قومی تعلیمی پالیسیاں ،ترقیاتی منصوبے اور کتب خانے

مصنف کے پی ایچ ڈی مقالہ سے ماخوذ)

۱۹۵۲ء میں پاکستان میں نظام تعلیم کے حوالہ سے تشکیل پا نے والا تعلیمی ترقی کا چھ سالہ قومی ترقیاتی منصوبہ سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔۱۹۵۹ء میں اس وقت کے صدر مملکت محمد ایوب خان کے دور حکو مت میں ایک تعلیمی کمیشن سیکریٹری تعلیم ایس ایم شریف کی سربراہی میں قا ئم کیا گیا۔اس کمیشن کی تجاویز نے ملک میں ہنگامہ آرائی کی فضاء پیدا کر دی۔ اختلافی اور قابل اعتراز محرکات یونیورسٹی آردیننس کی منسوخی اور تین سالہ کورس تھا۔ اسی حکو مت کے دور میں جسٹس حمودالرحمٰن کی سر براہی میں ایک کمیشن قائم ہوا ۔ جس نے طلبہ کی شکایات کا ازالہ کر نے کے علاوہ نظام تعلیم کی اصلاح کے لئے کئی اقداما ت تجویز کئے اس طرح اس کمیشن کی رپورٹ تعلیمی پالیسی کی حیثیت اختیار کر گئی(۱)۔

تعلیمی پالیسی (۱۹۷۰ء) (Education Policy 1970)
پاکستان کے صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ائر مارشل نور خان کو وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا ور تعلیمی شعبہ میں اصلاحات مرتب کر نے کو کہا۔ چناچہ نور خان نے جنوری ۱۹۷۰ء میں اپنی رپورٹ بعنوان ’’تجاویز برائے تعلیمی پالیسی‘‘ مر تب کی یہی ۱۹۷۰ء کی قومی تعلیمی پالیسی تھی جسے نور خان کی تعلیمی پالیسی بھی کہا جا تا ہے(۲)۔ اس پالیسی میں کتب خانو ں کے قیام اور فروغ کے لئے بہت ہی مختصر بات کی گئی تھی اور حسب ذیل
تجاویز شامل تھیں:
۱۔ کتب خانے تعلیمی اداروں کے لئے اندر اور باہر کھو لے جائیں گے۔
۲۔ کتب خانے مناسب مطالعاتی مواد کے ساتھ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے لئے ضروری ہیں۔
۳۔ لوکل باڈیز اپنے زرائع سے اپنے علاقے کے عوام کے لئے کتب خانے قائم کریں(۳)۔

پاکستان لا ئبریری بلیٹن نے اپنے اداریہ میں حکومت کے اس اقدام کو سراہا تے ہو ئے کتب خانے کے قیام اور ترقی کی تجاویز پیش کیں (۴)۔

تعلیمی پالیسی (۱۹۷۲ء ۔ ۱۹۸۰ء ) (۵) (Education Policy 1972 - 1980)
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حکومتی سطح پر کسی بھی قومی اہمیت کے منصوبے کتب خانو ں کے لئے بہترین اوراعلیٰ ترین منصوبہ بندی سامنے آئی۔ اگر اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد ہو جاتا تو یہ بات یقینی تھی کہ ملک میں عوامی کتب خانو ں کا ایک وسیع جال بچھ جا تااور اس کے مثبت اثرات ملک کی تعلیمی ‘ تقافتی ‘ سماجی اور معاشی تر قی کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو تے۔اس اعلان سے یہ توقع بندہگئی تھی کہ پا کستان میں علم و ثقافت اور کتب خانو ں کو وہی عروج حا صل ہو جائیگا جو ماضی میں مسلمانوں کا طرہ امتیاز رہا ہے مگر افسوس ملک میں پچاس ہزار کتب خانو ں کے قیام کا منصوبہ صرف فائلوں تک محدود رہا اور قائدِ عوام کا مجوزہ عوامی کتب خانو ں کا نظام ملک میں عملی جامہ نہ پہن سکا ۔ اس تعلیمی پالیسی کا اعلان اس وقت کے صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو جن کے پاس تعلیم کا قلم دان بھی تھا ۱۵ ما رچ ۱۹۷۲ء کو کیا۔ پالیسی میں کتب خانو ں کے حوالے سے حسب ذیل دو پرکشش اور موہ لینے والے اعلانات تھے :
(۱) ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں ۵۰ ہزار عوامی کتب خانوں (50 Thousands People's oriented Public
Libraries) کا قیام۔
(۲) تعلیمی اداروں اور عوامی کتب خانو ں میں لا ئبریرنز کے لئے باعزت کیڈر (Respectable Cader) اور ٹیچرز اور لیکچررز کے مساوی تنخواہ کے اسکیل کا نفاذ (۶)۔

ملک میں پچاس ہزار کتب خانوں کے قیام ‘ لا ئبریرینز کے لئے کیڈر اور تنخواہیں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بک بنک کے قیام کو لائبریرین شپ سے وابستہ افراد نے خیرمقدم کیا اور اسے ملک میں کتب خانو ں کی ترقی اور لا ئبریری اور پیشہ کے لئے سنگ میل قرار دیا۔ الحاج محمد زبیر مر حوم نے کہا کہ اس تعلیمی پالیسی سے یہ امید ہو گئی تھی کہ اب پا کستان میں کتب خانو ں کی توسیع و ترقی کا ایک سنہراباب شروع ہو جا ئیگا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ محض امیدیں باندھ لینے سے کو ئی امید بر نہیں آتی(۷)۔ قمر مرزا نے کتب خانو ں کے کردار جو وہ قوم کی زندگی میں ادا کر سکتے ہیں کوتسلیم کر نے دکریہ اداکیا(۸)۔ شیخ محمد حنیف نے کہا کہ پاکستان لا ئبریرین شپ کی تاریخ میں پہلی بار لا ئبریریز کی اہیمت تسلیم کی گئی ہے(۹)۔ پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن نے اپنے آٹھویں سالانہ کانفرنس میں ایک قراردادمیں حکو مت کے اس اقدام کو سراہا اور اطمینا ن کا اظہار کیا کہ حکو مت نے ملک میں کتب خانوں کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کیا (۱۰)۔ پاکستان سے شائع ہو نے والے رسا لے ’پاکستان لا ئبریری بلیٹن ‘ نے اپنے اداریہ میں پالیسی کا خیر مقدم کر تے ہو ئے سابقہ پا لیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہو ئے خیال ظاہر کیا کہ حکو مت کو گزستہ حکو متوں کی پالیسیوں ‘ ترقیاتی منصوبوں اور اعلانا ت سے سبق سیکھنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس با ر بھی ملک میں کتب خانو ں کی ترقی کا منصوبہ حسب سابق اعلان تک محدود نہ رہ جائے(۱۱)۔ ’پاکستان لا ئبریری بلیٹن‘ پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن اور دیگر ما ہرین لا ئبریری سا ئنس کے خدشات درست ثابت ہو ئے اور اس تعلیمی پالیسی کا بھی سابقہ پالیسیوں والا ہی انجا م ہوا۔ یعنی ملک میں پچاس ہزار عوامی کتب خانو ں کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ البتہ ملک کے کالجوں میں خدمت انجام دینے والے لا ئبریریز کو لیکچررز کے مساوی تنخواہ کا اسکیل ضرور مل گیا۔

تعلیمی پالیسی ( ۱۹۷۹ء) (۱۲) (Education Policy 1979)
پاکستان میں عا م طور پر حکومت کی تبدیلی کے سابقہ حکومت کے منصوبے اور پالیسیاں بھی تبدیل ہو جا تی ہیں۔ نئی آنے والی حکو مت نے تعلیمی پالیسی کے لئے ایک تعلیمی منصوبہ تشکیل دیا جس کا عنوان تھا (Draft Work Plan for Implementation of the National Education Policy) یہ ڈرافت نئی تعلیمی پالیسی کی بنیاد بنا(۱۳)۔ پالیسی کا اعلان ۱۴ فروری ۱۹۷۹ء کو ہوا۔ اس پالیسی میں ملک میں کتب خانو ں کے قیام ‘ کتابوں کی فرہمی اور دیگر امو ر کے با رے حسب ذیل تجاویز شامل تھیں:
۱۔ ملک میں۵۰۰۰ ہزار مسجد اسکول قائم کئے جائیں گے ہر ایک ادارے کو ۲۰ نصابی کتب اور ایک قاآن مجیدفراہم کیا جائے گا۔
۲۔ ملک میں ۵۰۰۰ ہزار محلہ اسکول قائم کئے جائیں گیاور یونسکو ‘ یونیسف اور یو این ڈی پی(UNDP) کے ذریعہ ان اداروں کو کتا بیں فراہم کی
جائیں گی۔
۳۔ خاتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیجائیگیاور ان کے اداروں کو کتابیں فراہم کی جائیں گی۔
۴۔ دس ہزار تعلیم بالغان کے مر کز علا مہ اقبا ل اوپن یونیورسٹی کے تعلیمی پروگرام سے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ مستفیض ہو ں گے۔
۵۔ دینی مدارس کو فقہ ‘ حدیث اور رتفسیر کی کتب فاہم کی جائیگی۔
۶۔ یونیورسٹی اور کالجوں کے کتب خانو ں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیگی۔
۷۔ ٹیکنیکل اور پعشہ ورانہ کالجوں کے کتب خانو ں کو سہو لت فراہم کی جا ئیگی۔
۸۔ ملک میں ایک سو بک بنک کھولے جائیگے(۱۴)۔

