زندگی کی نازک ترین ڈور

’’جب آپ عروج پر ہوتے ہیں تو آپ کے دوستوں کو پتا چلتا ہے کہ آپ کون ہیں اور جب آپ زوال پر ہوتے ہیں توآپ کو پتا چلتا ہے کہ دوست کون ہے‘‘۔ دوستی ایک ایسا عظیم رشتہ ہے کہ جس کی اہمیت اور قدر ان دو جملوں سے لگائی جاسکتی ہے۔ مصیبت میں جب کوئی نہیں ہوتا تو ایک دوست کھڑا ہوتا ہے جو سہارا بنتا ہے۔ حوصلہ دیتا اور درست راہ کا تعین کرتا ہے۔ انسان جب پریشان ہوتا تو اس وقت اس کا دماغ صحیح سمت میں کام نہیں کررہا ہوتا مگر ایک دوست ہی ہوتا تو اس کی انگلی پکڑ کر اس نازک موڑ پر اسے درست راہ دیکھاتا ہے اور اس طرح وہ پریشانی کے چند لمحے آخر کار بیت جاتے ہیں۔

دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے دوستوں کا ہونا یقینا ضروری ہے۔ دوستوں کی محفل اور مجالس میں انسان بہت کچھ سیکھتا ہے بلکہ اسے اپنے وجود کا احساس ہوتا ہے، جب اس کے دوست اسے اہمیت دے رہے ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو لایعنی اور بے مقصد نہیں سمجھ رہا ہوتا بلکہ وہ اس محافل میں بولتا اور بلا دریغ بولتا چلا جاتا ہے، جس سے اس کا اعتماد بحال ہوتا۔ ہر انسان کی اپنی فطرت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے دوستوں کو پسند کرتا ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے مزاج کے دوست نہیں ہیں۔ اسکول سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک دوستوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے، اگر کوئی ان میں اپنا دوست چننا چاہیے تو وہ آسانی سے ڈھونڈ سکتا ہے۔

دوستی میں یہ لازم نہیں ہوتا کہ دوست کیسا ہو بس یہ دیکھا جانا ہوتا کہ دوست کا معیار کیسا ہے۔ ہمارے معاشرے میں دوستی کو ایک فیشن کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ لوگ دوستی فیشن سمجھ کر کرتے ہیں جب دل میں آیا کر لیا اور جب دل چاہا چھوڑ دیا۔ ایسے لوگ دوسروں کی خاطر ہمیشہ خود کو اور اپنے اچھے دوستوں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور اس سے نہ تو وہ خود خوش رہ سکتے ہیں اور نہ دوسرے اس سے خوش ہوتے ہیں۔ ہماری دوست کا معیار یکسر بدل گیا ہے۔ ہمیں کیا ہونا چاہیے تھا اور ہم کیا ہیں۔

ایک مرتبہ کلاس کے دوران سر نے دوستی کے موضوع پر کچھ طلبہ و طالبات کو گفتگو کرنے کہا، اس دوران ہماری کلاس کی دو سنجیدہ ترین اور ہونہار طالبات نے اس موضوع پر گفتگو کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے اس انداز سے سب کو حیرت ہوئی، وجہ جاننے پر معلوم ہوا کہ ان کی اب تک کسی سے دوستی نہیں ہے، بلکہ وہ دوستی کو معیوب سمجھتی ہیں۔ ایسا کیوں ہیں ․․․․․․․․؟ اور اس کی کیا وجہ ہے ․․․․؟ صرف یہ کہ دوستی ایک معزز رشتہ تھا جو ہمارے بے راہ روی جیسے معاشرے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ آج پڑھا لکھا اور مہذب معاشرہ دوستی کو معیوب اس لئے سمجھ رہا ہے کہ جب بات دوستی کی ہوتی ہے تو ذہن میں جگہ جگہ کھڑے اوباش قسم کے نوجوانوں کی ٹولیاں نظر آتی ہیں۔ اسی دوستی کے نام پر مخلوط محافل سجتی اور جمتی ہیں، لڑکیاں اور لڑکے ایک جھنڈ کی شکل میں گھومتے، اٹکلیاں کرتے اور قابل اعتراض حرکات و سکنات کرتے نظر آتے ہیں۔ غلط قسم کے جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور فحاشی و بے حیائی میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

دوستی کا جو معیار ہمیں ہماری تہذیب اور تمدن دیتا ہے اس میں شرم و حیا ہے۔ ایک لڑکی یا تو بہن ہوتی ہے یا بیٹی ہوتی اور یا پھر گھر کی عزت اس سے بڑھ کر اس میں کوئی دوسرا رشتہ نہیں رکھا گیا۔ یہیں جو وہ غلط سوچ تھی کہ جس نے ایک دوستی جیسے رشتے کو داغ دار کردیا۔ دوستی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس سے حرام کو حلال سمجھ لیا جائے۔ غلط کو صحیح مان لیا جائے، بلکہ دوستی کا مطلب ہے ایک دوسرے کا سہارہ بننا، مشکل میں ایک دوسرے کے کام آنا۔ اپنے دوست کو برائی اور تباہی کے راستے سے روک کر صحیح راستے پر لے گامزن کرنا۔ ’’کسی سے پوچھا گیا کہ دوستی کا مطلب کیا ہے تو انہوں نے کہا جہاں مطلب ہوتا ہے وہاں دوستی نہیں ہوتی‘‘۔یعنی ایسے بے لوث دوستی کا ہونا کہ جہاں پر صرف خلوص ہی خلوص اور پیا ر ہی پیار ہو۔

