مقارنۃ الادیان/ مکالمہ بین المذاہب

پچھلے دنوں اسلام کے متعلق شہرت یافتہ محققہ کرن آرم اسٹرانگ کی پاکستان آمد پر انٹرفیٹھ ڈائیلاگ کے موضوع کو پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں خاصی جگہ دی گی۔ انور غازی صاحب کے مفصل اور جامع مضمون نے کرن کی شخصیت اور مکالمہ کی ضرورت کو خوب واضح کیا، بعد میں وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ جناب قاری محمد حنیف جالندھری صاحب اور جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے پُر مغزمقالے بھی نظر سے گزرے، چونکہ جامعہ فاروقیہ کراچی میں اس حوالے سے دورۂ حدیث میں ہمارے بھی تفصیلی محاضرات اور لیکچرز ہوئے ہیں، سوچا کہ اس مضمون کو ایک مرتبہ اور ذرا تاریخی انداز سے چھیڑا جائے۔

مذاہب عالم کے مابین ڈائیلاگ، حوار، مکالمہ، مقارنہ اور تقابل کا آغاز قرآن مجید کے نزول سے شروع ہوتا ہے، موضوع کے متعلق سب سے اولین کتاب بھی قرآن مجید ہی ہے، قرآن کریم نے مکالمہ کے دونوں پہلوؤں یعنی مثبت ومنفی کا تذکرہ احقاق وابطال کی صورت میں دوٹوک ذکر کردیا ہے۔ مثلاً تثلیث کا رد ﴿لاتقولوا ثلاثۃ، ﴾ثنویت کا رد ﴿لاتتخذوا الہین اثنین﴾ ، بنوت اور ابنیت کا رد ﴿لم یلد،ولم یولد﴾ اور شرک کا توباربار رد ، اسی طرح یہود ونصاریٰ کی طرف سے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام پر لگائے گئے الزامات کی صفائی، قومِ یہود کے بجائے وحی میں عموم برائے دیگر اقوام، کئی مواقع پر اہل کتاب کی تایےد بھی کی گئی ہے، جبکہ کتب سابقہ میں یہ مکالمہ بین المذاہب ومقارنہ بین الادیان نہیں پایا جاتا۔

بعد میں تقابل ادیان یا مقارنۃ الادیان اسلامی علمِ کلام کی معرکہ آرائیوں کا ایک رکن رکین بنا، چنانچہ عقائد پر کام کرنے والے متکلمین نے علمِ کلام کی دیگر مباحث کی طرح اس بحث کو بھی اپنی تصنیفات میں جگہ دی ہے، بلکہ بعض نے تواس پر مستقل کتب لکھ دی ہیں۔

اگرچہ یہ مکالمہ وحوار قرآن کریم کے نزول کے ساتھ اس زمانے کے ماحول کے مطابق اپنے مخصوص انداز میں شروع ہوچکا تھا ﴿یاأھل الکتاب تعالوا إلی کلمۃ سواء بیننا وبینکم……﴾ اس کی بےّن مثال ہے، لیکن اس کو بحث ومناظرے کی مستقل شکل عباسی دورِخلافت میں باقاعدہ وباضابطہ سرکاری طورپر دی گئی، ان کے دربار میں ادیان ومذاہب کے ماہرین اور معتقدین کی وقتاً فوقتاً مجالس منعقد ہوتی تھیں، جن میں بعض مرتبہ بڑے دلچسپ مناظرے بھی ہوتے تھے، چنانچہ اکبرشاہ خان نجیب آبادی رقم طراز ہیں:

’’ہارون الرشید نے بغداد میں بیت الحکمت کے نام سے ایک دارالترجمہ اور دارالتصنیف قائم کیا تھا جس میں مختلف ملکوں کے رہنے والے مختلف مذاہب کے پیرو اور مختلف زبانیں جاننے والے علماء مصروف رہتے تھے۔

مامون کو ارسطو کی کتابوں کے ترجمہ کرانے کا شوق ہوا تو اس نے قیصر روم کو لکھا کہ ارسطو کی تمام تصانیف جہاں تک دستیاب ہو سکیں فراہم کرکے ہمارے پاس بھیج دو۔ قیصر نے پانچ اونٹ ان کتابوں سے لاد کر مامون الرشیدکے پاس بھجوا دئیے، مامون الرشید نے یعقوب بن اسحاق کندی کو ان کے ترجمہ پر مامور کیا۔ پھر مامون نے خود اپنی طرف سے عیسائی علماء کو جو اس کے ہاں باقاعدہ ملازم تھے بلاد روم ویونان کی طرف روانہ کیا کہ وہاں سے علوم وفنون کی دیگر کتابیں تلاش کرکے لائیں۔ جبکہ قسطابن لوقا ایک عیسائی فلاسفر خود اپنے شوق سے روم گیا اور وہاں سے کتابیں تلاش کرکے لایا۔ مامون الرشید نے ان کو دارالترجمہ میں مستقل ملازم رکھ لیا۔

