اپنے ایمان کی حقیقت جانئیے

سنن ابنء ماجہ کی حدیث ﷺ 75 میں ابوالدردا ء ؓ سے مروی ہے کہ ایمان بڑھتا اور کم ہو تا ہے۔ اس بات کی تصدیق قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔سورہ الانفال ، سورہ نمبر 8 کی آیت نمبر 2 میں اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ : ً۔۔۔۔۔ بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے اﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اﷲ تعالی کی آیات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو او ر زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اﷲ پر توکل کرتے ہیں۔۔۔۔ ۔ ً

ایمان کے اصطلاحی مفہوم کی مزید وضاحت کے لئے یوں کہا جا سکتا ہے کہ مذہب ِ اسلام میں اﷲ تعالٰی کے سامنے جواب دہی کے تناظر میں دیگر اعتقادات کے علاوہ دنیاوی اور اخروی زندگی کے امتزاج کے ساتھ ایک مسلمان کا نظریہء عمل ایمان کہلاتا ہے جبکہ غیر مسلم لوگوں میں عمل کا نظریہء صرف اس دنیا تک محدود ہے ۔

اﷲ تعالی نے ، دنیا کے کرڑوں انسانوں کے معاشی اور سماجی انجن کی بھر پور حرکت کو انسانی نظرئیے کے مرہون ِ منت کر دیا ہے۔ اﷲ تعالی نے یہ تانہ بانہ اس خوبصورتی سے بنا ہے کہ ایک تو انسانوں کے لئے زندگی کے اس دھارے میں شامل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا اور دوسرا یہ کہ انسانی نظریات ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کی تمام تر عملی Dynamics اور Mechanics کو متعین کرتے ہیں ۔ ً نظریہ ً یا ً ایمان ً انسانوں کے مابین مائل بہ زندگی خود کاریت( Automation ) کا باعث ہے ۔

بحیثیت مسلمان اس حقیقت سے مفر نہیں کہ آخرت کی کامیابی کی بنیاد ہی ایمان پر ہے ۔ اگر ایمان اتنا ہی اہم ہے تو ضروری ہے کہ ہم سب اپنے اپنے ایمان کو پرکھ لیں اور اگر اسے کسی بہتر سوچ سے بدلنے کی ضرورت ہے تو بدلنے کے اقدامات بھی کریں اور یہ کچھ ایسا مشکل بھی نہیں ۔

ہمیں چاہئے کہ ایمان کی جانچ کے بعد دیکھیں کہ ہم ایمان کے کس معیار پر کھڑے ہیں ۔ذیل میں متعلقہ چند احادیث ﷺ پر مشتمل ایک فیتھ ( ایمان ) میٹر مہیا کیا جا رہا ہے ۔ اﷲ تعالٰی کو دل میں محسوس کرتے ہوئے ان احادیث ﷺ کی روشنی میں اعما ل کا جائزہ لے کر آپ اپنے ایمان کے معیار اور مقدار کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ لیکن یہ معلوم نہیں کہ آپ اپنے دل کی کس سطح سے اپنے ایمان کا جائزہ لیتے ہیں البتہ اﷲ تعالی اس گہرائی کی آخری سیڑھی کی بنیاد سے آپ کے ایمان کی کرید شروع کریں گے ۔ اور اﷲ ہی اس کا بہتر اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ لیکن بہرحال کسی بھی سطح پر ہو ، آپ کے لئے یہ اندازہ لگانا ہی بہتر ہے ۔

ایمان کی موجودگی ؟
ایمان کی موجودگی کا آخر پتہ کیسے لگے ؟ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔آئیے اس کا جواب جانتے ہیں ۔ پارہ نمبر 8 ، سورہ نمبر 6 ، سورہ الانعام کی آیت نمبر 158 میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں ہیں : (۔۔۔۔جس روز تیرے رب کی بعض مخصوص نشانیاں نمودار ہو جائیں گی تو پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔۔۔۔۔۔)

