محمد عادل عثمانی

میں نے اپنے زمانہ طالب علمی ۱۹۷۱۔۱۹۷۲ء شعبہ لائبریری سائنس ، جامعہ کراچی کے دوران لائبریری سائنس کی مختلف کتا بوں میں عادل عثمانی صاحب کا نام پڑھا۔اس دوران بعض اساتذہ اپنے لیکچر کے میں اکثر عا دل عثمانی صاحب کا تذکرہ احترام کے ساتھ کیا کرتے تھے۔عثمانی صاحب اس زمانے میں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں تھے ، ۱۹۷۳ء میں واپس آئے اس وقت ایم اے کا نتیجہ آچکا تھا ۔وہ ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے ڈپٹی لائبریرین تھے ڈاکٹر عبد المعید صاحب کے نائیجیریا چلے جانے کے بعد ان کے جانشین بھی ہوئے۔ مجھے عثمانی صاحب کے شاگرد نہ ہونے کا افسوس تھا۔

دو سال جامعہ میں کیسے گزرگئے پتہ ہی نہ چلا ، ایم اے کر لینے کے بعد ملازمت کا مرحلہ درپیش تھا ابھی نتیجہ آئے ہوئے مہینہ بھی نہ ہوا تھا کہ جناب سبزواری صاحب نے کہا کہ آپ یونیورسٹی لائبریری میں عادل عثمانی صاحب کے پاس چلے جائیں ، میں نے ان سے بات کر لی ہے۔میں پہلی فرصت میں لائبریری چلاگیا ، اب عثمانی صاحب لائبریرین ہو چکے تھے ۔ میں نے اپنا نام بتا یا اور اکرم صاحب کا حوالہ دیا ۔ بہت ہی شفقت اور محبت سے بیٹھنے کو کہا۔عثمانی صاحب کو آج پہلی مر تبہ اتنے قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ انتہائی بردبار، مہذب، با اخلاق، درمیانہ قد،مناسب جسم ( اب کمزور ہو گئے ہیں)، کتا بی چہرہ، گندمی رنگ، گھنے سیاہ بال ( اب بالکل سفیدی اور وہ بھی کم کم )، کلین شیو(اب بالکل سفید داڑھی)، ستواں ناک، روشن پیشانی، کتا بی چہرہ، روشن آ نکھیں،وضعدار ، وقت اور اصولوں کے سخت پابند۔گفتگو میں شگفتگی، شائستگی، دھیمہ پن اور عالمانہ انداز گفتگو جیسی صفات آپ میں نمایاں تھیں۔

ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ایک فارم دیا کہ اسے بھر دیجئے اورمتعلقہ آفس میں جمع کرادیں کل سے آپ کی نوکری شروع۔یہ میری زندگی کی اولین ملازمت تھی جو ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے شروع ہوئی۔کاغذی کاروائی کے بعدمجھے لائبریری کے ریسرچ ریڈنگ روم میں بھیج دیا گیا یہ دور ذوالفقار علی بھٹو کا تھا انہوں نے تعلیم یافتہ افراد کے لیے ایک اسکیم کا آغاز کیا تھا جو NDVPکہلاتی تھی میرا یہ تقرر بھی اسی پروگرام کے تحت تھاجو صرف چار ماہ قائم رہا کیوں کہ میرا تقرر حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کے ایک کالج میں گریڈ ۱۷ میں ہوگیا۔ اس طرح عثمانی صاحب کے ساتھ میرا آفیسر اور ماتحت کا تعلق قائم ہوگیا۔وہ ایک ذمہ دار ، شفیق اور قابل سربراہ تھے۔ آپ کے انداز سے کبھی یہ تاثر نہیں ملا کہ وہ آفیسر ہیں اور دیگر ان کے ما تحت، ان کا پیار محبت اور شفقت والا رویہ ہر ایک کے ساتھ ہوا کرتا۔وہ ہمیشہ اپنے ماتحتوں کو اعتماد میں لے کر کام کیا کرتے اور یہ احساس اور تاثر پیدا کیا کرتے تھے کہ لائبریری ایک اجتماعی ذمہ داری ہے اورتمام کام کرنے والے خواہ ان کی حیثیت کچھ بھی ہو ایک خاندان کے فرد ہیں۔