اسی طرح مامون الرشید نے مجوسیوں کو بڑی بڑی بیش قدر تنخواہوں پر ملازم رکھ لیا اور مجوسیوں کے علوم وفنون کے ترجمہ کی خدمت ان کے سپرد کی۔

ہندوستان کے راجاؤں کو معلوم ہوا تو انہوں نے مامون الرشید کی خدمت میں سنسکرت کے عالموں اور بڑے بڑے پنڈتوں کو بطور تحفہ بھیج کر خلیفہ کی خوشنودی حاصل کی۔ بیت الحکمت کے مترجموں کی تنخواہیں ڈھائی ڈھائی ہزار تک تھیں اور ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی تھی۔

جن میں یعقوب کندی، حنین بن اسحاق، قسطا بن لوقابعلبکی، ابوجعفر یحییٰ بن عدی جبرئیل بن بختیشوع وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ علاوہ تنخواہوں کے مترجموں کو ہر ایک کتاب کے ترجمہ کی برابر سونا چاندی تول کر دی جاتی تھی۔ فلسطین، مصر، اسکندریہ،سسلی، روم، ایران، ہندوستان وغیرہ ملکوں اور شہروں سے علوم وفنون کی کتابیں منگوا کر عربی میں ترجمہ کرائی جاتی تھیں اور بہت سے مترجمین علوم وفنون پر خود بھی کتابیں تصنیف کرتے تھے، بعض ذی علم مترجمین ترجموں کی اصلاح اور نظرثانی پر مامور تھے۔

مامون الرشید ہی کے عہد میں ایک مشہور عالم محمد بن موسیٰ خوارزمی نے مامون الرشید کی فرمائش سے علم جبر ومقابلہ پر ایک کتاب لکھی اور وہ اصول قائم کیے کہ ان اصولوں میں آج تک نہ ترمیم ہوسکی نہ اضافہ ممکن ہوا۔

خالد بن عبدالملک مروزی اور یحییٰ ابن ابی منصور وغیرہ کے ذریعہ شماسیہ کی رصدگاہ تعمیر ومکمل کرائی اور اجرام سماویہ کے مطالعہ پر علماء وہیئت مامور کیے۔

فرامین بھیج کر ہر ایک شہراور ہر ایک علاقے سے علماء وفضلاء طلب کیے گئے، علمی مجلسیں اور مناظرے منعقد ہوتے، مامون اس میں شریک ہوکر حصہ لیتا، ادیب، شاعر، متکلم، طبیب، غرض ہر علم وفن کے باکمال بغداد میں ایسے بلند پایہ موجود تھے، جن میں سے کسی کا جواب دنیا میں ملنا دشوار تھا۔

اصمعی جو لغاتِ عرب اور ادبِ عربی کا امام تھا، پیرانہ سالی کی وجہ سے کوفہ کو چھوڑ کر بغداد نہ آسکا ،تو اس کو وہیں وظیفہ ملتا تھا اور اہم مسائل حل کرنے کے لیے وہیں بھیجے جاتے تھے۔

فرّا نحوی نے بغداد میں علم نحو کی تدوین کی اور کتابیں لکھیں۔ اس کے لیے ایوان شاہی کا ایک کمراہ خالی کر دیا گیا تھا جس میں علماء طالب علمانہ حیثیت سے استفادہ کرنے آتے تھے۔ فن خوشنویسی پر مامون ہی کے زمانے میں کتابیں لکھی گئیں اور اس فن کے اصول وقواعد مدون ومرتب ہوئے۔ غرض مامون الرشید کی توجہ اور سرپرستی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے سامنے یونانیوں، ایرانیوں، مصریوں اور ہندیوں کے علوم وفنون سب یک جا بے نقاب ہوگئے۔

اگرچہ مسلمانوں کو قرآن وحدیث کے ہوتے ہوئے کسی علم وفن کی ضرورت نہ تھی تاہم ان قدیم فلسفوں اور متفرق علوم کی طرف مسلمانو کی توجہ نے مبذول ہوکر سب کو اس طرح مرتب اور مہذب کردیا گویا کہ نئے سرے سے ایجاد کیا گیا۔ کامل آزادی سے کام لیا گیا اور بظاہر یہ مختلف قوموں کے حکمیہ علوم فلسفۂ قرآن کے مقابلے پر آئے اور خدام اسلام کو موقع ملا کہ انہوں نے ان تمام فلسفوں اور تمام مخالف قرآن اصولوں کو غلط ثابت کیا۔ اس طرح مذاہب وعلوم کی معرکہ آرائیوں کا سلسلہ جاری ہوکر اسلام کو جو علمی فتوحات حاصل ہوئیں وہ ان فتوحات سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں جو عہدبنوامیہ میں حاصل ہوئیں اور یہی علمی فتوحات ہیں جنہوں نے خلافتِ عباسیہ کے مرتبے کو خلافتِ بنوامیہ کا ہمسر بنا دیا ورنہ زمینی فتوحات کے اعتبار سے خلافتِ عباسیہ ہرگز خلافتِ بنوامیہ کی حریف وہمسر نہیں ہوسکتی‘‘۔
(تاریخ اسلام ج۱، ص۳۶۲ مع حذف واختصار)