اس آیت مبارکہ سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ایمان کی صورت میں لازماً نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی تڑپ موجود ہو نا چاہئے ۔اور نیکی کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ خالص اﷲ تعالی کے لئے کی گئی ہو اور اس میں دنیاوی منفعت سامنے نہ ہو ، اب آپ بخوبی اس کسوٹی پر اپنے اپ کو پرکھ سکتے ہیں کہ کیا آپ ہر لمحہ ہر لحظہ اس طرح کی نیکی کے لئے تیار رہتے ہیں اور یہ کہ کیا اس کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ؟ سورہ نمبر 3 سورہ العمران کی آیت نمبر 114 میں اﷲ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ : (۔۔۔ یہ اﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور بھلائیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہیں اور لپک لپک کر بھلائی کے کام کرتے ہیں ، یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں ۔۔۔ ) ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ آپ ایسے ایمان کے مالک نہ ہوں کہ موسمی نیکیاں کرنے کے عادی ہوں ۔ لپک لپک کر نیکیاں تو ہر گذرتے لمحے کی نیکیاں ہونگی جو محض رمضان المبارک اور مخصوص ایام میں سرزد نہیں ہونگی ۔ ایسی صورت میں ماں کا دن ، باپ کا دن ، معذور افراد کا دن ، پیار کا دن اور ہفتہ ء خوش اخلاقی منانے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ ہر لمحہ اور ہر پل ہر رشتے اور ہر انسان کے لئے آپ کی طرف سے سلامتی اور امن ہو گا ۔

اگر آپ نیکی سے خوش اور گناہ سے کنارہ کش رہتے ہیں تو ایسی صورت میں آپ کا ایمان آپ میں زندہ موجود ہے اور وہ آپ کے لئے بھلائی کا باعث ہے ورنہ وہ بے فائدہ اور مردہ ہے ۔ یہ بھی چاہئے کہ کسی خاص تناظر میں نیکی اور گناہ کا درست تصور آپ کے سامنے ہے یا نہیں ؟ ورنہ شیطان کے لئے آپ سے نیکی کی شکل میں بدی کا ارتکاب کرا نا کیا مشکل ہے ؟ اس صورت ِ حال سے بچاؤ کے لئے حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا مکمل علم ہونا بہت ضروری ہے ۔ نیکی اور برائی کا علم ہو گا تو ہی آپ کو برے خیال کا احساس ہو گا ۔پارہ نمبر 9 ، سورہ 7 ، سورہ الاعراف کی آیت نمبر 201 میں ہے کہ : (۔۔۔یقیناً جو لوگ اﷲ سے ڈرتے ہیں جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی برا خیال چھو جاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں فوراً کھل جاتی ہیں۔۔۔۔)

ایمان کے اجزا اور اس کے متعلقات کا جاننا بھی ضروری ہے ۔ درج ذیل حدیث ﷺ ملاحظہ کیجئے :

بخاری کی حدیث ﷺ 48 میں حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ انسانی شکل میں آپ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے اور پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اﷲ تعالی پر ، اس کے فرشتوں پر ، اور آخرت میں اﷲ تعالی سے ملنے پر ، اور اﷲ تعالی کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ ، اور قیامت کا یقین کرو ، پھر پوچھا کہ اسلام کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اﷲ تعالی کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ شریک نہ کرو ، اور نماز پڑھو اور فرض زکوۃ دو ، اور رمضان کے روزے رکھو ۔ پوچھا اور احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ تم اﷲ تعالی کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ۔اگر یہ حالت نہ ہو سکے تو وہ تو تمہیں دیکھتا ہی ہے ۔

اگر آپ کا ایمان آپ کی زندگی کی کسی خاص صورت ِ حال میں آپ کو بھلائی اور نیکی کی طرف نہیں لے کر جا تا تو آپ کم از کم اس صورت ِ حال کی حد تک ، اوپر بیان کردہ احادیث ﷺ میں ایمان اور اس کے متعلقات میں سے کسی میں کمی کے مرتکب ہیں ۔

اب ان احادیث ﷺ کا بیان کرتے ہیں کہ جن میں درج اعمال سے مطابقت رکھنے کی صورت میں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ ایمان کے کس درجے پر ہیں :

