ایک شام صحافت کے نام

انسان اپنے خدوخال میں کتنا خوبصورت اور حسین نظر آتا ہے اس کے سامنے والا جتنا بھی تعریف کرے پھر بھی اُس اس انسان کو تسلی نہیں ہوتی ہے آیا واقعی میں اتنا جمیل نظر آرہا ہوں یا میرے ساتھ خوش آمدی یا دلجوئی سے کام لیا جارہا ہے ایسے میں انسان کو حقیقی منظر،نقشہ ،اپنا چہرہ دیکھنے کے لئے آئینہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے جب انسان آئینے میں غور سے اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو تب وہ ساری خوبیاں اور خامیاں اسے شیشے میں نظر آنے لگتی ہیں،اس کے بعد اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کون اس کی جھوٹی تعریف اور کون حقیقی تعریف اس کے سامنے کرتا ہے،یعنی آئینہ ہی وہ واحد شئے ہے جسے حُسن اور بدنمائی کا بخوبی پتہ چلتا ہے،اسی طرح پوری دنیا میں اہل قلم یعنی صحافی برادری ایک ایسے آئینے کی مانند ہیں جو شہنشاہوں،حکمرانوں،ظالم اور مظلوم ،اچھائی اور برائی اور حق یا ناحق کو چھان پھٹک کر اہل دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور یہ راستہ گھٹن اور دشوربھی ہے،مگر آج کل محض دشوار ہی نہیں بلکہ جان لیوا بھی ہے،چونکہ آج کا انسان اپنے مفادات میں اس حد تک جاچکا ہے کہ اگر کوئی اس کی برائی کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس سچے انسان کی جان لینا بھی دریغ نہیں کرتا ہے،پوری دنیا میں ملک عزیز پاکستان صحافیوں کے لئے انتہائی خطرناک ملک قرار دیا جاچکا ہے۔جب کی ملک کے آئین میں صحافت کو چوتھا ستون قرار دیا ہے تو یہ بات بھی اظہر من الشمس کی طرح ہے کہ کوئی بھی عمارت چوتھے ستون کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی ہے باوجود اس کے اس چوتھے ستون کو بارہا کرانے کی کوشش کی جارہی ہے،ملک میں صحافی برادری اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے مقدس پیشے میں لگن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ملک کی خدمت میں دن رات کوشاں ہیں،لیکن پاکستان میں صحافی برادری کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے انہیں اس جدید دور میں ،افرا تفری اور دہشت گردی کے اس ماحول میں بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں،جبکہ گلگت بلتستان کے صحافی برادری کی اگر بات کی جائے تو جن حالات میں،بغیر وسائل کے 5 یا 6ہزار کی قلیل برائے نام کی تنخواہ میں جس انداز سے وہ علاقے کی خدمت کر رہے ہیں شاید ایسی کوئی مثال کہیں ہر موجود ہو، حالانکہ کسی قسم کی کوئی سہولت انہیں میسر نہیں غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں سب،ان کا کمال تو یہ ہے کہ ان کا گزارہ ہو یا نہ ہو مگر مسائل سے دو چار رہنے کے باوجود یہاں کے صحافی احسن انداز سے اپنا فریضہ نبا رہے ہیں،گو کہ پورے معاشرے میں اچھی خبر کو لوگ ترستے ہیں حالات نہ پر امن ہیں اور نہ خوشحالی کہیں نظر آرہی ہے اس کا اثر سب سے پہلے صحافی برادری پر پڑتا ہے،ہر وقت خشک مضامین اداس خبریں دینے کے باوجود بھی اپنے اپنا دکھڑا یہ کسی کو سنانے سے قاصر ہیں چونکہ ساری دنیا انہیں اپنا دکھڑا سناتی ہے تو یہ بچارے کس کو سنائیں گے انکے اندر جذب کرنے کی صلاحیت بے پناہ ہے،جبکہ گلگت بلتستان میں صحافی برادری کو وہ مقام میسر نہیں جو دیگر شہروں کے صحافیوں کو ہے۔گلگت میں قیام امن کے لئے صحافی برادری کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے ان کا قلم،ان کا ذہن اور ان کی حب الوطنی لازوال ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرکاری سطح پر یا کسی این جی او کی جانب سے کسی بھی ادارے کی جانب سے صحافیوں کی ذہنی تھکن کو دور کرنے کی خاطر ایک پر رونق پروگرام کا انعقاد کیا جاتا تو صحافی بھائیوں کی کتنی حوصلہ ا فزائی ہوتی ،خیر ایسی قسمت کہاں۔