نقوی کے بقول تعلیمی پالیسی میں کتب خانو ں کی ترقی کے با رے میں کو ئی الگ سے باب نہیں ۔ صرف یونیورسٹی ایجوکیشن کے تحت ’لا ئبریریز اور لیبریٹری‘ کے عنوان سے کتب خانوں کی اہمیت بیان کر تے ہو ئے کہا گیا کہ یونیورسٹیز میں کت ب خانوں کو جدید کتب اور تحقیقی رسائل سے مستحکم بنا یا
جائیگا(۱۵)۔

قو می تعلیمی پا لیسی ( ۱۹۹۲ء ) (National Education Policy 1992)
تعلیمی پالیسی ۱۹۹۲ء۔۲۰۰۲ء (۱۶) کا اعلان وزیر اعظم نواز شریف کے دورحکو مت میں ۲۰ دسمبر ۱۹۹۲ء ہوا ۔ وزیر تعلیم نے واضع کیا کہ یہ پالیسی ملک کے دانشور، ماہرین تعلیم۔ انتظامی امور کے ماہرین اور قومی اسمبلی اور سینٹ کی تعلیمی کمیٹی کے اراکین سے مشورہ کے نتیجہ میں تشکیل پائی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ تعلیمی پالیسی پر عمل درآمدکے لئے مالی وسائل پر مبنی منصوبہ بھی منسلک کیا گیا ہے۔ کتب خانوں کے قیام اور ترقی کے لئے مختلف ابواب میں حسب ذیل تجاویز شامل تھیں:
باب ۶۔ (Quality of Public Instruction) میں تجویز کیا گیا تھا کہ:
۵․۳․۲․۷ نصابی کتب کے بک بنک کی اسکیم کو تما م تعلیم اداروں تک بڑھا دیا جائے گا۔ ۷․۳․۲․۷ اسکولوں میں کتب خانو ں کی بہتری کے لئے خصوصی پرجیکٹ متعار کئے جائیں گے۔عام اور پیشہ ورانہ کالجوں میں ،
یونیورسٹیوں
اور عوام کو کتب خانے قائم کر نے کے لئے امداد فراہم کی جائے گی۔
۶․۴․۲․۷ کتابوں اور رساۂ کے لئے مناسب امداد راہم کی جائے گی۔(۱۷)
باب ۹۔ (Higher Education and Science) میں تجویز کیا گیا تھا کہ:
۹․۳․۲ کتابوں اور رسائل کے لئے مناسب امداد فراہم کی جئے گی۔
۹․۳۔۱۴ قائداعظم یونیورسٹی لا ئبرری اسلام آباد کو ’’سائنس و ٹیکنالوجی کی قومی لا ئبریری ‘‘ بنا نے کی تجویز تھی۔ (۱۸) باب ۱۰۔ (Development of Social |Sciences) میں کیا گیا تھا کہ :
۱۰․۳․۱۳ قومی لا ئبریری کو زیادہسے زیا دہ مالی امداد فراہم کی جائے گی تاکہ وہ سماجی علوم میں زیدہ علمی زرائع کا اضافہ کر سکے ۔ (۱۹)

قو می تعلیمی پالیسی (۱۹۹۸ء ۔ ۲۰۱۰ء) (National Education Policy 1998-2010)
اس وقت پاکستان میں قومی تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء (۱۹)پر عمل ہو رہا ہے ۔ یہ وہ واحد پالیسی ہے جو بارہ سال کی مدت (۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۰ء) کے لئے مرتب کی گئی ۔ یہ پالیسی اس اعتبا ر سے بھی خو ش قسمت ہے کہ نئی حکو مت نے اس پالیسی کو منسوخ نہیں کیا اور نہ ہی اب تک نئی تعلیمی پالیسی پیش کی۔ ملک میں کتب خانو ں اور لائبریرین شپ کے حوالے سے بھی یہ پالیسی جامع اور اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ اس میں کتب خانو ں کے قیام ‘ ترقی اور فروغ کے لئے ذیادہ اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔

ایم ایچ شباب کی خدمات : (Services of Mr. M. H. Shabab)
ملازم حسین شباب ‘ ایم ایچ شباب کے نا م سے جانے جا تے تھے ۔ اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ مینجمنٹ ، وزارت تعلیم، حکو مت پاکستان ، اسلام آباد میں چیف ڈاکیو مینٹیشن آفیسر و انچارج (ایمن و فائنانس) کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء میں ’’لائبریریز اور دستاویزی خدمات‘‘ کے حوالے سے شباب صاحب کی خدمات قابل تعریف ہیں اور ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ۱۹۹۷ء میں جب نئی تعلیمی پالیسی مر تب کی جا نے لگے تو شباب صاحب نے اس با ت کی بھر پور کوشش کی کہ پالیسی میں لا ئبریری پروفیشن اور کتب خانو ں کی ترقی کے حوالے سے اہم اور ضروری نکات اس میں شامل ہو جائیں۔ عام طور پر پالیسی کے حتمی اعلان سے قبل حکو مت اس کے مسودہ پر ماہرین اور عوامی نمائندوں کی رائے لیا کر تی ہے چناچہ پالیسی کا مسودہ مکمل ہو نے کے بعد موضوع کے ما ہرین سے ان کی رائے اور تجاویز مانگی گئیں۔ ’ لا ئبریری اور ڈاکیومنٹیشن ‘ سے متعلق مواد پر
لا ئبریری سائنس سے تعلق رکھنے والے احباب کو اپنی تجاویز متعلقہ افسران کو ارسال کر نے کے لئے شبا ب صاحب نے ایک خط ارسال کیا ۔ شباب صاحب کا یہ خط جو راقم الحرف کے علاوہ دیگر کئی احباب کے نا م تھادرج ذیل ہے :
’’میں نئی تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء۔۲۰۱۰ء میں سے ’ ’ لا ئبریری اینڈ ڈاکیومینٹیشن سروسز‘‘ کا Chapter ارسالِ خدمت کر رہا ہوں ۔ جن مشکلات کا سامنا کرتے ہو ئے راقم نے اس چیپٹر کو نئی تعلیمی پالیسی کا حصہ بنوانے میں کامیابی حاصل کی ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔ بہر طور لا ئبریرین کمیو نیٹی کے لئے نہ صرف یہ امر خوش آئند ہے بلکہ یقیناً بہتر مستقبل کی نوید بھی ہے۔ جیساکہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ پالیسی ڈاکیومنٹ بڑا جامع اور مربوط بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن آخری مراحل میں ایک مہر باں نے اس میں سے چند آئیٹم مثلاً آئندہ دس سالوں کے دوران مختلف سطح کے کتب خانوں کے قیام و انصرام اور توسیع و ترقی پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ یا (Final Layout) بھی دیا گیا تھا۔ تکہ اس شعبہ کے مختلف پروگراموں کے عملی نفاذ کو موثر اور یقینی بنایا جا سکے جس طرح دیگر شعبوں مثلاًابتدائی تعلیم‘ ثانوی تعلیم ‘ فنی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے لئے باقاعدہ علیحدہ علیحدہ رقو مات مختص کی گئیں ہیں(Appendix 'o , r' )۔ میں نے انتہائی کوشش کی کہ اس طرح کتب خانو ں کے لئے بھی خاطر خواہ رقم مختص ہو سکے لیکن بیروکریسی کے منفی رویے کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا اور (Library & Texbooks) کے تحت اس ضمن میں محض ۲۰۰ ملین روپے کی رقم رکھی گئی ہے جو کہ پالیسی کے صفحہ ۱۱۸ پر دئے گئے فزیکل ٹارگیٹ یا اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے با کافی ہے یہ تو محض (Routine) کے اخراجات کو بہ مشکل پورا کر سکے گی جب کہ میں نے تقریباً ۴۱۲ ۳ ملین روپے مختص کر نے کی تجویز پیش کی تھی۔ نیز میں نے صوبائی دارالحکومت بشمول اسلام آباد ایک ایک ماڈل لا ئبریری کے قیا م کی تجویز بھی رکھی تھی جو کہ حذف کرادی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اسکولوں اور کالجوں کے لا ئبریریرین کے لئے ۱۹۷۲ء کی پالیسی کے ہم آھنگ اساتذہ کے برابر اور گریڈ ااور Status کی بھی تجویز دیگئی تھی جو کہ آخری مراحل میں ایک مہربان نے ختم کرادی۔ نیز فیڈرل لا ئبریری فاؤنڈیشن کی بھی تجویز تھی تاکہ کتب خانو ں کی توسیع و ترقی کو بیو رو کریسی سرخ فیتے سے نکالا جائے اس کے علاوہ شعبہ ہائے لا ئبریری و انفارمیشن سائن کے نصاب کو جدید طرز پر ڈھالنے اور ان کو جدید سہولیات سے مزین کر نے ساتھ لا ئبریری وانفارمیشن سا ئنسز کے مضمون کو بے اے کی سطح تک بطور امتیازی مضمون متعارف کرانے کے لئے بھی کہا گیا تھا۔