عادل عثمانی صاحب سے میرا ایک اور تعلق ۱۹۷۵ء میں اس وقت قائم ہوا جب ڈاکٹر غنی الا کر سبزواری صاحب بہ سلسلہ ملازمت سعودی عرب تشریف لے گئے۔ عادل عثمانی صاحب رسلہ کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے میں اس رسالہ میں شمالیت اختیار کرچکا تھا۔اب بیورو اور رسالے کے معاملات کے لیے عثمانی صاحب سے تعلق قائم ہو گیا۔یہاں ہم آفیسر اور ماتحت نہیں تھے بلکہ ایک ہی ادارے کے کارکن لیکن ہر اعتبار سے سینئر اور جونیئر کے رشتہ میں رہتے ہوئے پیشہ ورانہ امور انتہائی خوش اسلوبی سے انجام پاتے رہے ۔ عثمانی صاحب کی ایک صفت اپنے سے چھوٹوں کو اس انداز سے تر بیت کرنے کی ہے کہ سامنے والے کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس کی تر بیت کی جارہی ہے۔آپ کی فراخدلانہ طبیعت و صلاحیت کے باعث آپ کے ساتھ کام کرنے والوں میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہو تا ہے۔ عثمانی صاحب بھی ۱۹۷۹ء میں سعودی عرب تشریف لے گئے اور میرا اور ان کا یہ براہِ راست تعلق منقطع ہوگیا۔

اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھا۔ آپ سے یہ تعلق ختم ضرور ہو گیا لیکن ایک نئے تعلق نے جنم لیا وہ تھا خط و کتا بت کا تعلق۔

سعو دی عرب سے راقم کے نام عثمانی صاحب کا پہلا خط ۶ نومبر ۱۹۷۹ء کو موصول ہوا جب کہ میری خطوط کی فائل میں آخری خط ۵ مئی ۱۹۹۸ء کا لکھا ہوا ہے۔اس طرح میرے نام آئے ہوئے آپ کے خطوط کی تعداد جو میں محفوظ رکھ سکا ۶۲ ہے۔ان خطوط میں لائبریری پروموشن بیورو اور رسالے کے علاوہ پروفیشنل معا ملات کے بارے میں تفصیل ہوا کرتی تھی۔عثمانی صاحب کی شخصیت اور لائبریرین شپ کے لیے آپ کی خدمات کا تقا ضہ تھا کہ آپ کو کتابی صورت میں متعارف کرایا جائے۔ میراایک شوق شخصیات کو پڑھنا اور ان پر لکھنا رہا ہے۔ چنانچہ کئی احباب پر مضامین لکھے ۔ڈاکٹر عبدالمعید اور اختر ایچ صدیقی پر تصانیف مرتب کیں جو بالترتیب ۱۹۸۱ء اور ۱۹۹۵ء میں شائع ہوئیں۔ ۱۹۹۶ء میں جب کہ عثمانی صاحب پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے میں نے ان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ پر ایک کتاب انگریزی میں مرتب کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے آپ کی اجازت اور تعاون کی ضرورت ہے۔ آپ نے کثر نفسی سے کام لیتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لیااور سعودی عرب واپس چلے گئے۔ مجھے احساس تھا کہ عثمانی صاحب نام و نمود اور شہرت کو پسند نہیں کرتے وہ تو خود پیچھے رہتے ہوئے اوروں کو آگے بڑھاتے رہے ہیں لیکن میں اپنے دل میں یہ ارادہ کرچکا تھا کہ میں یہ کام کروں گا چنا نچہ اس حوالے سے عثمانی صاحب سے رابطہ جاری رکھا اوراپنے خطوط میں انہیں اس جانب مائل کر تا رہا، میں نے آپ سے کام شروع کرنے اور متعلقہ مواد ارسال کرنے کی درخواستیں کیں۔ بالا آخر برف پگھلی اور میں اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگیا، عثمانی صاحب اس پر تیار ہوگئے ۔کتاب کی تیاری میں آپ میری رہنمائی اپنے خطوط کے ذریعہ کرتے رہے اور میں یہ کام رفتہ رفتہ کرتا گیا حتیٰ کہ نو سال کی طویل محنت رنگ لائی اور عثمانی صاحب پر میری کتاب ۲۰۰۴ء میں بعنوان ''Muhammad Adil Usmani : A Bio-bibliographical Study''شائع ہوئی۔ اس کتاب پر ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے خط مؤرخہ ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں مختصر تبصرہ یہ کیا ’’ تمہا را گیارہ اکتوبر کا خط ملا، محمد عادل عثمانی (سرکار) کی سوانحی کتابیات کی خوبصورت جلد ملی اور مجلہ ’’روایت‘‘ بھی، خوشی ہو ئی ، پڑھ تو نہ سکا ہوں لیکن خوشی ہو ئی تم سے دھن کے پکے لائبریرین نے مر تب کیا ہے‘‘۔عثمانی صاحب کی شخصیت میں میرے لیے جو احترام ، عقیدت اور لگاؤکا عنصرپا یا جاتا ہے اس کے باعث میں نے عثمانی صاحب پر کتاب مرتب کی، اس سے قبل میں عادل عثمانی صاحب پر دو مضامین انگریزی ہی میں لکھ چکا اتھا ، پہلا پاکستان لائبریری بلیٹن (جلد ۲۴، شمارہ ۴، دسمبر ۱۹۹۳ء ) میں دوسرا اسی سال ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کی جانب سے شائع ہونے
والے سووینیر میں شائع ہوا۔

