حلال و حرام اور اسلام کی معاشی اقدار

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اسلامی نظام حیات نے ایسی جامع اقدارمتعارف کرائی ہیں جو اس پورے نظام کا خاصہ ہیں اور اس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلامی تصورزندگی کا وہ سیاسی نظام ہو کہ اقتصادی ڈھانچہ،مذہبی رسومات ہوں یا پھر معاشرتی روایات کا مجموعہ یا مجرد انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تعمیر کے منفرد زاویے ہوں یا پھر تعلیمی سرگرمیوں کامرکزومحور ہو،غرض یہ اقدارایسے شاہ کلید ہیں جن سے پورے نظام کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں جن جن مسائل کے بڑے بڑے سے تالوں کے سوراخ میں گھماتے رہیں وہ تالے چشم زدن میں کھلتے نظرآتے ہیں۔انسانی زندگی کی بے پناہ الجھی ہوئی معاشی واقتصادی ڈورکا بھی ایک سرا اگر ان گرانقدراقدارکے ہاتھ میں تھما دیا جائے تووہ سارے گنجل ایک ایک کر کے کھلتے اور سلجھتے چلے جائیں جنہیں صدیوں سے انسانی عقل نے سلجھانے کی فکر میں اس قدر الجھادیاہے کہ بظاہر ان کا کوئی حل نظر ہی نہیں آتااور اگرایک طرف سے کوئی سلجھاؤ کی صورت بنتی ہے تو چاروں دیگراطراف اسے مزید گنجلک تر کر دیتے ہیں اور اس دلدل میں انسان ناک تک اتر کر قبر میں سدھارجاتاہے اور منوں مٹی اگلی نسل کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔

حلال و حرام،جائزوناجائز،درست اور غلط اور پسندیدہ و ناپسندیدہ یہ سب انسانی تہذیب و تمدن کے معیارات ہیں جو پہلے انسان کے ساتھ اس زمین پر اترے تھے اور آخری انسان تک اسکے ساتھ رہیں گے۔کوئی تہذیب ہو،کوئی تمدن ہو ،کوئی مذہب ہو یا کسی طرح کا نظام اخلاق و عمل ہو وہ جائزوناجائز اور صحیح و غلط کے بغیر نامکمل ہے ۔اﷲ تعالی نے انسان کی فطرت کے اندر برائی اور بھلائی لکھ دی ہے اور ہر انسان پیدائشی طور پر ان دونوں راستوں پر چلنے کی صلاحیت رکھتاہے۔انسانی تہذیب اس کے اندر سے بدی کے عنصر کو ناپیدکرنے کی کوشش کرتی ہے اور بھلائی کے جذبے کو پروان چڑھاتی ہے ۔بدی کے اندر ظاہری کشش ہے جبکہ قدرت نے انسان کو فطری طور پر نیکی کی طرف مائل رکھاہے ،چنانچہ بچہ جو فطرت سے قریب تر ہوتاہے وہ نیکی کی طرف الطفات رکھتاہے جبکہ دنیامیں بدی کی کشش دیکھ کر پھر اسکی طرف بھی کھنچاچلاجاتاہے۔دنیاکی تمام تہذیبوں میں نیکی اور بدی کے معیارات یکساں نہیں ہیں لیکن پھر بھی بعض شعائر عالمی انسانی حیثیت رکھتے ہیں مثلاََ سچ اور جھوٹ،ایمانداری ور بے ایمانی اور حسن خلق وغیرہ ۔چنانچہ اخلاق محمودہ کو تمام تہذیبوں نے جائزاور حلال قرار دیا جب کہ اخلاق رزیلہ کودنیاکے تمام تمدنوں نے ناپسندیدہ اور ممنوع قرار دیاہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:
حلال و حرام اور قرآنی آیات:
’’اﷲ تعالی نے تجارت کو حلال قراردیاہے اورسودکوحرام،لہذاجس شخص کواس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے تو آئندہ کیے سود خوری سے باز آجائے۔‘‘2سورۃ بقرہ آیت275
