زینہ

مختلف نفسیات کی سامیوں سے‘ ہر روز واسطہ رہتا ہے۔ بعض تو‘ عجب لچڑ ہوتی ہیں۔ ان کی جیب سے کچھ نکلوانا بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ جیب سے‘ نوٹ باہر لاتے‘ انہیں غشی سی پڑ جاتی۔ بعض سے‘ ان کے علاقے کی سوغات‘ منگوانے کے لیے منہ پھاڑنا پڑتا ہے۔ بہت کم سہی‘ کچھ بلاطلب کیے‘ لے آتے ہیں۔ اس طرح‘ اس علاقے کی سوغات کے حوالہ سے‘ علاقے کی پہچان بھی ہو جاتی ہے۔ ایسی سامیوں سے بھی واسطہ رہتا ہے‘ جو دوسرے علاقوں کی‘ وجہءپہچان بڑے اہتمام سے لاتے رہتے ہیں۔ اس طرح‘ ان کے عزیزوں سے بھی‘ غائبانہ تعارف ہوتا رہتا ہے۔

مجھے ایسی سامی سے‘ ہمیشہ چڑ رہی ہے جن کو ان کے علاقے کی سوغات کے متعلق یاد کرانا پڑتا ہے۔ ہم یہاں بیٹھے‘ کوئی فقیر نہیں ہیں‘ جو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں۔ ہمارے ہاں اصول رہا ہے‘ کہ آنے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں آیا۔ تحفہ دینے سے‘ تعلقات میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔

بعض تو‘ بڑے فراخ دل و دماغ کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ‘ خاتون بھی ہوتی ہے اور وہ‘ اسےاپنی بیوی ظاہر کرتے ہیں۔ ایسی عورتوں سے‘ ہم خوب خوب آگاہ ہوتے ہیں‘ لیکن ظاہر نہیں کرتے‘ کہ ہم محترمھ کو ناصرف جانتے ہیں‘ بلکہ تصرف میں بھی لا چکے ہیں۔ ہمیں اس سے‘ کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کون‘ اور کس کی کیا لگتی ہے۔ قسم لے لیں‘ کہ اوپر جو کبھی‘ سچل مال پنچایا ہو۔ پہلا حق ہمارا ہوتا ہے۔ افسر دست خط کے سوا‘ کرتا ہی کیا ہے۔ فائل پر مغزماری تو ہم کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے‘ زبانی کلامی‘ سچل ہی کہتے ہیں۔ ہماری ایمان داری پر شک کا رسک‘ افسر بھی نہیں لے سکتے۔ انہیں تو کیتا کرایا ہی مل جاتا ہے۔ ایجنٹ اور نچلا اہل کار‘ جو مال لاتا ہے‘ ہم اس میں نقص نہیں نکالتے۔ ویہار خراب ہو جائے یا ٹوکا ٹوکائی کا عمل‘ کاروبار حیات میں‘ نحوست کی علامت ہے۔ اعتبار اور اعتماد پر ہی‘ زندگی چل رہی ہے۔

اس سی‘ سامی آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی ہو گی۔ وہ جب بھی آتا‘ کسی ناکسی علاقے کی‘ سوغات ضرور لاتا۔ جو طے ہوا‘ اس سے‘ کہیں بڑھ کر جھڑا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ بن کہے کھانا کھلاتا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ خود لے کر جاتا۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد کہتا‘ اوہ چھڈو جی چلو پیٹ پوجا کرتے ہیں۔ جب وہ آتا‘ میں اس کا یہ ڈائیلاگ‘ سننے کے لیے بے چین ہو جاتا۔ کچھ کہہ نہیں سکتا‘ وہ چہرا پڑھ لیتا تھا یا روٹین میں کہتا تھا۔ میرا ضمیر‘ اس کا کام کچھ دیر اور لمکانے پر مجبور کر رہا تھا‘ لیکن ساتھیوں کی ترچھیں نگاہوں میں‘ حسد اتر آیا تھا۔ اس لیے‘ اس بار اس کا کام کر دینے پر‘ میرا ضمیر آمادہ ہو گیا۔

اس روز‘ وہ کسی ماہر جاسوس کی طرح‘ وارد ہوا۔ دو تین منٹ بیٹھنے کے بعد‘ اس نے مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ دیا۔ وہ اٹھ کر چلا گیا۔ تین چار منٹ بعد میں نے بھی سیٹ چھوڑ دی۔ نکڑ پر‘ وہ کھڑا میرا انتظار کر رہا تھا۔ ہماری نظریں ملیں‘ وہ مسکرایا‘ اور آنے کا اشارہ دے کر چل پڑا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ وہ لال بازار کے‘ بیکا محل ہوٹل میں‘ داخل ہو گیا۔ ایسے مکامات پر‘ کھانے کا‘ کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ وہاں اس نے‘ کمرہ بک کروا رکھا تھا۔ کمرے کے اندر‘ قیامت جلوہ فرما تھی۔ اسے دیکھ کر‘ مجھ پر سکتا سا طاری ہو گیا۔ میری آنکھیں‘ بہت کچھ دیکھ چکی تھیں‘ لیکن اس سا‘ پٹولا کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ کھانے کی ٹیبل بھر گئی۔ ایسی تواضح تو‘ اس نے کبھی نہ کی تھی۔