مگر یہاں کے زندہ دل صحافیوں نے خود ہی ایک پر رونق اور عظیم الشان پروگرام کا انعقاد کیا اور اس پروگرام کا نام اپنے نام سے منسوب رکھا یعنی (ایک شام صحافت کے نام)اب اگر غور کیا جائے تو یہ ایک نیا پیغام ایک نیا سلسلہ ایک نئی بنیاد ڈالی گئی ہے،گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار اس طرح کا پروگرام متعارف ہوا ہے،صحافی برادری نے اس پروگرام کے ذریعے دو طرح کا پیغام دیا ہے۔ ایک پیغام تو یہ تھا کہ کوئی ہمارا حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے جبکہ ہم ساری دنیا کا درد اُٹھاتے ہیں تو ہمیں خوش رہنا بھی آتا ہے اور خوشی باٹنا بھی آتا ہے۔جبکہ دوسرا پیغام وہ پروگرام ہی تھا جو ایک شام صحافت کے نام سے منعقد ہوا جس میں پورے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف مکاتب فکر کے لوگ،مختلف نظریات کے حامل لوگ اس طرح کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھے تھے جیسے وہ ایک ہی خاندان کے افراد ہوں، اور اتنا خوبصورت اور دلکش منظر دیکھنے کو ملا جو یقینا وہاں پر موجود ہر ایک فرد کے لئے ایک انمٹ اور یاد گار ثابت ہوگا،اس پروگرام کی مہمان خصوصی میڈم منسٹر محترمہ سعدیہ دانش تھی ،پروگرام کا باقائدہ آغاز سے قبل ہی پیلس ہوٹل کی چھت پر شائقین کا ایک ہجوم موجود تھا ،جبکہ اسٹیج کو بھی بہت خوبصورت انداز سے سجایا گیا تھا،صحافی حضرات خودآنے والے مہمانوں کو ان کی نشستوں پر پہنچانے میں مدد دے رہے تھے بہت مہذب انداز سے مہمانوں کے مقام کے مطابق پہلے سے ہی ان کی نشستیں ترتیب دی گئیں تھی،اس دوران سٹی پریس کلب کے صدر مجاہد حسین منصوری اور جنر ل سیکریٹری شریف الدین فریاد نے تمام صحافیوں کو ہوٹل کے حال پر پہنچے کا عندیہ دیا اس طرح تمام صحافی ہوٹل کے حال میں پہنچ گئے جہاں پر مہمان خصوصی کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے،اور انتطار کی گھڑیاں ختم ہوئی اتنے میں مہمان خصوصی وزیر اطلاعات و سیاحت و ثقافت میڈم منسٹر سعدیہ دانش اپنے ساتھیوں سمیت ہوٹل کے حال میں جلوہ نما ہوئیں اور تمام صحافیوں نے انکا پرتپاک استقبال کیا اس کے بعد ہلکی سی ریفرشمنٹ سے فارغ ہونے کے بعد میڈم منسٹرصحافیوں کے جھرمٹ میں پنڈال میں جیسے ہی داخل ہوئیں وہاں پر موجود تمام لوگوں نے ان کا شاندار استقبال کیا پروگرام شروع ہوا مقامی فنکار اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے ہر سوں خوشی اور کھل کھلاہٹ کا ایک سماں نظر آرہا تھا ایسا محسوس ہورہا تھا آج کی شام سب نے اپنا غم دکھ درد کہیں دور دفنا کر آئے ہیں بچے جوان بوڑھے سب کے چہرے کی کیفیت ایک جیسی لگ رہی تھی ،کیوں کہ علاقے میں کافی وقت کے بعد سب کو اکھٹا مل بیٹھنے کا موقع نصیب ہوا تھا۔ اس پروگرام کو چار چاند لگانے کے لئے نومل آرٹس ایند کلچر نے بھر پور تعاون کر رکھا تھا،اس پروگرام کی ایک خصوصیت جو دیگر پروگرموں سے منفرد تھی وہ یہ تھی فنکار وں نے زیادہ تر ملی ، ثقافتی اور قومی یکجہتی کے گیت گا رہے تھے امن اخوت اور محبت کا ایسا پیغام دے رہے تھے کہ ہر کوئی ان کی شاعری اور انداز ادا کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکا،دوران پروگرام سٹی پریس کلب کے صدر مجاہد حسین منصوری نے میڈم منسٹر محترمہ سعدیہ دانش کو روایتی شال پہنائی، اس کے بعد اخبار کے مالکان، میدیا سیل کے آفیسران اور صحافی برادری نے ایک دوسرے کو روائتی ٹوپی بھی پہنائی۔ دوران پروگرام صحافی حضرات نے بھی روائتی ریکس کے جلوے بکھیر دیئے،طالب حسین طالب اور سٹی پریس کلب کے جنرل سیکریٹری شریف الدین فریاد کے قومی اور ثقافتی گیت کو بہت سراہا گیا،اس شاندار پروگرام میں ہر فنکار نے اپنے فن کا خوبصورت انداز میں مظاہرہ کیا ،کامیڈی فنکاروں نے بھی نہ صرف مسخرہ پن کا مظاہرہ کر ڈالا بلکہ امن و آشتی کا ایک اچھا پیغام بھی دیااور سب نے سراہا۔جب کہ میوزک چلانے والوں نے بہت خوبصور انداز میں دھنیں بجا کر شائقین کے دل جیت لئے جبکہ چترال سے آئے ہوئے فنکاروں نے بھی اپنے جلوبے بکھیر دیئے۔