مختلف مکتبہ فکر اور ادیب و قلمکار

ایک تو مذہبی مکاتب فکر کے لوگ ہوتے ہیں دوسرے با صلاحیت تحریریں لکھنے والے ادیب،شاعر،کالم نگار وغیرہ ہوتے ہیں۔ان سب کی سوچ و فکر معاشرہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔معاشرہ بنتا اور بگڑتا رہتا ہے۔کبھی ترقی کی طرف گامزن کبھی تنزلی کا شکار ۔معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ میں یہ دونوں ادارے(علماء اور مصنفین )اہم کردار ادا کرتے ہیں۔علمائے کرام تو دین کی بنیادی باتوں میں یکسانیت رکھتے ہیں لیکن ادیب،قلمکار،شاعر اور افسانہ نگار وغیرہ اپنے اپنے مخصوص شعبوں میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔اور انکی آپس میں یکسانیت دین و دنیا کے حساب سے ہی ہوتی ہے۔جو دنیا دار ہیں ان کی حدود کا تعین انکے اپنے افکار کے مطابق ہوتا ہے۔جو اچھی تعمیری سوچ رکھتے ہیں وہ سبق آموز تحریریں لکھتے ہیں۔جو بہت زیادہ آزادانہ سوچ کے مالک ہوتے ہیں وہ بے حیائی کی طرف زیادہ جاتے ہیں۔اور معاشرے میں سوائے جنسی زہر گھولنے کے اور نوجوان نسل کو بے حیائی اور بے راہ روی کے کچھ نہیں دیتے۔معصوم بچوں کے لئے بھی ایسی اوٹ پٹانگ اور جھوٹ پر مبنی تحریریں لکھتے ہیں جس سے بچوں کے اندر سوائے گند گھولنے کے اور ان کا مقصد کچھ نہیں ہوتا ایسی تحریریں پڑھ کر بچے عجب کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔جیسی تحریر ویسی بچوں کی سوچ بن جاتی ہے۔اس کے بر عکس جو لوگ بچوں کو بچپن سے قرآنی واقعات اور نبیوں کے قصے ان کے ذہن نشین کراتے ہیں تو اس سے بچوں کا ذہن دین کی طرف راغب ہوتا ہے۔تحریرں،ڈرامے اور سٹیج شو کے ذریعہ جہاں ایک طرف معاشرہ کو بگاڑا جاتا ہے تو دوسری طرف اسلامی سوچ رکھنے والے ادیب،قلم کار اور دیگر فنکار اپنی تحریروں،اسٹیج شو اور ڈراموں وغیرہ میں دین اسلام کی بہترین سوچ کو بھی اجاگر کر سکتے ہیں۔انسان چونکہ اپنے نفس امارہ کا زیادہ پیرو کار ہوتا ہے اس لئے گندی سوچ و فکر کو جلدی قبول کرتا ہے۔اور اچھی سوچ کی باتوں سے دور بھاگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن اور حدیث کی طرف عام لوگوں کا رجحان بہت کم ہوتا ہے۔آدھے پون گھنٹے کا درس قرآن سننے کے لئے گنتی کے لوگ آتے ہیں لیکن فلموں،ناچ گانوں کے پروگرام سننے کے لئے لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کے پاکستان میں ملک کے نظریہ کو پھیلانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے لئے حکومت کو مجبور کرنے کے لئے قلم کار اتنی محنت نہیں کر رہے جتنی ملک کے نظریہ سے دور بھگانے اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بدلنے کے لئے جو قوتیں سرگرم عمل ہیں وہ اپنا زہر زیادہ اگل رہی ہیں۔اس کام کو آسان بنانے کے لئے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دلوانے کی بھر پور کوشیشیں جاری ہیں۔مسلم علمائے کرام تو شریعت کے نفاذ کے لئے 22 نکات پر متفق ہو چکے ہیں۔اور ان علماء کی کوششوں سے قرارداد مقاصد کے نام سے ان باتوں کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا جن پر علمائے کرام متحد ہو چکے تھے ۔اب وہ قلم کار جو دین بیزار اور لادینی سوچ رکھتے ہیں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانا بھی پسندنہیں کرتے۔اور ملک سے اسلام کے خلاف باتوں کو آئین سے نکالنا تو درکنار ملک کو اس کی نطریاتی اساس پر قائم رکھنے کے بھی خلاف ہیں۔یہ موقعہ پرست ادیب،قلمکار اور شاعر حضرات اپنی تحریروں میں اسلام کے خلاف باتیں لکھتے رہتے ہیں اور اپنے دہریہ ہونے کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔اسلامی ذہن رکھنے والے قلم کار اور شاعرو ادیب اپنی ایمانی قوت سے اپنے قلم حق اور سچ کے لئے استعمال کرتے ہوئے ان مفاد پرستوں اور موقع پرستوں کے مقابلے کے لئے میدان عمل میں آئیں اور ملک کو اس کی نظریاتی سرحدوں پر قائم و دائم رکھنے کے لئے اپنی تحریروں میں زور پیدا کریں اور جس طرح تمام مکاتب فکر کے علماء اپنے 22 نکات کی بنیاد پر قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنوانے میں کامیاب ہو گئے اسی طرح آپ حضرات بھی نظریہ پاکستان کے حوالے سے اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے متفق و متحد ہو جائیں۔اور یک قلم ہو کر ان لا دینی عناصر کو میدان سے بھاگنے پر مجبور کر دیں ۔پہلے یہ لوگ سوشلزم اور کمیونزم کے دلدادہ تھے اور اب لبرل بن گئے ہیں۔جو لوگ دین اسلام پر عمل کرنے کو نا مناسب سمجھیں یا دین کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہیں وہ کس طرح معاشرہ میں اچھی تبدیلی کے خواہاں ہو سکتے ہیں۔وہ پہلے روس کے گن گاتے تھے اب امریکہ اور نیٹو ممالک کے غلام بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔جو قلم کار اپنے کو امت مسلمہ کا ایک فرد تصور کرتے ہیں وہ اپنے قلم کو مثبت تبدیلی لانے کے لئے قلمی جہاد میں شریک ہو جائیں۔اﷲ ہم سب کا حامی و ناصڑ ہو (آمین)
 

Zahid Raza Khan
About the Author: Zahid Raza Khan Read More Articles by Zahid Raza Khan: 27 Articles with 29166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.