مائی بیسٹ فرینڈ

ہمارے ایک فیس بک فرینڈ ہیں،عشرت اقبال وارثی۔کمال کے آدمی ہیں اور ہمہ صفت موصوف۔ عالم ہیں، عامل ہیں، شاعر ہیں، کالم نگار ہیں اور پھر کالم نگاری میں تنوع کا یہ عالم کہ قلم جس سمت نکل جائے سکے جما دیتا ہے۔دین کے مشکل مسائل سے لے کے قرب الہی اور دنیاوی مسائل کے حل کے لئے اذکار تک، مزاح سے لے کے افسانوں تک ہر صنف میں ان کا قلم اپنے جوہر دکھاتا ہے اور ایسا کہ قاری مبہوت ہو جاتا ہے۔ خاص آدمی ہیں اس لئے اندرون سندھ میر پور خاص میں رہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی ان کی خوشبو اسلام آباد تک نہیں پہنچی لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک دن اسلام آباد والے بھی ان کی عنایات سے مستفید ہوں گے۔ان کی ان ساری خصوصیات سے قطع نظر عاشق رسول ﷺ ہیں اور ایسے کہ ان کی محبت پہ باقاعدہ رشک آتا ہے۔اﷲ کریم ہمیں ان کی اس محبت میں شریک کرے ۔آمین

عشرت بھائی چونکہ انسان کی اہمیت و عظمت سے اور اس کے مقام سے آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ مخلوق کو خوش کرنا اور خوش رکھنا کتنے ثواب کا کام ہے اس لئے وہ لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹ لانے اور انہیں آسانیاں فراہم کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ وطن عزیز میں جب سے بارود کی بو پھیلی ہے مسکراہٹیں عنقا ہو گئی ہیں اور مزاح نگار ناپید۔ایسے میں عشرت بھائی جیسے لوگوں کا دم غنیمت ہے جو اپنے قارئین کو متبسم ہونے کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔کل انہوں نے اپنے پیج پہ ایک واقعہ تحریر کیاجسے پڑھ کے مزہ آ گیا۔ لکھتے ہیں۔بیگم نے اپنے میاں کو اس کے آفس فون کیا اور کہنے لگیں ۔ونڈو نہیں کھل رہی ، بتاؤ میں کیا کروں؟میاں جو کسی دفتری الجھن میں تھا،جواب میں بولا۔جانو! اس میں تھوڑا تیل ڈالو کھل جائے گی۔یہ کہہ کے اس نے فون بند کر دیا۔تھوڑی دیر بعد بیگم کا دوبارہ فون آیا۔جان!میں نے سرسوں کے تیل کی پوری شیشی ڈال دی ہے لیکن ونڈو پھر بھی نہیں کھل رہی بلکہ اب تو لیپ ٹاپ سرے سے آن بھی نہیں ہو رہا۔بتاؤ اب کیا کروں؟

اسی لطیفے سے مجھے بھی ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا۔ ہماری طرح کے کسی فقرے نے قرض ادھار کر کے چالیس ہزار والا انعامی بانڈ خرید لیا۔اس کے بعد وہ ایک بزرگ کے مزار پہ پہنچااور ان کے توسل اور توسط سے ا نتہائی خشوع وخضوع سے دعا مانگنے لگا کہ میرا انعامی بانڈ نکل جائے۔ دعا کر کے باہر نکلا تو پتہ چلا کہ دورانِ دعا کسی نے جیب سے پرائز بانڈنکال لیا ہے۔ وہ فوراََ واپس مڑا اور مزار پہ آکے کہنے لگا کہ بابا جی!کسی پاگل کے پتر کی بات کو پہلے سمجھ تو لیا کریں۔میں نے انعام نکالنے کو کہا تھاآپ نے بانڈ نکلوا دیا۔جبکہ دعا اس نے بانڈ نکلنے ہی کی کی تھی۔ضرورتیں چونکہ ہمارے دل و دماغ پہ سوار ہوتی ہیں اس لئے دعا مانگتے سمے ہم اپنے الفاظ پہ غور نہیں کرتے اور جب ہماری دعا من وعن قبول ہو جاتی ہے تو پھر ہم شکوہ و شکایت کے دفتر کھول لیتے ہیں۔اشفاق احمد مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اپنی پریشانی اﷲ کے سامنے ضرور پیش کرو لیکن اس کا حل نہ بتاؤ۔ ہو سکتا ہے تم ایک پھول مانگ رہے ہو جبکہ وہ تمہیں پورا باغ عطا کرنے والا ہو۔