بخاری کی حدیث ﷺ 5629 میں انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص ایمان کی لذت نہیں پائے گا جب تک کہ وہ کسی آدمی سے اﷲ تعالی ہی کے لئے محبت نہ کرے اور آگ میں ڈالا جانا اسے اس سے زیادہ پسند ہو کہ کفر کی طرف واپس جائے جبکہ اﷲ نے اسے اس سے نجات دلائی اور جب تک اﷲ اور اس کا رسول ﷺ دوسری تمام چیزوں سے
زیادہ اسے محبوب نہ ہوں ۔یہی مضمون صحیح مسلم میں حدیث ﷺ نمبر 73 میں بھی ہے ۔

سنن ابن ء ماجہ میں حدیث ﷺ 4107 ہے کہ سادگی ایمان میں داخل ہے ۔اسی کتاب کی حدیث ﷺ 4186 میں حضرت ابو بکر ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ فحش گوئی جفا ہے اور جفا جہنم میں لے جانے والی ہے ۔( جفا سے مراد بے وفائی ہے اور فحش گوئی کرنے والا دراصل اﷲ تعالی سے اس طرح بے وفائی کرتا ہے کہ اس کی موجودگی میں بری باتیں کرتا ہے ۔ )

بخاری کی حدیث ﷺ 5607 میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے ، مہمان کی ضیافت کرے اور اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔

بخاری کی حدیث ﷺ 8 کے مطا بق میں حیاء ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔بخاری کی حدیث ﷺ 5701 میں عبداﷲ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ ایک شخص پر گذرے کہ حیاء کے متعلق کسی پر عتاب کر رہا تھا کہ تو اس قدر حیاء کرتا ہے ، تجھے اس سے نقصان پہنچے گا رسول ﷺ نے اسے ایسا کہنے سے منع فرمایا اور کہا کہ حیاء ایمان کا جزو ہے ۔

بخاری کی حدیث ﷺ 5353 میں آپ ﷺ نے جنتی لوگوں کے حوالے سے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہونگے جو فال کو نہیں مانتے ، نہ ہی منتر پڑھواتے ہیں ، نہ داغ لگاتے ہیں اور اپنے اﷲ پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ( ایمان والے لوگ ہی جنت میں جائیں گے ، آپ دیکھیں کہ آپ ان میں سے کس کام کے مرتکب ہیں ۔ ؟ )

بخاری کی حدیث ﷺ 6358 میں ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بندہ اس وقت تک زنا نہیں کرتا جب کہ وہ زنا کرے اور مومن ہو ، اور کوئی چور چوری نہیں کرتا اس حال میں کہ وہ مومن ہو اور نہیں شراب پیتا جس وقت کہ شراب پیتا ہے ، اس حال میں کہ وہ مومن ہو ، اور کوئی قاتل قتل نہیں کرتا اس حال میں کہ وہ مومن ہو ۔صحیح مسلم میں یہی مضمون حدیث ﷺ نمبر 109 میں بھی بیان ہے ۔ ( مومن وہ ہیں جو ایمان میں پختہ ہیں )

صحیح مسلم میں حدیث ﷺ 172 میں حضرت عبداﷲ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی آدمی دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہو گا اور کوئی ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی غرور ہو گا ۔ ( اگر دل میں غرور ہے تو ا س کا ازالہ کیا جائے۔)

جامع ترمذی کی حدیث ﷺ 2092 میں ابوہریرہ ؓ کے مطابق حضور پاک ﷺ نے کم گوئی کو بھی ایمان کی ایک شاخ قرار دیا ہے ۔سنن ابو داؤد کی حدیث ﷺ 4598 میں ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں : سب سے افضل لا الہ الا اﷲ کہنا ہے اور سب سے ادنی ایمان کا درجہ راستے میں پڑی ہڈی ہٹا دینا ہے ۔ سنن ابو داؤد کی حدیث ﷺ 4604 میں ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ مسلمانوں میں ایمان کے اعتبار سے سب سے کامل شخص ان میں سب سے بہترین اخلاق والا ہے ۔جامع ترمذی کی حدیث ﷺ 1159 میں اضافہ ہے : اور جو اپنے گھر کی عورتوں کے حق میں ا چھا ہے ۔

