آہ……پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین اعوان۔۔۔۔۔۔۔

 پروفیسر ڈاکٹر محمد محمود حسین اعوان سچے‘کھرے انسان اور مخلص خیرخواہ تھے، علی نے ایس ایم ایس کے ذریعے روح فرسا خبر دی تو بہت دکھ پہنچا…… موت سے کسی کو رستگاری ہے…… آج وہ کل ہماری باری ہے۔اعوان صاحب اب ہم میں نہیں رہے،میرے برادر اکبر افتخار صاحب کیساتھ ان کے گھریلو تعلقات تھے…… باپ کی موت کا دکھ ہم دیکھ چکے ہیں۔ محمد عاصم‘ محمد علی اعوان‘حسنین علی اعوان اور دو بہنوں پر گزرنے والی گھڑی قیامت کی گھڑی تھی۔ اہلیہ محترمہ کو اب طویل رفاقت کی یادوں کا سہارا لئے باقی سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے، یہ المیہ بھی ہے‘ دکھ بھی ہے اور قدرت کا فیصلہ بھی۔ خدائے بزرگ و برتر ان سب کو صبر کی دولت سے مالا ما ل کرے۔ خیرخواہ کے مر جانے سے کئی گھرانے اجڑ جاتے ہیں۔ مجھے جب بھی ملتے کھلی پیشانی اورہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے ملتے اور کہتے وقار تم واقعی وقار ہو۔ تھپکی دیتے کئی بار انٹر نیشنل ،نیشنل سطح کے سیمینار‘کانفرنسوں میں ملتے تو کہتے محنت ولگن کا سفر جاری ہے میں جواب دیتا جی ڈاکٹر صاحب۔جواباٌ مسکراہٹ بانٹتے۔ مجھے ایوان صدر میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کرتے ٹی وی پر دیکھا تو اگلے ہی لمحے فون کر ڈالا…… او…… وقار تمہیں مبارک ہو بیٹا۔ میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔۔ جواب دے نہیں پاتا وہ کہتے ہیں یقین جانو مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے۔ میں شکریہ کہتا ہوں وہ کھانا DEU کا کہہ کر فون بند کر دیتے ہیں۔ میرے ہمدم دیرینہ سلیم اختر‘ ڈاکٹر بشیر گورایا شاعر دوست اصغر عابد بھی دکھی ہیں۔ خیرخواہ کی موت نے سب کو رلا دیا ہے۔ لالچ‘ توقع‘ طمع‘ حرص سے پاک دوست کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا اور اگر ان ہی خصوصیات کا مرقع استاد مل جائے توزندگی سنورنے میں دیر نہیں لگتی۔ پی ایچ ڈی پروفیسر محمود حسین اعوان ایم ایڈ میں بھی فرسٹ پوزیشن ہولڈر تھے۔ انہوں نے لندن یونیورسٹی سے ترقی پذیر ممالک کے لئے فاصلاتی تعلیم کا سرٹیفکیٹ بھی امتیازی حیثیت سے حاصل کیا تھا۔ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ سپیشل ایجوکیشن کے چیئرمین رہے‘ ریٹائرڈمنٹ کے بعد نجی جامعہ الخیر یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے۔ وہ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ سے بھی وابستہ رہے۔ وہ نمل‘ رفاہ یونیورسٹی‘ ایجوکیشن فاؤنڈیشن، ڈی ایچ اے اور او پی ایف کالج میں وزٹ لیکچرر بھی تھے۔ یونیسف ‘ برٹش کونسل‘ یونیسکو‘ اے ڈی بی‘ ڈبلیو ایچ او‘ این آئی ایچ ڈی، پی ایم آر سی‘ این آئی ایس ای‘ منسٹری آف ایجوکیشن اور منسٹری آف سوشل ویلفیئر کے ریسورس پرسن بھی رہے۔ ٹیچرز ٹریننگ نصاب میں انکا گرانقدر حصہ ہے اور خصوصی تعلیم میں انکی خدمات قابل صد تحسین و نگاہ قدر کی مستحق ہیں۔ انہیں سال 2000 میں بیسٹ ٹیچر کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔ کئی ایک ماسٹر ڈگری‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کے سپروائزر بھی رہے ۔انہوں نے 40 سال تک سپیشل ایجوکیشن کی تعلیم دی وہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ سوسائٹی کے صدر بھی تھے جو ایم نذر میمن کی سربراہی میں متحرک و فعال ہے۔ ایک دفعہ چائے کی آفر دی……میں جلدی میں تھا کہا ڈاکٹر صاحب……میں حلال کمانے والا پنچھی ہوں جسے بھوکے پیٹ میلوں کی مسافت طے کرنا ہوتی ہے‘ راستے میں آنے والے حرام کے من وسلویٰ سے بچنا بھی سخت تکلیف دہ امر ہوتا ہے۔کافی دیر ہنستے رہے……میں اجازت مانگ کر اے آئی او یو کے وسیع و عریض لان سے باہر آگیا۔انہوں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا،سچ بولتے تھے،نصرت بھٹو آڈیٹوریم میں ملاقات ہوئی تو گرمجوشی سے ملے ……بچوں کا پوچھا،اخبار میں ہی ہو …… میں نے کہا جی……کامیابی کی دعا دی ان کی مسکراہٹ آج بھی یاد ہے،زو معنی گفتگو،فہم و فراست اور ادراک سے بھری باتیں انکا خاصہ تھا……میرے آئیڈیل اور میرے لیے روشنی ڈاکٹر عبد القیوم اعوان کے فارم ہاؤس جہان میری رہائش تھی فیملی سمیت آئے تھے میرے برادر اکبر بھی ھمراہ تھے……ھم نے بساط سے بڑہ کر آؤ بھگت کی ……جاتے ہوئے بہت خوش تھے……کہنے لگے شاہوں کی طرح رہ رہے ہو میں کچھ نہیں بولا تھا……ان کے دعائیہ الفاظ کانوں میں اب بھی گونج رہے ہیں……وہ عظیم کردار کے مالک تھے……اسی لیئے جنازے میں شامل ہر آنکھ اشکبار تھی……آہوں اور سسکیوں میں انہیں آخری آرام گاہ لے جایا گیا،آج وہ منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں…… مجھ سمیت ہر چاہنے والے کو یونہی سوگوار چھوڑ کر……رونے کے لیے ……یاد کرنے کے لیے۔
 

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 63655 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.