پہلےشریعت یا اچھی حکومت

تربیت کا فقدان بلا شبہ ہمارے معاشرہ کا سب سے بڑا المیہ ہے،مگر کیا تربیت کے کما حقہ حصول اور اچھی لیڈر شپ کے بر سر اقتدار آنے تک نفاذِ شریعت کے مطالبہ کو موقوف رکھا جائے گا؟؟؟

یہ سوال آج کل مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھایا جارہا ہے۔اس حوالے سے بعض حضرات کا نقطۂ نظر تو یہ ہے کہ" جب تک اچھی حکومت نہیں آجاتی کتنا ہی پاکیزہ اور وحی الہی پر مبنی نظام کیوںنہ نافذ کردیا جائے....مسائل حل نہیں ہوسکتے"۔ان کے خیال میں یہ مؤقف اسوۂ رسولِ اکرم ﷺ سے ماخوذ ہےکہ" آپ ﷺ نے مدینہ آنے کے بعد پہلے حکومت قائم فرمائی جبکہ نظام کی تکمیل تو 10ھ تک جاری رہی۔گویا شرعی نظام بہت بعد میںبتدریج آیاجبکہ حکومت پہلے قائم ہوئی"۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ تصور ان حلقوں کی جانب سے سامنے آرہا ہے جو عرصہ دراز سے یہ بات کہتے اور لکھتے آئے ہیں کہ" کوئی ریاست بغیر قانون کے چل نہیںسکتی"۔پھر ریاستِ مدینہ ان کے بقول بغیر آئین کے 10سال کیسے چلتی رہی؟؟؟میرے خیال میںناچ نہ آئے تو آنگن ٹیڑھا کے مصداق یہ سوال انہیں حیلوں بہانوں میں سے ایک ہے جو آج کل ہمارے اینکرز اپنے ٹاک شوز چلانے کے لیے روزانہ مارکیٹ میں لاتےہیں۔جیسے "طالبان کی شریعت"،"حضرت عمررضی اللہ عنہ نے چور کی حد ساقط کیوں کی"،"پہلے معاشرے کی اصلاح یا شریعت کا نفاذ"وغیرہ وغیرہ۔

حالانکہ بات بالکل دو ٹوک اور واضح ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ آمد کے بعد بیک وقت حکومت بھی قائم فرمائی اور اس کا نظام بھی نہ صرف مرتب بلکہ نافذ فرمایا۔"میثاق مدینہ" جو داخلہ اور خارجہ پالیسی کے متعلق 46سے زائد دفعات پر مشتمل ہے آئین اور قانون نہیں تو آخرکیا ہے؟شریعت کے جو احکامات اس وقت تک نازل ہو چکے تھےاور حکومت سے متعلق تھے انہیں آپ ﷺ نے بیک جنبشِ قلم نافذ فرمایا۔باقی ظاہر بات ہے کہ اس وقت تشریع(شرعی احکامات کے نزول) کا سلسلہ جاری تھا تو جو حکم اس وقت تک نازل ہی نہیں ہوا اس کو آپ ﷺ کیسے نافذ فرماتے؟یہ دعویٰ کہ" پہلے آپ ﷺ نے اچھی حکومت قائم فرمائی اور جب اچھی حکومت قائم ہوگئی تو پھرآپ نے اللہ کے احکامات کو نافذ فرمایا"تب درست ہوتا جب دلیل میں کوئی ایک ایسا حکم پیش کیا جاتا جو ہجرتِ مدینہ کے وقت نازل ہوچکا تھا اور پھر بھی اس کے نافذ کرنے کے لیے "اچھی حکومت " کے قیام کا انتظار کیا گیا!!!