’’اے لوگوجوایمان لائے ہو جوپاکیزہ چیزیں اﷲتعالی نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلواور حد سے تجاوز نہ کرو ،اﷲ تعالی کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔جو کچھ حلال و طیب رزق اﷲ تعالی نے تم کو دیاہے اس میں سے کھاؤ پؤاور اس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہوجس پرتم ایمان لائے ہو۔‘‘5سورۃ مائدہ آیات87,88
‘‘لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیاحلال کیاگیاہے ،کہوتمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں،اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایاہو،جن کوخداکے دیے ہوئے علم کی بناپر تم شکار کی تعلیم دیاکرتے ہو،وہ جس جانور کو پکڑ کر رکھیں اس کو بھی تم کھاسکتے ہو،البتہ اس پر اﷲ تعالی کا نام لے لو اور اﷲ تعالی کا قانون توڑنے سے ڈرو ،اﷲ تعالی کو حساب لیتے دیرنہیں لگتی۔‘‘5سورہ مائدہ آیت4
’’اﷲ تعالی کی طرف سے کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ کہ مردارنہ کھاؤ،خون اور سور کے گوشت سے پرہیزکرواور کوئی ایسی چیزنہ کھاؤ جس پر اﷲ تعالی کے علاوہ کسی اور کا نام لیاگیاہو،ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیزکھالے بغیراس کے کہ وہ کوئی قانون شکنی کاارادہ رکھتاہو یاضرورت کی حد سے تجاوزکرے تواس پر کچھ گناہ نہیں اﷲ تعالی بخشنے والااور رحم کرنے والا ہے۔‘‘2سورۃ بقرہ آیت173

حلال حرام کی پابندی کے بغیر انسانی معیشیت جنگل کے قانون سے بھی بدتر ہوسکتی ہے،اس لیے کہ ہوس نفس،لالچ،طمع ،حرص اورخود غرضی کی تو کوئی انتہا نہیں۔اگر انسان کو حلال و حرام اور جائزوناجائز کی پابندی کے بغیرکھلاچھوڑ دیاجائے تو وہ ایسا معاشی درندہ بن جائے کہ دوسرے کے لیے کچھ چھوڑنے کی بجائے دوسرے کو ہی کھاجانے کی فکر میں غلطاں رہنے لگے۔بیسویں صدی کے نصف آخر کا معاشی نظام اسکی بہترین مثال ہے کہ عالمی وبین الاقوامی ساہوکاروں نے دنیاکی دولت سمیٹ لی اور غریب ملکوں کے ہاں سوائے غربت و افلاس و جہالت کے کچھ نہ بچااور افریقہ کے اندر سامراج کی افواج نے ایک ایک دن میں ہزاروں کالوں کو صرف اس لیے گولیوں سے بھون ڈالا کہ وہ بھوک کے مارے روٹی مانگ رہے تھے۔حلال و حرام اور جائزوناجائز کی پابندی انسانی معاشرے کے لیے زہر کے اندرتریاق کا اثر رکھتی ہے۔ان پابندیوں کے باعث اقلیتی استحصالی طبقہ کھل کر گل نہیں کھلا سکتااورغریب اکثریت کو کاروبار معیشیت میں اپنا کردار اداکرنے کا موقع مل جاتاہے۔دنیاکے معاشی نظاموں نے حلال و حرام میں افراط و تفریط سے کام لیاہے ۔ایک نظام نے سارے دروازے کھول دیے تو دوسرے نظام نے سارے دروازے بندکرکے حبس پیداکر دیا۔اب ایک نظام ایک ایک کمرہ کر کے گر رہا ہے تو دوسرا نظام ایک بڑے ہال کی مانند یک بارگی زمیں بوس ہوگیا۔یہ انسانی کاوشیں تھیں جن کا یہی انجام اہل نظر نے بہت پہلے دیکھ لیاتھا۔اسلام کے پاس ایک بہت عمدہ ،انسانی فطرت سے قریب تر،وہ امیروں کاطبقہ ہویاغریبوں کا ہر طبقے کے لیے مناسب،موزوں اور ہر طرح کے ظلم و استحصال سے پاک نظام ہے۔اس لیے کہ یہ کسی انسان کا بنایاہوا نہیں نظام نہیں جس میں اس نے اپنے،اپنی نسل کے یااپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ کو پیش نظر رکھاہوبلکہ یہ خالق انسانیت کا بھیجاہوا نظام ہے جس کی نظر میں سب انسان برابر ہیں۔اس نظام میں حلال سب کے لیے حلال ہے اور حرام سب کے لیے حرام ہے ۔انسانیت کوبالآخر معاشی فلاح کے لیے اسی نظام کی طرف ہی پلٹناہوگا۔

