مفکروداعی فتح اﷲ گولن ۔خدمات وافکارکے چندپہلو

جناب فتح اﷲ گولن صاحب پوری دنیامیں اپنی خدمات کے لئے معروف ہیں اورایک عظیم مفکر، داعی، دانشور اور ترکی کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، آپ کوترکی کاروحانی باپ بھی کہاجاتا ہے،پوری دنیامیں آپ کی خدمات اورافکارو خیالات کی گونج ہے،سینکڑوں مدارس اورکالجز ترکی میں ہیں،اوراسی تعدادمیں تعلیمی ادارے وسط ایشیا،روس،کینیا،بلقان اورقفقازوغیرہ میں ہیں،ترکی کے علاوہ مختلف ممالک میں ثقافتی ورفاہی ادارے ہیں،ترکی میں ریڈیواسٹیشن،ٹیلی ویژن اسٹیشن ، اخبارات ، صحافتی ادارے ہیں،آپ کی ہمہ جہت خدمات کودیکھ کرکوئی شخص متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتا وہیں بہت سے اہل دانش آپ کی ان سرگرمیوں کوشک کی نگاہوں کودیکھتے ہیں،اس کااندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ الشرق الاوسط نے گولن صاحب پرایک تجزیاتی مضمون شائع کیاجس کاعنوان تھا: الرجل الذی یحبہ اتراک ویخافہ اتراک۔

فتح اﷲ گولن صاحب ترکی میں ۲۷اپریل ۱۹۴۱ء کوروجک نامی ایک بستی میں پیداہوہے جوصوبہ ارضروم کے شہرقلعہ حسن کاایک نواحی علاقہ ہے،والدرامزآفندی اورداداشامل آغادین کی خدمت واشاعت میں شہرت رکھتے تھے ،جس کی وجہ سے علماء اورصوفیاء کی آپ کے گھرآمدورفت رہتی تھی،بچپن ہی سے اپنے گھرکوعلم اور تصوف کی آماجگاہ پایا، آپ کی والدہ رفیعہ خانم آدھی رات کوبیدار ہوتیں اورآپ کوقرآن سکھاتیں،جس کے نتیجہ میں آپ نے چاربرس کی عمرمیں قرآن پڑھناشروع کیا اورایک مہینہ کے اندرقرآن ختم کرلیا،آپ بچپن ہی سے ذہین وفطین اورغیرمعمولی صلاحیت کے حامل تھے،ابتدائی عمرمیں جن شخصیات سے زیادہ متاثرہوئے ان میں ایک نمایاں شخصیت محمدلطفی آلوارلی کی ہے ،اپنے والدسے عربی فارسی کی ابتدائی والدسے حاصل کیااس کے علاوہ علاقہ کے مشہوراساتذہ کے سامنے زانوتلمذ تہہ کیاجن میں سب سے نمایاں نام عثمان بکتاش کی ہے، جن کاشماراس وقت کے فقہاء میں ہوتا تھا ، آپ نے ان سے عقائد،فقہ ،اصول فقہ، نحو، بلاغت وغیرہ پڑھیں،دینی تعلیم کے ساتھ آپ نے عصری علوم پربھی توجہ دی،اورفلسفہ کا خوب مطالعہ کیا،طبعی علوم ونظریات اور جدیدمعاشرتی نظریات اورمشرق ومغرب کے فلسفیانہ افکارکوگہرائی سے پڑھا،ساتھ ساتھ محمدلطفی آفندی کی خانقاہ سے راہ ورسم بھی جاری رہا،زمانہ طالب علمی میں ہی ترکی میں تجدیدی کارنامہ انجام دینے والی شخصیت بدیع الزماں نورسی کے رسائل اوران کے تلامذہ سے شنائی ہوئی، اس طرح قدیم وجدیدعلوم ،روحانی تربیت اورنورسی دبستان فکرسے وابستگی واستفادہ کے ذریعہ آپ کی شخصیت نکھرتی چلی گئی۔

