آپ کو انعام مبارک ہو

میں اپنے آفس میں کسی کام میں مصروف تھا کہ ایک جاننے والا آگیا جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا کہنے لگا کہ یار میں تو لٹ گیا میں نے کہا کس نے لوٹا تو پہلے تو شرمندگی سے کچھ بتانے سے انکاری ہو گیا مگر جب میں نے اسے تسلی دی تو وہ ساری بات بتانے پر راضی ہوگا اس کی کہانی کچھ یوں تھی کہ میرے موبائل کے میسج کی گھنٹی بجی جب میسج چیک کیا تو لکھا تھا کہ مبارک ہو آپ کا پانچ لاکھ کا انعام نکلا ہے آپ اس دیے گئے نمبر۔۔۔پر کال کریں ہمارا نمائندہ آپ کی رہنمائی کرئے گا میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ میری قسمت کھل گئی ہو یہ سوچ کر کے مجھے انعام مجھے کیسے مل سکتا ہے میں نے اس دیے گئے نمبر پر کال کی تو بظاہر ایک نہایت ہی مہذب آ واز آئی کے اگر اپ فلاں کمپنی کے کسٹمر ہیں تو فلاں نمبر دبائیے اگر فلاں کہ ہیں تو فلاں، فلاں الغرض جب میں مطلوبہ نمبر پر پہنچا تو ایک آواز آئی کہ جناب بہت بہت مبارک ہو آپ پانچ لاکھ کے حقدار ہو گے میری تو جیسے جان ہی نکل گئی ہو میں نے پوچھا جناب پیسے ملیں گے کہاں سے تو صاحب فرمانے لگے کے آپ کو کوڈ بھیجا جا رہا ہے اس کو محفوظ رکھنا ہے اور کسی بھی شخص یہاں تک کے گھر والوں کو بھی نہیں بتانا اس کے بعد آپ جائیں دوکان پر وہاں سے ہمارے دیے گے نمبر پر پانچ ہزار کا لوڈ کروائیں اس کے بعد آپ کو ایک اورکوڈ دیا جائے گا جس میں آپ کا انعام ہو گا میں نے ان کے نمبر پر پانچ ہزار کا لوڈ کروا دیا اس کے بعد انعام کا کہا تو کہنے لگے کے پانچ ہزار اور کروائیں وہ بھی کروا دیے تو اچانک سے وہ نمبر بند ہو گے جن پر مجھے ہدایات دی جا رہی تھیں اور میں اپنے دس ہزار سے محروم ہو گیا یہ تو ایسی کہانی تھی جو مجھ تک پہنچی اس جیسی کئی کہانیاں اور ہیں جو لوگ شرمندگی کی وجہ سے کسی کو نہیں بتاتے اپنے ملک کے لٹتے لوگوں کو دیکھ کر میں نے سوچا کیوں نہ اسی کو موضوع بنایاجائے یہی سوچ کر آج کا کالم تحریر کر رہا ہوں ہو سکتا ہے کئی اور لوگ اس کو پڑھ کر لٹنے سے بچ جائیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں موبائل فون کا استعمال بھی جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے وہ بہت ہی حیران کن ہے جس کا اظہار دنیا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی کرتے نظر آتے ہیں پاکستان جہاں آج سے پندرہ سال پہلے ٹیلیفون کی سہولت صرف چند ہزار لوگوں کو میسر تھی آج وہاں موبائل اور ٹیلیفون کے صارفین کی تعداد دس کروڑ سے بھی اوپر جا رہی ہے اور موبائل فون کے استعمال میں اور موبائل سیلولر مارکیٹ میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں جتنا کم وقت پاکستان نے لیا ہے شائد ہی کسی ملک نے لیا ہو پاکستان میں اس وقت کئی موبائل فون سروس دینے والی کمپنیاں انفرادی حیثیت یا شراکت داری میں اپنے کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں بلاشبہ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جسے مشرف دور حکومت کے اچھے کاموں میں سے ایک کام کہا جا سکتا ہے پاکستان میں ان موبائل کمپنیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے پی ٹی اے کا ادارہ کام کر رہا ہے جس کے کاموں میں اولین کام صارفین کے حقوق کا تحفظ ان کو اعلیٰ قسم کی سروس پہنچانے میں کردار ادا کرنا اور ان موبائل کمپنیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا شامل ہے اب جبکہ پاکستان موبائل کمپنیوں کے لیے ایک پر کشش مارکیٹ بن چکی ہے اور ایک صارفین کی اچھی خاصی تعدادہے جس سے ان کو خاطر خواہ منافع بھی ہو رہا ہے ایسی صورت حال میں جرائم پیشہ لوگ بھی متحرک ہو گئے ہیں اور ساتھ ہی موبائل کمپنیاں اپنے صارفین کو سہولیات دینے کے بجائے لوٹ مار میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے عوام کی جیبوں سے اربوں روپے مفت میں بٹورے جا رہے ہیں اس کے علاوہ ان موبائلز کے عام ہونے کی وجہ سے منظم وارداتیں بھی عام ہو گئی ہیں جن میں کچھ منظم گروہ عوام کو انعام کی لالچ میں لوگوں کوبے وقوف بنا کر لوٹ رہے ہیں اور یہ سب کام ان موبائل کمپنیوں کی آشیر باد سے کیا جا