بخاری کی حدیث ﷺ 4963 میں ام حبیبہ بنت ِ ابو سفیان سے روایت کرتے ہیں کہ جب ام حبیبہ کے پاس ان کے والد کے مرنے کی خبر پہنچی تو انہوں نے خوشبو منگوا کر اپنے دونوں ہاتھوں پر ملی اور کہا کہ مجھے خوش بو کی ضرورت نہ تھی اگر میں نے حضور پاک ﷺ کو یہ کہتے نہ سنا ہوتا کہ کسی عورت کے لئے جو اﷲ تعالی اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ وہ سوائے شوہر کے کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ، شوہر کا سوگ چار مہینے دس تک منائے ۔

سنن ابیء داؤد میں حدیث ﷺ 5099 میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم صاحب ایمان نہیں بن سکتے ، یہاں تک کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو ۔کیا میں تمہیں ایسا کام بتاؤں کہ جب تم اسے کرو تو اس کے نتیجے میں تم اپنے درمیان ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو : اپنے درمیان خوب سلام کیا کرو ۔

سنن نسائی میں حدیث ﷺ 3116 میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ مسلمان کے دل میں حسد اور ایمان اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔( اس کی وجہ یہ کہ ایک مسلما ن کے نزدیک ہر چیز اﷲ کی کی طرف سے متعین ہوتی ہے ، تو پھر کسی دوسرے کے پاس کسی چیز کو دیکھ کر حسد کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اﷲ کی اس بانٹ پر خوش نہیں ہیں ، آپ ان نعمتوں پر نظر کریں جو اﷲ نے کسی کے برعکس آپ کو دے رکھی ہیں ۔ )
بخاری کی حدیث ﷺ 5722 ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس چاہئے کہ وہ صلہء رحمی کرے ۔( یعنی رشتوں کو توڑے نہیں ۔ )

صحیح مسلم میں حدیث ﷺ نمبر 84 میں بیان ہے کہ حضور پاک ﷺ کو کہتے سنا گیا کہ جو شخص تم میں سے کوئی بات شریعت کے خلاف ہوتے دیکھے تو وہ اس کو ہاتھ سے بدل دے ، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو زبان سے ایسا کرے ، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل ہی سے اس کو برا مانے مگر یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے ۔ ( ہاتھ سے روکنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت آجکل کے دور کے لحاظ سے کسی برائی کے متعلق لکھ کر متعلقہ حکام کو آگاہ کرنا ، زبان ( یا قلم ) سے لوگوں کو اس برائی کے خلاف قائل کرنا اور دل سے اس برائی کو برائی سمجھنا ، میرے نزدیک اس حدیث ﷺ کی بہتر توجیح ہے کیونکہ حدیث ﷺ میں ً ایسا ممکن نہ ہو تو ً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ جب آپ ہاتھ اور زبان کا اختیار رکھنے کے باوجود دل سے بھی برا نہیں سمجھتے تو پھر آپ ایمان کے کس ادنی درجے پر فائز ہیں اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ )

سنن نسائی کی حدیث 2445 میں حضرت ابو مالک اشعریؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وضو نصف ایمان ہے ۔ جامع ترمذی میں حدیث ﷺ 2713 میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ کفر اور ایمان میں صرف نماز کا فرق ہے ۔

اس فیتھ میٹر میں آپ کی آسانی کے لئے ایسی منتخب احادیث ﷺ رکھی گئیں جن میں ایسے اعمال اور افعال کا بیان ہے جو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں ۔اگر ہم ان افعال و اعمال پر حضور پاک ﷺ کی اتباع میں توجہ دیں تو ہمارے ایمان کے مزید بہتر ہونے کے امکان کے ساتھ ساتھ ، حضور پاک ﷺ کی امت کا بھلا بھی ہو گا ۔
( اختتام )

Farhat Ali Baig
About the Author: Farhat Ali Baig Read More Articles by Farhat Ali Baig: 4 Articles with 7510 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.