یہاں ہم اس موضوع کے بعض ماہرین کا خصوصی تذکرہ پروفیسر غلام رسول چیمہ کی کتاب ’’مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ‘‘ سے کہیں حذف واختصار اور کہیں بالاستقلال اضافوں کے ساتھ کیے دیتے ہیں:
ابوالہذیل علّاف

مامون کے دربار سے منسلک اپنے دور کا سب سے بڑا مناظر تھا۔ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ بہت سے مجوسی ابوالہذیل سے مناظرہ کرنے کے لیے آئے۔ ابوالہذیل نے دلائل قاطعہ سے سب کو خاموش کردیا۔ ان میں میلاس نام کا ایک مجوسی تھا۔ وہ اسی وقت دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا۔ ابوالہذیل کی ایک تصنیف ’’میلاس‘‘ اس میلاس کے نام پر ہے۔ شرح ملل ونحل میں ہے کہ تین ہزار اشخاص اس کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ مامون الرشید کے دور میں ایک مجلس مناظرہ منعقد ہوئی۔ جس میں ہر مذہب کے علماء کو مدعو کیا گیا۔ مجوسیوں کے پیشوائے اعظم نے بھی شرکت کی۔ ابوالہذیل اور یزدان بخت کا مناظرہ ہوا تو ابوالہذیل کو نمایاں فتح ہوئی۔

ابواسحاق ابراہیم بن سیار نظام
علامہ ابوالہذیل کے تلامذہ میں سے تھا۔ نظام کو مذاہب اور سماوی کتب پر بڑا عبور حاصل تھا۔ تورات، انجیل اور زبور اس کو زبانی یاد تھیں بلکہ اس کی تفاسیر سے بھی واقف تھا۔

ہشام بن الحکم
یحییٰ برمکی کی علمی مجالس کا افسر اور علوم عقلیہ کا ماہر تھا۔ ابن الندیم نے ’’الفھرست‘‘ میں ان کی بہت سی کتب کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں۔ الرد علی الزنادقہ، الرد علی الوثنیین، الرد علی اصحاب الطبائع (مادہ پرستوں کا رد) جن کے ناموں سے نفس مضمون کا علم ہوجاتا ہے۔

واثق باﷲ کا دربار بھی علماء سے بھرا رہتا تھا۔ مناظرہ ومکالمہ کی مجالس منعقد ہوتی تھیں۔ مورخ مسعودی نے ان مجالس کا ذکر کتاب (آخرالزمان) میں کیا ہے۔

ابن حزم
ابن حزم نے علم کلام میں دو کتب لکھیں ایک میں تورات اور انجیل کی تحریف کا ذکر ہے۔ ابن خلکان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس مضمون پر یہ پہلی تصنیف ہے۔ دوسری کتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل ہے، اس میں دہریہ، فلاسفہ، مجوس، نصاریٰ اور یہود کے اصول وعقائد پر انتہائی جان دار بحث کی گئی ہے، اور پھر ان کا اُتنا ہی مضبوط رد بیان کیا گیا ہے۔

علامہ شہرستانی
انہوں نے بے شمار کتب تصنیف کی ہیں۔ مذاہب عالم پر دو کتابیں بہت اہم ہیں۔ تلخیص الاقسام فی المذاہب والانام اور الملل والنحل۔ لیکن علامہ صاحب کی دوسری کتاب زیادہ مشہور ہوئی۔ جس کے دو حصے ہیں۔ ایک میں اسلامی فرقوں اور دوسرے میں ادیان ومذاہب کا ذکر ہے۔

حافظ ابن تیمیہ
بے شمار کتب کے مصنف ہیں۔ رد نصاریٰ پر چار جلدوں میں کتاب لکھی ۔

حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی
حضرت شاہ صاحب نے کلامی مسائل پر اپنی کتاب حجۃ اﷲ البالغہ میں بحث کی ہے۔ وہاں مذاہب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تمام مذاہب کی اصل ایک ہی ہے۔ دیگرمذاہب کے متنازعہ مسائل مثلاً روح کی حقیقت، جزا وسزا کی حقیقت، عالم مثال، نبوت کی حقیقت ، اختلاف شرائع کے اسباب نیز ایک ایسے مذہب یعنی اسلام کی ضرورت پر بحث کی ہے جو تمام مذاہب عالم کا ناسخ ہو ۔

