فتنۂ قادیانیت، یہودیت اور شمعِ رسالتؐ کے پروانے

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن حرملؒ کہتے ہیں میں نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے امیر المومنین! آپ کے لشکر کے قابو پانے سے پہلے ہی میں نے توبہ کر لی ہے حضرت عمرؓ نے پوچھا تم کون ہو میں نے کہا میں مسیلمہ کذاب کا داماد معاویہ بن حرمل ہوں حضرت عمرؓ نے فرمایا جاؤ اور جو مدینہ والوں میں سب سے بہترین آدمی ہے اس کے مہمان بن جاؤ میں حضرت تمیم داریؓ کا مہمان بن گیا ایک دفعہ مدینہ کے پتھریلے میدان میں آگ نکل آئی اس وقت ہم لوگ باتیں کر رہے تھے حضرت عمرؓ نے آکر حضرت تمیمؓ سے کہا چلو اور اس آگ کا انتظام کرو حضرت تمیمؓ نے کہا میری کیا حیثیت ہے اور کیا آپ اس بات سے نہیں ڈرتے کہ میرے پوشیدہ عیوب آپ پر ظاہر ہوں؟ اس طرح حضرت تمیمؓ کسر نفسی کر رہے تھے (لیکن حضرت عمرؓ نے اصرار فرمایاتو ) حضرت تمیمؓ کھڑے ہوئے اور آپ کو دھکے دیتے رہے یہاں تک کہ جس دروازے سے نکلی تھی اسی میں اسے واپس کر دیا اور پھر خود بھی آگ کے پیچھے اس دروازے کے اندر ہی چلے گئے پھر باہر آئے اور اس سب کے باوجود آگ انہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکی۔

قارئین! بغیر کسی تمہید کے ہم آج کے کالم کے عنوان کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں ۔ مرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ کی کچہری میں پندرہ روپے ماہوار تنخواہ پر ملازمت کیا کرتا تھا اور اچانک کلرکی سے کرپشن میں ملوث ہونے کا جرم ثابت ہونے پر استعفیٰ دے کر قادیان جا کر مقیم ہو گیا اور انگریزوں کی حمایت میں مختلف لغو اور مبہم قسم کی تحریریں لکھنا شروع کر دیں یہ واقعہ 1868ء کا ہے اس کے بعد 1880 میں غلام احمد قادیانی نے ’’مجدد ‘‘ ہونے کا دعویٰ کر دیا، 1882 ء میں مرزا نے ’’ماموریت‘‘ کا اعلان کیا، 1888ء میں ’’بیعت‘‘ کا حکم سنایا،1891ء میں اس ظالم نے ’’مسیح موعود‘‘ اور ’’ظلی نبی‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا اور 1901ء میں انگریز بہادر اور یہودیوں کی سازشوں کو منطقی روپ دیتے ہوئے مرزا نے نعوذ باﷲ نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا، 1904ء میں مرزا نے مزید ایک قلابازی کھائی اور ’’کرشن‘‘ ہونے کا دعویٰ کر دیا اور 1908ء میں تمام شیطنت پھیلانے کے بعد مقام گندگی پر ہی جہنم رسید ہوا۔ علمی سطح پر یہ ثابت ہوا ہے کہ قادیان کے اس فتنے کا پس منظر کچھ اس نوعیت کا تھا کہ چونکہ برصغیر میں اسلام کی ترویج واشاعت میں صوفیائے کرام اور اولیاء کا انتہائی اہم کردار رہا ہے اور مسلمانوں کے تمام طبقات اولیائے کرام کی دل سے عزت واحترام پہلے بھی کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں مسلمانوں کی اسی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی پیروں اور شیطان کے پیروکاروں نے خلافِ اسلام نظریات کا پرچار بھی کیا اور بظاہر خلافِ اسلام نظریات کو اسلام کا روپ دینے کے لیے جعلی روائتیں اور نئی نئی بدعات متعارف کروائیں اﷲ تعالیٰ نے ہر دور میں اسلام کی تجدید کے لیے کوئی نہ کوئی ’’مجدد‘‘ اور اﷲ کا ولی مقرر کیا جن میں مجدد الف ثانی شیخ سرہندیؒ کا نام برصغیر پاک وہند میں تمام فرقوں میں انتہائی ادب واحترام سے لیا جاتا ہے کیونکہ جب مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے ’’اپنی مرضی کے اسلام اور ہندو مذہب ‘‘ کی ایک ’’عجیب وغریب کاک ٹیل‘‘ تیار کر کے اسے ’’دینِ الٰہی‘‘ کا نام دے کر ہندوستان میں سرکاری مذہب کی حیثیت سے رائج کرنے کی کوشش کی تو مجدد الف ثانیؒ اسلام کا پیغامِ حق لے کر میدان میں نکلے اور بے انتہا صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود سادہ لوح مسلمانوں کو اس آفت سے محفوظ کرنے اور ان کے ایمان کو بچانے کی سعی کی اﷲ تعالیٰ ان کا مقام اور درجات بلند کرے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم کفر کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنے کی مجددی سنت کو ادا کر سکیں۔ آمین