عادل عثمانی صاحب ایک عظیم اور انمول انسان ہیں ان کی شخصیت میں سادگی کا رچاؤ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔منکسر المزاجی ان کی طبیعت کا جُز و ہے۔جامعہ کراچی کے بڑے کتب خانہ کی سر براہی طویل عرصہ کی لیکن ہم نے آج تک کوئی منفی بات آپ کے بارے میں نہیں سنی۔ آپ کے کردار کی بلندی کا یہ حال ہے کہ آپ نے کبھی کسی بک سیلریا کسی شخص سے کوئی ادنیٰ سی چیز لینا اپنے لیے کسر شان تصور کیا۔آپ کو تحفہ میں ملنے والی تمام کتب جامعہ کراچی کے ذخیرہ میں شامل ہیں۔آپ نے اپنا ذاتی کتب خانہ مرتب نہیں کیا جو کتابیں آپ کے پاس تھیں سعودی عرب جاتے ہوئے انہیں ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کو دے گئے۔

حکیم محمد سعید نے جناب عادل عثمانی کے بارے میں اپنی خود نوشت بعنوان ’’ نو نہالوں کے لئے سچی کہا نی میری ڈائری کی زبانی مئی ۱۹۹۲ء‘‘ (صفحہ ۱۳۴) میں تحریر فرما یا ’’ جناب عادل عثمانی نہایت نفیس انسان ہیں۔ نہا یت سمجھ دار کتب دار ‘ (لائبریرین) پہلے جامعہ کراچی میں تھے اب جامعہ ام القریٰ کی شاخ لائبریری طائف میں ہیں۔ ان سے ملنے کو بہت دل چاہتا تھا ۔ بس میں نے ان کو آج بلا لیا۔ ایک گھنٹہ ان سے باتیں کیں۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ طب نبوی ؑ میں سائنسی توجہ کروں۔ میں نے ان کو بتا یا کہ میری کتاب ’’طب نبو ی ؑ ‘‘ تیار ہے۔ جناب حکیم نعیم الدین زبیری صاحب نظر ثانی کررہے ہیں‘‘۔