تقریبابیس سال کی عمرمیں ادرنہ کی جامع مسجدمیں امام مقررہوئے جہاں ڈھائی سال زہدوریاضت میں گزارا،۱۹۵۸ء میں آپ کوریاستی مبلغ کادرجہ حاصل ہوا، آپ نے اپنے کام کاآغازازمیرکی جامع مسجدسے ملحق مدرسہ تحفیظ القرآن سے کیا،اس کے بعدایک چلتے پھرتے واعظ کے طورپرسرگرم ہوگئے،مغربی اناطولیہ کا دورہ کیا،قصبات کی مجالس ،قہوہ خانوں میں خطاب کرتے،۱۹۷۰ء کے آغازمیں تربیتی کیمپ لگاناشروع کیا،۱۹۷۱ء میں خفیہ تنظیم قائم کرنے اورملکی نظام کوبدلنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کئے گئے،چھ ماہ جیل میں رہنے کے بعدعام معافی کے قانون کے تحت رہائی ہوئی،اس کے بعدآپ مستقل علاقوں میں گھوم گھوم کردینی ومعاشرتی تعلیمات،اوراپنے فکرانگیزفلفسیانہ خیالات کی ترویج واشاعت میں مشغول رہے،آپ کے سیمیناراورتربیتی پروگراموں میں نوجوان طبقہ اورخصوصایونیورسیٹیزکے طلبہ کا بڑارجحان ہوا،ان پروگراموں میں آپ نوجوانوں کے ذہن میں پیداجدیدشبہات وسوالات کا جواب دیتے،یہ سوالات دین کے علاوہ تعلیم، فلسفہ،معاشرت،سائنس،ڈارون کے نظریات،معاشرتی انصاف وغیرہ سے متعلق ہوتے،اس طرح آپ سے تربیت پانے والوں اورآپ کی فکرسے متاثرہونے کاایک حلقہ وجودمیں آگیا،ان میں طلبہ ، اساتذہ، تاجر،صنعت کار،مزدورغرض سماج کے ہرطبقہ کے افرادشامل تھے،ان لوگوں میں گولن صاحب کی ہدایات اوررہنمائی میں مختلف تعلیمی ورفاہی اورانسانی خدمات شروع کیں،ان کا بڑا مقصدایسے تعلیمی اداروں کاقیام تھاجومختلف یونیورسیٹی میں داخلہ کیلئے طلبہ کوتیارکرتے،ان کوششوں کی کامیابی کے بعدجلدہی دوسرے میدانوں میں کام شروع کیا،مثلااخبارات ورسائل نکالناشروع کیا،اس کے بعد ریڈیو اسٹیشن پھرٹیلی ویژن اسٹیشن قائم کیے ،اس طرح ان کی خدمات کادائرہ بہت وسیع ہوگیا،اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ موجودہ ترکی میں تعلیم کاجوفروغ ہواہے اس میں گولن کی تعلیمی سرگرمیوں کابڑاکردارہے،اورجب بھی موجودہ عہدکی کوئی تاریخ لکھی جائے گی تواس میں گولن صاحب کی کاوشوں کوسنہرے حرفوں میں لکھاجائے گا۔

بین ادیان ڈائیلاگ کی شروعات
۱۹۹۰ء سے گولن صاحب نے مختلف ادیان،نظریات،تہذیبوں اوراقوام کے نمائندہ گرہوں کے درمیان ڈائیلاگ اورگفت وشنیداورافہام وتفہیم کاسلسلہ شروع کیا ،آپ کی یہ آوازترکی اوراس سے باہربھی سنی گئی،اس کے نتیجہ میں پوپ جان پال دوم کی دعوت پرویٹیکن میں ان سے ملاقات کی،ان کے علاوہ متعددمذہبی رہنماؤں سے ملاقات کرچکے ہیں،آپ کانظریہ یہ ہے کہ ہرطرح کے عقیدہ ،فکراورفلسفہ سے تعلق رکھنے والے افرادسے فراخدلی سے ملناچاہیے، تعصب، اختلاف اورنفرت پرمبنی کوئی تحریک مثبت نتائج پرمنتج نہیں ہوسکتی۔

تصانیف:
آپ نے دنیاکومتعدد لازوال کتابیں دیں،تصنیفات کی کل تعداد۶۰سے متجاوز ہے ، اکثرکتابوں کاترجمہ دنیاکے ۳۵زبانوں میں ہوچکاہے،آپ کی زیادہ ترکتابیں تصوف سے متعلق ہیں،کچھ سیرت اورموجودہ دورمیں درپیش مسائل کے موضوع پرہیں ، چندکتابوں کے نام اس طرح ہیں:
النورالخالدمحمدمطصفی ﷺ مفخرۃ الانسانیۃ (۳جلدیں)نورسرمدی ، فخر انسانیت کے نام سے اردومیں شائع ہوچکی ہے۔

فی ظلال الایمان (۲جلدیں)،الجہاداواعلاء کلمۃ اﷲ،المنشور (۲جلدیں) الحیات بعدالممات،براعم الحقیق فی جیل الالوان (۲ جلدیں) اشعارومقالات کامجموعہ ، الاسئلۃ الحائرۃالتی افرزہا العصر (۴جلدیں) مختلف اوقات میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات پرمشتمل،الموازین اواضواء علی الطریق، الانسان فی تیارات الازمات، العصر و الجیل : مضامین کے مجموعے ہیں،ان کے علاوہ زندگی کے مسائل اور مختلف موضوعات پرآپ کی تقاریروخطبات کی سی ڈیزاورآڈیوویڈیوکیسٹس ہیں جو ہزاروں کی تعدادمیں ہیں۔

