اوبامہ کا دورہ:کعبہ میرے آگے ہے کلیسا میرے پیچھے

امریکہ کے صدر براک اوباما نے گزشتہ ہفتہ یورپ اور مشرق وسطیٰ کا سفارتی دورہ کیا۔ ہندوستان کے ذرائع ابلاغ نے اسے پوری طرح نظر انداز کر دیا۔ اردو اخبارات میں یہ خبر ایسے آئی وہ گویا صرف سعودی عرب آئے اور لوٹ گئےحالانکہ اوباما کے اس دورے کی ابتداءہالینڈسے ہوئی جہاں انہیں جوہری تحفظ کانفرنسمیں شرکت کرنی تھی ۔ دوسرے دن انہوں نے یوروپی یونین کے صدر مقام برسلز میں ای یو اور نیٹو کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ پھر وہ اٹلی پہنچے جہاں عیسائیوں کے مقدس شہر ویٹیکن میں جاکر پوپ فرانسس کے خانقاہ میں حاضری دی۔ اس دورے کے آخری اور فیصلہ کن مرحلہ سعودی عرب میں طے ہوا جہاں ان کی ملاقاتشاہ عبداللہ سے ہوئی۔ریاض میں قیام کے دوران صدر نے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے باہمت خاتون ایوارڈ کے تمغے سےڈاکٹرماہا المناف کو نواز کر ساری دنیا کو چونکا دیا۔ عرب دنیا کی نام نہاد روشن خیال خواتین بھی اغیار سے مصافحہ کرنے سے کتراتی ہیں لیکن ماہا المناف نے جس بے دھڑک انداز میں براک اوبامہ کے ساتھ ہاتھ ملایا وہ دراصل سعودی عرب کے معاشرے رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں کا ایک ننھا سا مظہر ہے۔
براک اوبامہ اس دورے کے دوران ہر روز نت نئے مسائل سے جوجھتے رہے اور گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر کسی ایک میں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیںحاصل کرسکے۔یوروپ اور امریکہ اپنے آپ کو ایک دوسرے کا حلیف کہتے ہیں اس لئے کہ فی زمانہ نہ صرف ان کا مذہب ، تہذیب اور اقدار بلکہ مفادات بھی مشترک ہیں اس کے باوجود گزشتہ دنوں جبامریکہ کی جانب سے عالمی رہنماؤں کی نگرانی کا معاملہ سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کیا گیا تو ہنگامہ مچ گیا ۔ سنوڈن نے ٹھوس دستاویزات کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر مرکل سمیت ۳۴ عالمی رہنماؤں کی نگرانی کرتی رہی ہے۔
ان انکشافات کا امریکہ کے یوروپی ممالک کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر پڑا۔ امریکہ کی جانب سے اس کا صاف انکار نا ممکن تھا اس لئے گول مول باتیں بنائی گئیں مثلاًسینیٹر ڈائین فائن سٹائن نے کہا کہ دوست ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کیا جانا صحیح نہیں گویا دشمنوں کے ساتھ ایسا کرنا درست ہے۔صدر نے اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی سے لاعلمی ظاہر کردی ۔ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ نے جاسوسی کی کارروائیوں کا مفصل جائزہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس بیچ امریکہ میں صدارتی دفتر پر بھی دباؤ بڑھنےلگاکہ وہ عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کی اطلاعات اور صدر اوباما کی بظاہر لاعلمی کو واضح کرے۔ اس پس منظر میں صدر اوبامہ کو اپنے دورے کے اولین مرحلے میں یوروپی برادری کے اعتماد کو بحال کرنے کا مشکل کام کرنا تھا ۔