کہنے کو تو یہ دو لطیفے ہیں لیکن اگر آپ انعامی بانڈ نکالنے والے بابا جی نہیں ہیں تو ذرا انہیں اپنے ملکی حالات پہ منطبق کر کے دیکھیں۔ آپ کو سمجھ آئے گی کہ ہم بھی اپنے بہت سارے ملکی مسائل کی ونڈو کھولنے کے لئے تیل کے کنستر کے کنستر ڈال رہے ہیں اور یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کچھ ہی دنوں میں ہمارا سپر کمپیوٹر بگٹٹ بھاگنے لگے گا۔ہم نے سود کے تیل کی بوتل ہاتھ میں پکڑی ہے اور اسے بے روزگاری کے لیپ ٹاپ میں انڈیل رہے ہیں ۔جبکہ وسعت اور کشائش دینے والے رب نے سود کو اپنے ساتھ کھلی جنگ قرار دے رکھا ہے۔ ہم دنیا جہاں کے نا اہل نکمے اور کرپٹ لوگوں کو اپنے اداروں کی سربراہی بانٹ کے یہ توقع کر رہے ہیں کہ اب معاملات سدھر جائیں گے۔کہیں ہم دہشت گردی کے لیپ ٹاپ میں مذاکرات کا تیل ٹھونس رہے ہیں اور کسی ونڈو کے کھلنے کے منتظر ہیں۔اﷲ کرے مذاق رات کا یہ تیل کام کر جائے اور یہ کھڑکی کسی طرح کھل جائے لیکن مذاق رات کے ساتھ ساتھ فوج اور ایف سی کے اہل کاراور عام لوگ آئے دن جس طرح بم دھماکوں میں مر رہے ہیں اس سے لگتا تو یہی ہے کہ یہ لیپ ٹاپ بھی اب شاید ہی چلے۔مذاق رات کے ضمن میں میر کا ایک شعر اپنے قارئین کی نذر کہ
میر بھی کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے۔۔۔۔۔ دوا لیتے ہیں

مولانا سمیع الحق،رستم شاہ مہمند کیا اسی عطار کے لونڈے نہیں ۔باقی رہے دوسرے بیوروکریٹس تو انہیں شامل باجا ہی سمجھیں۔ کچھ ستم ظریف تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس کمیٹی کی ہیئت دیکھ کے لگتا ہے کہ یہ کامیابی کے لئے نہیں ناکامی کے لئے بنائی گئی ہے۔

مجھے اپنا معاملہ بھی اس لڑکے جیسا لگتا ہے جسے صرف ایک مضمون" مائی فرینڈ" یاد تھا امتحان میں جو بھی سوال آتا وہ اس کے جواب میں گھما پھرا کے" مائی فرینڈ" فٹ کر دیا کرتا تھا۔میں بھی آج لطائف سے آپ کی تواضح کرنا چاہتا تھا ۔چاہتا تھا کہ آپ کے چہرے پہ چند لمحوں ہی کو سہی لیکن مسکراہٹ آئے ۔آپ کے چہرے کے عضلات کچھ بہتر محسوس کریں لیکن اپنی نالائقی اور نا اہلی کو کہاں لے جاؤں کہ مجھے بھی تو بس ایک ہی مضمون یاد ہے۔بات کہیں سے بھی شروع کروں اس کی تان" مائی بیسٹ فرینڈ "ہی پہ آ کے ٹوٹتی ہے۔ ان حالات میں جن سے میں اور میری قوم دوچار ہے کوئی محرم راز ہی ہنس سکتا ہے ہم جیسے دنیادار نہیں۔ جب ہمارے وزیر دفاع ایک ہی سانس میں یہ کہیں کہ طالبان کے خلاف آپریشن ناگزیر ہے اور پھر اسی سانس میں کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو ملک خدانخواستہ توٹ جائے گا تو ہنسنے کو نہیں سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269035 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More