تھر پار کر میں اگتی ہوئی بھوک سے پھسلتی ہوئی زندگی

پاکستان کے صوبہ سندھ کے تھرپار کر کے علاقے میں قدرتی آفت قحط کی صورت میں برپا ہو چکی ہے ۔ اس آفت نے معصوم بچوں، حاملہ عورتوں اور جانوروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ قحط سالی، پانی کی قلت سے بیماریاں پھیلنا شروع ہوئی۔ انہی بیماریوں کے باعث ۱۴۰ سے زائد بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ شرح اموات کنڑول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ میڈیا اس متاثرہ علاقے کو منظر عام پر لانے کی پوری پوری کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ان دنوں سندھ حکومت فسٹیول منانے میں بے حد مصروف رہی۔۔ ۔ نہ جانے ایسے فسٹیول کا کا فائدہ تھا، جس میں نہ کوئی تہذیب تھی اور نہ کوئی ثقاقت تھی۔۔۔ صوبہ سندھ میں ایک طرف بچے سانس نہ آنے کی وجہ سے مر رہے ہیں تھے اور دوسری طرف سندھ فسٹیول میں حکمران ناچ ناچ کر اپنی سانسیں پھلا رہے تھے۔۔۔ ایسی بے حسی اور نا ایلی کا منہ بولتا ثبوت جب میڈیا نے پرچار کی اتو کچھ غیرت مند حکمران برا مان گئے۔حشک سالی کی وجہ سے مال مویشی مرتے رہے ، لوگ تقل مکانی کرتے رہے، والدین بچوں کو دفناتے رہے،، عورتیں درد سے کراتی رہیں۔۔۔، لیکن سندھ حکومت سندھی ثقافت اجاگر کرتی رہی اور MQM صوفیانہ کانفرنس کرواتی رہی۔۔۔ مگر اس لمخے الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا نے بے بسی کی اس داستان کو پوری دل جوئی کے ساتھ شائع کرنا شروع کیا۔۔۔ اخر انتظامیہ کی آنکھ کھل ہی گئی۔ اور لرکھڑاتے ہوئے امداد کو پہنچے، لیکن اب کس کام۔۔۔ حکمران اپنی سیٹوں کو بچانے کے لیے امداد کو اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔لیکن ناقص پالیسی کے باعث حاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔۔ اعلی احکام نے بھوک سے مرتی عوام کے لیے امداد بھجوائی۔۔ مگر وہ گندم سرکاری گوداموں میں تا لو ں کے پیچھے محفوظ کر لی گئی۔۔ یہی نہیں بلکہ انتظامیہ نے گندم کی ترسیل کے لیے فنڈز کا نہ ہونا کا بہانہ بنا کر گندم کو گوداموں میں محفوظ رکھا۔ محکمہ خوراک خو د خوراک پر بر ا جمان نظر آیا۔۔۔اناج گوداموں میں سڑتا رہا۔۔۔ تھر کے ریگستان میں بھوک اگتی رہی، جانوروں اور انسانوں کی جانیں ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتی رہی۔۔۔

جو ملک اناج میں خود کفیل ہو، اسکی عوام اناج کی کمی کے باعث موت کو گلے لگائے تو حکمران کے لیے یہ نہایت ہی شرم کا مقام ہے ۔۔۔آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم باہر کے ممالک درآمد کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کے بغل میں ہی لوگ گندم کی بر ا ٓمدنی سے محروم ہیں۔۔۔ اخر اسکا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے۔۔۔؟ بھوک اور بدحالی سے جب ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رک سکا تو ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا۔ سماجی تنظیموں نے بچوں کے لیے میلہ لگا دیا ، جیا لے مدد کے لیے گود پڑے، وزیر اعلی سندھ مٹھی کا دورہ کر کے لگے۔۔۔ وزراء ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کے لیے چکر کاٹنے لگے۔۔۔ بھٹو خاندان کا نومو لور چشم وچراغ Twitter پر بیانات جاری کر نے لگے۔۔۔ کہ ’’ اپنا پیٹ کاٹ کر تھر کے بچوں کا پیٹ بھریں گے۔۔۔‘‘ خدا را ان سے کوئی پوچھے پیٹ کاٹنا کسے کہتے ہیں کبھی اس مفہوم پر غور کیا ہے ۔ لیکن ایک بات ماننا پڑے گی ، بھٹو خاندان کے پاس کوئی باکمال بندہ ہے جو جاندار قسم کیء تقرریں لکھنے میں ماہر ہے۔، تحریروں کی پور پور میں جان ڈال دیتا ہے۔۔۔ جیالوں کے خوان گرما دیتا ہے لیکن تحرریں پڑھنے والے اچھے زاویے پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔۔۔ غریب عوام کے وٹوں سے منتحب کردہ حکمران اپنے اک وقت کے کھانے میں سات سات رنگ کے کھانوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ انہیں چاہیے کہ سات رنگوں میں ایک رنگ استعمال کریں ، بجٹ بچائیں اور غریب عوام کو بھوک سے نہ مرنے دیں۔۔۔ کیونکہ غر ض تو پیٹ بھرنے سے ہے ۔۔۔ پیٹ تو ایک رنگ کے کھانے سے ہی بھرا جا سکتا ہے، سات رنگ تو آگ لگانے والی بات ہے۔۔۔ تو جناب والا۔۔۔ پیٹ کاٹنے کی ضرورت نہیں آپ صرف اگر اپنے ایک مہینے کے بجٹ کا تیسرا حصہ ابھی تھر بھیجوا دیں تو ریگستان میں ہرلیالی آسکتی ہے۔۔۔
روٹی امیر شہر کے کتو ں نے چھین لی
فا قہ غر یب شہر کے بچو ں میں بٹ گیا

وزیر اعظم پاکستان نے اس سنکین مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے تمام مصروفیات منسوخ کر کے تھر کا دورہ کیا، ریلیف پیکچ کا اعلان بھی کیا۔۔۔ وزیراعظم کا بلا شبہ یہ ایک قابل تعریف کارنامہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے امداد وقت پر اور صحیح مقامات پر نہ پہنچنے کی وجہ جاننے کی کوشش بھی کی۔۔۔ پر بریفنگ کے دوران وزیر اعظم کے پر سکون لہجے میں لپٹے ہوئے تیکے الفاظ اور چھبتی نگاہوں سے سندھ حکومت کے حکمرانوں کے سر شرم سے جھک گئے ۔۔۔ جو کہ ان کی نا اہلی کا ثبوت پیش کر رہے تھے۔ حالات کنڑول سے باہر ضرور ہو چکے ہیں لیکن وزیراعظم جناب نواز شریف اگر وقتا فوقتا سندھ حکومت پر ہنگامی اجلاسوں اور انکواریوں کا گھنٹا بجاتے رہے تو تھر کی عوام کو قحط کے terrorism سے بچا سکتے ہیں۔۔۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 38220 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.