امریکہ بہادر کی جانب سےیہ جاسوسی نہ صرف باہر کے لوگوں کی جاتی ہے بلکہ نگرانی کے نام پرخود اپنے شہریوں کی ذاتی زندگی میں بھی جھانکا جاتا ہے جو انسانی حقوق کی سراسرخلاف ورزی ہے ۔ انتظامیہ کی اس زیادتی کے خلاف قدامت پسند کارکن لیری کلیمین نےواشنگٹن ڈی سی کی ایک وفاقی عدالت سے رجوع کیا اور اس کے جج رچرڈ لیون نے این ایس اے کے نگرانی کے پروگرام کو غیر قانونی اور بے ربط مداخلت قرار دے دیا۔ عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ مگر انتظامیہ اس بابت نہ تو شرمندہ ہے اور نہ کسی قسم کی مصالحت کیلئے تیارہے ۔ اس کی ڈھٹائی کا اندازہامریکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے برملا کہا کہ عالمی رہنماؤں کے ارادوں سے باخبر رہنا جاسوسی کی قومی کارروائیوں کا بنیادی مقصد ہے۔
نیشنلخفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے مذکورہ بیان امریکی ایوانِ نمائندگان کے پینل کے سامنے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے اقدامات امریکی خفیہ ایجنسی کے اہم ترین فرائض میں شامل ہیں۔ جیمز کے مطابق’غیر ملکی رہنماؤں کے ارادوں سے واقفیت ہمارےبنیادی مقاصد میں سےایک ہے۔ یہ معلومات ہم جمع کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں‘۔انہوں نے الزام لگایا کہ ان کے غیر ملکی اتحادی بھی امریکی حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جاسوسی کرتے ہیں اور ایسا کرنا معمول کی بات ہے۔تاہم کسی اور ملک کے پاس اتنےبڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام نہیں ہے جتنا کہ امریکہ کے پاس ہے ۔جنرل الیگزینڈر کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ نے جس معلومات کا ذکر کیا ہے اس میں سے زیادہ ترکو خود یورپی خفیہ اداروں نے اپنے لئے اکٹھا کیا اور پھر امریکہ کو فراہم کیاہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ہمیں اس پروگرام کو ترک کرنے کے بجائے تنقید کو خاطرمیں نہ لاکر ملک کا دفاع کرنا چاہئے۔

جس ملک کا انتظامیہ اس قدر اڑیل اور خودسر ہوتو صدر مملکت کس طرح اپنے دوست ممالک کا اعتماد بحال کرسکتا ہے ؟ اس کے باوجود اوبامہ نے اپنی سی کوشش کی ۔ ہالینڈ میں منعقد ہونے والیجوہری تحفظ کانفرنس میں کوئی قابلِ ذکر بات نہ ہو سکی ۔ جب سے امریکہ نے ایران کے تئیں اپنا موقف نرم کیا ہے آپسی اختلافات کے باوجود ایک گرماگرم موضوع سرد خانے میں چلا گیاہے ۔ ہالینڈسے نکل کر اوبامہ جب برسلز پہنچے تو حسب توقع یوکرین کا مسئلہ زیر بحث آگیا۔ اس معاملے میں روس نے جس سرعت کے ساتھ اقدامات کئے ہیں اس سے کریمیہ کا تو فی الحال کوئی ذکر ہی نہیں کرتاہر کسی کو اس بات کی فکر ہے کہ کہیں روس یوکرین پر چڑھائی نہ کردے ۔ روس پر ممکنہ معاشی پابندیوں پر نیٹو کے ارکان کے ساتھ بات چیت ہوئی لیکن کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اس لئے کہ ایسا کرنےسے دیگر ممالک روس سے زیادہ مسائل کا شکار ہو جائیں گے خاص طور پر یوکرین اور برطانیہ کا جینا محال ہو جائیگا۔

برسلز کے بعد صدر براک اوباما نے اٹلی کا رخ کیا جہاں انہیں رومن کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس سے ویٹیکن میں ملاقات کرنی تھی۔ یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب اوباما انتظامیہ اور کیتھولک چرچ کے درمیان اسقاط حمل اور مانع حمل کے معاملات پر شدیداختلاف پایا جاتاہے۔ ایک گھنٹے تک جاری رہنےوالی اس تاریخی ملاقات کے بعد کسی اختلاف کے بجائے "بڑھتی ہوئی عدم مساوات(معاشی) " کو کم کرنے کے "مشترکہ عزم" کااظہارکیاگیا۔ اوباما نے کہا کہ پوپ فرانسس کی " عظیم اخلاقی اتھارٹی" سے عالم گیریت اور معاشی تبدیلیوں کی سبب خوشحال اور بدحال لوگوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے اعتراف کیاکہ گزشتہ چند دہائیوں میں امریکہ کے اندر بہت امیر اور متوسط طبقہ کی آمدنی میں فرق کو بڑھا ہے۔ وہ بولےیہ مسئلہ صرف امریکہ کا ہی نہیں سبھی ممالک کا ہے اور یہ نہ صرف اقتصادی بلکہ یہ اخلاقی مسئلہ بھی ہے"۔ اوبامہ نے پوپ کو وائٹ ہاوس آنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کیا۔