قارئین! 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ایک منصوبہ بندی کے بعد ایک منصوبہ بندی کے تحت انگریزوں نے یہ کوشش کی کہ کس طرح مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹا جائے اور اس کام کے لیے پیروں کی اندھی تقلید کرنے والے سادہ لوح مسلمانوں کو کسی ایسے جھوٹے پیر کا گرویدہ بنا دیا جائے جو انہیں اسلام کے اصل نظریات سے دور لے جائے اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کر کے ان کی طاقت کو ختم کیا جائے اس سازش کے دوران مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور اس ظالم نے مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ متعارف نہ کروایا بلکہ الٹا ایسے نظریات کی تشہیر کی جو سراسر کفر تھے اور ان نظریات کو ماننے والے اسلام کے دائرے سے باہر نکل گئے۔ مرزا نے مختلف کتابوں نشانِ آسمانی صفحہ 28 ،تذکرۃ الشہادتین صفحہ 2 تبلیغ ورسالت جلد دوم صفحہ 21 ، کشتی نوح صفحہ 68، دافع البلاء صفحہ 30، ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 9، کلمۃ الفضل صفحہ 104، آئینۂ کمالات اسلام صفحہ 564، حاشیہ انجام صفحہ 5 ، حیات النبی جلد اول صفحہ 142، اعجاز احمدی صفحہ 18، ملفوظات احمدیہ جلد اول صفحہ 400سمیت مختلف تحریروں میں حضور نبی کریمؐ، حضرت عیسیٰؑ، خلفائے راشدین ؓ، امہات المومنینؓ، حسنین کریمینؓ، دیگر انبیائے کرام اور اولیائے کرام کی کھل کر توہین کی اور ایسی ایسی بکواسات کیں کہ انہیں نقل کر کے ہم اپنے کالم ’’انصار نامہ ‘‘ کو گندہ نہیں کرنا چاہتے۔ تحریک پاکستان کے دوران اب قادیانیوں کی جوسازشیں سامنے آئیں ہم ان کے متعلق کچھ اشارے آپ کو دیتے چلیں ۔ انگریز بہادر نے گول میز کانفرنسز میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے ظفر اﷲ قادیانی کو منتخب کیا اور عملی طور پر ظفر اﷲ قادیانی نے ’’ وائس آف برٹش ایمپائر ‘‘کا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں انگریز آقا نے ظفر اﷲ قادیانی کو سر کا خطاب دیا۔ ایک گول میز کانفرنس میں پاکستان کا نام تجویز کرنے والے عظیم سپاہی چوہدری رحمت علی کا چارسو صفحات پر مشتمل کتابچہ ’’Now or Never‘‘جب شرکاء کی توجہ کا مرکز بنا تو ظفر اﷲ قادیانی نے یکم اگست 1933ء کو یہ بیان داغ دیا کہ پاکستان کا مطالبہ محض چند طالب علموں کا مطالبہ ہے اور اس میں کچھ بھی نہیں۔23مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں پیش کی جانیوالی قرارداد لاہور کی مخالفت بھی قادیانیوں ہی نے کی تھی اور مرزا محمود نے قادیانیوں کو یہ ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ کانگریس کا ساتھ دیں 11 جون 1940ء کو مرزا محمود نے پاکستان کے مطالبے کو غلامی مضبوط کرنے والے زنجیر قرار دیا تھا یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ ریاست جموں وکشمیر پر ہندوستان کے قبضے کی راہ ہموار کرنے والے بھی قادیانی ہیں تقسیم ہند کے وقت ظفر اﷲ قادیانی ہی کی وجہ سے پٹھان کوٹ کا علاقہ پاکستان کے بجائے ہندوستان میں شامل کیا گیا اور اسی وجہ سے ہندوستان کو زمینی راستے