قانون سازی میں خواتین کی شمولیت

1996 میں جب شازیہ اور شرمین نامی لڑکیوں نے پاکستان میں وومن کرکٹ متعارف کروانے کی کوشش کی تو انہیں عدالتوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہاں خواتین کو غیر روائتی شعبوں میں کام کرنے اور اپنا آپ ثابت کرنے کے مواقع خال خال ہی میسر تھے۔ آج وومن کرکٹ تو کیا ہماری خواتین ائیر فورس کا حصہ ہیں اور جہاز اڑا رہی ہیں،ایک طرف شرمین عبیدپاکستان کے لئے آسکر ایوارڈ جیت لاتی ہے اوردوسری طرف فہمیدہ مرزا، نرگس سیٹھی اور حنا ربانی کھر جیسی خواتین ہمارے حکومتی ، انتظامی اور سیاسی نظام کا حصہ ہیں۔یہ سب کچھ ایک دم سے سامنے نہیں آیا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ممکن ہو ا اور اسے ممکن بنانے میں اکثر اوقات خود خواتین کی جدوجہد شامل رہی۔

دنیا بھر کے ممالک میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے علاوہ قانون سازی میں بھی خواتین کی شمولیت کو بے حد اہم تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ مانا جاتا ہے کہ خواتین قانون سازوں کی موجودگی سے نہ صرف خواتین کی نمائندگی ہوتی ہے بلکہ یہ خواتین ہی ہیں جو مردوں کے برعکس فقط hard coreسیاسی و معاشی معاملات کے علاوہ سماجی اور معا شرتی معاملات کے ساتھ ساتھ بچوں کے بارے میں بھی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ان کے حقوق اور فلاح و بہبود کے بارے میں مناسب قانون سازی میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔قانون سازی کے عمل میں شمولیت تو ایک طرف ، 20صدی کے آغاز سے بہت پہلے تک دنیا بھر میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا بنیادی حق تک حاصل نہ تھا۔ فقط ووٹ ڈالنے کا حق حاصل کرنے کے لیے خواتین کو باقاعدہ تحریک چلانا پڑی۔ 1983میں نیوزی لینڈ میں پہلی بار خواتین کو یہ حق دیا گیا۔ ساؤتھ آسٹریلیا میں 1894 میں خواتین کو نہ صرف ووٹ ڈالنے بلکہ پارلیمنٹ میں آنے کی اجازت بھی ملی۔ پاکستانی خواتین اس حوالے سے خوش نصیب ٹھہریں کہ انہیں قیام پاکستان کے بعد شروع سے ہی ووٹ دالنے ، شعبہ سیاست اور قانون سازی میں شمولیت کی اجازت تھی۔ قیام پاکستان سے بھی پہلے خواتین نے قائداعظم کی قیادت میں سیاست اور تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو تقریباہر دورِحکومت میں خواتین پارلیمنٹ میں موجود رہیں اور انہیں قانون سازی کے مواقع میسر رہے۔تقریبا تمام ادوار میں حکومتوں کی طرف سے خواتین کی بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے۔بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں خواتین کے لیے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ اور سول فارن سروس کے دروازے کھولے اور جنرل سیٹوں کے علاوہ خواتین کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستیں مختص کیں۔ مگر اس کے باوجود عملی طور پر بہت زیادہ اقدامات سامنے نہ آسکے کہ ملک سیاسی انتشار کا شکار رہا۔ جنرل ضیاء کے دور میں بھی خواتین کی بھاری تعداد حکومت میں شامل رہی۔ 1981میں مجلس شوری میں20 خواتین اراکین تھیں۔ سیدہ عابدہ حسین جیسی لبرل خواتین اس نظام کا حصہ تھیں ۔اس دور میں کابینہ سیکرٹریٹ میں وومن ڈویژن کا قیام سامنے آیا۔1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو خواتین کا مخصوص کوٹہ 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا۔ مگر فقط عددی موجودگی کا کوئی خاص فائدہ سامنے نہ آسکا اور آج بھی جنرل ضیاء کے دور حکومت کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے بدترین تصور کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں حدود آرڈینینس جیسے قوانین سامنے آئے۔

بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خواتین وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئیں تو یہ پاکستانی خواتین کے لیے ایک اعزاز ٹھہرا۔ انہوں نے اپنی سیاسی جماعت میں پڑھی لکھی خواتین کی شمولیت کو ممکن بنایا تو ہمیں کئی پڑھی لکھی قانون ساز خواتین میسر آئیں۔بے نظیر نے ما تحت اور اعلی عدلیہ میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا۔ اسپشل فیملی کورٹس بنا کر اس میں خواتین ججز کی تعنیاتی ، اسپشل وومن پولیس اسٹیشن اور فرسٹ وومن بینک جیسے اقدامات کیے۔ مگر اپنے دونوں ادوار میں حدود آرڈیننس کے خاتمے میں ناکام رہیں ۔اس کے باوجود ان کے دونوں ادوار میں خواتین کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لئے مثبت قانون سازی کی گئی۔

مشرف دور میں خواتین کی وزارت کو سوشل ویلفیئر اور ایجوکیشن سے الگ کر کے علیحدہ وزارت کا درجہ دیا گیا۔ خواتین کے لیے CSS میں 10فیصد اور باقی تمام گورنمنٹ ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا۔خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کی تعداد بھی بڑھا دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے ’’ روشن خیال‘‘ دورِحکومت میں ہی شیری رحمن کی طرف سے خواتین پر گھریلو تشدد کے حوالے سے Domestic Violence Bill پیش کیا گیا۔ڈاکٹر شیر افگن نیازی اس وقت وزیر برائے پارلیمانی امور تھے، انہوں نے اس بل کو متعارف کروانے کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ اسلام میں خاوند کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مار پیٹ سکے اور وہ پہلے یہ (غیر اسلامی بل ) اسلامی نظریاتی کونسل میں بھجوائیں گے۔پارلیمنٹ میں PPP کی طرف پر زور احتجاج کیا گیا۔۔۔ یہ وہ وقت تھا جب حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی مہناز رفیع نے اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر ، اپنی ہی جماعت کے وزیر سے اختلاف کرتے ہوئے اعلان کیا،کہ وہ اس معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں گیا۔ اس دن مہناز رفیع اور Qلیگ کی دیگر خواتین نے بل متعارف کروانے کی اجازت کے لیے اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ یہ پارلیمنٹ کی تاریخ کا ایک انوکھا اور دلچسپ واقع تھا کہ خواتین اپنے حقوق کی قانون سازی کے لیے اپنی ہی سیاسی جماعت کے خلاف ڈٹ گئیں۔

موجودہ دورمیں پارلیمنٹ میں تقریبا تمام جماعتوں کی نمائندہ خواتین موجود ہیں اور ان میں بہت سی خواتین حقوق نسواں سے متعلق قانون سازی کے حوالے سے کافی متحرک بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین پرگھریلو تشدد، تیزاب پھینکنے اور دفاتر میں ہراساں کئے جانے اور زبردستی شادی کے خلاف قانون سازی سامنے آئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو کام کرنے اور آگے بڑھنے کے جو بھی مواقع میسر آئے یا ان کے حقوق کے لئے قانون سازی کی گئی ،وہ کافی خوش آئند ضرور ہے مگر ابھی بھی خواتین کو وہ مکمل تحفظ حاصل نہیں جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اس تمام قانون سازی سے حالات میں یقینی بہتری تو آئی ہے مگر آج بھی ہماری خواتین کو استحصال کا سامنا ہے۔

خواتین قانون سازوں کی موجودگی پارلیمنٹ میں بجا طور پر بہت ضروری ہے مگر اس سے بھی ذیادہ ضروری ان خواتین کا قانون سازی کے لئے متحرک اور فعال ہونا ہے۔ بالکل اسی طرح فقط قانون بنانا ہی خواتین کے مسائل کا حل نہیں بلکہ ان قوانین کا مناسب اطلاق یقینی بنانا ہی انکی فلاح و بہبود کا زریعہ ہے۔ ورنہ عددی حوالے سے تو جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ میں بھی 42.3 فی صد خواتین قانون ساز موجود ہیں مگر وہاں ہر سال خواتین پر مظالم کے 65,000 سے ذیادہ واقعات سامنے آتے ہیں اور اسے خواتین کے رہنے کے لئے دنیا بھرکے سب ممالک میں سب سے بدترین تصور کیا جاتا ہے۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.