واقعی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا پروگرام منعقد ہوا جو صحافی برادری نے منعقد کیا، اب ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ وقتا فوقتا ایسے پروگرامات کا انعقاد ہوتا رہے جس میں کوئی نہ کوئی ادار اپنا کردار ادا کرے،پروگرام کے درمیان میں مہمان خصوصی کو اسٹیج پر آنے کی جیسے ہی دعوت دی گئی تو پورا پنڈال نے کھڑے ہو کر انہیں عزت بخشی،مہمان خصوصی نے سٹی پریس کلب کی جدوجہد اور کاوشوں کو سراتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی صحافتی دنیا میں سٹی پریس کلب کا کردار قابل تعریف ہے اور علاقے میں امن کی بحالی کے حوالے سے بھی انکی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور یہاں کے صحافیوں کو انکی دہلیز پر سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور PIAسمیت دیگر ٹرانسپورٹس کے اداروں میں پچاس فیصد رعایت ملنے کی خوشخبری بھی سنائی،اور صحافی برادری سے توقع بھی کی کہ وہ اسی انداز میں علاقے کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں اور بہتر یہی ہوگا کوئی بھی متنازعہ مواد کو منظر عام پر نہ لایا جائے جسے ماحول میں خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، میڈم منسٹر نے سٹی پریس کلب کے لئے 20 ہزار روپے کا ڈونیشن دینے کاس بھی اعلان کردیا اور ساتھ سٹی پریس کلب کی مذید حوصلہ افزائی کرنے کا بھی عدیہ دیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ گلگت بلتستان کو اولیت دی ہے جس کی اہم مثال شمالی علاقہ جات سے جیسے مہمل نام کو ختم کر کے) گلگت بلتستان) جیسا نام دیا جو شناخت کا باعث ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے جی بی کی صحافی برادری کی آسانی کے لئے میڈیا سیل کا قیام عمل میں لایا تھا ، اگر کوئی اس سیل کی مخالفت کرے گا تو وہ مخالفت جی بی سے مخالفت کے مترادف ہوگی، ہم نے اس ادارے کو اپنے ساتھ لے کر کہیں نہیں جانا ہے کل ہماری جگہ پر کوئی اور آئے گا مگر ادارہ تو بدستور اپنی جگہ پر قائم ہوگا لہٰذا کسی بھی نئے وجود میں آنے والا عوامی مفادات پر مبنی کسی بھی ادارے کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے،ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ اسی طرح مہمان خصوصی نے صحافی برادری کی بھر پور حوصلہ افزائی فرمائی، جبکہ بلدیہ کے امیداوار مراد علی خرم نے بھی دس ہزار کا ڈونیشن سٹی پریس کلب کو دینے کا اعلان کیا، مسرت ظفر غازی نے بھی دس ہزار سٹی پریس کلب کو دینے کا اعلان کیا، شرافت کنگ پی پی کے رہنما نے بھی اعلان کیا جبکہ اس پروگرام کے لئے کواپریٹویو بنک، اے کے آر ایس پی اور نیٹکو نے بھی تعاون فرمایا، بزرگ صحافی مرحوم سعید بھائی کو سینئر صحافی ایمان شاہ نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ منسٹر صاحبہ سے گزارش بھی کی کہ سعید کے نام کوئی فنڈ بھی رکھا جائے۔ یہ رنگا رنگ پروگرام کا محور امتیاز گلاب بگورو جس نے بہت خوبصورت انداز سے اسٹیج کی کارروائی کو چار چاند لگانے میں اپنا کردار ادا کیا، اس پروگرام میں ایک اور اہم بات بھی نظر آئی وہ یہ کہ پنڈال میں موجود ہر ایک خواہشمند کو اپنے اپنے علاقائی ریکس پیش کرنے کی دعوت دی گئی اور تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے شائقین نے علاقائی ریکس پیش کر کے سامعین کو مذید لطف اندوز کیا اور آخر میں سب نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر علاقے میں امن، بھائی چارگی کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا جزبہ دکھایا،صحافت کے نام ایک شام کا یہ حسین پروگرام رات کے پچھلے پہر کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں اختتام پزیر ہوا ٭

YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 23624 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More