عادل عثمانی صاحب نرم دل ، ہمدرد ، سخی ، صلہ رحمی کرنے والے اور ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کرنے والوں میں سے ہیں۔ خاموشی کے ساتھ اس طرح مدد کرنا کہ ضرورت مند کو اس کی خبر بھی نہ ہو کہ اس کی مدد کی جارہی ہے اور کون کر رہا ہے۔عثمانی صاحب کی اس منفرد اور قابل تقلیدعمل کا ذکر ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے اپنی کتاب ’’آنگن میں ستارے‘‘ میں عادل عثمانی صاحب کے چھوٹے بھائی محمد واصل عثمانی پر لکھے گئے خاکے میں کیا ، یہاں اسے بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اِس واقعہ بیان کر نے سے پہلے وضاحت کی کہ ’’یہ محض سنی سنائی بات نہیں۔ ذاتی واردات ہے اور اس قدر مؤثر ہے کہ واصل عثمانی صاحب کے بھائیوں کی خصو صیات اور خاندانی اثرات کی وضاحت میں قلم بند ہونا ضروری ہے ‘‘۔(صفحہ ۲۰۴)۔ اس واردات کے ڈاکٹر اسلم فرخی ہی عینی شاہد نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کے بعد راقم بھی عادل عثمانی صاحب کے صَلۂ رحمی کے اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہے۔ڈاکٹر اسلم فرخی
صاحب لکھتے ہیں ’’عادل عثمانی صاحب یونیورسٹی میں ڈپٹی لائبریرین تھے۔ میں جب بھی لائبریری جاتا ایک بڑے بوڑھے صاحب کو دیکھتا، سر پر دوپلی ، بر میں شیروانی، خمیدہ کمر، بھویں اور بلکیں دونوں سفید، خاموشی اور انہماک سے کام میں مصروف نظر آتے۔ ایک آدھ دفعہ میں نے مذاق میں عادل صاحب سے کہا بھی کہ کیا لائبریری میں سبک دوشی کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ عادل صاحب میری بات کو ہنسی میں ٹال گئے۔اب یہ ہوا کہ عادل صاحب کا تقرر مکہ یونیورسٹی میں ہو گیا اور وہ جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ایک دن وہ میرے پاس آئے۔ میں ان دنوں شعبہ تصنیف و تالیف و تر جمہ کا ناظم تھا۔عادل صاحب نے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا، ’’میں ایک درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں ۔ ایک ذمہ داری آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ انکار نہیں کریں گے‘‘۔عادل صاحب نے یہ الفاظ اتنے خلوص اور لجاجت سے کہے کہ میں متاثر ہوا۔کہنے لگے، آپ نے اُن بڑے میاں کو لائبریری میں دیکھا ہے ۔ وہ میرے عزیز ہیں۔ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ دو میاں بیوی ہیں ۔ اولاد کوئی ہے نہیں، گزارے کی کوئی صورت نہیں مگر غیرت مند اتنے ہیں کہ کسی رشتے دار کا احسان لینا گوارا نہیں۔میں نے ان کے لیے یہ صورت نکالی کہ انھیں فرضی طور پر لائبریری میں رکھ لیا، پان سو روپے(۵۰۰)مہینہ میں انھیں دیتا ہوں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں تنخواہ مل رہی ہے کیونکہ لائبریری کا خزانچی پہلی تاریخ کو رقم انھیں ادا کردیتا ہے ،اب میں جارہا ہوں لہٰذا لائبریری میں یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ آپ انھیں اپنے شعبہ میں بلا لیجیے اور پہلی کے پہلی پان سو روپے انھیں ادا کردیجئے گا ۔ روپیہ آپ کے پاس پہنچتا رہے گا مگر اس بات کا علم کسی کو نہ ہو اور ان صاحب کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو ورنہ یہ رقم نہیں لیں گے۔میں نے خوش دلی سے یہ ذمہ داری قبول کرلی۔ وہ بزرگ دوسرے دن آپہنچے۔ میں نے یہ سوچا کہ ان کے لیے روز روز کا دفتر آنا بھی تکلیف دہ ہے لہٰذا ’’سیر الا ولیا‘‘ کا فارسی نسخہ ان کے حوالے کیا۔اشاریہ مرتب کرنے کا طریقہ سمجھا یا اور کہا ،آپ گھر پر یہ کام کریں۔ پہلی کو آئیں ۔ مہینے بھر کا کام ساتھ لائیں اور تنخواہ لے جائیں۔چنانچہ یہ سلسلہ میری نظامت کے دور میں جاری رہا۔بعد میں شاید عادل صاحب نے کوئی دوسرا انتظام کیا۔ مجھے یہ خوشی ہوئی کہ ایک نیک کام میں میں بھی شریک رہا۔ یہ واقعہ ۸۰ء کاہے ۔ اس زمانے میں پان سو روپے جان رکھتے تھے۔ پھر ایک پورے کنبے کی پر ورش کرنے والے تنخواہ دار کے لیے ہر مہینے پان سو روپے خاموشی سے ادا کرنا بڑی ہمت اور ایثار کا کام تھا مگر عادل صاحب خاموشی سے یہ کام کرتے رہے‘‘۔(صفحہ ۲۰۴)

ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے جب یہ نیک کام انجام دے لیا اور شعبہ تصنیف و تالیف سے کسی دوسری جگہ چلے گئے تو ان محترم بزرگ کی اسی طریقے سے امدا د جاری رکھنے کی ذمہ داری عادل عثمانی صاحب نے ڈاکٹر نسیم فاطمہ کے سپرد کی جو شعبہ لائبریری و انفارشن سائنس میں استاد اور لائبریری پروموشن بیورو میں شریک کار تھیں۔اس وقت یہ معاملہ میرے علم میں بھی لایا گیا کہ رازداری کے ساتھ ان صاحب کی امداد کا سلسلہ کیسے جاری رکھا جائے۔چنانچہ ہم نے لائبریری پروموشن بیورو کی تصانیف سے متعلق بعض کام ان بزرگ کے سپردکیے ، وہ اسی طرح کام گھر پر لے جاتے اور ہر مہینے پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ بیورو کے خزانچی ’اشرف صاحبـ‘ سے لے لیا کرتے تھے جس کی ادائیگی عادل عثمانی صاحب سعودی عرب سے کر دیا کرتے تھے۔اب بھی وہ یہ سمجھتے رہے کہ ا نھیں بیورو میں ملازم رکھ لیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ وہ بزرگ کچھ عرصہ کے لیے غائب ہوگئے، اپنی تنخواہ لینے آئے اور نہ ہی وہ کام واپس کیا جو وہ لے گئے تھے۔جب کافی وقت گزر گیا تو تشویش ہوئی ،مختلف خیالات کا ذہن میں آناایک قدرتی عمل تھا، کیوں کہ ان بزرگ کی عمر خاصی تھی، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی تحریر کیا کہ کمر جھکی ہوئی، سر اور داڑھی ہی سفید نہ تھی بلکہ آنکھوں کی پلکوں اور بھوؤں کے بال بھی سفید تھے، بڑی مشکل سے کسی طرح ان کے گھر واقع نیو کراچی کا پتہ معلوم کیا، معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں۔ان کے گھر کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ واقعی عثمانی صاحب ایک حقیقی ضرورت مند کی مدد کررہے ہیں اور دنیا میں جنت کما رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کی طرح ہم بھی کسی حد تک اس نیک کام میں شریک رہے۔

عادل عثمانی صاحب ہندوستان کے معروف ضلع اِ لہٰ آباد کے تاریخی مقام’ کڑا‘ سے تعلق رکھتے ہیں، آپ اسی بستی کے ایک گاؤں ’رشید مئی‘ میں ۲ جنوری ۱۹۳۲ء کو پیدا ہوئے۔اِ لہٰ آباد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۱۹۴۸ء میں مجیدیہ اسلامیہ کالج ، اِلہٰ آباد سے میٹرک کیا،ا لہٰ آباد یونیورسٹی سے ۱۹۵۲ء میں گریجویشن کیا۔اسی سال پاکستان ہجرت کی، کراچی میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کے تحت لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیت کورس ہورہا تھا آپ نے ۱۹۵۳ء میں اس کورس میں داخلہ لیا، اس کلاس میں انیس خورشید صاحب بھی تھے، لائبریرین شپ کے پیشہ میں یہ آپ کا نقطہ آغاز تھا۔۱۹۵۴ء میں جامعہ کراچی کے کتب خانے میں ریفرنس اسسٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔۱۹۵۶ء میں جامعہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس کی بنیاد پڑی اور پوسٹ گریجویٹ کورس کا آغاز ہوا ، عادل عثمانی صاحب پہلے سیشن ۵۷ء ۔۱۹۵۶ء کے طالب علم تھے۔اس کلا س کے بعض طالب علموں میں انیس خورشید، عبد اﷲ خان، صادق علی خان، سید افتخار حسین سبزواری، محمد عبید اﷲ سیفی، محمد اظہار الحق ضیاء اور محمد سجاد ساجدشامل  تھے۔انیس خورشید صاحب کی پہلی ، عادل عثمانی صاحب کی دوسری اور سید مظہر علی زیدی کی تیسری پوزیشن تھی۔۱۹۵۸ء میں آپ ایشیا فاؤنڈیشن اور فل برائٹ اسکالر شپ پر امریکہ کی رٹگرس یونیورسٹی گئے جہاں سے آپ نے لائبریری سائنس میں ایم کی سند حاصل کی۔وطن واپس آکر آپ جامعہ کراچی کے کتب خانے سے منسلک ہوگئے ساتھ ہی شعبہ لائبریری سائنس میں جزووقتی استاد کے فرائض بھی انجام دئے۔، ۱۹۶۰ء میں اسسٹنٹ اور جون ۱۹۶۱ء میں ڈپٹی لائبریرین اور ساتھ ہی قائم مقام لائبریرین ہوئے کیوں کہ معید صاحب پی ایچ ڈی کرنے امریکہ تشریف لے گئے تھے۔۱۹۷۳ء میں آپ ڈاکٹر محمودحسین لائبریری کے لائبریرین ہوگئے، ۱۹۸۳ء میں آپ نے اس وقت ریٹائرمنٹ لی جب آپ سعودی عرب میں تھے۔سعودی عرب میں آپ نے طویل عرصہ خدمات انجام دیں۔ آپ کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے لائبریرین ۱۹۷۳ء۔۱۹۶۸ء ، لائبریرین امہ القریٰ یونیورسٹی، مکہ ۱۹۷۹ء۔۱۹۸۲ء اورڈائریکٹر سینٹرل لائبریری، امہ القریٰ یونیورسٹی،طائف ۱۹۸۲ء ۔ ۹۹۹اء رہے۔آپ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں۱۹۶۷ء میں شروع ہونے والے پہلے پی ایچ ڈی پروگرام کے ان طالب علموں میں بھی تھے جنہوں نے اس کورس میں داخلہ لیا لیکن اسے پائے تکمیل کو نہ پہنچا سکے۔

