اپنی ملت پہ قیاس اقوم ِمغرب سے نہ کر

خوشی ضرور منائیں لیکن اس کے لیے کسی کا دل نہ توڑیں

تہوارمنانا ہر قوم اور ہرمذہب میں رائج ہے۔ تہوار کسی ایسی تقریب کا نام ہوتاہے جس میں کسی قوم کو اجتماعی طور اچھے راستے پر چلنے کی ترغیب ملے۔ برائیوں کو مٹانے کی فکر تازہ ہوجائے۔ محبت فروغ پائے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے اچھی جگہ بنے۔ اگر ان چیزوں میں سے کوئی بھی چیز کسی تہوار کے منانے میں مقصود نہ ہو تو تہوار کی روح ختم ہوجاتی ہے بلکہ ایسے تہوار کے ذریعے سادہ لوح قوموں کی غلط رہنمائی ہوتی ہے۔کہتے ہیں بڑے بڑے جہازوں کو ہمیشہ چھوٹے چھوٹے سوراخ ڈبو دیتے ہیں اسی طرح معاشرے کی بربادی کا آغاز ہمیشہ چھوٹی برائیوں سے ہوتا ہے۔اگر ان چھوٹی برائیوں کو نظرانداز کرنے کے بجائے ان پر گرفت مضبوط کر کے ان کا خاتمہ کر دیا جائے تو بڑے برائیوں کا ظہور کم ہی ہوتا ہے۔

کہتے ہیں ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی لیکن ہم کو اہل مغرب کا سارا گند سونا ہی لگتا ہے۔ ان کی ہر برائی کو اختیار اور من و عن اسی طرح اپنانے کی ہم بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ ہمار ی رگ و پے میں مغرب کی ملحد اور مادی سوچ آہستہ آہستہ داخل ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہماری ذہنیت بندروں کی طرح نقالی کی ذہنیت بن چکی ہے۔کیا انہی باتوں کی تقلید کرنے سے ہم اجتماعی ترقی کی طرف گامزن ہوجائیں۔ مغربیت کا کینسر ہماری مملکت خدادادکے ہرفردمیں بھی سرایت کر چکا ہے۔ اور ہم قدم قدم پر مغرب کی نقل کررہے ہیں ۔برصغیر پاک و ہند کی عوام کو انگریز حکومت سے آزاد ہوئے سالوں گزر چکے ہیں لیکن اجتماعی طور پر آج بھی ہم 67 سال پہلے کی ذہنی غلامانہ زندگی جی رہے ہیں۔ہمیں اپنے تہوار، اپنی تہذیب و ثقافت اپنا لباس اپناتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہ شرم کیوں آتی ہے ہمیں اس کے پیچھے وہ احساس کمتری ہے جو ہم نے اپنے اندر پیدا کر لی ہے۔ جس کے باعث ہم آج بھی من حیث القوم ذہنی طور پر مغرب کے ہی غلام ہیں۔ ترقی اور کمال میں کسی کے ساتھ مقابلہ کرنا بْری بات نہیں لیکن کیا روشن خیالی اور ماڈرن ازم ان فضول رسموں ہی کا نام ہے؟ اب تواچھی چیزوں کے نام پر بھی جو جشن منائے جارہیں وہ بھی برائی سے ہی شروع ہوتے ہوں اوربرائی پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ہم سائنس و ٹیکنالوجی، علوم و فنون پر دسترس رکھنے کی بجائے لاحاصل بحثوں اور غیر ضرروی کام میں مگن رہے۔ چنانچہ زوال ہمارا مقدر ٹھہرا،اپنی الگ مکمل تہذیب ومعاشرتی نظام ہونے کے باواجود دوسروں کے نقش قدم پر چلنا تباہی کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے ۔شاعر مشرق علامہ اقبال نہ صرف پاکستان بلکہ پورے مشرق کے فرزندعظیم او رمغرب کے سب سے بڑے نقادتھے انھوں نے ملت اسلامیہ کے مطعلق ایک نصیحت اپنے شعر میں کی ہے۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