دوسری طرف دوستی کے نام پر دھوکا دہی اورفراڈ دیکھا گیا ہے۔ دوست کہ جو اپنے دوست کے لئے ہر بازی لگانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے مگر جب مشکل کا وقت آتا ہے تو سب چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جب اسے دوستوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے تب ہی کوئی اس کے پاس نہیں ہوتا۔ یہ وہ سخت ترین گھڑی ہوتی ہے جب پتا چلتا کہ کون کون اس کا حقیقی دوست ہے۔ ایسے مطلب پرست دوست نہ تو کسی دوسرے کے ہوتے ہیں اور نہ وہ اپنے ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں حقیقت میں وہ خود کو دھوکے میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وقت ایک طرح کا نہیں رہتا، یہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے ایک وقت آتا کہ جب دھوکا دینے والے پر وہ دن آتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ ویسا ہی ہوتا ہے جیسے وہ اپنے دوست کے ساتھ کرتا ہے۔

کچھ ایسی صورتحال سے تنگ آکر اکثر دوست اپنی جان لے لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس پر اس نے اعتبار کیا اسی نے لنکا ڈھائی یا یہ کہ وہ مشکل کے وقت میں اس کے کام نہیں آیا اور اس سے وہ دل برداشت ہوکر وہ زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں اور یوں اس کی جان کا بوجھ اس دھوکے اور مطلبی دوست کے کندھوں پر آجاتا ہے۔ جو اسے زندگی بھر نہ تو چین سے جینے دیتا ہے اور نہ ہی سکوں ملتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دوستیاں ہونی چاہیں مگر دوست کا معیاری ہونا سب پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ آپ کا دوست کون ہے مگر جو بھی ہے وہ ایک اچھا اور نیک نیت ہونا چاہیے۔ کیوں کہ جیسا آپ کا دوست ہوگا ویسے آپ ہوں گے، اگر وہ اچھا، برائیوں سے بچنے والا اور نیک نیت ہوگا تو وہ ہمیشہ آپ کا ساتھ دے گا۔ آپ کو نیکی کی راہ پر گامزن رکھے گا اور آپ کو کبھی تنہا نہیں ہونے دے گا۔ وہ دوست کبھی بھی دوست نہیں ہوتا جو آپ کا دل دکھائے اور آپ کے آنسو کا سبب بنے۔ اس لئے ایسے دوست کے لئے آنسو بہانا بھی بے کار ہے جو آپ کے آنسو کا سبب بنا ہے۔

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’دوست اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ ‘‘ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم کس سے دوستی کر رہے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے کہ ’’روز محشر اﷲ جب انسان کو اندھا کر کے اٹھائے گا تو وہ (پریشان ہوکر) کہہ گے کہ مجھے اندھا کیوں اٹھا یا گیا میں تو دیکھنے والا تھا․․․․․․․․․․․ وہ کہہ گا کاش میں فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا ( کہ آج اس کی وجہ سے میں جہنم میں چلا گیا ہوں)۔

قارئین کرام! ہمیں اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ ہمیں برے دوستوں سے بچتے ہوئے اچھے دوست بنانے چاہیے۔ اچھا اور برا کون ہے اس کا تعین آپ کو خود کو کرنا ہوگا۔ آپ ایک مسلمان ہے اور مسلمان صاحب بصیرت ہوتا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں جو اپنے رب کے احکامات بجا لاتا ہے وہ آپ کی دوستی کے معیار پر بھی پورا اترے گا۔ کبھی والدین اپنے بچوں کو ایسے لوگوں سے دوستی سے منع نہیں کرتے۔ بلکہ وہ تو خوش ہوتے ہیں کہ ان بچوں کی دوستی کسی نیک اور صالح انسان سے ہے۔

اسی طرح ہماری ہم کلاس طالبات کی طرح دوستوں سے پرہیز ہونا بھی شاید درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر آپ کا ایک بھی اچھا دوست ہے تو آپ کے لئے وہ بیش قیمتی ہیرے سے کم نہیں ہے اور جن کے پاس وہ اچھا دوست ہے، اس کی قدر کریں۔ اسے کبھی بھی کھونے نہ دیں۔ آپ سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو اس سے فوری طور پر معذرت کریں، معافی تلافی سے منائیں اور اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو احساس دلائیں اور پھر مل جل کر رہنے کی کوشش کریں۔ جدائیوں اور تنہائیوں سے ہمیشہ دل کو تکلیف ہوتی ہے اور یہی وہ تکلیف ہوتی ہے جو انسان کی ہنسی چھین لیتی ، چہرے کی رونق کی جگہ مایوسیاں پیدا کردیتی ہے۔ اس لئے نہ خود اس تکلیف میں پڑیں اور نہ دوسروں کو اس امتحان میں ڈالیں۔ زندگی کی اس نازک ترین دوستی کی ڈور کو اپنی غلطی سے ٹوٹنے نہ دیں۔ خوش رکھیں اور خوش رہیں۔
Arif Jatoi
About the Author: Arif Jatoi Read More Articles by Arif Jatoi: 81 Articles with 69354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.