک طویل مضمون ’’شفیع اعشاریائی توسیعات برائے اسلام اور انڈین لائبریری ایسو سی ایشن کی دستاویزات‘‘ ، شائع شدہ ’’پاکستانی لائبریرین‘‘، شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس، جامعہ پنجاب، لاہور ، جلد اول میں کیا ہے۔یہ موضوع اپنی اہمیت کے پیش نظر تحقیق و جستجو کا تقاضا کرتا ہے لیکن دستاویزات اور موجود حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جمیل نقوی کی یہ کاوش ابتدائی نو عیت کی ہے ، تاریخی حقائق چھپا نہیں کرتے اگر واقعی غلطی ہوئی ہے تو تاریخ کبھی نہ کبھی اسے
درست کرہی لے گی۔

جمیل نقوی کی شاعری
جمیل نقوی کی شخصیت کئی جہتوں پر مشتمل ہے وہ ایک خوش فکر شاعر، صاحب نظر نقاد، منتظم، مولف، مصنف اور دقیقہ رس محقق بھی تھے۔آپ کوعلی گڑھ کی علمی و ادبی ، شعری اور ثقافتی حلقوں میں معتبر مقام حاصل تھا، پاکستان میں آپ نے اپنے آپ کو ادبی اور شعری حلقوں میں نمایاں کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، آپ کو بہت ہی کم مشاعروں میں دیکھا یا سنا گیا حالانکہ آپ کے بلند پایہ شاعر ہونے میں کوئی کلام نہیں۔آپ کی شاعری میں پختگی ، درد اور والہانہ پن بدرجہ اتم موجود ہے۔نعت گوئی جمیل نقوی کی پہچان ہے، آپ کی بعض نعتیں بے حد مقبول ہیں اگر آپ مشاعروں کے شاعر بھی ہوتے تو یقینا آپ کی شہرت کسی بھی طرح بڑے اور معروف شعراء سے کم نہ ہوتی لیکن جمیل نقوی نے اپنا کلام مشاعروں میں نہ پڑھا اور نہ ہی وہ اسے اپنی شہرت کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہے کہ پاکستان کی معروف نعت خواں ’’اُم حبیبہ‘‘ کی آواز میں بعض نعتیں جو کئی برس سے سماعتوں میں رس گھول رہی ہیں سرکار دوعالم خاتم الا نبیاء کے حضور جمیل نقوی کاہی نذرانہ عقیدت ہے یہ نعتیں ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، کیسٹ اور نعت کی محفلوں میں بہت ہی ذوق و شوق اور عقیدت سے سنی جاتی ہیں۔آپ کی بعض
نعتوں کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
یوں ہوش و خرد مفلوج ہوئے دل ذوق تماشا بھو ل گیا
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ تک اِک ابر کرم نے گھیر لیا
باقی نہ رہا یہ ہوش مجھے، کیا مانگ لیا کیا بھول گیا
عشق کو حسن کے انداز سکھا لوں تو چلوں
منظر کعبہ نگاہوں میں بسا لوں تو چلوں
کرلوں اک بار ذرا پھر سے طواف کعبہ
روح کو رقص کے انداز سکھا لوں تو چلوں