جھوٹ سے دور رہئے کیونکہ جھوٹ دوزخ کا راستہ ہے جبکہ سچائی جنت کا راستہ ہے۔ آپ ؐ نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔اور کسی مسلمان سے ایسا مذق کرنا جو تکلیف کا باعث بنے شرعاً حرام ہے ۔نبی ؐ کا قول ہے کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے دورسرے محفوظ رہیں۔ ’’اپریل فول‘‘ یکم اپریل کو دنیا بھر میں منایا جانے والا دن جو دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور بیوقوف بنانے کے لیے خاص ہے ۔ اس کا خاص دن اپریل کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ یورپ سے شروع ہوا اور اب ساری دنیا میں مقبول ہے۔ 1508 سے 1539 کے ولندیزی اور فرانسیسی تاریخی ذرائع سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ دن مغربی یورپ کے ان علاقوں میں منایا جاتا تھا۔برطانیہ میں اٹھارویں صدی کے شروع میں اس کا عام رواج ہوا۔ انگریز کی باقیات میں سے ہے جو ابھی تک رائج ہے اورہم انگریزوں کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یوں یہ دن مشرق کی مخصوص تہذیب پر بھی حملہ ہے۔چند دیگر حوالہ جات کے مطابق یہ تہوار’’اپریل فول ‘‘دراصل اٹھارویں صدی میں انگریزوں نے ہندوپاک کے مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔اس طرح سے وہ مسلمانوں کو بے وقوف بناتے تھے اور پھر خوب ہنستے تھے۔یہ ان کی ایک تفریح کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔

یوں یہ مغرب کی رسمیں ہیں ۔ جن کوپاکستان کے لوگ اسے اہم دن سمجھ کر مناتے ہیں۔ عربی زبان کا یہ قول ہمارے لئے کتنا اہم ہونا چاہئے کہ ’’ خذماصفا ودع ماکدر‘‘ یعنی اچھی بات کو لے لو اور بری بات کو چھوڑ دو۔ہم اِس پہلو سے ناآشناہیں اور ایک غلط ذریعہ سے اپنے آپ کو خوشی اور تسکین پہنچانے کے لئے بعض دفعہ دوسروں کا بہت بڑا نقصان کر دیتے ہیں ۔موبائل فون، ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کو بے وقوف بنانے کے لیے کیا جانے والا مذاق بہت زیادہ سنگین بھی ہو سکتا ہے۔ آج کل نوجوان نسل اس طرح کے دن بڑے اہتمام کے ساتھ مناتی ہے۔ بعض دفعہ اپریل فول کے نام پر مذاق کرنے والوں کو اس کے ردعمل کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ جب اس کا ردعمل سامنے آتا ہے تو اس وقت ندامت اور شرمندگی کے اپنے پاس کچھ نہیں رہتا۔ اس حوالے سے معاشرے کے سمجھدار افراد بالخصوص تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے بے مقصد دن منانے اور ان کے نقصانات کے بارے میں بچوں کو سمجھائیں۔ انہیں اس چیز کا احساس دلائیں کہ آپ خوشی ضرور منائیں لیکن کسی کے ساتھ مذاق کر کے اس کا دل نہ توڑیں اور جھوٹ کا ارتکاب کر کے اپنے گناہوں میں اضافہ نہ کریں۔

ایک بڑا مشہور قول ہے کہ جو قوم دوسروں کے پیچھے پڑ کر اپنی زبان، اپنی تہذیب اور اپنے لوگوں سے نفرت کرتی ہے اس کا زوال عنقریب ہوتا ہے۔ ہم نے اس وطن اور آذادی کو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اب ہم اپنی فکری اور عملی زندگی سے اس مملکت خداداد کوپھر سے اسی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اگرہم نے اپنی روش نہ بدلی تو ترقی کا خواب صرف خواب ہی رہے گا۔ اے اہلیان پاکستان ایک بات ذہن نشین کرلو کہ، تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ یہ بسنت ، ویلنٹائن ڈے، اپریل فول، نیو ائرنائٹ اور دیوالی جیسے تہواروں پر پانی کی طرح پیسہ بہانے کو نہیں، بلکہ اقوام کی فتوحات کو گنتی ہے۔

Muhammad Naeem
About the Author: Muhammad Naeem Read More Articles by Muhammad Naeem : 20 Articles with 15577 views Member of KUJ | Sub-Editor/Reporter at Weekly Jarrar & KARACHIUPDATES |Columnist | http://www.facebook.com/Tabssumnaeem
.. View More