پروفیسر نذیر انجم ،محترمہ فرزانہ یعقوب اور لینڈ مافیا

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے بیٹے کا سفر کے دوران پڑاؤ میں تاج سے ایک قیمتی ہیرا گر کر گم ہو گیا ۔بادشاہ کو علم ہوا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا اب تمہیں ان بے شمار پتھروں میں سے انتہائی محنت کے ساتھ احتیاط سے کام لیتے ہوئے قیمتی ہیرا تلاش کرنا پڑیگا۔شیخ سعدی ؒ تشریح میں لکھتے ہیں کہ درحقیقت بادشاہ نے بیٹے کو سمجھایا کہ بہت سے غدار اور بد کردار لوگ مخلص اور ایماندار لوگوں میں ملے ہوتے ہیں جس طرح پتھروں میں ہیرا انتہائی کھوج اور محنت سے تلاش کیا جاتا ہے اسی طرح بدیانت لوگوں کے ہجوم میں دیانتداروں کو انتہائی کھوج اور محنت کے بعد تلاش کیا جاسکتا ہے اور بادشاہ کا اپنے بیٹے کو نصیحت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ممکن ہے کہ تمہارے ذہن میں جو لوگ اچھے اور مخلص ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں کم درجے اور حقیر گنے جاتے ہوں اور جنہیں تو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے شاید ان کا رتبہ وہاں بلند و بالا ہو اگر تجھ میں پرکھنے کی عقل ہے تو جا اپنے دوست اور مخلص تلاش کر اور انہیں رتبہ دے تا کہ وہ تیرے اچھے ساتھی ثابت ہو کیا معلوم تیری قید میں جو شخص پڑا ہے کل کلاں وہی بادشاہ بن جائے اور تو اس کا سوالی ہو جائے اس لیے ہر کس و ناکس سے نیک سلوک کر کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ملتا ہے ۔

قارئین انتہائی منتشر خیالات کے عالم میں دکھی دل کے ساتھ ہم آج کا کالم تحریر کر رہے ہیں اور اس کی وجہ براہ راست آپ کو بتائے دیتے ہیں رواں ہفتے عظیم کشمیری شاعر پروفیسر نذیر انجم یہ دنیا چھوڑ کر سب سے روٹھ کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے پروفیسر نذیر انجم محض ایک استاد نہیں تھے بلکہ ایک نظریے کی خاطر چلتی پھرتی تحریک و جدوجہد تھے پروفیسر نذیر انجم سے ہمارا پہلا رابطہ شاعری میں ہمارے استاد محترم پاکستان اور اردو دنیا کے مشہور و معروف تنقید نگار سید مسعود اعجاز بخاری کی وساطت سے ہوا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہماری جیب خالی ہوا کرتی تھی اور دماغ میں مختلف خیالات او ر نظریے جلوس کی شکل میں گھوما کرتے تھے ۔تُک بندی شروع کی جس پر اردو لٹریچر میں ایم فل کی ڈگری رکھنے والے ہمارے محترم محسن اور مشفق استاد پروفیسر عرفان چوہدری نے ہمیں محنت کرنے اور استاد شعراء کرام کا کلام پڑھنے کی نصیحت کی ۔ان کے بیٹے جو اد عرفان ہمارے کلاس فیلو تھے انہوں نے یار لوگوں کے ساتھ مل کر راقم کی خوب ’’ کِٹ ‘‘ لگائی ہم بھی اکڑ گئے اور تُک بندی میں اضافہ کرتے ہوئے روزانہ شاعری شروع کر دی ۔جب ڈھیر سارا ’’ کلام ‘‘ اکٹھا ہوگیا تو اس دوران کچھ ’’ مخلص ناقدین ‘‘ نے ’’ انجینئرڈحوصلہ شکنی ‘‘کا سلسلہ شروع کیا جس پر ہم نے اپنا ’’ قیمتی کلام ‘‘ اٹھا کر سٹور روم میں رکھ دیا اور شاعری سے توبہ کر لی ۔انہی دنوں ہماری ملاقات پہلے سید مسعود اعجاز بخاری سے ہوئی اور بعض ازاں ان کی وساطت سے ہم شاعر کشمیر پروفیسر نذیر انجم سے شرف ملاقات حاصل کر پائے اور اسی طرح پروفیسر منیر احمد یزدانی سے بھی ہمارا تعارف ہوا ۔ان تینوں شخصیات نے انتہائی محبت اور شفقت کے ساتھ راقم کی ’’ تُک بندی‘‘ پر مبنی ’’ خرافات ‘‘ کو سنا اور اسے ’’ جدید شاعری ‘‘ قرار دیتے ہوئے راقم کو ایک شاعر ہونے کی سند عطا کر دی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کل سعودی عرب میں ایک بہت بڑی صنعتی ایمپائر کے جنرل منیجر آئی ٹی محمد عاصم نثار جو میرپور میں ان دنوں عملی جدوجہد کرتے ہوئے پبلیشنگ ہاؤس اور آئی ٹی کمپنی چلا رہے تھے اور ہمارے کزن ہونے کا جرم ان سے سرزد ہو چکا تھا انہوں نے اس جرم کی پاداش میں ہماری شاعری کی دو کتابیں یکے بعد دیگرے ’’ آسماں کیوں رو رہا ہے ‘‘ اور ’’ تم خوبصورت بھی نہیں ‘‘ کے نام سے شائع کر دیں اور ہم صاحب کتاب شاعر بن گئے ۔اتفاق سے ان کتابوں کے پانچ پانچ ایڈیشنز شائع ہوئے او رپہلی کتاب ـــ’’ آسماں کیوں رو رہا ہے ‘‘ کو اس وقت کے صدر آزادکشمیر غازی ملت سردار ابراہیم خان نے زرعی یونیورسٹی راولاکوٹ جہاں سے ہم نے بی ایس سی آنرز کیا تھا وہاں آکر اس کتاب کو ’’ صدارتی ایوارڈ ‘‘ دے دیا اور اپنی ذاتی تنخواہ میں سے پانچ ہزار روپے کی خطیر رقم حوصلہ افزائی کے لیے ہمیں عنایت کر دی ۔بعد ازاں یہ دونوں کتابیں پورے آزادکشمیر ،پورے پاکستان اور یقین جانیے پوری دنیا میں ہماراتعارف بن گئیں اور اس سب کے پیچھے ان تین مخلص ہستیوں کی حوصلہ افزائی اور ہمارے عزیز کزن محمد عاصم نثار کی بیش بہا مالی قربانی شامل تھی جو انہوں نے ہمیں ایک شاعر کی حیثیت سے دنیا کے سامنے منوانے کے لیے دی ۔