ڈاکٹر سید ابو لخیر کشفی نے جمیل نقوی کے نعتیہ مجموعہ کلام ’’ارمغان جمیل‘‘ میں نعت گوئی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سرکارؑسے چاہت والے تو ہم سب ہیں جمیل نقوی سرکار کی چاہت والے ہیں انہیں سرکار کی محبت عطا ہوگئی ہے اور ان کی نعت گوئی ان کی حضورؑ کی داستان ہے‘‘۔ آپ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ جمیل نقوی نے اپنے علم ، اپنے ورثہ ایمان، لفظوں سے اپنے رشتہ ․․․․ ان سب کو گوندھ کر نعت گوئی کی ہے ان کی نعت کے خمیر میں ان کی ذات، ان کا ورثہ سب کچھ خوشبو بن کر شامل ہے۔حضور ﷺ کی ذات کے مہر درخشاں کے حضور ، اس قطرہ شبنم نے ، کہ جسے جمیل نقوی کہتے ہیں اپنے آپ کو یوں رکھ دیا کہ یہ قطرہ وجود کھو بیٹھے کہ یہی عشرت قطرہ ہے‘‘۔ جمیل نقوی کی شعر گوئی کے
بارے میں پروفیسر سحر انصاری کا کہنا ہے کہ ’’ اس قسم کے نعتیہ کلام میں جمیل نقوی کا لہجہ مفکرانہ اور فلسفیانہ ہو جاتا ہے ان کے کلام میں جو بے ساختگی ، والہانہ پن اور مستی نظر آتی ہے اس میں رسمیت کو قطعاً دخل نہیں شاید اس لیے ان کی بعض نعتیں بہت مقبول ہوئیں اور ان کو سن کر سامعین پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے‘‘۔ جمیل نقوی نے غزل بھی کہی، مراثی، نوحہ و سلام کے علاوہ قومی نظمیں بھی کہیں۔ڈاکٹر وقا ر احمد رضوی کا کہنا ہے کہ ’’ جمیل نقوی نے محبت رسول ؑ میں ڈوب کر نعت کہی ان میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے نیز ان کی نعتوں میں روانی ، جوش اور شیرینی ہے‘‘۔

تصانیف جمیل نقوی
جمیل نقوی نے تقریباً ۲۵ کتابیں تخلیق کیں۔آپ کی تحریر کے بارے میں ڈاکٹر انیس خورشید کا کہنا ہے کہ ’’ آپ کی تحریر بھی آپ کی شخصیت کی طرح دلکش ، جامع اور پر اثر ہوتی ہے ‘‘۔ جمیل نقوی کی تصانیف میں انتظام کتب خانہ ، شبلی کی رنگین زندگی، انتخاب اصغر، پرچم کا ہلا ل جگمگایا، اردو کے بہترین افسانے، عمر خیام (ہیرالڈ کے ناول کا ترجمہ)، آپ بیتی جسٹس سید امیر علی (ترجمہ)، تنقید و تفہیم ، اردو تراجم قرآن، کف خاکستر، اردو نثر کا ارتقاء، روداد لہو رنگ،ارمغان جمیل، آغاز اسلام : شبلی کی کتاب کا ترجمہ، اردو تفاسیر القرآن (کتا بیات)، اردو احادیث(کتا بیات)، مکشفات غوثیہ، مسند عائشہ، مسند علی، بزم سہروردیہ، دیوان میر انیس، اردو مخطوطات کی توجہی فہرست شامل ہیں ۔ جب انگریزی میںThe Travellerاور Lyric Homage to the Last Prophet (PBUH) شامل ہیں۔

جمیل نقوی مرحوم میرے براہ راست استاد تو نہیں تھے لیکن لائبریری سائنس میں آپ کو استاد الاساتذہ کا درجہ حاصل تھا، آپ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اور لکھا جائے گا۔ آپ کی زندگی کا مقصد تحصیل علم ، فروغ علم اور ترسیل علم نظر آتا ہے اس مقصد کے حصو ل کے لیے آپ تمام زندگی تن من دھن سے مصروف رہے۔ نمود و نمائش سے اپنے آپ کو دور رکھا ، خاموشی کے ساتھ لکھتے رہے ۔ آپ طباعتی رموز سے بھی واقف تھے۔ قدرت نے آپ کو خوش خطی کے ہنر سے بھی نوازا چنانچہ کتاب کا صفحہ عنوان ازخود ڈیزائن کرنا حتیٰ کہ ضرورت کے وقت کتابت بھی از خود کر لیا کرتے۔مختصر یہ کہ جمیل نقوی بے شمار خوبیوں کامرقع تھے آپ جیسے با صلاحیت ، نفیس ، پابند وضع اور مخلص انسان مشکل ہی سے پیدا ہوا کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔۱۹ جنوری ۱۹۹۹ء عین عید الفطر کے
روز رات دس بجے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ا ﷲ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
کتنی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
(مطبوعہ’ پاکستان لائبریری بلیٹن ‘۔جلد ۳۳، شمارہ ۱۔۲، مارچ۔جون ۲۰۰۲ء)
(مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ ۲۰۰۹ء میں شامل)
 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281885 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More