جاویداختر چودھری :ایک منفرد اسلوب کا حامل تخلیق کار

یورپی ممالک میں اہل، نظر نے اُردو زبان و ادب کی جو بستیاں بسا رکھی ہیں وہ جہاں اُن کے ذوقِ سلیم کی آئینہ دار ہیں وہاں ان کے اعجاز سے اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کو یقینی بنانے اور افکار ِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجوکے امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں ۔ عالمی ادبیات کے یہ نباض تراجم اور تخلیقات سے اُردو ادب کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کر رہے ہیں وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔وطن ،اہلِ وطن ،اپنی تہذیب و ثقافت،تاریخ ،تمدن اور معاشرت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کرنے والے ان دانش وروں کے بارِ احسان سے اُردو زبان و ادب کے طلباکی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔اُردو زبان وا دب کے بے لوث خدمت گاروں میں ایک اہم نام جاوید اختر چودھری کا ہے ۔پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والے اس زیرک شاعر نے بر منگھم میں علم و ادب کی محفل سجا رکھی ہے ۔اس کی تخلیقی فعالیت کے کئی آفاق ہیں ۔اردو زبان پر اسے جو خلاقانہ دسترس حاصل ہے ،اُس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہر صنف ِادب میں اظہار و ابلاغ پر قدرت رکھتا ہے ۔اُس کا پہلا شعری مجموعہ ’’حصار، ذات ‘‘۱۹۹۹ میں شائع ہوا۔اُس کی شاعری زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرتی ہے ۔انسانی معاشرت کا مطالعہ اور مشاہدہ اس کے اسلوب کا اہم موضوع رہا ہے ۔وہ مسائلِ زیست سے شاعری کے لیے مواد کشید کرتا ہے ۔انسانی زندگی کے نشیب و فراز ،ارتعاشات ،دُکھ اور سُکھ اُس کی شاعری میں جلوہ گر ہیں ۔اُس کے مشاہدات ،تجربات ،احساسات اور جذبات دل نشیں انداز میں الفاظ کے قالب میں ڈھل کر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ۔اِس فعال ،مستعد اور بے حد زیرک تخلیق کار کے فکر و خیال کی ترتیب و تدوین میں اس کے خلوص اور درد مندی کو کلیدی مقام حاصل ہے ۔جب اس کے تخلیقی عمل اور اس کے پسِ پردہ کار فرما لا شعوری محرکات پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ مواد اور ہیئت کے حسین امتزاج سے ا س مہارت کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کرتا ہے کہ اس کی بات دل کی گہرائیوں میں اُتر کر پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کالوہا منوا لیتی ہے ۔ جاوید اختر چودھری کی جان کو دوہرے کرب کا سامنا ہے وہ حالات کے ستم سہتا ہے اور پھر ان کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کرتزکیہ نفس کی صورت تلاش کرنے کی سعی کرتا ہے۔اُس نے دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ جس ثابت قدمی سے اپنے سر پر جھیلے ہیں اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور لبِ اظہار پر تالے لگا لیے ہیں وہ اپنی نو عیت کے اعتبار سے اپنے لہو سے ہولی کھیلنے کے مترادف ہے۔دو ہجرتوں کے عذاب سہہ کر وطن سے دُور پہنچا ،اس اثنا میں جب اُس کی خاک کو اکسیر کرنے والا باپ بیٹے کی راہ دیکھتا دیکھتا پیوند ِ خاک ہو گیا تو اس کے دل پر قیامت گزر گئی۔ ابھی اس کی جان ِ نا تواں کو مزید ابتلا اور آزمائش کا سامنا تھا ،اس کے جواں سال بیٹی اور وفا شعار بیوی نے زینہء ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔اپنے کم سِن بچوں کی دیدہء تر کو دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ تقدیر کے چاک کو سوزن ِ تدبیر سے رفو نہیں کیا جا سکتا ۔ ان پے در پے سانحات کے بعد اگرچہ اُس کی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو چکا تھا لیکن اُس نے کسی سے سہارے کی التجا نہ کی اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ۔ صبر کی روایت میں لب کسی صورت میں وا نہیں کرتا اور جبر کے سامنے سِپر انداز ہونے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔اپنے ان اصولوں پر وہ کوئی سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں ۔ دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں اُسے جن تکلیف دہ حالات سے دو چار رکھا ،اُس کی شاعری ان کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی ایک کوشش ہے۔وہ یہ بات اچھی طر ح جانتا ہے وقت پڑنے پر موقع پرست اور دُنیا دار لوگوں کو مصنوعی مجبوریا ں یاد آ جاتی ہیں اور مصیبت کی گھڑی میں ہر فرد دُکھوں کا سامنا کرنے کے لیے اکیلا رہ جاتا ہے ۔ رام ریاض نے سچ کہا تھا :
اور سہارے تو دھرتی کے تجارتی ہیں
اپنی ٹانگیں اپنا بوجھ سہارتی ہیں

