تعلیم۔۔۔۔۔۔یہ بے سمتی کب تک؟

تعلیم کسی بھی فرد یا معاشرے کو ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ بچے کی شخصیت کو نکھارتی اور اسکی پوشیدہ صلاحیتوں کو بیدار کر کے اسے معاشرے کا کارآمد شہری بناتی ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر نگاہ ڈالیں تو ان کی ترقی کا رازانکے نظام تعلیم میں پوشیدہ نظر آئے گا۔ بہت سے ترقی پذیرممالک نے اپنے نظام تعلیم کو مضبوط بنا کر خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کیا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے برسراقتدار آ کر ملائشیا کا تعلیمی بجٹ پچیس فیصد بڑھا دیاجو وہاں تیزرفتار ترقی کا باعث بنا۔ آئین پاکستان 1973کے آرٹیکل 37-b میں ریاست کو ناخواندگی ختم کر کے سیکنڈری تعلیم کی مفت فراہمی کو کم سے کم عرصہ میں یقینی بنانے کا پابند کیاگیا۔آج اتنے سال بعد بھی تعلیم کی آئینی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تعلیم کوبنیادی حقوق کے تحت ہر بچے کا حق قرار دے دیا گیا ہے۔آرٹیکل 125-Aکے تحت ریاست پانچ سے سولہ سال تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کی ذمہ دار ہے۔ اس آرٹیکل کی شمولیت بلاشبہ بہت مثبت سہی مگر فقط تحریری اہمیت کافی نہیں۔بلکہ شعبہ تعلیم میں مناسب اصلاحات کے نفاذ اور ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں شروع سے ہی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔1951 میں ہمارے ہاں ناخواندہ افراد کی تعداد تقریبا 20ملین تھی جو کمزور تعلیمی پالیسیوں اور شرح آبادی میں اضافے کی وجہ سے 1998تک بڑھ کر 50ملین ہو گئی۔

پاکستان کا تعلیمی بجٹ ہمیشہ سے بیحد محدود رہا ہے۔ ہر حکومت کی طرف سے تعلیم کو سب سے اہم ترجیح قرار دیا جاتا ہے مگر عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آتے ۔ تعلیمی بجٹ کے لئے مختص رقم ہمارے جی ڈی پی کا بمشکل 2فی صد رہی ہے جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے کم ہے۔ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ہماری قومی تعلیمی پالیسی 2009 میں تعلیمی بجٹ میں7 فیصد اضافے کاارادہ ظاہر کیا گیا مگر اسکے بر عکس بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی کر دی گئی۔ صورتحال یہ ہے کہ ہم پچھلی کئی دہائیوں سے پرائمری تعلیم کا بنیادی ہدف حاصل کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔Human development Index ہر سال دنیا بھر کے ممالک میں انسانی ترقی کی رفتار کی پیمائش کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ شرح تعلیم اور پرائمری نظام تعلیم میں بچوں کی شمولیت اس پیمائش کے دو اہم عناصر ہیں۔ انہی دو عناصر کی کمی کی وجہ سے پاکستان کو پچھلے بیس سالوں سے ممالک کی فہرست میں 125 ویں نمبر پر رکھا جا رہا ہے۔ PILDAT کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کی یہی رفتار رہی تو ہمارا پرائمری تعلیم کا ہدف اگلے 30 سالوں تک پورا ہو گا۔ 2011 میں بی بی سی نے بہت سے سروے اورجائزوں کی روشنی میں رپورٹ کیا کہ صوبہ پنجاب اگر اپنی حالیہ رفتار سے تعلیم کا فروغ جاری رکھے تو 2041 تک بچوں کو پرائمری تعلیم کا آیئنی حق دے پائے گا۔ جبکہ بلوچستان کی حالت اسقدر مخدوش ہے کہ وہ یہ ہدف 2100 تک بھی بمشکل حاصل کر سکے گا۔بہت سے جائزے بتاتے ہیں انڈیا اور سری لنکا کے بر عکس پاکستان اقوام متحدہ کا میلینئم ڈیویلپمنٹ گولز 2015 (MDG) کا ہدف پورا کرتا نظر نہیں آتا۔ واضح رہے کہ یہ پروگرام تیسری دنیا کے ممالک کیلئے بنیادی تعلیم کی فراہمی سے متعلق ہے۔ اول تو ہمارے ہاں بچوں کو بنیادی تعلیم کے مواقع ہی میسر نہیں اور جہاں میسر ہیں وہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ملک بھر کے 30,000 اسکولوں کی عمارتوں کی حالت خطرناک حد تک مخدوش ہے۔ 21000 اسکولوں کے پاس سرے سے کوئی عمارت ہی نہیں۔حالانکہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں تعلیم پر خرچ کرنا سرمایہ کاری کے مترادف ہے جس کا منافع آنے والے سالوں میں خواندہ اور ہنر مند افرادی قوت کی صورت میں سامنے آسکتا ہے ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اپنا تعلیمی بجٹ دوگنا کر دے تو خاطر خواہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیمی بجٹ کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔اگرگھوسٹ اسکول، گھر بیٹھے تنخوائیں وصول کرنے والے اساتذہ، اسکولوں کی عمارات کا ناجائز استعمال اور بجٹ کی خرد برد جیسے معاملات پر ہی قابو پا لیا جائے تو یہ تعلیمی بجٹ کو بڑھانے کے ہی مترادف ہو گا۔ مگر فقط بجٹ کا بڑھانا ہی شعبہ تعلیم کو در پیش مسائل کا حل نہیں۔بجٹ کے علاوہ بھی ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ہمارے ہاں نصاب تعلیم پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کئی طرح کے نظام تعلیم رائج ہیں۔ سرکاری، نیم سرکاری،ٹرسٹ، فوجی، ا نگریزی ،نیم انگریزی میڈیم، مذہبی ۔۔۔۔۔گویا مختلف سرپرستی میں چلنے والے بیشمار ادارے موجود ہیں۔ جہاں پر مختلف طرح کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے معاشرے کے افراد کو اتنے طبقات میں تقسیم نہیں کیا جتنا نظام تعلیم نے تقسیم کر رکھا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ نصاب تعلیم میں یکسانیت پیدا کرنے کے لئے کوالٹی کنٹرول کا مناسب نظام رائج کیا جائے۔ گو اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل کر دیا گیا ہے مگر نصاب میں صوبائیت اور فرقہ واریت جیسے عناصر کی شمولیت کو روکنے کے لئے وفاقی حکومت کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس کا نظام وضح کیا جانا بھی بے حد ضروری ہے۔

ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت کا بھی کوئی مناسب بندوبست نہیں۔ خاص طور پر دور دراز دیہاتی علاقوں کے اساتذہ جدید طریقہ تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے بالکل ناواقف ہیں۔ جس کے نتیجہ میں طالبعلموں کو جدید تعلیم کے بنیادی طریقوں سے بہرہ مند کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کیرئر کونسلنگ کا طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے ذیادہ تر طالبعلم اپنے فطری رجحان اور ذہنی استعداد سے ناواقفیت کی بنا پر اکثر بے سمتی کا شکار رہتے ہیں ۔ اور نہ تو دوران تعلیم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر تے ہیں اور نہ ہی عملی میدان میں کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام دے پاتے ہیں۔جہاں تک فنّی تعلیم کا تعلق ہے تو اس کا بھی کوئی مناسب انتظام موجود نہیں۔ہمارے ہاں ذیادہ تر ہنر مند وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تجربے سے سیکھتے ہیں۔ ان افراد کی استعداد کار میں بہتری لانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی مناسب اور بر وقت تربیت کا بندوبست کیا جائے تاکہ ملک کو ہنر مند افرادی قوت مہیا کی جاسکے ۔

تعلیمی پالیسیوں اور منصوبوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا بھی ہمارے ہاں عام روایت ہے جو کسی طور مناسب نہیں۔ تقریبََاہر نئی آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں پر کام روک دیتی ہے۔ کم از کم تعلیمی منصوبوں کو اس سیاست بازی کی نذر نہیں کیا جانا چاہیئے اور ان کا تسلسل جاری رہنا چاہئیے۔پنجاب ہی کی مثال لے لیں تو پرویز الہٰی دور کے ــ"پڑھا لکھا پنجاب" کے منصوبے کو عالمی بنک کی طرف سے سراہے جانے کے باوجود موجودہ حکومت کیطرف سے بند کر دیا گیا تو جواب میں پنجاب حکومت کے دانش اسکولز، آٹی لیبزاور لیپ ٹاپ تقسیم جیسے منصوبوں کو ملکی وغیر ملکی تحسین اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے شفّافیت کی سند کے باوجود تنقید کا نشانہ بنایا جا تا ہے۔اس قسم کی سیاست بازی اور تنقید برائے تنقید نے بھی شعبہ تعلیم کے استحکام کی راہ کی رکارٹ رہی ہے۔

مگر ان تمام حالات میں بھی اعلیٰ تعلیم کے اعداد و شمار میں کافی حد تک کافی بہتری دکھائی دیتی ہے۔ مثلاََ2003 میں ملکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طالب علموں کی تعداد 276000 تھی جو کہ 2011 میں بڑھ کر 803000ہو گئی۔بالکل اسی طرح 2000 میں ڈگری دینے والے اداروں کی تعداد 59تھی جو کہ2011 میں بڑھ کر 137ہو گئی۔HEC کی وجہ سے ڈاکٹریٹ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مگران ا عداد و شمارکے باوجود معیاری تعلیم اور جدید نصاب کی ضرورت بہرحال ا پنی جگہ موجود ہے۔

دراصل تعلیم ہی ہماری معاشرتی و معاشی ترقی کا بہترین ذریعہ او ر مسائل کا فوری حل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مل بیٹھ کر کوئی جامع تعلیمی پالیسی وضع کی جائے اور ملک و قوم کے مستقبل کے لئے شعبہ تعلیم کو استحکام بخشا جائے۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.