مندرجہ کوائف کی روشنی میں جنا ب سے پر زور درخواست ہے کہ مرسلہ chapter کا مطالعہ فرمائیں اور علاوہ ازیں جو بھی قابل عمل تجاویز آپ نے تجربہ اور پیشہ ورانہ مہارت کی بنا پر منا سب سمجھیں مر تب کر کے دئے گئے پتوں متعلقہ ارباب بست و کشاد کو براہ راست ارسال فرمائیں۔یہ آپ کی ایک بہت بڑی پیشہ ورانہ خدمت ہو گی۔ اسی نوعیت کی غزارشات PLA کو بھی بھجورہاہوں تاکہ حکومتی سطح پر اس شعبہ کی اہمیت اور افادیت اور اس کا image کو اجاگر اور نمایاں کیا جا سکے۔ نیز ہم انہی پالیسی شفارشات کو پروگرام ۲۰۱۰ء نویں پانچسالہ منصو بہ اور SAPII کے اندر بھی رکھوانے کی کوشش کرینگے۔ میں نے PLA ہیڈکواٹر کو بھی متحرک کیا ہوا ہے ۔ پالیسی کے مطالعہ کے بعد اس ڈاکیومنٹ کی جامعیت کا آپ کو بخوبی احساس ہو گا کہ اس میں سب کچھ ہے، یعنی جامع انفارمیشن سروس پالیسی کا نفاذ، سروس اسٹرکچر، معیارات بندی، legislation وغیرہ اور پہلی بار PLA کے کردار کو نہ صرف حکومتی سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے بلکہ اس کی شراکت کو بھی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مان لیا گیا ہے۔ لیکن یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ان پالیسی سفارشات کو کسی موثر طریقہ سے translate کر کے working paper کی صورت میں حکومتی ایوانوں مین لے کر جاتے ہیں ۔ ان تما م امور میں آپ کی معاونت ، رہنما ئی مشاورت ، اور شراکت ہمارے لئے مشعل راہ ہوگی۔‘‘ (۲۰)
۲۵ فروری ۱۹۹۸ء ایم ایچ شباب ، اسلام آباد
تعلیمی پالیسی کے لئے پا کستان ببلوگرفیکل ور کنگ گروپ کی تجاویز :
پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ لا ئبریری پروفیشن میں قائم ہو نے والا ایک قومی ادارہ ہے جس کا قیام ۱۹۵۰ء میں یونسکو (UNESCO) کی سفارش پر حکومت پاکستان کے تعاون عمل میں آیا تھا۔ ملک میں کتابیات کے فروغ اور لا ئبریری تعلیم کی ترویج کے لئے گروپ کی خدمات ۵۴سال پر محیط ہیں۔ پاکستان کی قو می کتا بیات ۱۹۴۷ ء تا ۱۹۶۱ ء تدوین گروپ کا ایک اہم قومی کارنامہ ہے ۔ گرو پ کے زیر اہتما م ۱۹۶۰ء میں قائم ہو نے والا لا ئبریری اسکول گزستہ ۴۴ سال سے انڈر گرجویٹ سطح پر لا ئبریری سائنس کی تر بیت کا ا ہتما م کررہا ہے۔وزارت تعلیم کی درخواست پر گروپ نے پاکستان کی تعلیمی پالیسی ۱۹۹۸ء ۔۲۰۱۰ء کے لئے جوتجاویز ارسال کیں ان کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے ۔
۱۔ ملک میں ’’نیشنل میڈیکل لا ئبریری ‘‘ قائم کی جائے۔ جیسا کہ بنگلہ دیش میں نیشنل میڈیکل لا ئبریری ڈھاکہ میں قائم ہو چکی ہے۔
۲۔ ملک میں ’’نیشنل ایگریکلچرل لا ئبریری‘‘ کا قیام عمل میں لا یا جائے ۔
۳۔ ملک میں ایک ’’ نیشنل لا ئبریری برائے معزورین‘‘ قا ئم کی جائے۔
۴۔ کالجوں کے کتب خانو ں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولتوں کو یقینی بنا کیا جائے۔
۵۔ ملک میں ’’ نیشنل سینٹر برائے رسائل و جرائد قا ئم کیا جائے۔
۶۔ ۱۷ اکتو بر سر سید احمد خان کا یوم پیدائش ہے اس تاریخ کو قومی سطح پر ’’ٹیچرس ڈے‘‘ (Teacher's Day) کے طور پر منا یا جائے۔(۲۱)

تعلیمی پالیسی میں لا ئبریریز و دستاویزی خدمات کے با رے میں بیان کر دہ حقائق و معلامات ‘ اعداد و شمار و تجاویز حسب ذیل ہیں:
۱۱۔ لائبریری و دستاویزی خدمات (Library and Documentation Services)
۱۱۔۱ پالیسی کا خاکہ (Conceptual Framework)
۱۱۔۱۔۱ ملک کی سماجی و معاشی ترقی کے لئے لوگوں میں فہم وفراست بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں مفت لا ئبریری سروس شروع کی جا ئے کسی بھی ملک میں بحیثیت مجموعی تعلیم اور تحقیق کی تر قی میں لا ئبریریاں بہت اہم کردار اداکر تی ہیں۔ پا کستان میں تعلیم کے میدان میں نئی سمت اور راہیں پیدا کر نے کے لئے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ عام لوگوں تک پہنچانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا بھر پور طریقہ سے مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ نتائج اس وقت ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں جب پرا ئمری کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک بہت منظم لا ئبریریاں موجود ہوں ساتھ ساتھ اکیڈمی لا ئبریریوں کی مدد سے پبلک لائبریریوں کا ایک مضبوط جال بچھا نے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے با علم شہری پیدا ہوں جو معاشرہ میں پر وقار اور با اعتماد طریقہ سے اپنی خدمات انجام دے سکیں۔ ملکی ترقی کا تیز کر نے میں لا ئبریری کی سہولتوں اور معلو مات کی فراہمی کے طریقہ کار کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

۱۱۔۱۔۲ کسی بھی ملک کے لئے سب سے ضروری معاشی ذرائع سمجھے جا تے ہیں۔ اکیسویں صدی میں داخل ہو نے کے لئے اطلاعات و معلومات ایک انجن کی حیثیت رکھتے ہیں جو ملک کی معیشت کو چلا نے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ہما رے ملک کی مجموعی آموزش اور بنیادی ڈھانچے کی تکمیل میں لا ئبریریاں اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کی آبادی کو زندگی بھر مہارت اور معلومات کی فرہمی کے لئے طریقہ کار کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کر تی ہیں۔ لا ئبریری محض لو گوں کو مواد کی فراہمی کا طریقہ نہیں بلکہ معاشی سیکٹر میں عوام کی مختلف النوع کی ضروریات کو پورا کر تی ہے۔ معلومات اور اطلاعات کی فراہمی سے قطع نظر لا ئبریریاں ملک کی ثقافت اور تہذیب کا مر کز بھی تصور کی جا تی ہیں۔ لا ئبریری کا ایک مقصد لوگوں میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر نے کا شوق پیدا کرنا ہے۔
۱۱۔۱۔۳ تقابلی جائزہ : ۱۹۹۰ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق پا کستان میں اس وقت ۱۹۳۰ لا ئبریریاں موجود ہیں جس میں ۱۴۰ اکیڈمی اور یونیورسٹی لا ئبریریاں ہیں جہاں کتا بو ں کی تعداد ۳۹ لا کھ ہے(جو پا کستان بھر کی لا ئبریریوں میں پانچویں نمبر پر ہے) جب کہ ۶۸۰ کالجوں میں کتب کی تعداد ۰۰۰،۴۰،۳۶(۳۶ لاکھ ۴۰ ہزار) ہے۔ اسی طرح ۲۸۰ پبلک لا ئبریریوں میں کتا بوں کا ذخیرہ ۲۱۵۰۰۰(۲ لا کھ ۱۵ ہزار) کے قریب ہے جو ملک بھر میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ انتخاب سمجھا جا تا ہے۔اسی طرح ملک کی خصو صی لا ئبریریوں میں ۰۰۰،۵۰۰،۲ (۲۵ لاکھ) کتب موجود ہیں اس وقت ملک بھر کے ۰۰۰،۱۵۰ (ایک لا کھ ۵۰ ہزار) پرائمری اسکولوں میں صرف ۴۸۱ لا ئبریریاں ہیں جہا ں کتب کی تعداد ۸۰۰،۹۸۰ (۹ لاکھ ۸۰ ہزار ۸ سو ) ہے۔ان لا ئبریریوں میں صرف ۳۰ ماہر لا ئبرینز موجودہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر کی ۲۰۰ لا ئبریریوں میں سے۵۰ فیصد تعلیمی اداروں سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ ۲۵ فیصد مخصوص اداروں سے منسلک ہیں، جب کہ ۲۵ فیصد لا ئبریریاں دوسرے قسم کی ہیں۔ پا کستان کی ۱۴ ملین کی آبادی میں اتنی لا ئبریریاں انتہا ئی کم ہیں۔ جہاں نا کا فی سہولتوں کے باعث ان سے فائدہ اٹھا نا ممکن نہیں۔