اس کا تخلیقی عمل جہاں اس کے جذبات و احساسات کا مظہر ہے وہاں کے جلو میں ضو فشاں تخلیق کار کی وجدانی کیفیت اور جاں پہ گُزرنے والے صدمات کی باز گشت بھی قاری کے قلب و نظر پر گہرے اثرات مُرتب کرتی ہے ۔وقت کی مثال بھی سیل رواں کی تُند و تیز موج کی سی ہے جو ٹھاٹیں مارتا ہوا شاہراہِ حیات کے پُلوں کے نیچے سے گُزر جاتا ہے ۔ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں اور یہ ہماری دسترس سے دُور بہت ہی دُور نکل کر سمندر میں اُتر جاتا ہے۔ انسان بھی زینہء ہستی سے اُتر کرعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سر گرمِ سفر ہیں ۔کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی قوی اور پُر جوش ہو پُلوں کے نیچے سے بہہ کر نکل جانے والے پانی اور بیتے لمحات کے لمس سے پھر کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔جاوید اختر چودھری کے اسلوب میں وقت کے اِسی نشیب و فراز کااحوال بیان کیا گیاہے ۔جو مستقبل میں ہونے والا ہے اُس کے بارے میں وہ کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہوتا بل کہ اُس کے سامنے شب و روز جو تماشا جاری ہے اُس کے کرب نے اُسے مسلسل اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وقت کا یہ کس ادر المیہ ہے کہ زندگی کی تما م رُتیں بے ثمر کر دی گئی ہیں اور زندگیاں پُر خطر کر دی گئی ہیں۔ وقت کے اِ ن سانحات نے اُس کی شاعری قاری کے جذبات سے اس طرح ہم آہنگ ہو تی ہے کہ اُس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے :
بتاؤں کس طرح تجھ کو مِرے ساتھی مِرے ہم دم
کہ میں نے اِس جہاں میں در بہ در کی خاک چھانی ہے
دستِ خزاں نے دِل کی کلی کو مسل دیا
شاید میرے نصیب میں بادِ سحر نہ تھی
میں نے اِس آس پہ رکھا ہے کُھلا زِیست کا باب
میرا مقروض کبھی قرض چُکانے آئے (۱)

اس کے دو برس بعد ۲۰۰۰ میں اس کا افسانوی مجموعہ ’’اِک فرصتِ گناہ‘‘منظر عام پر آیا۔اس طرح اس نے اردو شاعری اور افسانے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔اس کا تخلیقی عمل مسلسل جاری ر ہا اور مختصر عرصے میں اُس کی مزید پانچ وقیع تصانیف شائع ہوئیں ،جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :
’’حرفِ دعا ‘‘(افسانے ) ۲۰۰۴، ’’سوہاوہ میری بستی میرے لوگ‘‘ ۲۰۰۶،’’ہم صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘ ۲۰۱۲، ’’ٹھوکا ‘‘ (افسانے ) ۲۰۱۲، ’’ شیرازہ ‘‘۲۰۱۲۔