اگر خلافت اسلامیہ کا صحیح طرح مطالعہ کیا جائے تو معاملہ بالکل بے غبار ہو جائے گاکہ آیا نفاذِ شریعت اچھی حکومت پر موقوف ہےیا نہیں؟خلافت میں ایک اہم عمل"احتساب" کا ہوتا ہے۔یہ احتساب کا عمل عوام اور خاص "محکمۂ احتساب" دونوں سے سرانجام پاتا ہے۔اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ حکمرانوں کی غلط روش پر گرفت کی جائے۔اس شعبہ کے فعال ہوتے ہوئے"زرداری" کو بھی کرپشن کی جرات نہیںہو سکتی۔لہذا حکومت اپنی ذات میں کتنی ہی بری کیوں نہ ہو اسلامی سیاسی نظام میں حکومتی سطح پرقوانین پر عمل درآمد کے سلسلے میں اس کی برائی ہرگزاثر انداز نہیں ہوسکتی۔بشرطیکہ ہو مکمل طور پر"اسلامی نظام" ہی۔

دوسری بات اس حوالے سے یہ کہی جارہی ہے کہ جن ممالک میں شرعی سزائیں نافذ ہیںوہاں بھی جرائم کا سدباب نہیں ہوپارہا۔لہذا اسلامی نظام کے نفاذ سے پہلے اچھی حکومت کاقائم ہوناضروری ہے۔میں یہاں دو باتیں عرض کروں گا:ایک تو یہ کہ
ع تو ہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں

آپ کےاس اصول کے مطابق اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جب اچھی حکومت بر سرِ اقتدار آجائے گی تو شریعت کے نفاذ سے تمام جرائم یکلخت عنقا ہوجائیں گے؟؟اس وقت پھر کہا جائے گا کہ جب تک معاشرے کی اصلاح نہ ہو تب تک شریعت کا نفاذ نہیں کرنا چاہیے(جیسا کہ آج کل بھی یہ شوشہ چھوڑا جا رہا ہے)۔

دوسرا یہ کہ جن ممالک میں شرعی سزائیں نافذ ہیں اور ایک حد تک شرعی قوانین کی عملداری ہے وہاں کے جرائم کا تناسب اورتقابل ان ممالک سے کرکے دیکھ لیا جائےجہاں ان شرعی سزاؤں کا اجراء نہیں۔حقیقت خود بخود آشکارا ہوجائے گی۔بہرحال ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں یہ بلا چوں چراتسلیم کرناچاہیے کہ شرعی سزاؤں کے اجراء ہی میں ان جرائم کا سدباب ہوسکتا ہے۔ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب لعلکم تعقلون ....اور اگر بالفرض خارج میں ہمیںیہ نظر بھی آئے کہ شرعی سزاؤں کے کماحقہ اجراء کے باوجود جرائم کی روک تھام نہیں ہورہی(اور ایسا ہوگا نہیں)تو لازماََ اس میں ہماری ہی طرف سے کوتاہی ہےکہ ہم نے ان سزاؤں کے اجراء میں ان تمام لوازمات کی رعایت نہیں رکھی جن کی شریعت نے ہمیںتلقین کی ہے۔ کیونکہ رب کا قرآن کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔

اصل میں تمام اشکالات اور وساوس یہاں سے پیدا ہوتے ہیں کہ ہم مادیت زدہ ہونے کی وجہ سے اسلامی احکامات کو بھی مادیت پرستانہ ذہنیت کے ساتھ لیتے ہیں۔حالانکہ شرعی نظام کے نفاذ کا حکم ہم مسلمانوں کو بالکل اس طرح ہے جیسے ہمیں نماز،روزہ،زکاۃ کا حکم ہے۔ان تمام شرعی احکامات کے ثمرات ونتائج اور ان کی برکات اپنی جگہ مسلم ہیںکہ ان پر عمل کرنے سےمثلاََغربت کا خاتمہ ،بھوکوں کا احساس ہوتاہے۔ مگر ہم مسلمانو ںکے لیے ان احکامات کے بجالاناصرف حکمِ خداوندی کی وجہ سے ہے۔کسی ظاہری ودنیوی فائدے کی وجہ سے نہیں۔

باتیں تو بہت ہیں پراسلام کے ان بہی خواہوں کے ان نت نئے تحفظات پر تبصرہ کرتے ہوئے دل دکھتا ہےکہ مسلما ن ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر اسلامی احکامات لاگو کرنے کے لیے ایسی کڑی شرائط لگاتے ہیںجو نہ ہمیں اللہ نے بتائیں نہ رسول اللہ نے!!!
mubashir
About the Author: mubashir Read More Articles by mubashir: 8 Articles with 10398 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.