ویٹیکن سے اوبامہ کی آمد سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں ہوئی اور یہاں اقتصادی یا اخلاقی مسائل کے بجائے ساری توجہ سیاست پر مرکوز رہی ۔ ان دونوں ملاقاتوں کی سطح کا فرق ان تحائف سے لگایا جاسکتا ہے جو اوبامہ کو ویٹیکن اور ریاض میں ملے۔ پوپ فرانسس نے اوبامہ کو دوعدد تمغات کے علاوہ اپنی کتاب ’’صحیفہ(انجیل)کی لطف مسرت‘‘ دی۔ اس کے جواب میں اوبامہ نے کہا کہ انہیں جب کبھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوگی وہ اسے پڑھیں گے اور مجھے یقین ہے کہ یہ قوت فراہم کرے گی اور تسلی دے گی ۔ اس کے برعکس شاہ عبداللہ نے ایک قیمتی سونے کا ہار اوبامہ کو تحفہ میں دیا جس کو پہنتے وقت اوبامہ کا سر عقیدت سے اپنے آپ ان کے آگےجھک گیا ۔شاہ عبداللہ جانتے ہیں کہ اوبامہ کا اقتدار تاحیات نہیں ہے جلد ہی ان کی میقات عمل ختم ہو جائیگی۔اس مرحلے میں اگر پوپ فرانسس کی کتاب بھی انہیں اطمینان و سکون بخشنے میں ناکام ہو جائےتو یہ طلائی ہار ان کے ضرور کام آئیگا۔

سعودی عرب اور امریکہ کےتعلقات فی الحال خوشگوار نہیں ہیں لیکن ۶۰ سالہ دوستی میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب یہ کشیدگی آئی ہے۔ اس سے قبل ؁۱۹۷۳کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران بھی تناوٴ آیاتھا اور نائن الیون کے ہائی جیکروں میںسعودیوں کی بڑی تعداد کے سبب بھی تعلقات کشیدہ ہوئے تھے لیکن جس قدر اختلافات فی الحال پائے جاتے ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ حالیہ کشیدگی کی ابتداء اس وقت ہوئی جب امریکہ نے اپنے قدیم حلیف حسنی مبارک سےمنہ پھیر لیا۔ سارے عرب سربراہ امریکہ سے یہ توقع کررہے تھے کہ وہ اپنے نمک خوار کی مدد پر آئیگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد مصر کے معاملے میں امریکہ کے ہر اقدام عرب سربراہان کو مایوس کیا ۔ نہ انہیں امریکہ کی جانب سےمحمد مورسی کی حمایت ایک آنکھ بھائی اور نہ السیسی کی امداد بند کرنا راس آیا۔ میدان رابعہ عدویہ کے میدان پر شہید ہونے والوں معصوموں پر امریکہ کا بناوٹی غم و غصہ تک ان کے گلے سے نہ اتر سکا۔

اس کے بعد شام کا معاملے میں امریکہ نے مسلم دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی مایوس کیا۔ اس نے ایک ایسے وقت میں جبکہ کیمیائی اسلحہ کے استعمال کے سارے ثبوت سامنے آگئے تھے نہ صرف خود کوئی اقدام کرنے سے انکار کردیا بلکہ مجاہدین کی مدد سے بھی پلہّ جھاڑ لیا۔ اس رویہ کا نتیجہ یہ ہوا بشار الاسد ایک ہاری ہوئی بازی جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ کیمیاوی اسلحہ کو برباد کرنے کا بہانہ بناکر امریکہ اس محاذ سے کنارہ کش ہوگیا۔ امریکہ کی یہ دغا بازی کیا کم تھی کہ امریکہ نے ایران کے ساتھہاتھ ملا لیا اور یہ بات سامنے آئی کہ اپنے روایتی حلیفوں کو تاریکی میں رکھتے ہوئے ایک طویل عرصہ تک وہ ایران کے ساتھ رابطے میں تھااور اسگفت و شنید کے نتیجے میں بالآخر معاشی پابندیوں کے خاتمہ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔

ان تمام واقعات نے سعودی عرب کو امریکہ کے تئیں اس قدر کبیدہ خاطر کیا کہ اس نے احتجاجاًاقوام متحدہ کی حفاظتی کاؤنسل کی رکنیت کو لات ماردی حالانکہ اس کا کوئی معقول جواز نہیں تھا۔ خطے کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظربھی سعودی عرب کی جھنجلاہٹ واجبی لگتی ہے اس لئے کہ اس سے قبل وہ اتنا تنہا کبھی نہیں تھا۔ ایران کے علاوہ عراق ،شام اورلبنان مخالف کیمپ میں ہیں۔ اومان اور یمن کا مخالفین سے دوستانہ ہے۔قطر اور ترکی جو شام کے معاملے میں سعودی کےسب سے بڑے حامی تھے وہ مصر کے حوالے سے مخالف ہوگئےہیں۔ حماس کبھی بھی ساتھ نہیں تھا اور اب بحرین بھی شورش زدہ ہے اور تو اوردبئی نے تک ایران کے ساتھ پینگیں بڑھانی شروع کردی ہیں ۔ شمالی افریقہ میں سوڈان، تیونس اورلیبیا سے حمایت کی کوئی امید نہیں ہے ایسے میں امریکہ کی بے وفائی کچھ زیادہ ہی کھلنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولیعہد شہزادہ سلمان نےحال میں چین اور جاپان کے دورے کیے ۔ بھارت اور انڈونیشیا سے بھی دفاعی تعاون کےمعاہدے کیے نیزپاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزیدمستحکم کیا ۔

سعودی عرب سے اوبامہ نے سوائے خیرسگالی اور غلط فہمیوں کو رفع کرنے کے علاوہ نہ کچھ حاصل کیا اور نہ اس کی توقع تھی ۔ اوبامہ کے دورے کی اگر کوئی یادگار تقریب تھی تو وہ ماہا منیف کی پذیرائی جس کا تصور بھی ماضی میں ممکن نہیں تھا ۔ خواتین کے حقوق کی حمایت اور گھروں میں خواتین پر تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والی ممتاز سعودی کارکن ماہا منیف سے مل کر اسے انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے اوبامہ نے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ مشعل کی جانب سے اس فرض کی ادائیگی کررہے ہیں جو انعام یافتہ خواتین کوتمغہ سے نوازتی ہیں۔ اوبامہ نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ مشعل اوبامہ اس وقت موجود نہیں ہےلیکن ڈاکٹر ماہا کی تصویر شاہدہے کہ انہیں اس کا مطلق افسوس نہیں ہے کہ وہ ۴ مارچ امریکہ میں جاکر یہ سند کیوں نہ حاصل کرسکیں ۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر ماہا منیف کی مہم کے جد پہلو نے امریکہ کو متوجہ کیا ہے وہ مردوں کے ولی اور سرپرست کی حیثیت سے خواتین کے کامل اختیارات دے دینے کے خلاف آواز اٹھانا بھی ہے۔

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جس روز براک اوباما نے ماہا منیف سے ملاقات کی ہے۔ اسی روز سعودی خواتین کی ڈرائیونگ کے اختیار کو لے کر از سرنو مزاحمت کا آغاز ہوا۔ اس سلسلے میں مدیحہ الجروش نے عالمی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ صدر اوباما کے سعودی عرب میں ہوتے ہوئے خواتین کے ڈرائیونگ کے ایشو کو سامنے لانا محض اتفاق ہے۔ مدیحہ الجروش نے کہا ’’ ہم اپنی سرگرمیوں کیلئے ہر مہینے کا ایک دن مقرر کرتے ہیں تاکہ اپنا مطالبہ سامنے لا سکیں۔‘‘ اس پرامریکی انتظامیہ کے ایک ذمہ دار کا کہنا تھا کہ ’’ ہمیں سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر، حقوق نسواں ، مذہبی آزادیوں اور اظہار رائے کے معاملات کے حوالے سے تشویش ہے لیکن اس دورے پرہمارازیادہ تر وقت شام اور ایران سے متعلق مسائل پر صرف ہوگیا ۔اس وجہ سے انسانی حقوق کا معاملہ زیر بحث نہ آسکا‘‘۔ ویسے اگر یہ مسئلہ زیر بحث آتا بھی تو اس کا کوئی حل اوبامہ کے پاس نہیں تھا ۔ سعودی معاشرے کے سنگین مسائل (مثلاًطلاق کی شرح جو ؁۲۰۱۲ میں ۳۱ ہزار سے زیادہ سے زیادہ یعنی کل نکاح کے۲۱ فیصد ہے) کا حل انہیں خوداسلام کی روشنی میں نکالنا ہوگا ۔