اُردو کی ممتاز ادیبہ سُلطانہ مہر جو اب جاوید اختر چودھری کی شریکِ حیات بن چُکی ہیں ، ’’ہم صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘ میں اُن کے فن اور شخصیت کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے ۔یہ کتاب باہمی اعتماد ،خلوص و محبت اور وفا کے جذبات کی آئینہ دار ہے ۔ اس کتاب میں سلطانہ مہر کی شخصیت ،اسلوب اور فکر و فن کا جس دل نشیں انداز میں احاطہ کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔’’سوہاوہ میری بستی میرے لوگ ‘‘میں جاوید اختر چودھری نے حب الوطنی کے معائر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وطن کی مٹی کو گواہ بنا کر اپنی دلی کیفیات کا احوال بیان کیا ہے ۔ہر ذی شعور شخص کو اس شہر سے والہانہ محبت ہوتی ہے جہاں اُس کی آنول نال گڑی ہوتی ہے ۔جب وطن میں اُس کی خوابیدہ صلاحیتوں کے نمو پانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تو قسمت آزمائی کرنے کی خاطر بیرونِ ملک جانے کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔اپنے وطن کی مٹی کی محبت اُس کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے ۔یہی خاک اُس کی آنکھ کا سُرمہ ہے،جِسے چومنے کے لیے وہ بے قرار رہتا ہے ۔جب وہ وطن واپس آتا ہے اور ارض ِ وطن پر پاؤں رکھتا ہے تو اسے دیر تک حیرت و حسرت کی تصویر بنا رہتا ہے کہ اُس نے وطن کی خاک پر اپنا سر کیوں نہ رکھ دیا کیوں کہ خاک، وطن کا تو ہر ذرہ اُس کے لیے دیوتا کے ما نند ہے۔وطن کی یادوں کے احوال سے لبریز یہ کتاب قارئینِ ادب کے ذہن پر دور رس اثرات مرتب کرتی ہے ۔مصنف نے اپنی یادوں کے گُل ہائے رنگ رنگ سے اس کتاب کو خوب سجایا ہے ۔مصنف نے کوشش کی ہے کہ اس سے پہلے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے اور آلامِ روزگار کے مہیب بگولے گلشن ہستی سے وابستہ یادوں کو خس و خاشاک کے ما نند اُڑ ا لے جائیں اُن کی مہک کو الفاظ کی صورت میں محفوظ کر لیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان حسین یادوں کی عطر بیزی سے روحانی حظ اُٹھا سکیں ۔مسائل کے ازدحام میں گھرے انسان کاسینہ و دل جب حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو ہجوم ِیاس میں اُس کا دل یقیناً گھبرا جاتا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ قاری کو اس حقیقت کی جانب مائل کرتا ہے کہ وہ جہد و عمل کو شعار بنائے اپنی پیشانی سے پسینا صاف کر کے اپنی دُنیا آپ پیدا کرے ۔اس کی بلند ہمتی اور سعیء پیہم کو دیکھ کر دنیا اش اش کر اُٹھے گی ۔ ’’شیرازہ ‘‘نہایت دلچسپ تصنیف ہے جسے مصنف نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔پہلا حصہ ستائیس مضامین پرمشتمل ہے ،دوسرے حصے میں مشاہیرِ ادب کے تیرہ انٹرویوز شامل ہیں جب کہ تیسرے حصے میں سات خطوط کو جگہ دی گئی ہے ۔

شیرازہ میں شامل ستائیس مضامین تاثراتی نو عیت کے ہیں۔ان مضامین میں مصنف نے اسلوبیاتی تنقید کے معائر کو بالعموم پیشِ نظر رکھاہے۔آج کے دور میں تہذیبی ترقی کی چکا چوند نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہے لیکن یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کی یہ سب صناعی جُھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کی ایک شکل ہے ۔مصنف نے رجائیت کا دامن تھا م حوصلے اوراُمید کی شمع فروزاں رکھی ہے اور مثبت اندازِ فکر کو اپناتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف تخلیق کاروں کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت ان کے اسلوب کے محاسن کو زیادہ اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اِن لوگوں کا وجود غنیمت ہے جو کثیف فضا کے جان لیوا صدمات سہہ کر بھی ادبِ لطیف کی تخلیق میں مصروف ہیں۔یہ وہ ادیب ہیں جو علم و ادب سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کی وجہ سے اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔شیرازہ میں احمد ندیم قاسمی،امجد مرزا،تابش خانزادہ،ڈاکٹر خالد سہیل،ساحر شیوی،سلطانہ مہر ،ش۔صغیر ادیب ،سیدہ شہناز بانو ،ڈاکٹر صفات علوی،پروفیسر عبدالواحد قریشی،پروفیسر طاہرہ اقبال ،سید عطا جالندھری،قیصر تمکین،خواجہ محمد آصف ،محمداقبال بھٹی ،محمدفاروق نسیم ،پروفیسر مظفر حنفی،مقبول الہٰی شیخ ،فرخندہ رضوی ،فیصل نواز چودھری اور وسیم بٹ کے اسلوب کے بارے میں مضامین شامل ہیں ۔مصنف نے جن ممتاز شخصیات سے اپنی ملاقاتوں اور انٹر ویوز کواس کتاب میں شامل کیا ہے اُن میں چودھری محمد صاد ق،محمد اقبال، ڈاکٹر خالد محمودضیا،راجہ سلیم اختر ،مولانا بوستان قادری،اظہررضوی ،بیرسٹر عبدالقیوم چودھری ،ف،س،اعجازاور نجم الثاقب شامل ہیں۔مصنف کی مکتوب نگاری کا رنگ کتاب میں شامل اُن کے مکاتیب سے ہوتا ہے ۔مصنف نے یہ مکاتیب بخش لائل پوری ،افتخار نسیم ،قیصر حمید،عبدالقادر حسن،پروفیسر شوکت واسطی ،پروفیسر مشکور حسین یاد اور ’’اُردواخبار ‘‘ اسلام آباد کے مدیرکے نام لکھے ہیں۔یہ خطوط زندگی کی پُر پیچ راہوں اور تابِ نظارہ رکھنے والی نگاہوں کے بارے میں مصنف کے رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔کئی مکاتیب ایسے بھی ہیں جن کا مطالعہ کرتے وقت معاصرانہ چشمک کی کیفیت کے بارے میں آگہی حاصل ہوتی ہے ۔قاری کو لاہور سے شائع ہونے والے مجلہ ’’نقوش‘‘کا ادبی معرکے نمبر یاد آ جاتا ہے جس میں ممتاز ادیبوں نے اپنے نظریاتی مخا لفین کی خوب خبر لی۔اِن خطوط کا مطالعہ فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا ہے ۔