جامعہ کراچی کی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ڈاکٹر عبدالمعید اور محمد عادل عثمانی کی پیشہ ورانہ زندگی کا حاصل ہے۔آپ دونوں نے اس کتب خانے کو قائم کیا اور اسے بلندی پر پہنچانے میں اپنی تمام عمر لگا دی، ڈاکٹر عبد المعید صاحب کے کارناموں میں شعبہ لائبریری سائنس کا قیام بھی شامل ہے۔ عادل عثمانی صاحب لائبریری میں بک بنک کے قیام کے روح روں ہیں۔ آپ ہی کی کوششوں سے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے دورِ وائس چانسلری میں جامعہ کراچی میں بک بنک قائم ہوا جو آج بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔عادل عثمانی صاحب کو پاکستان میں لائبریری ریسرچ اور لائبریری مطبوعات کے حوالے سے سبقت حاصل ہے۔آپ کی پیشہ ورانہ زندگی تصنیف و تالیف سے عبارت نظر آتی ہے۔آپ کی مرتب کردہ پاکستان بک ٹریڈ ڈائریکٹری جو ۱۹۶۶ء میں شائع ہوئی، یہ اپنی نوعیت کی اولین ماخد ہے،اسی طرح کتابیاتی ضبط کے موضوع پر آپ کی کتاب Status of Bibliography in Pakistanاپنے موضوع پر ابتدائی اور اہم کام ہے یہ کتاب ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی، اس کا اردوترجمہ ۱۹۷۱ء میں منظر عام پر آیا،آپ نے انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات(SPIL)کے مختلف سیمیناروں کی رودادیں بھی مرتب کیں،اسکول لائبریری ورکشاپ کی رپورٹ ۱۹۶۷ء میں منظر عام پر آئی ، ان کے علاوہ آپ نے انگریزی میں قرآن پر مواد کی کتابیات،اسلام پر پی ایچ ڈی مقا لات کی کتا بیات، قائد اعظم پر کتب ، علامہ اقبال پر کتب کا کیٹلاگ بھی مرتب کیا۔پاکستان لائبریری بلیٹن جس کا موجودہ نام پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل ہے سے مسلسل وابستہ ہیں۔آپ کی انگریزی کتابوں کی تعداد ۱۰، اردو مطبوعات کی تعداد ۲، عربی زبان میں ایک ، سیمیناراور کانفرنسوں کی رودادیں ۵، کتابچے اردو و انگریزی ۹، اسکیم و پلان ۳اور مضامین و اداریے انگریزی میں۱۳، ارد و میں ۱۲ ہیں۔

