امن کا پیغام۔۔۔ لیکن کس کے نام؟

ایک طرف حکومت تحفظ پاکستان جیسے متنازعہ ارڈیننس اسمبلی میں پیش کرنے کی خواہش رکھتی ہے تو دوسری طرف اس ارڈیننس کے حوالے سے مختلف اعتراضات اور خدشات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ان خدشات ظاہر کرنے والوں میں دیگر طبقات کے علاوہ مدارس کے منتظمین بھی شامل ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت مختلف حیلے بہانوں اور اصلاحات کے نام پر مدارس کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی لیے وفاق المدارس جو کہ دیوبند مدارس کا نمائندہ تنظیم ہے کھل کر میدان میں آچکا ہے اور اس حوالے سے وفاق نے اب تک پنجاب کے شہر ملتان، سندھ کے شہر کراچی، بلوچستان کے شہر کوئٹہ اور خیبر پختون خواہ کے پشاور میں پروگرام بھی منعقد کیں ہیں۔ باقی شہروں میں اس حوالے سے جو اجتماعات یا جلسے منعقد ہوئے اس بارے میں تو خیر آنکھوں دیکھا حال بتانے سے میں اس لیے قاصر ہوں کہ میں ان میں موجود نہیں تھا۔ لیکن سندھ ریجن کے لیے اس سلسلے کا جو اجتماع ’’ پیغام امن و عظمت مدارس دینیہ،، کے عنوان سے ملک کے معروف تعلیمی ادارے جامعہ دارالعلوم کراچی میں ہوا۔ میں اس میں شریک رہا۔ اس کانفرنس میں کیا باتیں ہوئی اور منتظمین نے کس جوش و جذبے کے ساتھ مدارس کے تحفظ کرنے کا اعادہ کیا۔ یہ میرے آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میرے ذہن میں جو دیگر باتیں ہیں۔ وہ قارئین سے شئیر کروں تاکہ کسی نہ کسی طرح یہ باتیں منتظمین وفاق کی نظروں سے گزریں۔

جیسا کہ آپ جانتے ہے کہ سندھ سطح پر ہونے والے کانفرنس کا عنوان تھا’’ پیغام امن و عظمت مدارس دینیہ،، لہٰذا اس پیغام ہی سے لگ رہا تھا کہ اس کانفرنس میں جو گفتگو ہوگی وہ اسی پیغام امن کے بارے میں ہوگی تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں مدارس کے حوالے سے مختلف حلقوں یا اداروں کی جانب سے جو غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ہیں۔ اس کا ازالہ ہوجائے اور ان کو معلوم ہوجائے کہ مدارس کس طرح بنا کسی لالچ کے ملکی عوام اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کا جس جانفشانی کے ساتھ خدمت و حفاظت کررہا ہے۔ اس حوالے سے قابل قدر مقررین حضرات نے بالخصوص وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری نے نہ صرف مدلل تقریر کی۔ بلکہ انہوں نے مختلف اعداد و شمار کے ذریعے پاکستان کے دینی مدارس کا موازنہ دنیا کے دیگر دینی مدارس اور پاکستان کے عصری تعلیمی اداروں سے کیا اور یہ ثابت کردیا کہ کس طرح انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے پاکستان کے دینی مدارس باقی تعلیمی ادروں سے سبقت لیئے ہوئے ہیں۔ گوکہ پروگرام میں شریک تمام محترم مقررین نے باتیں تو بڑی اچھی اور مفید قسم کے کردی تھیں لیکن میرے خیال میں اس کا وہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا جس کا ان دنوں مدارس سمیت تمام محب وطن لوگوں کو ضرورت ہے۔ یہ فائدہ کیوں حاصل نہیں ہوسکے گا؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے دو وجوہات ہیں۔ (1) پروگرام منتظمین نے عام لوگوں کو اس کانفرنس میں مدعو نہین کیا تھا حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس سلسلے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نامور شخصیات کے سوا عام لوگوں کو بھی اس کانفرنس میں شریک کرنے کا اہتمام کرتے اور جامعہ کی جس جگہ پر اس اجتماع کا انعقاد کیا تھا اسکے بجائے دارالعلوم کے وسیع و عرض گراؤنڈ میں اس کا اہتمام کرتے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ معاشرے کے با اثر شخصیات آپ کے کردار اور اپ کے نظم و نسق کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو پھر شائد ان کو حقائق جھٹلانے میں اتنی آسانی نہ ہوتی۔ دوسرا فائدہ عام لوگوں کی شرکت سے یہ ہوتا کہ ایک رائے عامہ آپ کے حق میں ہموار ہوتا۔ اور رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنا جتنا آج ضروری ہوچکاہے اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ (2) پروگرام میں میڈیا کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ حالانکہ ابلاغ کی اہمیت کے بارے میں ہمارے بزرگ ہمیشہ قائل رہے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ اتنے بڑے پروگرام کے لیے میڈیا مدعو کیون نہیں کی گئی۔ جہاں تک بات ہے چند اخبارات کے نمائندگان کی شرکت کا تو عرض یہ ہیکہ اسلامی اصولون کے تحت صحافت سے منسلک ادارے تو ویسے بھی آپ کے ساتھ ہوں گے کیونکہ ان کا منشور انہیں اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ وہ اتنے اہم پروگرام کو نظر انداز کریں۔ لیکن ضرورت اس کا تھا کہ آپ ان کو بلاتے جو پروپیگنڈے کے اس جنگ میں آپ کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ تاکہ انہیں معلوم ہوتا کہ ہم جو پروپیگنڈہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ حقیقت بہر حال اس کے برعکس ہے۔ لیکن بدقسمتی سے منتظمین نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی یا توجہ دینا ضروری نہیں سمجھی۔ اور پروگرام میں 98 فیصد وہ لوگ شریک رہے جو مدارس سے وابستہ ہیں اور جنہیں اپنے بارے میں صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت تھی ہی نہیں کیونکہ یہ لوگ تو نہ صرف مدارس کے روشن کردار کے کھلے دل سے معترف بھی ہے اور امید کی شمع جلانے میں حصہ دار بھی۔ بہر حال ان چند پہلوؤں پر توجہ نہ دینے کہ باوجود بھی کراچی کا یہ پروگرام بہت شاندار رہا۔ اور امید ہے کہ اگے چل کر ہمارے معزز علماء کرام ان پہلوؤں پر بھی بھر پور توجہ دیں گے۔ انشاء اﷲ۔ اخر میں اس دعا کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ اﷲ کریں مدارس کے یہ گلشن یونہی تاقیامت تروتازہ رہے آمین۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 106052 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More