جاوید اختر چودھری کے افسانوں کا مجموعہ ’’ٹھوکا‘‘جدید اردو افسانے میں دلچسپی رکھنے والے قارئینِ ادب کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے۔یہ افسانوی مجموعہ اکبری آرٹ پر نٹرز ،کراچی کے زیر ِ اہتمام سال ۲۰۱۲میں شائع ہوا۔اس کتاب کا پیش لفظ خود مصنف نے لکھا ہے جس میں تخلیقِ فن کے اسرار و رموز اور اِس افسانوی مجموعے کے متعلق اپنے تاثرات کو زیبِ قرطاس کیا ہے۔افسانوی مجموعہ’’ٹھوکا‘‘ کے آغازمیں ڈاکٹر صفات علوی اور سلطانہ مہر کے وقیع مضامین شامل ہیں ۔فاضل تجزیہ نگارو ں نے مصنف کے اسلوب اور فنِ افسانہ نگاری کے متعلق اپنے تاثرات نہایت صراحت سے قاری کے سامنے رکھے ہیں۔افسانوی مجموعہ ’’ٹھوکا‘‘پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ افسانے جدید دور کے نئے طرزِ احساس اور تیزی سے بدلتی ہوئی اقدار وروایات کاحقیقی منظر نامہ سامنے لاتے ہیں۔اس افسانوی مجموعے کا ایک اہم حصہ وہ تاثراتی تحریریں ہیں جن کا تعلق جاویداختر چودھری کے فن ِ افسانہ نگاری سے ہے۔ان تاثراتی تحریروں کو مصنف نے ’’ذکرِ یار چلے ‘‘کے عنوان سے کتاب کے آخر میں شامل کیا ہے۔جن تیئیس مشاہیرِ ادب نے مصنف کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا ہے اُن کے نام درجِ ذیل ہیں:
پروفیسر آٖفاق احمد ،ڈاکٹر الٰہی بخش اعوان،انور خواجہ ،خالد خواجہ ،پروفیسر رشید مصباح ،رضا علی عابدی ،ڈاکٹر ستیہ پال آ نند ،پروفیسر شاہدہ حسن ،ڈاکٹر شمس جیلانی،ڈاکٹر صفات علوی،صفیہ صدیقی ،عرفان مصطفیٰ ،ڈاکٹر علی احمد فاطمی ،فرخ صابری ،فرخندہ رضوی ،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،کرامت اﷲ غوری ،مجتبیٰ حسین،محمودشام ،پروفیسر نذیر تبسم ،مقصودالٰہی شیخ ،یوسف ناظم ،ڈاکٹر معین قریشی
جاوید اختر چودھری کی تحریریں خلوص اور دردمندی کی مظہر ہیں ۔مصنف نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پُوری دیانت اور صداقت کے ساتھ اپنے مشاہدات ،تجربات ،جذبات اور احساسات کو اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے ۔مصنف نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں ایک ایسی ذہنی اور فکری ماحول پیدا کرنے کی سعی کی ہے جس کے اعجاز سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے اور معاشرتی زندگی مین اصلاحِ احوال کو یقینی بنانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ مصنف کی تخلیقی تحریریں اور مشاہیر ِادب کے خیالات کو پڑھنے کے بعد اُردو ادب کے قارئین اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مصنف نے جس انداز میں اپنے اشہبِ قلم کی جو لانیاں دکھائی ہیں وہ ان کے منفرد اسلوب کا عمدہ نمونہ ہیں۔ایک حساس تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو معاشرے، سماج اور انسانیت کی طرف سے اُسے کچھ ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔مصنف کی تمام تخلیقی تحریریں اور یہ مضامین پڑھنے کے بعد یہ بات بلا تامل کہی جا سکتی ہے کہ اس دنیا کے آئینہ خانے میں اُس نے ہر شخص کو معاشرتی مسائل پر سنجیدہ غوروفکر کی راہ دکھائی ہے۔مصنف نے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُن تمام ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کی ہے جو وطن ۔اہلِ وطن اور انسانیت کی طرف سے اُس پر عائد ہوئی ہیں ۔مصنف کے اسلوب نے اُسے خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر کردیاہے ۔تاریخ ِ ادب میں قومی تشخص اورقومی زبان کے فروغ کی اِس نوعیت کی مساعی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

