زری کے کام میں کم اجرت ……

پرانا قلعہ اور موتی بازار جائیں تو لگتا ہے کہ خواتین کے ملبوسات کی کسی نمائش میں آگئے ہیں ،شلوار قمیض،میکسی،فراک،لہنگے،اندرکھے،راجستھانی،اوپن گاؤن،ساڑھی……دکانوں کے باہر کھڑے لڑکوں کی آوازیں گاہکوں کو متوجہ کر رہی ہوتی ہیں،چمکیلے تار ، موتی اور زردوزی کے کپڑے ہر عورت پہننا چاہتی ہے ۔یہ کپڑے مہنگے بھی ہوتے ہیں لیکن آج کل چونکہ یہ فیشن میں ہیں اس لئے ہر پارٹی میں،شادی میں زری اور زردوزی کام کے کپڑے صرف عورتیں ہی نہیں مرد بھی پہنے ہوئے مل جائیں گے،اور پھر لہنگے کی خریداری تو شادی کا اہم ایونٹ بن چکا ہے، فریدا نے اپنی بیٹی کے لیے دو لاکھ کا خریدا تھا ہمیں اس سے تھوڑا مہنگا خریدنا چائیے،ارے ناک بھی تو رکھنی ہے ……ایسی باتیں اب روایت بن چکی ہیں ،وہ کیا کہے گی،لوگ کیا کہیں گے……ارے ایک تو بیٹی ہے ،لہنگا تو قیمتی ہونا چاہیے……فیشن کی دوڑ لگی ہے ،نت نئے ڈیزائن آرہے ہیں ……ایسی ورائٹی سے سجی دکان کے مالک وسیم بھائی کا کہنا تھا کہ کئی مشہور فیشن ڈیزائنر اور بوتیک کے ڈیزائن کئے گئے کپڑوں کی پورے ملک میں مانگ ہے اور یہ ڈیزائنر بھی اپنے کپڑوں پر زری کا کام کروانے کے لئے ان زری کے کارخانوں کے مالکان کو کپڑے دیتے ہیں،پران قلعہ،موتی بازار،رابی سنٹر،کے علاوہ اندرون سندھ،حیدر آباد،جنوبی پنجاب کے دیہات،بلوچستان کے بعض علاقوں میں اس قسم کا کام ہوتا ہے لیکن کارخانے میں تیار کیا گیا پیس ماسٹرپیس ہو تا ہے اور قیمت بھی اسی کی لگتی ہے…… کارخانوں میں بچوں سے بھی کام لیا جاتا ہے

مگر ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے،بچے اب اس کام کی بجائے موبائل ریپئیرنگ،سی ڈی شاپس،یا کوئی اور ہنر سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ،وجہ یہ ہے کہ زری کے کام میں کم اجرت سب سے بڑا مسئلہ ہے……کاریگر حاجی سلیم کا کہنا تھا کہ فٹوں میں ماپے جانے والے کمرے میں ہم 12 گھنٹے کام کرتے ہیں اور معاوضہ 700 روپے ملتا ہے ،کھانا پلے سے کھاتے ہیں ……مالک کی جانب سے صرف ایک بار چائے کی پیالی مل جاتی ہے……کمرے میں ہی واش روم بنا ہوا ہے،اوور ٹائم نہ لگائیں تو زندگی کی گاڑی چل نہیں سکتی…… یہاں ہونے والا کام صرف ملک کے کونے کونے میں ہی نہیں پوری دنیا میں برآمد کیا جاتا ہے۔ کروڑوں اربوں روپے کے اس کاروبار کے پیچھے کا سچ البتہ بہت کڑوا ہے،منافع کمانے کے لیے زری کے کارخانے کے یہ مالکان مجبور ہنر مندوں کو انتہائی کم معاوضہ پر ملازم رکھتے ہیں ،ان سے چودہ نہیں سولہ اور اکثر اٹھارہ گھنٹے بھی کام لیا جاتا ہے……ان ہنر مندوں کی اپنی کوئی یونین نہیں مگر یہ تاجروں کی یونین کا حصہ ضرورہیں……کاریگر احسن کا کہنا تھا کہ اوکاڑہ ،ملتان اور دیگر شہروں میں بچوں سے مشقت لی جاتی ہے لیکن بڑے شہروں میں کوئی خوف ہے جو بچوں کی مشقت سے کارخانہ داروں کو روکتا ہے……حاجی حبیب کے مطابق لیبر انسپکٹر کے چھاپے اور متبادل روزگار کے ذرائع کی وجہ سے بچے اس کام میں اب نہیں آرہے…… ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کارخانہ دار بعض اوقات پسماندہ علاقے میں بچے کی پیدائش پر مٹھائی اور کچھ رقم بھیج دیتا ہے یہ اس بات کی گواہی ہے کہ بچہ اسی کے کارخانے میں مزدوری کے لیے جائے گا……مارکیٹوں میں ویسے ہی جگہ کی کمی ہوتی ہے۔ یہ کارخانے بمشکل 10x10 کے کمرے ہوتے ہیں جس میں چارپائی ہوتی ہے اور اس میں دس سے پندرہ ہنر مند بیٹھ کر کام کرتے ہیں ۔ہوا کا گزربھی بمشکل ہوتا ہے،محمد ذاکر صرف نو سال کا ہے ۔زری کے کارخانے میں کام کرتا ہے ۔اسے استاد کی ڈانٹ ڈپٹ کے علاوہ روزانہ صرف دس روپے ملتے ہیں، ایسے بچوں کو شاگرد کہا جاتا ہے ، جب یہ دو سال کام کر لیتے ہیں اور کام سیکھ جاتے ہیں تب انہیں کاریگرکی تنخواہ ملتی ہے، لیکن یہ سب کام کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔ غربت کی وجہ سے والدین بچوں کو یہاں بھیج کر ان کی ذمہ داری سے منہ موڑ لیتے ہیں،کچھ والدین کو فکر بھی ہوتی ہے تو بس اتنی کہ ان کا بیٹا کام سیکھ رہا ہے……زری کے ایک کارخانہ کے مالک ملک نعیم بچہ مزدوری کے سخت خلاف ہیں ان کا کہنا تھا کہ تھوڑے سے منافع کے لیے بچوں کے ذریعہ کام کرانے والوں نے اس شعبہ کو ہی بدنام کر دیا ہے،بعض کاریگر نشے کے بھی عادی ہوتے ہیں اور شاگرد کو بھی اس کا عادی بنا لیتے ہیں اس جہ سے بھی والدین اپنے بچوں کو اس کام پر بھیجنے پر راضی نہیں ہوتے……مرزا آصف کا کہناتھا کہ قانون زیادہ سخت نہیں ہے،کچھ لے اور دے بھی چلتا ہے اور کارخانہ مالکان کو فوراً ضمانت مل جاتی ہے، غربت بھی بہت ہے اس لیے ’بچہ مزدوری‘ کا خاتمہ ممکن نہیں ،یہاں نہ سہی کسی اور شہر میں نگ ،موتی،کناری،گوٹہ ،ٹھپہ لگاتے ہوئے یہ معصوم بغیر روشن دانوں کے تاریک کمروں میں روشنی کے لیے آج بھی ترس رہے ہوں گے۔

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 64265 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.