سے کشمیر تک رسائی مل سکی اور جس کی وجہ سے آج ڈیڑھ کروڑ کے قریب کشمیری ظلم وجبر کے سائے تلے زندگیاں گزار رہے ہیں 14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے فوراًبعد قادیانیوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے پنجاب کے ضلع جھنگ میں موضع ’’ڈگیاں‘‘کو ’’ربوہ‘‘کا نام دے کر گورنر پنجاب سرفرانسس موڈی سے ایک آنہ فی مرلہ کے حساب سے 1034 ایکڑ زمین خرید لی یہاں یہ بات انتہائی معنی خیز ہے کہ ’’ خرید وفروخت ‘‘کا یہ کارنامہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وفات کے فقط تین دن بعد انجام دیا گیا مرزا محمودقادیانی نے اپنے حواریوں کو واضح ہدایات جاری کیں کہ وہ تعلیم کے شعبے میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ نظام تعلیم پر ہمارا قبضہ ہو فوج میں بھی ہمارے آدمی ہونے چاہئیں اسی طرح پولیس، ایڈمنسٹریشن ،فوج ، وزارت خارجہ، ریلوے، فنانس، کسٹم سے لیکر ہر شعبہ زندگی میں یہ کالی بھیڑیں داخل ہو گئیں اور ظلم یہاں تک ہوا کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ظفر اﷲ قادیانی بنا جس نے قائداعظمؒ کا جنازہ تک پڑھنے سے انکار کر دیا تھا اسی حوالے سے قائداعظمؒ کے ساتھی اور قلم کار صحافی قبیلے کے سرخیل جناب حمید نظامی مرحوم نے ایک غیر ملکی دورے سے واپسی پر نوائے وقت میں اداریہ لکھا تھا جس میں واضح طور پر دل شکن اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستانی سفارتخانے بیرون ممالک میں مرزائیت کی تبلیغ کے غلیظ اڈے بن چکے ہیں سلسلہ یہیں پر نہیں رکتا بلکہ جون 1948ء میں مرزا محمود قادیانی نے ’’ فرقان بٹالین‘‘کے نام سے قادیانیوں کی ایک عسکری جماعت قائم کی اور جنرل گریسی کی مدد کے لیے 1948ء میں اس عسکری جتھے کو بظاہر پاکستان کی افواج کی حمایت کے لیے بھیجا لیکن پاکستان وبھارت کی پہلی جنگ میں ان لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے بھارت کے لیے جاسوسی کی جس کی نتیجے میں کشمیر پر بھارت قابض ہو گیا 23 جولائی 1948ء کو مرزا محمود نے اعلان کیا کہ وہ بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانا چاہتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل میں بھی قادیانیوں کی سازشیں کار فرما تھیں۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ بھی قادیانی سازش کے نتیجے میں ہوئی تھی اس معرکے میں چھمب جوڑیاں کے مقام پر دو قادیانی جرنیل اختر حسین ملک اور بریگیڈیئر عبدالعلی نے پاک افواج کو شکست سے دو چار کیا اور شہاب نامہ کے مصنف قدرت اﷲ شہاب نے ظفر اﷲ قادیانی سے لے کر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے مختلف قادیانی کرداروں کے متعلق بات کی ہے 16 دسمبر 1971 کو جب سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ہوا تو پوری قوم دھاڑیں مار کر رو رہی تھی اور قادیانیوں کے مرکز ربوہ میں مٹھائیاں بانٹی جا رہی تھیں اور ساری رات ربوہ کی سڑکوں پر چراغاں کرنے کیساتھ ساتھ رقص کیا جا تا رہا 18مئی 1952ء کو قادیانیوں نے کراچی میں ایک جلسہ کیا جس میں ظفر اﷲ قادیانی نے تقریر کرتے ہوئے نعوذ باﷲ اسلام کو مردہ اور قادیانیت کو زندہ قرار دیا جس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوئے اور علماء بورڈ تشکیل دیا گیا اور لاہور میں 13جولائی 1952کے تاریخی اجلاس میں سات سو سے زائد علماء کرام نے شرکت کی اور اسی اجلاس میں ’’مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور حضرت مولانا ابو الحسنات سید محمد احمدقادری کو صدر منتخب کیا گیا۔ صاحبزادہ افتخار الحسن شاہ، صاحبزادہ ظہور الحق، مولانا محمد یعقوب نورانی، صوفی ایاز خان، حافظ شیر محمد خان نیازی، مولانا محمد رمضان، مولانا عبدالطیف جہلمی، مولانا صادق حسین جہلمی، حکیم سید علی شاہ، مولانا غلام حبیب، مولانا احمد سعید شاہ کاظمی، مولانا محمد ذاکر، مولانا ابراہیم علی چشتی، مولانا اعجاز ولی خان بریلوی، مولانا سید فتح علی شاہ قادری، مولانا فرید الدین کیملپوری، مولانا سید عارف اﷲ شاہ، صاحبزادہ فیض الحسن شاہ، مولانا عبدالغفور ہزاروی، مفتی محمد عمر نعیمی سمیت لاتعداد علمائے کرام اور عاشقانِ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو تحریک ختم نبوت کے دوران قیدو بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا 19 جولائی 1952 ء کو ملتان میں قادیانیوں کے خلاف نکالے جانے والے جلوس پر پولیس نے فائرنگ کی جس سے سات افراد شہید ہو گئے 22 مارچ 1953 ء کو مولانا عبدالستار خان نیازی کو گرفتار کر کے پھانسی کی سزا سنائی گئی بعد ازاں سزائے موت کو عمر قیدمیں تبدیل کیا گیا اور دوسال کی قید کے بعد مولانا عبدالستار خان نیازی کو رہا کیا گیا یہاں ہم اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے یہ بتاتے چلیں کہ اہلیان کشمیر کے لیے یہ اعزاز لائق صد افتخار ہے کہ سب سے پہلے 29 اپریل 1973ء کو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی قرارداد منظور کی تھی 22 مئی 1974 ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء تفریح دورے پر پشاور جا رہے تھے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں نے کفر پر مشتمل اپنا تبلیغی لٹریچر تقسیم کیا تو ان طلباء نے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے 29مئی کو جب یہ طلبا واپس آ رہے تھے تو قادیانیوں نے گاڑی روک کر ان طلبا پر تشدد کر کے انہیں شدید زخمی کر دیا اس واقعے کو ’’سانحہ ربوہ ‘‘کا نام دیا گیا اور یہی تحریک ختم نبوت کی بنیاد بنا تیس جون 1974 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی قرارداد پیش کی جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی سات ستمبر 1974 ء کو قرارداد کا متفقہ مسودہ تیار کیا گیا جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا بل کے حق 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں الحمد اﷲ ایک بھی ووٹ نہ آیا۔ قومی اسمبلی کا منظور شدہ یہ بل اسی شام سینٹ میں پیش ہوا اور سینٹ نے اس بل کی حتمی منظوری دے کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیدیا۔

قارئین! یہ بات طے ہے کہ باوجود بے عمل اور ناقص ہونے کے راقم سمیت ہر مسلمان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے والہانہ عشق اور محبت رکھتا ہے اور کوئی بھی مسلمان اس محبت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتا ہے آج آزاد کشمیر میں کوٹلی سے لے کر میرپور تک انتہائی پراسرار قسم کی قادیانیوں کی سرگرمیاں یہ تقاضا کر رہی ہیں کہ حکومت بھی جاگے اور عام مسلمان بھی جاگیں۔ ممبر قانون ساز اسمبلی صاحبزادہ عتیق الرحمن فیض پوری اس حوالے سے عرصہ دراز سے بیداری کا ثبوت دے رہے ہیں اور وقتاً فوقتاًاس حوالے سے ان کی تحریک لائق ستائش ہے میرپور میں نیو سٹی کے مقام پر ایک سازش کے تحت ان قادیانیوں کو ایک ہی مقام پر آباد کر کے انہیں مرکزیت حاصل کرنے کا موقع دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر بھر میں یہودی سرمایے کو استعمال کرتے ہوئے سادہ لوح مسلمانوں کو لڑکیوں کے رشتوں کی لالچ دے کر اور بیرون ممالک امریکہ، کینیڈا، یورپ ودیگر ممالک میں امیگریشن کا جھانسہ دے کر انہیں اسلام سے ہٹا کر کفر یعنی قادیانیت اختیار کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ راقم کی گزشتہ ہفتے میرپور میں ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے پروانے ریاض عالم ایڈووکیٹ سے تفصیلی نشست ہوئی جس میں انہوں نے انتہائی پریشانی کے عالم میں قادیانیوں کی مختلف سرگرمیوں سے ہمیں آگاہ کیا اس سلسلہ میں ہم نے پہلے بھی ایک کالم آپ کی خدمت میں پیش کیا جس کے بعد متعدد دوستوں اور بالخصوص صاحبزادہ عتیق الرحمن فیض پوری نے ہماری حوصلہ افزائی کی یہاں ہم بقول چچا غالب کہتے چلیں کہ
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحان اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
خارِ ،خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے
شوق، گلچینِ گلستانِ تسلی نہ سہی
نفسِ قیس کہ ہے چشم وچراغِ صحرا
گر نہیں شمع سیہ خانۂ لیلی نہ سہی
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی غالب اگر عمرِ طبیعی نہ سہی

قارئین! حضرت عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ سے لے کر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث مکاتب فکر کے مسلمان متفقہ رائے رکھتے ہیں کہ ختمِ نبوت کا انکار کرنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا ہم آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے آج اپیل کرتے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے بانی قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں قادیانیوں کی پراسرار سرگرمیوں کا نوٹس لیں اور مسلمانوں کو کفر کی جانب لے جانے والے ان شیطانوں کا راستہ روکیں ہم دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے قادیانیوں کو آئین پاکستان میں کافر قرار دینے کا جو کارنامہ انجام دیا تھا وہ ان کی مغفرت کا سبب بنے گا(آمین)وزیراعظم چوہدری عبدالمجید صاحب ہم آپ سے مخاطب ہو کر صرف اتنا کہتے ہیں کہ دنیاوی مرتبے، جاہ وجلال، مال ودولت سب یہیں دھرا کا دھرا رہ جائیگا ساتھ جانے والا سامان اعمال ہیں ہمیں اس بات کا بھی علم ہے کہ آپ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے بے انتہا محبت اور عشق رکھتے ہیں آج یہی عشق تقاضا کر رہا ہے کہ آپ اپنے مرتبے کو استعمال کرتے ہوئے سچا عاشق رسولؐ ہونے کا عملی ثبوت دیں۔ یقینا آپ کا یہ عمل آپ کی عاقبت اور آخرت کا بہترین سامان ہو گا۔ انصار نامہ کا مصنف جنید انصاری نہ تو آزاد کشمیر میں کسی قسم کا فساد پھیلانا چاہتا ہے اور نہ ہی لڑائی جھگڑے کو فروغ دینا چاہتا ہے ہمارا آج کا یہ کالم اپنے ایمان کو بچانے کی ایک کوشش ہے ہماری اس کوشش کو کچھ اور عنوان دے کر ہمارا جرم بنانے کی کوشش نہ کی جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا بھی ہے تو ہمیں اس کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاطر راقم ایک چھوڑ ہزار جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہے اگر ہمارے اس مضمون میں کوئی کمی کوتاہی ہو تو اسے انسانی لغزش سمجھ کر معاف کر دیجیے گا اور تصیح کے لیے راقم کے موبائل نمبرز 0300-0576555، 0341-1188770 اور 0341-1188788 پر رابطہ کیجیے ہمیں امید ہے کہ عام مسلمان اور طاقت رکھنے والے صاحبان اقتدار واختیار اپنی اپنی زندگیوں کو ایک مہلت سمجھ کر اس کا بہترین استعمال کرینگے اﷲ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336822 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More