قارئین پروفیسر نذیر انجم مرحوم سے جب بھی ہماری ملاقات ہوتی تھی ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ بے چین نگاہیں ہر وقت کچھ ڈھونڈ رہی ہیں بظاہر وہ ایک غائب الدماغ ’’ پروفیسر ‘‘ دکھائی دیتے تھے لیکن خیالات اور نظریات کے طوفان نہیں بلکہ باراتیں ہر وقت ان کے دماغ میں رقص کر رہی ہوتی تھیں ان کا یہ شعر زبان زد عام ہے
میرے کشمیر ذرا جاگ کہ کچھ جاہ طلب
غیر کو تیرے مقدر کا خدا کہتے ہیں

اسی طرح آج ہمیں درویش صاحب طر ز شاعر و صحافی معصوم حسین زندہ یاد آ رہے ہیں جو اس سال پروفیسر نذیر انجم کی طرح چپ چاپ جا کر شہر خموشاں میں آباد ہو گئے ۔سمجھ نہیں آتا کہ وہ اہل میرپور کہ جن کی پہچان پوری دنیا میں سیف الملوک تحریر کرنے والے عظیم صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخش ؒ اور ان کے مرشد بابا پیرا شاہ غازی ؒ ہیں وہ اتنے مردہ دل کیسے ہو گئے کہ دو عظیم ہستیاں یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئیں اور کسی نے بھی وہ مرثیہ خوانی نہ کی جو ان ہستیوں کا حق تھا یہ وہی اہل میرپور ہیں جو ہر وزیراعظم کے میرپور کے ہر دورے کے دوران ایک ایک وقت میں بیس بیس ناشتے ،پندرہ پندرہ لنچ اور پچیس پچیس ڈنرز کی دعوتیں رکھتے ہیں اور پھولوں اور نوٹوں کی بارش کر دیتے ہیں یہی اہل میرپور آج اہل دانش کی قدر کرنے سے قاصر ہیں ہمارا دل غم کے مارے پھٹ رہا ہے اسی حوالے سے ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93میرپور کے سٹیشن ڈائریکٹر ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان چوہدری محمد شکیل نے ہمیں ہدایت کی کہ ’’معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی ‘‘ کے موضوع پر ایک خصوصی مذاکرہ کیا جائے۔کمال مہربانی کرتے ہوئے وزیرسماجی بہبود و ترقی نسواں محترمہ فرزانہ یعقوب اور آزادکشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر و چیف ایڈیٹر روزنامہ جموں کشمیر عامر محبوب نے اس موضوع پر گفتگو کرنے کی حامی بھر لی۔استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ جب ہم نے ایف ایم 93میرپور کے مقبول ترین پروگرام ــ’’ لائیو ٹاک ود جنید انصاری ــ‘‘ میں گفتگو شروع کی تو اس موضوع پر مختلف زاویوں کے ساتھ تفصیلی بات کی گئی ۔