رہا ہے اور عوام کو لوٹا جا رہا ہے ان لوگوں کا طریقہ واردات اتنا منظم ہوتا ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی لٹ جاتا ہے سب سے پہلے وہ آپ کے نمبر پر کال کرتے ہیں اس کال کے نمبر زسنگل ڈجٹ میں ہوتے ہیں جس سے واضح طور پر پتا چلتاہے کہ یہ کسی موبائل نیٹ ورک کے مین آفس سے کال کی جارہی ہے اس کے بعد باقاعدہ طور پر ٹیپ چلتی ہے کہ آپ کو فلاں نیٹ ورک میں خوش آمدید اس کے بعد فلاں سہولت کے لیے فلاں نمبر دبایے پھر آگے سے ان کا نمائدہ بڑی وضاحت سے سمجھاتاہے کہ آپ کا اتنا انعام نکلا ہے دو تین لاکھ کا سن کر ویسے ہی انسان کے حواس گم ہو جاتے ہیں پھر جب وہ پوری طرح شیشے میں اتار لیتا ہے تو کہتا ہے کہ آپ اتنی رقم ہمارے نام پر یا اتنے موبائل کارڈ لوڈ کروائیں سادہ لوح لوگ جو کہ ان کی چال کو نہیں سمجھ سکتے اور لٹ جاتے ہیں اور اس بارے میں جب متعلقہ کمپنی کو کال کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ آپ اس نمبر کو بلاک کر دیں اب کوئی ان سے پوچھے کے جناب آپ اس نمبر کو بلاک کریں تاکہ مذید کئی لوگ لٹنے سے بچ جائیں مگر ان کمپنیوں کی بلا سے کے کوئی ان کے نیٹ ورک کا استعمال صیحح کرتا ہے یا غلط ،پی ٹی اے بھی ان کے سامنے بے بس ہے اس سلسے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ ان کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتے کیونکہ ایسے جرائم کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہیں جو حکومت اپنے وزراء اور دیگر لوگوں کے لیے قانون سازی راتوں رات کر سکتی ہے اور اسے منظوربھی کرا سکتی ہے تو جو شعبہ اس کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے اس کے صارفین کے تحفظ کے لیے کیونکر ایسا نہیں کیا جا رہا ہے یہ بات اس اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس کام میں یقینا بہت سے بڑے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ عوام کو لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں پی ٹی اے کیا کر رہا ہے اور وہ موبائل نیٹ ورک جن کے صارفین لٹ رہے ہوتے ہیں وہ کہاں سو رہے ہوتے ہیں کیا وہ اتنے غافل ہیں کہ جن صارفین سے وہ لاکھوں روپے کما رہے ہوتے ہیں ان کا تحفظ بھی نہیں کر سکتے وہ اس لیے کہ وہ خود ان صارفین کو لوٹنے میں سر گرم ہیں کھبی انعامات کی لالچ میں کہ فلاں انعام نکلے گا اتنے کا ٹاک ٹائم استعمال کریں ،کھبی سوالات کے جواب دیں اتنا انعام حاصل کریں اور اس طرح سے روزانہ کی بنیاد پر کھیلی جانے والی ان انعامی گیمز کا کوئی حقدار سامنے نہیں آتا جس کا صاف سا مطلب ہے کہ یہ کمپنیاں صارفین سے اس مد میں لاکھوں روپے کما رہی ہیں اور ان کو روکنے اور چیک رکھنے والا ادارہ بھی کوئی کاروائی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا جس کا مطلب ہے کہ یہ سب اسی ادارے کی اشیر باد کے نتیجے میں ہو رہا ہے یہ بات بڑی واضح ہے کہ موبائل کمپنیوں پر پی ٹی اے کا کوئی چیک نہیں ہے دوسری طرف حکومتی ٹیکسوں کی وجہ سے صارفین پہلے ہی پریشان نظر آتے ہیں کیونکہ سو روپے والے کارڈ کے ریچارج پر مختلف ادائیگیوں کی مد میں پندرہ بیس روپے تو ویسے ہی کاٹ لیے جاتے ہیں اس کے بعد ہر کال پر ٹیکس پھر حکومت کی طرف سے ٹیکس الغرض کہ صارفین کو سو میں سے پچاس بھی بمشکل مل پاتے ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان جرائم کو جو کہ کافی منظم ہو چکے ہیں قابو پانے کے لیے سب سے پہلے قانون سازی کرئے اور ان کی سزائیں مقرر کرئے اس کے بعد تمام موبائل کمپنیوں سے ان کے صارفین کے تحفظ کے حقوق دلوائے اور جو بھی کمپنی کوئی بھی انعامی سکیم شروع کرنے لگے اس کی پہلے پی ٹی اے سے منظوری حاصل کرنا ضروری قرار دیا جائے تمام کمپنیاں اپنے کال پیکجز کے ریٹ کو واضح کریں اور کسی بھی نیٹ ورک پر کال کرنے کی صورت میں خرچ ہونے والا اور باقی بچ جانے والے بیلنس کو صارف تک پہنچائے تاکہ غریب صارفین کے سرمائے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے ۔
 

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206806 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More