مفت کا مال تھا‘ میں نے بےتحاشا کھایا۔ میں نے‘ اس پٹولے کو‘ پکا پکا اپنا بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ آج تک کسی کھانے نے‘ ایسا لطف نہ دیا تھا۔ اس قیامت نے بھی‘ اداؤں کی وہ وہ بجلیاں گرائیں‘ کہ میں اپنے آپے میں نہ رہا۔ مجھے یوں لگا‘ جیسے ساری کی ساری‘ خوش نصیبی میری ہی گرہ کا‘ مقدر ٹھہر گئی ہو۔ میں نے ریحانہ سے‘ اپنے دل کی بات کہہ دی۔ تھوڑی سی‘ پس و پیش اور چند رسمی شرائط کے بعد‘ اس نے ہمیشہ کے لیے میرا ہو جانے کا ارادہ ظاہر کر ہی دیا۔

اس روز مجھے یقین ہو گیا کہ میں دنیا کا واحد خوش نصیب آدمی ہوں۔ میں نے بلاشبہ زندگی میں کوئی ایسا اچھا کام ضرور کیا تھا جس کا‘ دیوتا اس اپسرا کی صورت میں‘ صلا عطا کر رہے تھے۔ جو بھی سہی‘ میں نے آج تک کسی کا کام نہ روکا تھا۔ رہ گئی لینے دینے کی بات‘ یہاں کون ہل پر نہایا ہوا ہے۔

تنویر نے ہی‘ ایک مختصر‘ مگر پروقار تقریب کا انعقاد کیا۔ ریحانہ ہمیشہ کے لیے‘ میری ہو گئی۔ ریحانہ بڑی وفادار بیوی ثابت ہوئی۔ رات کو سوتے وقت میرے پاؤں دباتی۔ ناشتہ وقت پر میسر کرتی۔ اس کی کو کنگ بڑے کمال کی تھی۔ ایک بار‘ میں بیمار پڑا‘ ہسپتال لے جانے میں‘ اس نے بڑی پھرتی دکھائی۔ میں ہسپتال میں دس دن رہا۔ دوست یار اور رشتہ دار ملنے آئے‘ ہر کسی سے‘ اس نے بڑے شان دار انداز میں ڈیلنگ کی۔ اس کے حسن سلوک اور وضع داری کی ہر کسی نے تعریف کی۔ جس پر‘ میں پھولا نہ سمایا۔ مجھے ریحانہ پر‘ ناز ہونے لگا۔

مجھے کئی بار‘ کسی کاغذ پتر کے لیے گھر آنا پڑا‘ میں نے ریحانہ کو گھر پر پایا۔ میرا دل مطمن تھا‘ کہ ریحانہ طبعا‘ نیک اور صالح ہے۔ نیک اور صالع ساتھی کا مل جانا‘ ایسی معمولی بات نہ تھی۔ اس نے کبھی‘ کریدنے یا میرے بارے کچھ جاننے کی‘ کوشش نہ کی۔ میں نے بھی زندگی کی ہر خوشی اور ہر آسائش‘ اس کے سفید‘ شفاف اور بےداغ قدموں میں‘ رکھ دی تھی۔

تنویر ایک بار بھی‘ ہمارے گھر نہ آیا‘ ہاں دفتر دوسرے تیسرے‘ کوئی کام لے کر چلا آتا تھا۔ سلام دعا والا آدمی تھا۔ دوست یار کام کے لیے کہہ دیتے‘ تو آ جاتا‘ تاہم آج تک‘ اس نے کوئی کام مفت نہ کروایا۔ چاء پانی سوغات‘ لانا نہ بھولتا۔ کھانا بھی کھلاتا۔ اس نے کبھی ریحانہ کا ذکر بھی‘ نہ چھیڑا۔ بالکل لاتعلق سا ہو گیا۔ ایسے لگتا‘ جیسے گزرا کل‘ اس کی یاد داشت سے‘ نکل گیا ہو یا گزرے کل کے بارے میں‘ کچھ جانتا ہی نہ ہو۔
ایک روز‘ میں ہیڈ آفس کسی کام سے گیا۔ میں نے‘ تنویر کو‘ بڑے گیٹ سے نکلتے دیکھ لیا تھا‘ لیکن وہ مجھے نہ دیکھ سکا۔ وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہا تھا۔ مجھے رانا صاحب باہر آتے دیکھائی دیے۔ وہ‘ تنویر کے پیچھے جا رہے تھے۔ میں رانا صاحب کے‘ طلب کرنے پر ہی‘ حاضر ہوا تھا۔ میں نے سوچا‘ کیوں نہ‘ اس قیامت کا دیدار کر لیا جائے جو رانا صاحب کو نہال کرنے والی تھی۔