۱۱۔۱۔۴ ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں ہما ری لا ئبریریاں اور ان کے ذرائع ایک تکلیف دہ تصویر سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ۲۵۴،۳۱ لا ئبریریاں ہیں جس میں دس ہزار اسپیشل لا ئبریریاں بھی شامل ہیں ، کانگریس (امریکہ) کی لا ئبریری میں ۰۰۰،۰۰،۰۰،۹ آئیٹمزموجود ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے اعداد وشمارکے مطابق اسرائیل کی ۵۰ لاکھ آبادی میں ۳۴۱۹ لا ئبریریاں موجود ہیں، تنزانیہ جس کی خام قومی پیداوار ۷۰ ڈالر ہے اس کی حالیہ دیہی لا ئبریریوں کی تعداد ۳۲۰۰ ہے جب کہ ہماری قومی لا ئبریری میں کتب کا انتخاب تقریباً ۰۰۰،۲۵،۱ (ایک لاکھ ۲۵ ہزار ) کے قریب ہے۔ لا ئبریری میں سہولتوں کے فقدان کے باعث ہما رے ملک کے لوگوں میں پڑھنے پڑھانے کی عادت تیزی سے ختم ہو تی جارہی ہے۔ ملک کی ۴۳۰ لا ئبریریوں میں ایک کروڑ ۵۰ لا کھ کے قریب کتب موجود ہیں جو کہ اء ۰ (0.1) فی قاری بنتی ہے۔ جب کہ جاپان میں ایک شہری پا ۵۸ کتب موجود ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں سے اس وقت ۱۴۰ روزنامے شائع ہو تے ہیں جو مختلف زبا نو ں میں ہو تے ہیں جن کی مجموعی سرکو لیشن۱۷۲،۶۴،۳۰ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اخبا ر کو ۱۷ قارئیں پڑھتے ہیں۔ ملک میں لا ئبریریوں کی تعداد اور ان کا استحکا م ملک کی سماجی و معاشی تر قی کی سطح کا ظاہر کر تے ہیں خواندگی کی کو ئی بھی مہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب کہ ملک بھر میں لا ئبریریوں کو منظم طریقہ پر استوار نہیں کیا جا تا۔ اس ضمن میں لا ئبریریوں کا جال بچھانے کے لئے بنیادی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

۱۱۔۱۔۵ تعلیم ‘تحقیق اور تر بیت کے شعبہ میں متعلقہ معلومات کی بر وقت فراہمی کے لئے سازوسامان سے آراستہ ایک بھر پور خود کار قومی دستاویزی مر کز کھولنے کی ضرورت ہے۔ یہ دستاویزی مرکز ملکی ترقی میں شامل دیگر شعبہ جا ت کو معلومات فراہم کے گا۔ اس وقت مختلف قسم کا تحقیقی مواد اور ادنیٰ لٹریچر مختلف تنظیمون کی جانب سے بمشکل حاصل کیا جاسکتاہے اور تحقیق کر نے والے افراد اس وجہ سے کا فی مشکل میں نظر آتے ہیں۔ لہٰذا یہ مرکز محققین ، اساتذہ ، ماہر تعلیم اور طالب علموں کو ایک مر کز میں یہ تما م معلوماتی مواد مہیا کرے گا۔

۱۱۔۱۔۶ مختلف کیٹگری (Category) کے حساب سے ملکی لا ئبریریوں کا مر تبہ درج ذیل ہے:
i) اسکول لا ئبریریاں : اسکول رسمی تعلیم کی بنیاد تصور کیا جاتاہے۔ لہٰذا اس کو معیاری تعلیم کا سب سے اہم دور سمجھنا چا ہیے۔
اسکول کی سطح پر تعلیمی معیار کو بڑھا نے لا ئبریریوں کو وہ اہمیت نہیں دیجاتی جو ان پر واجب ہے۔ ملک بھر کے تقریباً ۸۰ فیصد اسکول لا ئبریری کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے سروے کے مطابق اس وقت ملک بھر کے ۰۰۰،۵۰،۱ اسکولوں میں ۴۸۱ لا ئبریریاں قائم ہیں جہاں قلیل انتخاب ۸۰۰،۸۰،۹ کتب مشتمل ہے۔ ان میں سے بیشتر اسکولوں میں یہ لا ئبریریاں بچوں کی پہنچ سے دور ہو تی ہین جس کی وجہ مخصوص جگہ کی کمی، ماہر اور تربیت یافتہ اسٹاف کا فقدان شامل ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں ۳۰ اسکولوں میں تر بیت یافتہ لا ئبریرینز کی زیر نگرانی کتب خانے موجود ہیں۔
ii) کالج لا ئبریریاں: کالج کی لا ئبریریاں جو ملک بھر کی سب سے بڑی لا ئبریریاں تصور کی جا تی ہیں خراب خدمات ، پرانی کتب اور پڑھنے کے مواد ، غیر موزوں اسٹاف ، نا کا فی مالیاتی وسائل کے باعث مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ مختلف کالجوں اور اداروں میں جہاں پزاروں کی تعداد میں طلبہ داخلہ لیتے ہیں ایک لا ئبریرین پوری لا ئبریری کے انتظام و انصرام کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی کتابوں کو صحیح طریقہ سے رکھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ تمام طلبہ کو ایک ہی جیسی سروس فراہم نہیں کر سکتا۔ اگر طلبہ اور اساتذہ کی تعداد کو بڑھایا جائے تو یہ بھی مدِنظر رکھا جائیلا ئبریری سروس کو بہتر کیا جائے اس وقت ۶۸۰ کالجوں میں ۰۰۰،۴۰،۳۶ کتب موجود ہیں۔ ان میں پانچ سو سے دو لاکھ کے قریب کتب ایک جگہ موجود ہو تی ہیں جن میں سے ۶۰ فیصد کے قریب سائنس ، طب اور ٹیکنالوجی کی کتابیں فرسودہ ہیں۔

iii) یونیورسٹی لا ئبریریاں: اس وقت ملک کی لا ئبریریوں اور ان سے منسلک اداروں میں ۱۴۰ لا ئبریریاں موجود ہیں جہاں ۴۵۲ خدماتی مراکز ہیں جن میں ۰۰۰،۰۰،۳۹ کتب موجود ہیں جو ملک بھر کی لا ئبریریون میں پانچویں نمبر پر سے زیادہ انتخاب شمار کیا جا تا ہے۔ یہ لا ئبریریاں دیگر لا ئبریریوں کے مقابلے میں قدرے بہتر ہیں۔مگر نا کا فی سازوسامان ، مالیاتی ذرائع معلومات اور ٹیکنالوجی تک رسائی نا ہو نے کے باعث پھر بھی اچھی حالت میں نہیں ۔ یونیورسٹیاں اور ان سے ملحقہ ادارے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی جگہ ہو تے ہیں بد قسمتی سے پا کستان میں کیڈمی لا ئبریریاں انتہا ئی شکستہ حالت میں ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے یونیورسٹی لا ئبریریاں فنڈز کی کمی شکار ہیں جس کے باعث نئی کتب اور تحقیقی رسالہ نہیں خریدے جاسکتے۔لہٰذا نئے تحقیقی رسالے، کتابیں ، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سہو لتیں مہیا کر نے کے لئے فنڈز مہیا کئے جائیں گے تاکہ ان کو بر قیا تی میڈیاکیساتھ منسلک کیا جا سکے۔

iv) اسپیشل لا ئبریریاں: آراینڈ ڈی تنظیموں اور ایس اینڈ ٹی کے اداروں میں ۳۳۰ اسپیشل لا ئبریریاں مختلف سطحوں پر کھو لی جائیں گی تا کہ مختلف تنظیموں اور اداروں می اطلاعاتی ضروریات پوری ہو سکیں۔ اس وقت یہ لا ئبریریاں ۰۰۰،۰۰،۲۵ کتابوں پر مشتمل ہیں۔ مگر یہ بھی ذرائع کی کمی سازوسامان اور سہولتوں کے فقدان کے باعث اپنا مطلوبہ معیار برقرار نہیں رکھ سکیں۔ اس ضمن میں ان کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے ضروری اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

v) پبلک لا ئبریریاں : ہمارے یہاں کی پبلک لا ئبریریاں سوائے چند کے انتہائی خراب حالت میں قائم ہیں ۔یہ محض اخبارات اور جرائد پڑھنے کے لئے ریڈنگ روم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حکومت کی اس وقت سب سے اولین ترجیح رسمی اور غیر رسمی تعلیم کو لوگوں میں مقبول بنانا ہے۔ اگر پبلک لا ئبریریوں میں تربیت یافتہ اور ماہر افراد کی زیر نگرانی کا م ہو اور کتب اور دیگر سہولتیں مہیاہوں تو ملک کی سماجی‘ ثقافتی‘سیا سی اور مذہبی رویوں میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں۲۸۰ پبلک لا ئبریریاں ہیں جو ذیا دہ تر شہری علاقوں میں ہیں۔پبلک لا ئبریریاں خود آموزش کے ذریعہ محض خواندگی کو بڑھانے کا ہی ذریعہ نہیں ہیں بلکہ طبقے اور فرد کے لئے معلو ما تی ‘ تعلیمی اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر تی ہیں۔ اس کامیاب پالیسی اور منصو بے پرمنصوبہ ساز افراد اور پالیسی میکرز نے کھبی توجہ نہیں دی۔ لہٰذا سب سے اہم ضرورت اس وقت پبلک لا ئبریریوں کی تعداد کو قانونی اور دیگر طریقوں سے بڑھا نے کی ضرورت ہے تاکہ معلوماتی ذرائع کو ذیادہ سے ذیادہ بڑھایا جا سکے۔