مصنف نے اپنی تخلیقی تحریروں میں ہمیشہ مقصدیت کو اولیت دی ہے ۔اُس کی دلی تمنا ہے کہ معاشرے کوامن وآشتی کا گہوارہ بنادیا جائے۔اپنے افسانوں میں مصنف نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے چینی ،بے یقینی اور اضطراب کا کھوج لگانے کی مقدور بھر سعی کی ہے اور معاشرے کے تمام افراد کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے ربطِ باہمی ہی سے گلشنِ ہستی کو خس وخاشاک سے پاک کیا جا سکتا ہے۔نظام ِزندگی کا استحکام اس امر کا متقاضی ہے کہ زندگی کی مرگ آفریں قوتوں کو تہس نہس کر دیا جائے اور حیات آفریں قوتوں کو پروان چڑھنے کے مواقع دئیے جائیں ۔جاوید اختر چودھری کی تحریروں میں خلوص ومحبت کی فراوانی ہے،اِس کے ساتھ ہی وہ تیشہٗ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی جد و جہد کو ہر ادیب کی ذمہ داری سمجھتا ہے ۔اُس نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کر دیاہے کہ مستحکم زندگی بسر کرنے کے لیے معاشرے کے تمام افراد کے دلوں میں باہمی افہام و تفہیم اور خلوص و دردمندی پر مبنی جذبات کی مو جودگی نا گزیر ہے۔معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں ،تضادات ،شقاوت آمیز نا انصافیوں اور خوف و دہشت کی فضا کا قلع قمع کرنے کے لیے ذہنی بیداری اور داخلی انقلاب کی ضرورت ہے۔مصنف نے اپنی تخلیقی تحریروں میں داخلی تجربات اور نفسیاتی کیفیات کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ پیرایہٗ اظہار عطاکیاہے۔ اپنی ذات اور لا شعور کی اتھاہ گہرائیوں کی غواصی کر کے مصنف نے سچے جذبات ،قلبی احساسات ،خلوص ،دردمندی ،ایثار اور انسانی ہمدردی کے جو گہر ہائے آبدار صفحہٗ قرطاس پر منتقل کیے ہیں وہ متنوع خیالات فکر و نظر کی نُدرت اور جدت اور منفرد اسلوب کے مظہر ہیں۔اپنے ذاتی لا شعور کا سفر خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ طے کرنے کے بعد مصنف نے ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی مثال پیشِ نظر رکھی ہے اور کوشش کی ہے کہ سماجی اور تاریخی لا شعور کی جانب عزمِ سفر کیا جائے۔اپنی زندگی میں مصنف کو جن تجربات سے گُزرنا پڑا اُن کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے مصنف نے قاری کو سوچنے پر مائل کیا ہے ۔قاری چشمِ تصور سے وہ تمام واقعات دیکھ لیتا ہے جِن کو کہانی کے روپ میں مصنف نے پیش کیا ہے۔ایک حقیقت نگار ادیب کی حیثیت سے جاویداختر چودھری نے حرفِ صداقت لکھنے کی جو روش اپنائی ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔مصنف کی تخلیقی فعالیت سے اُردوادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا۔
مآخذ
(۱)جاوید اختر چودھری:ٹھوکا، اکبری آرٹ پرنٹرز،کراچی،بارِ اول ،۲۰۱۲،صفحہ ۱۵۔

Dr.Ghulam Shabbir Rana
Mustafa Abad Jhang City (Punjab-Pakistan)

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 618188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.