عادل عثمانی صاحب نے لائبریری انجمنوں میں بھی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا ، پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن، کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن،انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات، پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ ، سندھ لائبریری ایسو سی ایشن کی سر گرمیوں میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ لائبریری ایسو سی ایشن، برطانیہ، امریکن لائبریری ایسو سی ایشن ، اسپیشل لائبریری ایسو سی ایشن کانفرنس ، امریکہ میں پاکستان کی نمائندگی کی، امریکہ، برطانیہ ، یورپ، مشرق وَسطیٰ اور ہندوستان کے اہم اور بڑے کتب خانوں کا دورہ کرچکے ہیں۔

عادل عثمانی صاحب پانچ بھائی (محمد عاقل عثمانی، محمد فاضل عثمانی، محمد کامل عثمانی، محمد عادل عثمانی اور محمد واصل عثمانی) اور دو بہنیں انیس فاطمہ اور قریش فاطمہ ہیں۔واصل عثمانی عرف بھولے میاں جو علامہ کے لقب سے معروف ہیں صاحب دیوان شاعر ہیں۔ جناب ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری کے جگر ی دوست ہونے کے ناطے(اکرم صاحب نے اپنی کتاب ’درجہ بندی‘ میں انھیں اپنا ہمزاد لکھا ہے ) علامہ مجھ پر بھی مہربان ہیں اور اپنی شفقت و محبت جب کبھی پاکستان میں ہوتے ہیں نچھاور کرتے رہتے ہیں۔

باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں ،وہ خصو صیات جو غزل گو شاعر میں پائی جاتی ہیں بدرجہ اتم ان میں بھی موجود ہیں۔ عادل عثمانی صاحب کا بہت احترام اور ادب کرتے ہیں۔ اپنے مجموعہ کلام ’’ سب سخن میرے‘‘ ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی اپنے بھائی عادل عثمانی صاحب کی شان میں منطوم نذرانہ ٔ عقیدت
کچھ اس طرح پیش کیا ہے ۔(صفحہ ۹۵)

تری نگاہ نے بخشی خر د کو تابانی
ترے کرم سے بڑھی زندگی میں جولانی
ترا وجود مرے واسطے حصا رِ کرم ہے
تیری ذات سے لطف و کرم کی ارزانی
رہے ہمیشہ مرے سر پہ سایہءٔ عادل
مرے قریب نہ آئے کوئی پریشانی

اﷲ تعالیٰ نے عادل عثمانی صاحب کو فر مانبر دار اولاد ذکور اور اولاد اناث سے نوازا ، محترمہ نورجہاں دختر نصیرالدین آپ کی شریک حیات تھیں۔محمد عامر عثمانی، محمد عمر عثمانی، محمد سلمان عثمانی آپ کے بیٹے ہیں جب کہ خدیجتہ الکبریٰ(ریحانہ)، عائشہ سلطانہ ، میمونہ (رضوانہ)، آمنہ اور رومانہ عثمانی آپ کی صاحبزادیاں ہیں۔ عادل عثمانی صاحب ، جامعہ کراچی اور سعودی عرب کی ملازمتوں سے فارغ ہو جانے کے بعد کراچی میں مقیم ہیں اور اپنی ریٹائر منٹ لائف انتہائی سکون اور آرام سے گزار رہے ہیں، سعودی عرب میں رہتے ہوئے آپ بعض نا مناسب حالات سے دوچار ہوئے ، ان میں آپ کی شریک حیات کی جدائی بھی شامل تھی جن کے باعث آپ ذہنی دباؤ اور بیماری کا شکار ہوگئے ،ویسے تو بڑھاپا از خود ایک بیماری ہوتا ہے، آپ نے لکھنے کی مصروفیات کو خیر بادکہہ دیا ہے، اب آپ کا وقت عبادت اور اپنے بچوں میں گزرتا ہے۔ کم کم گفتگو کے پہلے بھی عادی تھے اب اس میں بھی کمی آگئی ہے۔مخاطب ان سے جو بات
کرے جواب دے دیتے ہیں ورنہ چپ ہی رہتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ ان کا سایہ سلامت رکھے، آمین۔
۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء
(مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ ۲۰۰۹ء میں شامل)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286176 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More