vi) دیہی لا ئبریریاں : ہمارے ملک کی ۶۵ فیصد آ بادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ لا ئبریریوں کی تعداد ان علاقوں میں ناکا فی ہے۔ دیہی علاقوں میں لا ئبریریوں کی اہمیت سے قطع نظر یہ ان علاقوں کے لوگوں کے مطا لعے کی عادت کو پروان چڑھانے میں سازگار ثابت ہو تی ہیں۔ س کے علاوہ بھی مختلف النوع معملات میں بھی طبقے کی دیگر ایجنسیوں کے علا وہ یہ لا ئبریریاں اہم کردار ادا کر تی ہیں۔ یہلا ئبریریاں دیہی افراد میں شعور بیدار کرنے اور ان میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر نے کے لئے مختلف افراد کے درمیان مباحثے اور مذاکرے کا اہتما م کر نے کے ساتھ ساتھ کتب میلے اور مختلف اہم دن کی مناسبت سے مختلف پروگرام اور عورتوں اور بچوں کے لئے معلوماتی فلمیں اورکہانیاں دکھانے کا انتظام کر تی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر لوگوں اور اقوام کے رویے کو بہتر بنا نے اور محا ذ آرائی کی فضاء کو ختم کر نے میں اہم کر دار ادا کر تی ہیں۔ اس ضمن میں لوکل گورنمنٹ دیہی علاقوں میں لا ئبریریوں کی یونین کونسل کو بہتر بنا نے کے لئے کام کرے گی۔محدود ذرائع کے تنا ظر میں دیہی علاقوں میں ان خدما ت کو فوری پر وسیع نہیں کیا جاسکتا لہٰذا اس مقصد کے لئے دیہی اور پس ما ندہ علاقوں میں ہر پچاس ہزار افراد کی آبادی پرایک موبائل لا ئبریری متعارف کرائی جائیگی۔ یہ تجربہ امریکہ اور افریقہ کے چند ممالک میں اس صدی کے اوائل میں کامیابی کے ساتھ چلتا رہاہے۔ یہ موبائل لا ئبریری سروس ۱۹۹۰ء میں لا ہور ڈویژن میں شروع کی جاچکی ہے جو لا ہور کے سات یا آٹھ نیم شہری علاقوں میں اپنے دورے کر چکی ہے۔

vii) نیشنل لا ئبریری آف پا کستان : پاکستان کی آذادی کے ۴۵ سال بعد اگست ۱۹۹۳ء میں نیشنل لا ئبریری کا قیام عمل میں آیا۔ یہ لا ئبریری۰۰۰،۱۲۵ کتب اور ۵۲۵ مخطوطات پر مشتمل ہے۔ کمپیوٹر اور سوفٹ ویئر کی سہولتوں کی فراہمی اب آخری مراحل میں ہے۔ مگر موجودہ صورت حال میں نا کا فی عملے اورمالیات کے باعث انتہا ئی خراب حالت میں ہے۔ترقی کو بڑھانے ‘ پالیسی ‘ پروگروموں اور اس کے کاموں کے دائرہ کار کو بڑھا نے کے لئے ضروریہے کہ اس قانونی طور پر تائید کی ضرورت ہے۔

۱۱۔ ۲ لا ئبریری کے مقاصد اور دستاویزی خدمات:
۱۱۔ ۲۔۱ لا ئبریریاں تعلیمی نظام کا اہم جزو و معا شی و معاشرتی تبدیلی کا اہم عامل ہیں۔ لا ئبریریوں کے ذریعہ عوام الناس میں مطالعاتی ذوق کی ترویج ] معلومات کی فراہمی اور تحقیقی مواد کے بہم پہنچاکر خواندگی کی تحریک کو ترز تر بنانا ۔
۱۱۔ ۲۔۲ الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا میں جدید اطلاتی ذرائع اور وسائل کی اضافی ترسیل کے ذریعہ موجودہ تعلیمی نظام کو تعداد اور معیار کے اعتبا ر سے مزید
بہتر بنانا۔
۱۱۔ ۲۔۳ نوجوانوں اور دیگر افراد کی حوصلہ افزائی اور انہیں خودآموزش اور تعمیری سرگرمیوں کی جانب رغبت دلانے کیلئے یونین کونسل انتدائی سطح پر ملٹی میڈیا لا ئبریریا ں اور انفارمیشن ریسورس سینٹر(Resource Centre)قائم کرے گی۔
۱۱۔ ۲۔۴ معلومات پر مبنی سرگرمیوں کے ذریعہ روداری اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا۔ یہ امر ملک میں بڑھتی ہو ئی فرقہ پرستی کے خاتمے میں بھی مددگار ہوگا۔
۱۱۔ ۲۔۵ لا ئبریری کے ذریعہ تعلیم کے وسیع تر مواقع فراہم کرنا تا کہ سماجی اور جمہوری اقدار کے شعور کے ساتھ ان لوگوں میں مطالعہ کی دادت پختہ ہو سکے۔
۱۱۔ ۲۔۶ قارئین کی ضروریات معلوم کر نے کیلئے سروے ؍مختلف کتب خانو ں کی مطالعاتی جانچ کر ناہوگی تا کہ ان کی کمزوریوں تعین ہوسکے ۔درست منصوبہ بندی اورمناسب انتظاملک میں کتب خانو کے نظام عمل کو استحکام حاصل ہو سکے ۔
۱۱۔ ۲۔۷ لا ئبریر ی و دستاویزی خدمات کو لا ئبریری معیارات اور لا ئبریری قانون کے ذریعہ معیاری اور بہتربنا نا۔
۱۱۔ ۲۔۸ کتب خانو ں میں کھلی ہو ئی المایوں کے نظام (Open Shelve System) کی حوصلہ افزائی کر ناتا کہ قارئین کی معلومات تک رسائی جلد اور آسانی سے ہو سکے۔
۱۱۔ ۲۔۹ ملک میں لا ئبریری تحریک کے فروغ اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو فروغ کے لئے تر بیت یافتہ اور پیشہ ورانہ اعتبار سے اہل لائبریریز پیدا کر نا۔
۱۱۔ ۲۔۱۰ تمام اقسام کے کتب خانو ں کے پیشہ ورانہ عملے کے لئے جامع اور قابل عمل ’’ملازمت کا ڈھانچہ‘‘ (Service Structure) بنانا۔
۱۱۔ ۲۔۱۱ لا ئبریری و انفارمیشن سائنس کواسکولوں ‘ کالجوں اور جامعات کی سطح تک بطورایک مضمون متعارف کرنا۔
۱۱۔ ۳ پالیسی قرار دادیں (Policy Provisions)
۱۱۔ ۳۔۱ خواندگی میں اضافے کے لئے لوگوں کو خود آمو زش اور مطالعے کے وسیع مواقع فراہم کرنا اس مقصد کے لئے بلد یاتی اداروں کے تعاون سے ابتدائی سطح پربہتر سہولتوں سے آراستہ کتب خانو ں کا جال بچھایا جائے گا۔
۱۱۔ ۳۔۲ اسکول ‘ کالج اور یونیورسٹی کے کتب خانوں کو جدید مطالعاتی مواد اور انتظامات سے مزین کر نا۔ الیکٹرانک لا ئبریری کی اضافی سہولت کیلئے ہر لا ئبریری کو انٹر نیٹ سے رابطے کے لئے کمپیوٹر فراہم کئے جائیں گے۔
۱۱۔ ۳۔۳ خصوص کتب خانو ں میں معلومات کی جدید ٹیکنالو جی ، کمپیٹر اور دیٹابیس، سی ڈی روم ٹیکنالوجی وغیرہ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا۔
۱۱۔ ۳۔۴ دور افتادہ دہلات اور نیم شہری علاقوں کے محروم لوگوں کی معلاماتی ضروریات پورا کر نے کیلئے موبائل لا ئبریری سروس کا آغاز۔
۱۱۔ ۳۔۵ ملک میں لا ئبریری سہولتوں کے جامع استعمال کے لئے کثیر رقم مختص کی جائے گی۔
۱۱۔ ۳۔۶ لا ئبریری خدما ت کی موُثر اور بہتر فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے مختلف نوعیت کی لا ئبریریوں جیسے پبلک ‘ خصوصی اور یونیورسٹی ‘ اسکول اور کالج کی لا ئبریریوں کے لئے یکساں معیار تیار کر نا۔
۱۱۔ ۳۔۷ کتب خانے استعمال کر نے والوں کی سہولت کے لئے کتب خانو ں میں کھلی ہو ئی المایوں کے نظام (Open Shelve System) کی حوصلہ افزائی کر نا۔
۱۱۔ ۳۔۸ لا ئبریرینز کی ملازمت کو زیادہ پیشہ ورانہ بنا نے کے لئے ’’ملازمت کا ڈھانچہ‘‘ (Service Structure) بنایا جائے گا۔
۱۱۔ ۳۔۹ اسکولوں ‘ کالجوں اور جامعات کی سطح پر لا ئبریری و انفارمیشن سائنس کوایک مضمون متعارف کرایا جائے گا۔ لا ئبریری سائنس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام شروع کئے جائیں گے۔
۱۱۔ ۳۔۱۰ اسکولوں ‘ کالجوں کے طلباء میں مطالعہ کی عادت پیدا کرنے کی غرذ سے لا ئبریری پیریڈ شروع کئے جائیں گے۔
۱۱۔ ۳۔۱۱ ملک میں کتب خانوں کے باقاعدہ قیام اور ترقی کے نظام ‘ لا ئبریری خدمات اور سہولتوں کو بہتر اور مستحکم بنانا تاکہ یہ عالمی معیار کے مساوی ہو سکیں۔
۱۱۔ ۳۔۱۲ شہریوں کی معلوماتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پانچ ما ڈل عوامی کتب خانے ہر صوبے کے دار الخلافہ میں ایک بشمول اسلام آباد میں مقامی حکومتوں کے تعاون سے قائم کئے جائیں گے۔
۱۱۔ ۳۔۱۳ ملک میں پالیسی کے ایداف کے حصول ، عوامی کتب خانو ں کے نیٹ ورک پر یقینی عمل درآمد اور نگرانی کے لئے پنجاب لا ئبریری فاؤنڈیشن (۱۹۸۵ء) کی طرز پر ایک مکمل ’’فیڈرل لا ئبریری فاؤنڈیشن‘‘(Federal Library Foundation)قا ئم کی جائے گی جو پیشہ ورانہ عملے پر مشتمل ہو گی۔
۱۱۔ ۳۔۱۴ کتب خانوں کے باقاعدہ پھیلاؤ اور قابل برداشت ترقی اور سہولتوں کے لئے مالی ذرائع کو بڑی حد تک بڑھایا جائے گا۔
۱۱۔ ۴ مادی اہداف (Physical Targets)
لائبریریوں کی نوعیت (Nature of Libraries لائبریریوں کی تعداد
اسکول لائبریریاں (۱) پرائمری ۱۴۵۰۰۰
(صرف ۲۰ فیصد اسکولوں کی لائبریریوں بہتر حالت میں ہیں) (۲) مڈل ۱۵۰۰۰
(۳) ثانوی ۱۱۰۰۰
مجموعی تعداد ۰۰۰،۱۷۱
کالج لائبریریاں(آرٹس +سائنس + پیشہ ورانہ کا لج) ۹۷۵
یونیورسٹی لائبریریاں ۳۵
مخصوص؍ شعبہ جا تی لائبریریاں ۱۵۰۰
پبلک ؍دیہی لائبریریاں ( یونین کونسل کی سطح پر) (۱) پنجاب ۲۳۹۳
(۲) سندھ ۶۱۲
(۳) سرحد ۶۵۵
(۴) بلوچستان ۳۱۵
مجموعی تعداد ۳۹۷۵ مو با ئل لا ئبریریاں (ہر ۵۰ہزار آبا دی کے لئے ایک ) ۲۰۰۰
تعلیم کے شعبہ میں قومی دستاویزی مر کز کا قیام لائبریری + ۱ دستاویزی مرکز
( ملک بھر میں مربوط تحقیقی سرگرمیوں کے لئے علمی دستاویزار اورکمپیوٹرائز ڈ خدمات کی فراہمی اور اس کے ذریعے ماہرین تعلیم ‘ محققین ‘ اساتذہ طالب علموں کی معلوماتی ضروریات کی تکمیل)
۱۱۔۵ حکمت عملی کا نفاذ (Implementation Strategy)
۱۱۔ ۵۔۱ تعلیم کے شعبے میں ۰۰۰،۵۰ ہزار تحقیقا تی رپورٹوں پر مشتمل قومی دستاویزی مرکز قائم کیاجائے گا۔
۱۱۔ ۵۔۲ اطلاعات کے قومی وسائل میں تما م لا ئبریریوں کی شرکت کے لئے جامعات کی کی لا ئبریریوں کا انٹر نیت کے ذریعہ نیشنل لا ئبریری آف پا کستان سے رابطہ قائم کیا جائیگا۔
۱۱۔ ۵۔۳مستحق طلباء کو نصابی کتب کی مفت فراہمی کے لئے تما م درسی کتب خانو ں میں بک بینک قائم کئے جائیں گے۔
۱۱۔ ۵۔۴ ملک میں کتب خانو ں کی ترقی اور شعبہ میں پیشہ ور عملی کی خدمات کو بہتر بنا نے ، مالیاتی ضروریات کی تکمیل اور قانونی مددکے لئے ایک ایکٹ کے ذریعہ لائبریری اور انفارمیشن سائنس کی جامع پالیسی وضع کی جائے گی۔
۱۱۔ ۵۔۵ ملک میں لا ئبریری تحریک کے فروغ کے لئے ضروری ہوگا کہ تعلیمی اور عوامی کتب خانوں میں تر بیت یافتہ اور پیشہ ورانہ ماہر لا ئبریرینز کا کیڈر (Cader) قائم کیا جائے۔ مر کزی اور صوبائی حکومتیں پیشہ ورانہ لا ئبریرینز کے منا سب سروس اسٹرکچر(Service Structure) تشکیل دینے کے لئے ضروری اقدامات کریں۔
۱۱۔ ۵۔۶ نیشنل لا ئبریری آف پا کستان کو خاص حیثیت دینے کے لئے نیشنل لا ئبریری ایکٹ (National Library Act)جاری کیا جئے گا۔
۱۱۔ ۵۔۷ دیگر شعبوں اور مضامیں کی طرح لا ئبریری و انفارمیشن سائنس کے شعبہ میں بھی اندرون ملک اور بیرون ملک تعلیم و تر بیت کے اسکالرشپ دئے جائیں گے۔
۱۱۔ ۵۔۸ کتب خانو ں کی ترویج کے لئے عطیات دینے والی ایجنسیوں کے تعاون سے فنڈ(Endowment Fund) مقرر کیا جا ئے گا۔
۱۱۔ ۵۔۹ اساکول ٹائم ٹیبل میں لا ئبریری پیریڈ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
۱۱۔ ۵۔۱۰ لا ئبریری معیارات کی تشکیل اور لائبریری قانو سازی کے لئے ماہرین کی کمیٹی تشکیل(۴) دی جائے گی۔ تر بیتی کورسیز اور سرویز کے لئے امداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
۱۱۔ ۵۔۱۱ سال کی پانچ بہترین لا ئبریریوں اور لا ئبریریز کے لئے ایوارڈ جا ری کئے جائیں گے۔
۱۱۔۵۔۱۲ قارئین کی ضروریات کا تعی کر نے کے لئے مختلف قسم کے کتب خانو مے سروے اور مطالعات کئے جا ئیں گے جو مناسب منصوبہ بندی میں معاون ثابت ہو ں گے۔
۱۱۔۵۔۱۳ کھلے ہو ئی الماریوں کے نظام (Open Shelves System) کی حوصلہ افزائی کے لئے (Write-off)اور (Weeding-Out)کی تفصیلی اورقابل عمل منصوبہ بندی کی جائے گی۔
۱۱۔۵۔۱۴ ملک میں منا سب لائبریری خدمات کے فروغ کے لئے ، پا کستان لا ئبریری نظام کے قابل عمل ڈھانچے ‘ مناسب تنظیم اور تسلی نخش مالی امداد کو قانو نی تحفظ دینے کے لئے لا ئبریری قانون تشکیل متعا رف کرانا ہوگا
۱۱۔۵۔۱۵ وزارت تعلیم میں ا باہم رابطے ، ا نتظامی امور میں مشوروں ، عام معا ملات، قانو ن اور پالیسی کے معاملات کے لئے ایک مکمل اور علیحدہ سیل (Cell)قائم کر نا ہوگا۔
۱۱۔۵۔۱۶ پالیسی کے اہداف کے حصول کے لئے کتب خانوں کا تر قیاتی فنڈ ۰ء۲ فیصد سے مناسب حد تک بڑھانا ہو گا۔
پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے اور کتب خانے (Five Years Development Plans and Libraries) ْٰٓقیام پا کستان کے سات سال بعد حکومت نے باقاعدہ ترقیاتی پروگراموں کی منصوبہ بندی کی اور ایک تسلسل کے ساتھ ترقیا تی منصوبے تشکیل دئے جارئے ہیں ۔ ۱۹۵۵ء سے ۲۰۰۳ء تک نو ترقیاتی منصوبے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ ان ترقیاتی منصوبوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کتب خانوں اور لا ئبریری تحریک کے فروغ کیلئے کیا منصوبہ بندی کی گئی،ملک کے منصوبہ سازوں نے کتب خانوں کو کیا مقام دیا۔ اس کا اندازہ ان منصوبوں کے جائزے سے بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔ ذیل ۔

۱۔ پہلا ترقیاتی منصوبہ ۶۰۔۱۹۵۵ء (۲۲) (First Five Year Plan 1955-60)
پہلا ترقیاتی منصوبہ ۱۹۵۵ء تا ۱۹۶۰ء کے دور کے لئے بنا یا گیا تھا۔ اس منصوبے میں کتب خانوں کو خاطر خواہ اہمیت نہیں د یگئی اور نہ ہی ملک میں لا ئبریری خدمات کی شروعات کے لئے کوئی تجویز شامل کی گئی(۲۳)۔ البتہ باب ۳ میں ٹیچر ٹریننگ و ایجوکیشن ریسرچ کے تحت ملک میں جامعات کے حوالے سے صرف اس با ت پر اکتفا کیا گیا کہ ’’ ملک میں چھ میں سے چار جامعات ( راجشاہی ، پشاور ، حیدرآباد ، کراچی) ابتدائی دور میں ہیں اور پرانی لاہور اور ڈھاکہ کو بھی ترقی دینا ہو گی ۔ ان کی اولین ضرورت اسٹاف ‘ سازوسامان ‘ لیباریٹری اور لا ئبریریز کو بہتر بنانا جائیگا (۲۴)۔

۲۔ د و سرا ترقیاتی منصوبہ ۶۵۔۱۹۶۰ء (۲۵) (Second Five Year Plan 1960-65)
دوسرا پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ پہلے منصوبے سے مختلف نہ تھا۔ اس منصوبے میں بھی کتب خانو ں کے قیام یا لا ئبریری تحریک کے لئے کو ئی تجویز نہیں تھی ۔ یونیورسٹیز کے تحت لا ئبریری ‘ اسٹڈی روم اور دیگر ضروری عمارات کی تعمیر یی ضرورت پر زور دیاگیا(۲۶)۔

۳۔ تیسرا ترقیاتی منصوبہ ۱۹۶۵ء۔ ۱۹۷۰ء(۲۷) (Third Five Year Plan 1965-70)
اس منصوبہ میں پہلی بار کتب خانو ں کی اہمیت کو محسوس کیا گیا کہ ’’ لا ئبریری کسی بھی تعلیم ادارے کے دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہت سے کالجوں میں کتب خانے خراب حالت میں ہیں۔اس سمت میں شدید تگ و دو کی ضرورت ہے۔ کتب خانو ں میں معیاریاور جدید کتب، تحقیقی نوعیت کے رسائل وجرائداور دیگر علمی مواد وافر تعداد میں ہونا چاہیے۔ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ لا ئبریرینز بھرتی کئے فائیں۔ کتابوں اور دیگر مواد تک رسائی تیز ‘ آسان اور کھلی الماریوں میں کتابوں کے رکھنے کا نظان متعارف کیا جائے۔ لا ئبریری اور مطالعا تی مراکز میں مطالعہ کی سہولت کالج کے اوقات کے بعد بھی فراہم کی جائے(۲۸)۔