وزیر سماجی بہبود و ترقی نسواں محترمہ فرزانہ یعقوب نے کہا کہ آج آزادکشمیر ریڈیو پر آپ لوگ پروفیسر نذیر انجم ،سید معصوم حسین زندہ اور دیگر دانشوروں کو یاد کر رہے ہیں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے بد قسمتی سے روٹی کی تلاش میں جدوجہد کرنے والے معاشرے اپنے قیمتی ترین اثاثے فنکار وں ،دانشوروں اور لکھاریوں کی وہ قدر شناسی نہیں کر پاتے جو کرنی چاہیے ۔آج ہمارے معاشرے میں مختلف مافیاز اور مجرم گروہ طاقت پکڑ رہے ہیں ایک وقت ہوتا تھا کہ جب کوئی افسر رشوت لیتا ،معاشرے میں کوئی انسان کسی بھی برائی میں ملوث پایا جاتا تو پورا معاشرہ اسے عبرت کا نشان بنا دیتا تھا گزشتہ بیس سالوں کے دوران انتہائی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں انسانی قدریں تبدیل ہوئی ہیں اور ہم اس وقت ارتقاء کے مراحل سے گزر رہے ہیں ہمیں اپنی بنیاد کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا اور معاشرتی ترقی کی بنیاد رکھنے والے دانشوروں ،شاعروں ،مفکروں اور لکھاریوں کی عزت کرنا سیکھنا ہو گا ۔فرزانہ یعقوب نے کہا کہ میڈیا کی وساطت سے ملنے والی خبریں انتہائی تشویش ناک ہیں کہ میرپور شہر میں لینڈ مافیا کروڑوں اربوں روپے کی مالیت کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رہا ہے ۔ہمارے ٹیم کیپٹن وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا تعلق میرپو ر کی دھرتی سے ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ان خبروں کا ضرور نوٹس لیں گے اور کرپٹ عناصر سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا اگر چہ براہ راست میری وزارت کا تعلق اس ایشو کے ساتھ نہیں ہے لیکن پھر بھی آزادکشمیر حکومت کے ایک ذمہ دار وزیر ہونے کی حیثیت سے میں میڈیا سے یہ وعدہ کرتی ہوں کہ ان خبروں کی روشنی میں تحقیقات شروع کروائی جا رہی ہیں اور تمام معاملے کی چھان بین کر کے سٹیٹ اپنی ذمہ داری پوری کرے گی کسی بھی معاشرے میں کوئی بھی مافیا اسی وقت طاقت پکڑتا ہے جب سماجی ڈھانچہ کمزور ہو جاتا ہے اور معاشرے میں لوگ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں میرا تعلق پونچھ راولاکوٹ کی دھرتی سے ہے او ر اﷲ کے فضل و کرم سے ہمارے علاقے میں ہر گھرانہ دوسرے گھرانے کو جانتا ہے یہی وجہ ہے کہ راولاکوٹ میں پبلک پارکس ،مفاد عامہ کی جگہوں اور قبرستانوں پر کسی کو بھی قبضہ کرنے کی جرات نہیں ہوتی کسی بھی معاشرے اور سماج کا سب سے بڑا سرمایہ دانشور ،مفکر ،لکھاری ،آرٹسٹ ،فنکار اور قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو معاشرتی ترقی کی بنیاد رکھنے کے لیے خواب دیکھتے ہیں اور اس کے بعد ان خوابوں کی روشنی میں اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے عملی جدوجہد کرتے ہیں بد قسمتی سے ہم تھرڈ ورلڈ میں رہتے ہیں اور تیسری دنیا میں رہنے والے غریب ملکوں میں نہ تو فنکار کی قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے فن کو وہ قدر و منزلت دی جاتی ہے جو شعور یافتہ معاشروں میں ان لوگوں کے حصے میں آتی ہے اس کے باوجود ہمیں اپنے دانشور طبقے کو نہ صرف عزت نفس دینا ہو گی بلکہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے مشاہیر کو رول ماڈل کے طور پر قوم کے سامنے لانا ہو گا پروفیسر نذیر انجم مرحوم اور سید معصوم حسین زندہ انتہائی درد دل رکھنے والے شاعر اور لکھاری تھے اور ان کی وفات قوم کے لیے بہت بڑا نقصان ہے آزادکشمیر حکومت ادب او ر ادیبوں کی مناسب ترین حوصلہ افزائی کے لیے منصوبہ بندی کرے گی ۔محترمہ فرزانہ یعقوب نے کہا کہ مجھے میڈیا کی وساطت سے پتہ چلا ہے کہ میرپور میں اربوں روپے مالیت کی سرکاری جگہوں ،ٹرانسپورٹ کے اڈے کے لیے مختص اراضی اور دیگر مفاد عامہ کی جگہوں پر طاقت ور لینڈ مافیا قبضہ کر رہا ہے مجھے ان خبروں پر بہت زیادہ تشویش ہے اور میں میڈیا کی وساطت سے اعلان کرتی ہوں کہ میرپور کی ضلعی انتظامیہ اور تمام متعلقہ اداروں سے فوری طور پر رابطہ کر کے صورت حال کی اصلاح کی جائے گی ۔عامر محبوب نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے عظیم شعراء کرام پروفیسر نذیر انجم مرحوم اور سید معصوم حسین زندہ کی ناقدری کی اصل وجہ معاشرتی بے حسی اور نظریاتی اختلافات ہیں بد قسمتی سے جب سے آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی شکل میں دو غیر ریاستی سیاسی جماعتیں منظر عام پر آئی ہیں سرکاری آفیسر ز اور بیوروکریٹس تقرریوں او ر تبادلہ جات کے لیے لاہور اور کراچی کا طواف کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ کشمیریت کی توہین ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ بحیثیت مجموعی کشمیری قوم کا تشخص مجروح ہو رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اور ان کے قائدین کشمیر کے معاملات کشمیر میں ہی حل کیا کریں پروفیسر نذیر انجم مرحوم کو سرکاری سطح پر اس لیے یاد نہ کیا گیا کہ وہ خود مختاری کا نظریہ رکھتے تھے نظریاتی اختلافات کو چھوڑ کر ہمیں اپنے دانشوروں کی عزت کرنا سیکھنا چاہیے ۔