میں عقبی گیٹ سے‘ اس بڑے ہوٹل میں داخل ہو گیا۔ تنویر نے‘ ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ رانا صاحب کمرے میں داخل ہو گیے۔ تنویر‘ ہوٹل کے کونے میں پڑی میز پر‘ جا بیٹھا۔ میں بھی‘ چھپ کر کونے کی ایک میز پر جا بیٹھا۔ پون گھنٹے بعد‘ رانا صاحب کمرے سے باہر نکلے اور انہوں نے تنویر کی طرف دیکھا۔ مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا اور پھر وہ‘ ہوٹل سے باہر نکل گیے۔ یہ اس بات کی طرف‘ کھلا اشارہ تھا‘ کہ رانا صاحب کی روح میں‘ اندر موجود قیامت نے‘ سکون کے ساغر انڈیل دیے ہیں اور رکا کام‘ آج ہی اپنی منزل پا لے گا۔

مجھے مزید دس بارہ منٹ‘ انتظار کرنا پڑا۔ قیامت تنویر کے قریب آ کر رکی۔ دونوں نے کسی بات پر‘ قہقہ لگایا ۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا‘ وہ میری نیک اور صالح بیوی‘ ریحانہ۔۔۔۔۔ ہاں ریحانہ کوثر تھی۔ میں جلدی سے‘ پچھلے دروازے سے نکلا۔ ٹیکسی سے گھر کا رخ کیا۔ میں‘ اس کی پرہیز گاری‘ اس کے منہ پر مارنا چاہتا تھا۔ گھر آیا‘ دروازے پر تالا نہ تھا۔ میں جلدی سے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔ وہ پلنگ پر لیٹی‘ بڑے سکون سے‘ جاسوسی ڈائجسٹ کا مطالعہ کر رہی تھی۔ مجھے پریشان اور بیمار سا دیکھ کر‘ اس نے رسالہ پرے پھینکا‘ اور گھبرائی گھبرائی‘ میری طرف بڑھی۔ سب ٹھیک تو ہے‘ آپ بیمار لگتے ہیں۔ میرے ماتھے پر‘ بڑے پیار سے ہاتھ رکھ کر؛ کہنے لگی۔ آپ کا ماتھا تو آگ کی طرح جل رہا ہے۔ پھر اس نے باہر جانے والی چادر اوڑھی اور کہنے لگی اٹھیں اٹھیں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔
میں نے کہا: گھبراؤ نہیں‘ میں بالکل ٹھیک ہوں۔

کیوں نہ گھبراؤں‘ تمہارے سوا‘ میرا دنیا میں کون ہے۔ تمہیں کچھ ہوگیا‘ تو میں مر جاؤں گی۔“ پھر وہ‘ زار و قطار رونے لگی۔

مجھے اس کی ایکٹنگ میں‘ کمال کی اصلیت دکھائی دی۔ ہمامالنی کو‘ اپنی اداکاری پر ناز ہوگا‘ لیکن ریحانہ ایکٹنگ میں‘ اسے بہت پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ میں خود اس شش وپنج میں پڑ گیا‘ کہ وہ ریحانہ تھی یا کوئی اور تھی۔ یوں لگ رہا تھا‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہاں‘ اگر وہ پکڑی جاتی‘ تو تنویر کے‘ کھیسے جاتا مال‘ بند ہو جاتا۔ رانا صاحب بڑے بااختیار عہدے دار تھے۔ ناصرف مال‘ میری جیب کی زینت بنتا‘ بلکہ میری ترقی‘ جو دو سال سے رکی پڑی تھی‘ میری ذہنی الجھن کا سبب نہ بنی رہتی۔ مجھے یہ اطمنان تھا‘ کہ رانا صاحب سے‘ نکاح نہ کر سکے گے‘ دوسرا‘ ایک نہ ایک روز‘ رنگے ہاتھوں پکڑی جائے گی اور پھر ہیڈ آفس میرا ہو گا۔ میں پہلے سے‘ کہیں بڑھ کر‘ آسودہ اور عیش کی زندگی بسر کر سکوں گا۔

زندگی میں ترقی کے لیے‘ زینہ درکار ہوتا ہے۔ ریحانہ سی‘ چنچل‘ حسین اور لاجواب اداکار بیوی سے‘ بڑھ کر‘ زینہ ڈھونڈھے سے‘ نہ مل سکے گا۔ پردہ اٹھنے پر ہی‘ اس زینے کا‘ استعمال ممکن ہو سکے گا۔ ہاں شائد‘ اس کے لیے‘ تھوڑا اور انتظار کے جہنم میں‘ جلنا پڑے گا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176036 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.