اسلام نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیاہے،اس میں اتنی بار سمجھ لیناکافی ہے کہ اگر سرمایا محفوظ اور نفع یقینی ہوتو حاصل ہونے والافائدہ سودہے خواہ اس کے حق میں کتنے فتاوی اور کتنی ہی آراء ہوں اور اگر سرمایا غیر محفوظ اور نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہوتو حاصل ہونے والا فائدہ تجارت ہے جو نہ صرف یہ کہ حلال اور جائز ہے بلکہ انبیاء علیھم السلام کی سنت ہے۔ایسی اسکیمیں جن میں بہت سے لوگ پیسے لگائیں اور ’’انعام‘‘ کانام دے کر اس کافائدہ کسی ایک فرد کو دے دیا جائے صریحاََ ظلم ہے،اگرچہ باقیوں کو انکی اصل رقم واپس ہی کیوں نہ مل جائے کیونکہ کمپنی نے سب گاہکوں کو اپنی مصنوعات بیچ کرسرمایا اکٹھاکیااب اگر وہ کمپنی کوئی فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو سب کو پہنچائے ،سب گاہکوں کے سرمائے سے حاصل ہونے والا فائدہ کسی ایک کو دے دینا دراصل سب کا حق اس کو پہنچادیناہے۔راتوں رات امیر ہوجانے کی حوس میں اپنی جمع پونجی اس لیے داؤ پر لگادینا کہ اس کے عوض جوئے میں بہت سی رقم مل جائے گی قطعی حرام ہے۔اپنے سرکاری منصب کے استعمال سے کسی کو خواہ جائز فائدہ ہی پہنچاکر اس سے کوئی مفاد حاصل کرنا اور اسے کوئی بھی نام دیناقطعاََ بھی جائز نہیں ہے اور ناجائز فائدہ پہنچا کر کوئی مفاد اٹھانا تو رشوت ہے جس کے لینے اور دینے والے سب جہنمی ہیں۔مارکیٹ میں مال آنے سے پہلے اسکی قیمت بڑھا چڑھاکر وصول کرلینااور راستے میں آتے ہوئے مال کا کئی ہاتھوں میں فروخت ہو جانا سٹہ بازی کہلاتا ہے جسے حرام گردانا گیا ہے کیونکہ اس طرح مال کی قیمت مصنوعی طور پر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور صارف کو بہت مہگے داموں میسر آتی ہے ۔انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیا کا اسٹاک روک لینا کہ دام بڑھ جائیں بالکل بھی حرام ہے۔محسن انسانیت ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ حلال بھی واضع ہے اور حرام بھی واضع ہے پس جو حرام سے بچ گیااس نے اپنی عزت اور ایمان بچالیا۔فی زمانہ حرام نے حلال کاچڑھاواچڑھانے اور ناجائز نے جائز کا لبادہ اوڑھنے کے لیے متعدد نام بدل لیے ہیں،لیکن جس طرح اسلامی شراب خانہ نام رکھ لینے سے شراب جائز نہیں ہو سکتی اور شرعی خنزیر فروش نام رکھ لینے سے خنزیرحلال نہیں ہو سکتا اس طرح حرام اور ناجائز اصناف معاش کانام بدل دینے سے وہ حلال اور جائز نہیں ہوسکتیں۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 524449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.