۴۔ چوتھا ترقیاتی منصوبہ ۱۹۷۰ء۔۱۹۷۵ء(۲۹) (Fourth Five Year Plan 1970- 75)
اس ترقیاتی منصوبے میں کتب خانو ں کی ترقی اور لا ئبریری تحریک کے فروغ کے لئے متعدد اقدامات تجویز کئے گئے اور تفصیل کے ساتھ ’’ لا ئبریری خدمات ‘‘ کے عنوان سے کتب خانوں ‘ لا ئبریری سائنس کی تربیت اور لا ئبریرینز کے موضوع پر با ت کی گئی۔
۱۲۲ : ملک میں کتب خانوی خدمات (Library Services) بڑی حد تک نا کا فی ہیں۔ کئی کتب خانے قومی زبان میں معیاری کتب کی عدم دستیابی ، تربیت یافتہ لا ئبریرین کی غیر موجود اور منا سب مالی وسائل کے نہ ہو نے کی وجہ سے استعمال میں نہیں آرئے۔ ملک میں بہتر لا ئبریری خدما ت کے لئے ادامات کر نا ہو ں گے۔
۱۲۳ : عام طور پر صوبا ئی حکومتیں تعلیمی اداروں کو لا ئبریری گرانٹ کے طور پر مالی امداد فراہم کر تی ہیں۔ کتب خانوی خدما ت کی ترقی کے لئے وزارت تعلیم کے تحت ڈائیریکٹریٹ آف آرکائیوز و لا ئبریریز قائم ہے۔ اسے چا ہیے کہ وہ صوبوں کو بہتر کتب خانوی خدما ت کی تنظیم میں اپنی خدمات فراہم کرے۔
۱۲۴ : صوبوں میں ڈسٹرکٹ ، ذیلی ڈسٹرکٹ اور تھانہ وہیڈ کواٹر س میں عوامی کتب خانوں کے قیام کے لئے کچھ اداما ت کئے گئے ہیں ۔ پاکستان کی بعض جامعات میں لا ئبریری سائنس میں ڈپلومہ ‘ ڈگری اور سرٹیفیکیٹ کورسیز شروع کئے ہیں۔ امید ہے کہ چوتھے منصوبہ کے اختتام تک شہر اور
دیہات میں ملازمت کے لئے کافی تعدام میں پیشہ ورانہ لا ئبریرینزموجود ہوں گے۔ لا ئبریرینز کی تربیت کو وسیع کر نے کی ضرورت ہے۔
۱۲۵ : ہر ڈسٹرکٹ ااسکول اتھارٹی لوکل باڈیز کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہاں ایک لا ئبریری مناسب تعداد میں کتابوں اور دارالمطالعہ کے ساتھ موجود ہو۔ عوامی کتب خانوں کے مابین کتابوں کے باہمی تبادلے کا نظام بھی قائم کیا جاسکتاہے۔ تر بیت یافتہ لا ئبریرینز کی ایک جماعت ملک میں لا ئبریری خدمات کو منظم کر سکتی ہے۔
۱۲۶ : بچوں کا ادب ، ناول ، مہماتی ادب ، لوک ادب ، رسائل و جرائد ہمارے نوجوان قارئیں کے لئے مہیا ہو نا چاہیے۔ غیر معیاری غیر ملکی کتابیں ، مضحکہ خیز مواد ، جنسی رسائل کے لئے ان کی کشش کو معیاری اور مفید بچون کے ادب سے بدلنا ہوگا۔ مذید برآں شہروں اور گاؤں میں کتب خانو ں کے ایک نیٹ ورک کے ذریعہ مفید اور دلچسپ مواد فراہم کیا جا سکتا ہے۔ عوام الناس میں مطالعہ کی دادت پیداکر نے کے لئے دیہی علاقوں میں موبائل لا ئبریری سروس شروع کی جاسکتی ہے۔ملک میں توسیعی لا ئبریری خدمات کی فراہمی کے لئے ترقیاتی منصوبہ میں ما لی وسائل فراہم کئے گئے ہیں(۳۰)۔اس منصوبہ میں سماجی و ثقفتی سر گرمیوں مشمول لا ئبریری خدمات کے لئے ۱۲۱ ملین کی رقم رکھی گئی تھی ۔ لیکن اس یہ و ا ضح نہں تھا کہ کتب خانو ں پر کس قعر رقم خرچ کی جا ئیگی (۳۱)۔

۵۔ پانچواں ترقیاتی منصوبہ ۱۹۷۸ء۔۱۹۸۳ء(۳۲)(Fifth Five Year Plan 1978. 83)
یہ پہلا ترقیاتی منصوبہ ہے جس میں پرائمری اسکولوں میں کتب خانوں کے قیام کی تجویز سامنے آئی اور کتب خانوں کے لئے ۳۶ ملین روپے کی رقم مختص کی گئی۔ منصوبہ میں کہا گیا تھا کہ ’’ منصوبہ کے دنوں میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ ابتدا میں محدود تعداد میں اضافی (Supplementary) قارئین پیداکر نے کیلئے پرائمری اسکولوں میں چھوٹے کتب خانے قائم کئے جا ئیں۔ پرائمری اور مڈل اسکولوں میں لا ئبریری کی کتابوں کے صحیح استعمال اور تنظیم کو یقینی بنا نے کے لئے اسکولوں کے اسا تذہ کے لئے چھوٹے کتب خانو ں کی تنظیم و ترتیب اور استعمال کی بنیادی معلومات پر مبنی تربیت کے پروگرام تشکیل دئے جائیں۔ پاکستان کے قومی کتب خانے کا زیر تکمیل منصوبہ مکمل ہو گا۔ صوبوں کے اہم اور بڑے کتب خانو ں کو تر قی دیجائیگی۔ ایک پزار گاؤں میں (Community Oriented Libraries) تعلیم بالغان کے تکمیل شدہ پروگرام کی مدد کے لئے قائم کئے جائیں گے(۳۳)۔ تعلیم بالغان کے پروگرم میں معا ونت کے لئے ایک سو دیہی کتب خانو ں کا قیام بھی منصوبہ میں شامل تھا۔

۶۔ چھٹا ترقیاتی منصوبہ ۱۹۸۳ء۔۱۹۸۸ء (۳۴)(Sixth Five Year Plan 1983-88)
منصوبہ کا باب ۱۸ بعنوان تعلیم۔ انسانی وسائل کی ترقی میں اہم سرمایہ کا ری کے تحت اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے کے حوالے سے ’’لا ئبریری کی سہولتیں ‘‘ کے عنوان سے تجویز کیا گیا کہ پبلک لا ئبریریوں کا ایک نظام قائم کیا جائے۔ ان سفارشات کے مطابق جو وزیر خزانہ کی سرابراہی میں کابینہ کمیٹی کی طرف سے آئی ہیں ۔ قومی لا ئبریری ما منصوبہ جس پر کا م ہو رہا ہے محدود نوعیت کا ہے اس امر کا از سر نوجائزہ لیا جارہا ہے کہ قومی لا ئبریری دنیا کے بہترین اداروں کر طرز پر قائم کی جا ئے تاکہ یہ موجودہ نسل کی دور رس نظر کو مستقبل مزاج پیش کر سکے‘‘ (۳۵)۔

۷۔ ساتوں ترقیاتی منصوبہ ۹۳۔۱۹۸۸ء (۳۶) (Seventh Five Year Plan 1988-93)
منصوبہ کے باب ۲۹ میں ’’لا ئبریری خدمات‘‘ (Library Services) کے تحت کہا گیا کہ ’ ساتواں منصوبہ عوامی اور تعلیم (Institutional) لا ئبریریز کی ترقی کے لئے مناسب رقم مہیا کریگا۔ عوامی کتب خانوں کا نظام جو چھٹے منصوبہ میں تجویز کیا گیا تھاکو ساتویں پلان مین فوقیت دیجائیگی۔یشنل لا ئبریری کی عما رت مکمل ہو گی اور اسے متعلقہ محکمہ کی تحویل میں دیدیاجا ئیگا۔ چلڈرن لا ئبریری کمپلیکس لا ہورمکمل ہو گا۔ عوامی کتب خانوں کی ترقی کی اسکیم جو لوکل باڈیز کے تحت موجود ہے کو عملی جامہ پہنایا جائیگا۔ دینی مدارس کے کتب خانوں ککو بہتر بنایا جئیگا۔ صوبہ سر حد میں خوشحال خان خٹک لا ئبریری قائم کی جائیگی۔ سائن و ٹیکنالوجی کی معیاری ککتب کی حوصلہ افزائی کر تے ہو ئے انہیں اردو زبا ن میں ترجمہ کر کے لا ئبریریز میں تقسیم کیا جا ئے گا (۳۷)۔

۸۔ آٹھواں ترقیاتی منصوبہ ۹۸۔۱۹۹۳ء (۳۸) (Eight Five Year Plan 1993-98)
حکومت نے ساتویں منصوبہ میں عوامی اور تعلیم کتب خانو ں کے قیام ان کے لئے مالی وسائل مہیا کر نے کے ساتھ ساتھ ملک میں عوامی کتب خانے کا ایک نظام قائم کر نے کی بات می تھی لیکن اا منصو بہ میں حکومت نے کتب خانو ں کے سلسلے میں بالکل خامو شی کا مظاہرہ کیا۔ البتہ جامعات میں کتابوں اور رسائل کی خریداری ے لئے اقرا فنڈ سے بڑی رقم رکھی گئی(۳۹)۔