افکار:
آپ اعتدال پسندشخصیت کے طورپرجانے جاتے ہیں،آپ کی دعوت میں رواداری اوربرداشت کوفروغ دینے پرخاص زورہوتاہے،گولن صاحب کے مطابق اکیسویں صدی برداشت،فہم وفراست ، اور بین الاقوامی تعاون کادورہوگاجوکہ تہذیبوں کے درمیان مکالمہ اورمشترکہ اقدارکی بناء پر ایک مشترک معاشرتی تہذیب کی طرف رہنمائی کرے گا،وہ اپنے خطبات اورتحریروں میں اکیسویں صدی کاایسا تصورپیش کرتے ہیں جس میں ہم ایک ہمہ پہلوروحانی تبدیلی کامشاہدہ کریں گے جوخوابیدہ اخلاق اقدارمیں ایک نئی روح پھونکے گی۔
گولن صاحب بین عقائداوربین تہذیب مکالمہ کے پرزورداعی ہیں،آپ باہمی افہام وتفہیم بڑھانے کے لئے ایک پرخلوص مجلس مکالمہ کے قیام کوضروری قراردیتے ہیں،اس مقصدکے لئے انہوں نے ۱۹۹۴ء میں صحافیوں اورمصنفین کی ایک فاؤنڈیشن قائم کیاجس کامقصدپوری انسانی معاشرہ میں رواداری اورباہمی گفت وشنیدکے عمل کوفروغ دیناہے۔

گولن تحریک کوجوچیزدیگرتحریکات سے ممتازکرتی ہے وہ یہ کہ اس تحریک کومغرب میں بڑی پذیرائی حاصل ہے،جہاں اربکان اور ان کے تربیت یافتہ قائدین صہیونیت کی وجہ سے امریکہ کوعالم اسلام کادشمن سمجھتے ہیں وہیں گولن صاحب کانظریہ یہ ہے کہ یہ عالمی طاقتیں ہیں،ان کے ساتھ تعاون ضروری ہے ،انہوں نے کبھی امریکہ اوراسرائیل کے ظلم کے بارے میں کچھ نہیں کہا،بلکہ جب اسرائیل نے ترکی سے جانے والے امدادی بیڑہ پرحملہ کیااس وقت بھی اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کی ہی دہائی دی۔
گولن صاحب کے افکارمیں سب اہم چیزجودل کوکھٹکتی ہے وہ یہ کہ گولن صاحب ترکی میں شریعت کی تطبیق کوترجیح نہیں دیتے ہیں ، ان کے نزدیک جمہوریت ہی بہترحل ہے،وہ کہتے ہیں کہ شریعت کے اکثرقواعدذاتی زندگی سے متعلق ہیں،نظام سلطنت سے متعلق بہت کم احکام ہیں،اس لئے عمومی طورپرشریعت کی تطبیق کی ضرورت نہیں ہے۔

گولن صاحب امریکہ خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں،حالانکہ ترکی کی جوموجودہ دینی حالت ہے وہ پہلے نہیں تھی ، اس لئے موجودہ ترکی کوان کی ضرورت تھی ،لیکن گولن صاحب امریکہ میں بیٹھے ہیں،گولن صاحب کومغرب میں جوپذیرائی حاصل ہے وہ بھی بہت سے سوالات کوجنم دیتی ہے۔
گولن صاحب کی تحریروں میں جس اسلام کاتذکرہ ملتاہے اسے بڑی حدتک صوفیانہ اسلام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ،گولن کے حوالہ سے یہ بات بھی اہم ہے کہ انہوں نے کبھی اسلام پسندتحریکات کاساتھ نہیں دیا، ادھرچندماہ سے اردگان صاحب کی قیادت اورگولن تحریک کے درمیان ایک کشاکش جاری ہے،یہ بات خود گولن صاحب کے بارے میں شکوک وشبہات کوجنم دیتی ہے،اس لئے گولن صاحب کے افکاراوران کے دینی تصورات کاجائزہ اورتجزیہ ضروری ہے،اس کے بغیرکسی ٹھوس نتیجہ تک پہونچنا مشکل ہے۔

Manauwar Sultan Nadwi
About the Author: Manauwar Sultan Nadwi Read More Articles by Manauwar Sultan Nadwi: 5 Articles with 3464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.