ٹریکٹر بغیر ڈرائیور کے چل رہا تھا

یہ کوئٹہ کی بات ہے -چھٹیاں گزارنے وہاں گیا تھا- شہر کے باہر ایک کھیت میں سے گزر رہا تھا - شام کا وقت تھا -ارد گرد گھروں میں غالبا چولھے جلا کر رات کے کھانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں-دھواں فضاء میں یوں مدغم ہورہا تھا کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بادل کہاں ہیں اور دھواں کہاں - شام کے دھندلکے میں درختون کے سائے لمبے لمبے ہو کر ایک عجیب سا تاثر دے رہے تھے - سڑک پر یا کھیتوں میں کوئی بندہ بشر نہیں تھا سناٹا چھایا ہوا تھا -دور ایک کتا آسمان کی طرف منہ کر کے عجیب سی آواز میں رورہا تھا - مختصرآ یہ کہ ماحول میں ایک پر اسراریت کی کا احساس سا ہو رہا تھا - جی چاہ رہا تھا کہ اس ماحول اس جگہ سے جتنا جلدی ہو سکے نکل جاؤں - اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سیاسی حالات بھی ایسے تھے کہ خوف ہر وقت زہن سے چمٹا رہتا تھا اچانک میری نگاہ ایک لال رنگ کے ٹریکٹر پر پڑی - وہ پل کے قریب ایک چھوٹے سے میدان میں متواتر گھومے جارہا ہے -ایک ہی رفتار ایک ہی دائرہ -- اس کے اوپر ایک بڑا سا درخت جسکی کچھ شاخیں سوکھی ہوئی تھیں پھیلا ہوا تھا - مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ اسے کوئی چلا نہیں رہا تھا یعنی - کوئی ڈرائیور نہیں تھا اور وہ چلے جا رہا تھا-میں نے حیرت کے عالم میں ادہر ادہر دیکھا سامنے ہیں ایک قبرستان کے آثار دکھائی دئے -

ایک دم خوف کی ایک سرد سی لہر جسم میں عود آئی - وہ سب پرانے قصے یاد آئے کیسے روحیں قبرستان میں پھرتی رہتی ہیں - کسی انسان سے چمٹ جائیں تو انسان مصائب میں گرفتار ہو جاتا ہے -وغیرہ وغیرہ

اس عالم میں میں نے آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا - دل کی خوفزدگی میں کمی آئی - کچھ حوصلہ جمع کیا اور پھر غور سے ٹریکٹر کو دیکھنے کی کوشش کی -ڈرائیور کی جگہ کا جائزہ لیا - یہ کیسے چل رہا ہے --کوئی ڈرائیور نہیں - دل میں سوچا -کوئی ہیولہ ہو گا جو مجھے نظر نہیں آرہا دفعتآ میری نظر اس کے آسٹیرنگ پر پڑی - اسے کسی نے موٹی رسی سے تھوڑا سا گھما کر باندھا ہوا تھا اور ایکسی لی ریٹر جہاں پیر رکھ کر ٹریکٹر چلاتے ہیں وہاں دو تین اینٹیں رکھی ہوئی ہیں اوہ تمام ماجرا میری سمجھ میں آگیا-

غا لبآ انجن پورا کھول کر اس کے پسٹن کے رنگ تبدیل کئے گئے تھے اور اب اسے بیس پچیس گھنٹے بغیر لوڈ کے چلا کر رواں کرنا تھا - یہ نہایت اکتا دینے والا کام ہو تا ہے - ٹریکٹر کے مالک نے اس کا حل یہ نکالاتھا کہ اس کے اسٹیرنگ وغیرہ کو باندھ کر اسٹارٹ کرنے کے بعد اینٹین وغیرہ ایکسی لی ریٹر پر رکھ کر چلا گیا تھا اسی لئے وہ گھومے جارہا تھا -

ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک سائیکل پر اس کا مالک نمودار ہوا - و ہ مہارت سے چلتے ٹریکٹر میں سوار ہوا اور اسے روک کر رسی وغیرہ کھولنے لگا میں نے سر کو ایک جھٹکا سا دیا - میں بھی کیا کیا سوچ رہا تھا -

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 334116 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More