بسم اللہ : ایک شعائرِ اسلام

یہ طائف ہے۔
یہاں کے شرفاء نے نہایت بے رخی و بد اخلاقی کا ثبوت دیا‘ نہ صرف نازیبا سلوک کیا بلکہ یہاں کے اوباشوں تشدد پر اکسایا اور ان اوباشوں نے شقاوتِ قلبی کی انتہا کر دی ہے۔

صادق و امین رحت اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم پر اتنے پتھر برسائے کہ آپؐ کے نعلین مبارک خون سے لت پت ہوگئیں، درد کی شدت سے آپؐ بیٹھ جاتے تو آپؐ کو کھڑا کر دیتے اور پھر پتھر برسائے جاتے۔ یہ ظلم کی انتہا تھی جس کا آج کے دور میں تصور محال بھی ہے۔ آج جو دنیا مہذب ہویٴ ہے تو ان ہی ظلمتوں میں جسم مبارک پہ پتھروں کے بارش سے لہو لہان ہونے کے باوجود صبر اور دعا کی برکت سے ہی ہوی ہے۔

زخموں سے چُور اور مجبور ہوکر آپؐ نے ایک باغ میں پناہ لی جو عتبہ اور شیبہ کی ملکیت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ انگور کی ایک بیل کی طرف بڑھتے ہیں اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں۔

طائف کے اوباش جا چکے ہیں۔

عتبہ اور شیبہ بھی باغ میں موجود ہیں۔
عتبہ اور شیبہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس حالت میں دیکھا تو اُن کے اندر کی قبائلی حمیت جاگ اُٹھی‘ انہیں ترس آگیا۔
انہوں نے عداس نامی اپنے ایک نصرانی غلام کو بلایا اور ان سے کہا انگور کے چند خوشے ایک پلیٹ میں رکھ کر اس آدمی کے پاس لے جاوٴ اور اس سے کہو کھا لے۔

عداس انگور کی پلیٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیش کیا اور بولا: ’’ کھائیے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ’’ بسم اللہ ‘‘ پڑھ کر اپنا ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کردیا ۔

’’ بسم اﷲ‘‘ پر عداس کے تعجب کی کوئی حد نہ رہی‘ اس نے حیرت سے آپؐ کی طرف دیکھا اور عرض کیا:
’’ اس علاقے کے لوگ تو یہ کلمات نہیں کہتے۔‘‘
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ عداس ! تم کہاں کے رہنے والے ہواور تمہارا دین کیا ہے ۔‘‘
اس نےجواب دیا: ’’ میں نصرانی ہوں اور نینویٰ کاباشندہ ہوں ۔‘‘
رسول اللہؐ بولے:
’’ مرد صالح یونس بن متیٰ کی بستی سے ؟ ‘‘
’’ آپ کو کیا معلوم کہ یونس بن متیٰ کون ہیں ؟ ‘‘ عداس کی حیرانی اور بڑھ گئی۔
رسول اللہؐ نے بتایا:
’’ وہ میرے بھایٴ ہیں۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔‘‘

عداس نے نبوت کے یہ آثار وصفات دیکھ کر آپ کے سر اور ہاتھ پاوٴں کا بوسہ دیا اور کہہ اُٹھے:

أَشْهَدُ أَنَّكَ عَبْدَ اللهِ وَرَسُوْلُهُ۔

" میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ "

واپس اپنے مالکان کی خدمت میں پہنچا تو اُنہوں نے اسے ڈانٹا لیکن غلامِ بے نوا کے لبوں پر یہ الفاظ مچل اُٹھے :

ما فی الأرض خير من هذا۔ ’’روئے زمین پرآج ان سے بہتر کوئی نہیں۔‘‘

جی حضرت عداس رضی اللہ تعالیٰ نے بالکل سچ کہا:
جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے برگزیدہ بنا کر اپنی رسالت کے لیے چن لیا ہو ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔ اور تاریخ نے یہ ثابت کر دیا۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم پہ ہم سب فدا ہوں !

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے جہراً نکلا ہوا ’’ بسم اﷲ‘‘ نے ایک عیسایٴ کو مسلمان بنا دیا۔

آج ہم اس شعائر اسلام پہ کتنا عمل پیرا ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو جہراً ’’ بسم اﷲ‘‘ کہتے ہیں۔
کتنے ہیں جو کسی غیر مسلم کے محفل میں بیٹھ کر کھاتے پیتے ہوئے یا کسی غیر مسلم سے کویٴ لین دین کرتے ہوئے با آواز بلند ’’ بسم اﷲ‘‘ کہتے ہیں۔ ہمارے دلوں میں داعیٴ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم والی داعیانہ تڑپ کیوں پیدا نہیں ہوتی کہ ہمارے قول و فعل سے کویٴ جہنم میں جانے سے بچ جائے۔

بلند آواز سے ’’ بسم اﷲ‘‘ کہنے میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ ’’ بسم اﷲ ‘‘ کہنا بھول جاتیں ہیں وہ بھی کہہ پائیں گیں۔

ایک دور تھا جب مسلمان دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا شروع کیجئیے یا تناول فرمائیے کہنے کے بجائیے ’’ بسم اﷲ ‘‘ کیجئیے کہتے تھے لیکن آج کے جدید دور میں اب یہ کہنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح مسلمانوں میں کویٴ بھی کام مل جل کر شروع کرنے سے پہلے ’ شروع کیجئے ‘ کہنے کے بجائے ’’ بسم اﷲ ‘‘ کیجئے ہی کہنے کا رواج تھا لیکن آج یہ بھی نا پید ہے۔

لیکن آج ہم صرف قرآن کی تلاوت کرتے وقت‘ درس و تدریس میں یا پھر کویٴ اسلامی تقریر کرتے وقت ہی جہراً ’’ بسم اللہ ‘‘ کہتے ہیں۔

’’ بسم اﷲ‘‘ کی فضیلت و برکت کے بارے ہم میں کویٴ بھی انکاری نہیں لیکن ہم عملی طور پہ اس شعائر اسلام سے دن بدن دور ہوتے جارہے ہیں۔

تو آئیے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سنت کو زندہ کریں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سبق سکھایا ہے:

’’اغلق بابک واذکر اسم اللہ واطفي مصباحک واذکراسم اللہ و خمراناءک واذکراسم اللہ واوک سقاءک واذکراسم اللہ ‘‘ (تفسیر القرطبی)

ترجمہ : دروازہ بند کروں تو اللہ کا نام لیا کرو۔ دیا بجھاو تو اللہ کا نام لیا کرو۔ اپنے برتن ڈھانپو تو اللہ کا نام لیا کرو۔ اپنی مشک کا منہ باندھو تو اللہ کا نام لیا کرو۔

مقصد یہ ہے کہ ہر کام چھوٹا ہو یا بڑا کرتے وقت انسان اپنے کار ساز حقیقی کا نام لینے کا خوگر ہو جائے تاکہ اس کی برکت سے مشکلیں آسان ہوں ۔ اس کی تائید و نصرت پر اس کا توکل پختہ ہو جائے۔ نیز جب اسے ہر کام شروع کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی عادت ہو جائے گی تو وہ ہر ایسا کام کرنے سے رک جائے گا جس میں اس کے رب تعالی کی ناراضگی ہو ۔

اے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے ہمیں‘ ہمارے بچوں اور آئندہ نسلوں کو اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں پر پورا پورا عمل کرنے والا بنا دے۔ آمین یا رب العالین.

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 62739 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More