۹۔ نواں ترقیاتی منصوبہ ۲۰۰۳ء۔۱۹۹۸ء (۴۰) (Ninth Five Year Plan 1998-2003)
جدید حالات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور کی منسبت سے اس منصوبہ میں دیگر باتوں کے علا وہ کتب خانوں میں جدید سہولیات مثلاً انٹر نیٹ ، ای میل کی سہولیات فراہم کر نے کی تجویز شامل ہے۔ منصوبہ میں یونیورسٹی کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ ’’ کتب خانے کو بین القوامی معیار کے مطابق بنایا جائے۔ یہ نہ صرف کتابوں ‘ رسائل اور جدید سمعی و بصری مواد سے آراستہ ہوں ، ساتھ ہی یہ تیز رفتاری سے کا م کریں اور زیا عہ وقت کے لئے کھلے رہیں۔ کتب خانو ں میں انٹر لا ئبریری لون(Inter Library Loan) کا نظام متعارف کرایا جا ئے۔ لا ئبریریز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھی متعارف کرایا جائے ۔ انٹر نیٹ ‘ ای میل اور (Electronic Inter-link) کی سہولیات کتب خانو ں میں مہیا کی جائیں(۴۱)۔

حاصل مطالعہ و تجاویز
قومی تعلیمی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں کے مطالعہ سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ حکومتوں نے تعلیمی پالیسیوں اور تر قیاتی منصوبوں میں کتب خانوں کو وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ ابتدائی سالوں کی حکومتوں نے تو انہیں برائے نام ہی اہمیت دی جس کے نتیجے یہ شعبہ ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوگیا۔ ۱۹۷۲ء میں قائم ہونے والی حکومت نے پہلی مرتبہ ملک میں ۵۰ ہزار عوامی کتب خانے قائم کرنے کا اعلان تو کیا لیکن اس پر عمل ممکن نہ ہوا۔ قومی تعلیمی پالیسی جس پر اس وقت عمل درآمد ہورہا ہے ایک اعتبار سے کتب خانوں کی ترقی کے لیے اپنے اندر گنجائش رکھتی ہے لیکن اس پالیسی پر عمل درآمد کو نو سال ہوچکے ہیں کتب خانوں کی ترقی کے لیے کی گئی سفاشات پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔ گو یہ پالیسی ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۰ء تک کے لیے بنائی گئی تھی موجودہ حکومت نے اب نئی تعلیمی پالیسی تشکیل دینے کی عملی کوششیں شروع کر دی ہیں لیکن یہ تاحال ابتدائی مراحل میں ہیں۔ حکومت کے منصوبہ سازوں کو چاہیے کہ وہ کتب خانوں کی اہمیت کے پیش نظر ان کی ترقی اور فروغ کے لیے سابقہ پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے ، موجودہ ضروریات اور جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسی تر تیب دیں۔

ہمارے ملک میں بنیادی مسئلہ منصوبوں، پالیسیوں اور قوانین پر عمل در آمد کا ہے۔ منصوبے، پالیسیاں اور قوانین تو بن جاتے ہیں لیکن ان پر عمل در آمد کی نوبت نہیں آتی۔ موجودہ تعلیمی پالیسی جو گزشتہ نو سال سے قابل عمل ہے کم از کم کتب خانوں کے لیے جو باتیں اس پالیسی میں کہیں گئیں ہیں ان پر دس فیصد بھی عمل در آمد نہیں ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی پالیسی، منصوبہ یا قانون تشکیل پائے اس پر حقیقی طور پر عمل در آمد کیا جائے۔

حوالہ جات
۱۔ نجمی ‘ صفدر علی ۔ قائد اعظم کا تصور تعلیم اور پاکستان۔ کراچی : یونیورسل پبلشرز، ۲۰۰۱ء ، ص ۔ ۱۹۴
2. Pakistan. Ministry of Education and Scientific Research. The New Education Policy .of the
Government of Pakistan.Islamabad: The Ministry, 1970.
3. Samdani, Rais Ahmed. Education Policy 1992-2002 and Libraries. Pakistan Library Bulletin.
25(102): January -June 1994. p. 11.
4. Sabzwari, Ghaniul Akram. The New Education Policy (Editorial). Pakistan Library Bulletin. 1(4):
June 1969.
5. Pakistan. Ministry of Education. The Education Policry (1972-1980)/ Islamabad: The Ministry,
1972.
6. Samdani, Rais Ahmed. Education Policy 1992-2002 and Libraries. op. cit. p. 11
۷۔ محمد زبیر۔ تعلیمی پا لیسی ۔ ایک جائزہ۔ پا کستان لا ئبریری بلیٹن۔ ۵(۱۔۲): ستمبر ۔ دسمبر ۱۹۷۲ء۔ ص۔ ۹۸
8. Qamar Mirza. Some Reflection on the New Education Policy. Pakistan Library Bulletin. 5(1-2):
Sept.-December 1972.p.8
9. Hanif, Shaikh Muhammad. People's Public Libraries and New Education Policy. Pakistan Library
Bulletin. 5(1-2): Sept.-December 1972.p.22
10. Resolution No. 1. Quoted in., Pakistan Librarianship (1970-71, the proceeding of the 8th annual
coference of the Pakistan Library Association, January 22-24, 1971 held at Karachi/ed. by
Anis Khurshid.- Karachi: Pakistan Library Association,1972. p.435
11. Sabzwari, Ghaniul Akram. The New Education Policy (Editorial). Pakistan Library Bulletin. 5(1-2):
September- December. 1972.
12. Pakistan. Ministry of Education. National Eduycation Policy and Implementation Programme.
Islamabad: M. O. Ed. , 1979.
13. Pakistan. Ministry of Education. Draft Work Plan for implementation of the National Eduycation
Policy. Islamabad: The Ministry, 1978.
14. Samdani, Rais Ahmed. Education Policy 1992-2002 and Libraries. op. cit. p. 11-12.
15. Naqvi, Z. H. National Education Policy and Academic Library. Pakistan Library Bulletin. 12 (2) :
19-25. June 1981.
16. Pakistan. Government of , Ministry of Education. The Education Policy 1992-2002. Islamabad: The
Ministry, 1998.
17. Ibid. p.25-27
18. Ibid. p. 35.36
18. Ibid. p. 42.
19. Pakistan. Government of . Ministry of Education. National Education Policy اقرا
1998 - 2010. Islamabad: The Ministry, 1998.
۲۰۔ ایم ایچ شباب ۔ خط مورخہ ۲۵ فروری ۱۹۹۸ء بنام رئیس احمد صمدانی۔ (خط راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے)
21. Pakistan Bibliographical Working Group. Proposals for New Education Policy
1998-2010. Karachi: Ministry of Education. (Mimeo).
22. Pakistan, Givernment of , National Planning Board. The First Five Year Plan
1955-60. KarachiL The Planning Board. 1957. 652p.
23. Saify, Obaidullah. Five Year Plan and Libraries. Pakistan Library Review. 1(1):
March 1958. p. 31
24. Thee First Five Year Plan 1955-60. op. cit. p. 52
25. Pakistan, Givernment of , Planning Commission. The Second Five Year Plan
1960-65. Islamabad: The Commission. June 1960. 414p.
26. Ibid. p. 349.
27. Pakistan, Givernment of , Planning Commission. The Third Five Year Plan
1965-70. Islamabad: The Commission. June 1950. 517p.
28. Ibid. p. 202-03.
29. Pakistan, Givernment of , Planning Commission. The Fourth Five Year Plan 1970-
75. Islamabad: The Commission. Ju;y 1970. 574p.
30. Ibid. p. 167
31. Chaudhry, Shafiqur Rehman. The 4th Five Year Plan and the School Libraries in
Pakistan. In., Pakistan Librarianship: 1970-71, the Proceeding of the 8th Annual
Conferecne of the Pakistan Library Association, January 22-34 , 1971 held at
Karachi/ed. by Anis Khurshid.-Karachi: Pakistan Library Association. 1972. p. 151.
32. Pakistan, Givernment of , Planning Commission. The Fifth Five Year Plan 1978. 83.
Islamabad: The Commission. June 1978. 266p.
33. Ibid. pp. 157-158
34. Pakistan, Givernment of , Planning Commission. The Sixth Five Year Plan
1983-88. Islamabad: The Commission. October 1983.
۳۵۔ پاکستان ‘ حکو متِ ۔ منصوبہ بندی کیمشن۔ چھٹا پنجسالہ منصوبہ: ۸۸ ۔ ۱۹۸۳ء؍ اسلام آباد: کمیشن ، اکتوبر ۱۹۸۳ء۔ ص۔ ۳۸۰
36. Pakistan, Givernment of , Planning Commission. The Seventh Five Year Plan
1988-93. Islamabad: The Commission, 1988.
37. Ibid. p. 253.
38. Pakistan, Givernment of , Planning Commission. The Eight Five Year Plan
1993-98. Islamabad: The Commission. June 1994.
39. Ibid. 319
40. Pakistan, Givernment of , Planning Commission. The Ninth Five Year Plan
1998-2003. Islamabad: The Commission. 1999.
41. Ibid.pp. 68-69.
Published in
Pakistan Library & Information Sciecne Journal PLISJ,
V.38, No.2, June 2007, Page: 5-23
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1283937 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More