قارئین یہاں ہم بقول چچا غالب کہتے چلیں پھر مجھے دیدہء تر یاد آیا
دل جگر تشنہ ء فریاد آیا
دَم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر تراوقتِ سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا یعنی
پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا
عذرِ واماندگی اے حسرتِ دل
نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا
زندگی یوں بھی گزرہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
آہ وہ جراء تِ فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا
پھر ترے کُوچے کو جاتا ہے خیال
دل ِ گم گشتہ مگر یا دآیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھا یا تھا کہ سر یاد آیا

قارئین یہاں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ ہمار ے رول ماڈل استاد مرزا افضال بیگ پرنسپل ایلمنٹری کالج آف ایجوکیشن گزشتہ دنوں ہمارے ساتھ ایک پروگرام میں شریک تھے اس میں انہوں نے کہا کہ بانی کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی حاجی محمد سلیم ،ہیڈ ماسٹر ایف ون بوائز ہائی سکول راجہ راشد تراب اور ان جیسے دیگر لوگ ہمارے رول ماڈلز ہیں اور اگر ہم دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رول ماڈلز کی عزت کرنا ہو گی اور ہمیں اپنے بچوں کو یہ سبق دینا ہو گا کہ عزت اور ستائش کے لائق یہ لوگ ہیں ۔جو معاشرتی اصلاح اور مفاد عامہ کے لیے کام کرتے ہیں ۔مرزا افضال بیگ کی یہ تمام گفتگو سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق ہے ہمیں آج یہ لگ رہاہے کہ میرپور شہر میاں محمد بخشؒ کا شہر نہیں بلکہ قبضہ مافیا ،ڈرگ منی مافیا اور دیگر مافیاز کا شہر ہے کیونکہ یہاں پروفیسر نذیر انجم مرحوم اور سید معصوم حسین زندہ جیسے لکھاریوں کو موت کے بعد بھی ان کا مقام اور عزت نہیں دی جاتی اﷲ ہمارے شہر کی حفاظت کرے آمین ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
جارج برنارڈ شا عظیم ڈرامہ نگا ر تو تھے ہی اس کے ساتھ ساتھ بلا کے خود پرست بھی تھے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میری تحریر کے ایک ایک لفظ کی قیمت ایک ایک پاؤنڈ ہے کسی نے ازراہ مذاق انہیں ایک پاؤنڈ بھیج کر لکھا
’’ ایک پاؤنڈ حاضر ہے براہ کرم مجھے اپنا ایک قیمتی لفظ ارسال کر دیجئے ‘‘
برنارڈ شا نے جواب میں ایک ہی لفظ لکھ کر بھیجا اور وہ لفظ تھا
’’شکریہ ‘‘
قارئین آج اہل کشمیر نے سید معصوم حسین زندہ اور پروفیسر نذیر انجم مرحوم کے ساتھ جو سلوک کیا ہے ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ ہم کن الفاظ میں اس پر مرثیہ خوانی کریں ۔پروفیسر نذیر انجم کا یہ شعر ہم اکثر دہراتے ہیں جو ہم آپ کو پیش کرتے چلیں
جب کوئی دیس مناتا ہے دن اپنی آزادی کا
دل کا درد سلگ اٹھتا ہے یاد آئے کشمیر بہت
 
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336821 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More