اوبامہ کے لوٹ کر جانے کے بعد سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا ایک اہم بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامہ کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس فرمان کے تحت شہزادہ مقرن کو موجودہ ولی عہد شہزادہ سلمان کا جانشین مقرر کیا گیا ہے اور وہ کرسیٔ اقتدار خالی ہونے کی صورت میں ملک کے بادشاہ بھی بن سکتے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ منسلکشرط کہ’’ اس شاہی فرمان کو کسی بھی طریقے سے کوئی بھی شخص کسی بھی وجہ یا تشریح کی بنا پر تبدیل نہیں کرسکتا ہے‘‘۔اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ممکن ہےیہ باہمی تنازعہ کو روکنے کیلئے اٹھایا جانے والا اقدام ہو ۔ ایسا اس لئے بھی ہے کہ شہزادہ مقرن شاہ عبدالعزیز آل سعود کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ اور ان کے بعد اقتدار کو دوسری نسل میں منتقل ہونا ہے۔ شہزادہ مقرن کی عمر ۶۹ سال ہے جبکہ ولیعہد شہزادہ سلمان ۷۸ اور خود شاہ عبداللہ ۹۰ سال کے ہیں ۔ اس اعلان کے بعد یہ قیاس آرائیاں بھی کی جانے لگی ہیں کہ ممکن ہے شاہ عبداللہ اب سبکدوش ہو کر اقتدار اپنے ولیعہدسلمان کے حوالے کرنے کی سوچ رہے ہوں ۔ اس میں شک نہیں کہ اتفاق سے صدر اوبامہ کا یہ دوسرا دورۂ سعودی عرب اہم تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔

صدر اوباما جب مئی ؁۲۰۰۹ میں ریاض آئے تھےتو اس وقت وہ نئے نئے صدر بنے تھے اور وہ بہت مقبول تھے۔ شاہ عبداللہ بھی امریکی انتخابات میں براک اوباما کی کامیابی پر خوش تھے۔ اس کے بعد انہوں نے قاہرہ کا قصد کیا تھا اپنے مشہور خطاب میں مسلمانوں اور عرب دنیا کے ساتھ امریکی تعلقات کے ایک نئے باب کی نوید سنائی تھی جو وقت کے ساتھ صدا بہ صحراء بن گئی ۔اس بار ماحول یکسرمختلف تھا۔ سعودی حکام نےاوبامہ کی آمد سے قبل واشنگٹن میں مقیم یہودی اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ کے امریکی نامہ نگار کو ویزا دینے سے انکار کر کے اپنے تیور واضح کردئیے۔ قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائیس اور دوسرے امریکی افسران کے اصرار کے باوجود سعودی عرب نے ویزے کے معاملے میں کوئی لچک نہیں دکھائی جس پروہائٹ ہاؤس نے شدیدمایوسی کا اظہار کیا حالانکہ یہ ایک مستحسن اقدام تھا۔لیکن اس دورے کے دوران امریکہ کی جانب سے ایک نہایت شرمناک واقعہ ہالینڈ میں منظرِ عام پر آیا جب ایک امریکی اہلکارکو ایمسٹرڈیم کے ہوٹل کی راہداری میں شراب کے نشے میں دھت بے ہوش پایا گیا ۔ وہ اوبامہ کے حفاظتی دستے کی حملہ آور ٹیم کا رکن تھا ۔ بعدمیں اس کودو ساتھیوں سمیت’انتظامی تعطیل‘ پر واپس بھیج دیا گیا ۔ بہتر ہوتا کہ انہیں امریکہ کے بجائے ویٹیکن روانہ کیا جاتا۔اس لئے کہ امریکی خفیہ ایجنسی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل ؁۲۰۱۳ میں دو اہلکاروں کو جنسی استحصال کے الزام میں اور؁۲۰۱۲ میں کئی افسران کوکولمبیا سے طوائفوں کی خدمات حاصل کرنے کے جرم میں واپس بھیجا گیا تھا لیکن ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پوپ فرانسس بھی اپنی تمام تر اخلاقی اتھارٹی کے باوجود اخلاقی پستی میں غرق ان اہلکاروں کی اصلاح کرسکیں گے یا بالآخر ان پر حد جاری کرنے کیلئے سعودی عرب روانہ کرنا پڑے گا تاکہ دوسرے ان سے عبرت پکڑ سکیں؟

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2065 Articles with 1256498 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.