یعقوب کندی
مشہور فلاسفر یعقوب کندی نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے چنانچہ ابن الندیم نے الفہرست میں ان کے تین رسالوں کا ذکر کیا ہے: ایک رسالۃ فی الرد علی المانویہ ، مانی پارسیوں کا ایک فرقہ تھا۔ دوسرا رسالۃ فی الرد علی الثنویہ، ثنویت کے قائلین بھی پارسی تھے جو دو خداؤں کے معتقد تھے۔ تیسرا رسالۃ فی الاحتراس من خدع السوفسطائین فرقہ سوفسطائیہ کے شکوک وشبہات کا رد۔
جاحظ
جاحظ نے بھی یہود ونصاریٰ کے رد میں کتب لکھی ہیں۔

مذاہب عالم کے رد میں لکھنے والوں میں سے دو شخص اور بھی مشہور ہیں۔ عبداﷲ ترجمان اور یحییٰ بن حزلہ۔

یحییٰ بن حزلہ ابتداء میں عیسائی تھا۔ اسلام لایا، تورات اور انجیل کا ماہر تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں تورات وانجیل کی پیشگوئیوں پرکتاب لکھی۔ اس موضوع پر غالباًیہ پہلی کتاب ہے۔
ڈاکٹر علی شریعتی:ادیان کی پرکھ اور تجزیہ (اردو ترجمہ)

دور قدیم کے ان متکلمین کا جنہوں نے مکالمہ بین المذاہب پر کام کیا ہے،خاص خاص کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے اب صرف چند ایک ہندوستانی متکلمین کا ذکر کیا جاتا ہے۔

۱۸۵۷ء کے بعد جب ہندوستان سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوا اور انگریز قابض ہوگئے۔ تو ان کے استعمار کو قائم رکھنے کے لیے پادریوں کی فوج ہندوستان میں آگئی ۔ اس وقت کے علماء کرا م توصیف کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے بروقت پادریوں کا مقابلہ کیا۔ اور ان کے باطل عقائد کو رد کیا۔ اور اس کے ساتھ اسلام کی برتری ثابت کی۔

حضرت قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی
ان میں سے دیوبند کے علماء خصوصاً مولانامحمد قاسم نانوتوی مشہور ہیں۔ ان کے مناظرے تاریخ کے اوراق میں مشہور ہیں۔ ایک مناظرہ شاہجہاں پور میں ہوا۔ مولانانے عیسائی لاٹ پادری کو بری طرح زک دی۔ اس طرح رڑکی کے مناظرے میں بھی مدمقابل کو دندان شکن جوابات دئیے۔ اس سلسلہ میں آپ کی مشہور کتاب ’’قبلہ نما‘‘ ہے۔

حضرت مولانا محمد ثناء اﷲ امرتسری
مشہور مناظرین میں سے مولانا ثناء اﷲ صاحب امر تسری ہیں۔ جن کی تمام عمر عیسائیوں، آریوں یعنی ہندوؤں کے ساتھ مناظروں میں گزری۔ مذاہب کے باطل عقائد پر ان کی کئی کتب منصہ شہود پر آئیں۔

ڈاکٹر وزیرخان
برطانوی استعمار کے دور میں برصغیر کے جن علماء نے عیسائیت کے سیلاب کے سامنے بند باندھے، ان میں ایک نام ڈاکٹر وزیرخان صاحب کا بھی لیاجاتا ہے۔

نیزعیسائیت کے خلاف جن نابغۂ روزگار شخصیات نے کام کیا ہے، ان میں سرِ فہرست علامہ رحمت اﷲ کیرانوی صاحب رحمہ اﷲ ہیں۔

علّامہ رحمت اﷲ کیرانوی رحمہ اﷲ
(۱۲۳۳ھ۔۱۳۰۸ء)کیرانہ ضلع (مظفر نگر)میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے ملتا ہے۔ مولانا محمد حیات (خلیفہ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی) مفتی سعد اﷲ مراد آبادی، مولانا احمد علی مظفر نگری مولانا عبدالرحمن چشتی اور مولانا امام بخش صوبائی سے علوم اسلامیہ کی تحصیل کی۔ حکیم فیض محمد سے طب اور مصنف لوگا اتم سے ریاضی پڑھی۔

۱۲۵۶ھ میں شادی ہوئی اور ۱۲۵۷ھ میں مہاراجہ ہندو راؤ کے ہاں دہلی میں میر منشی مقرر ہوئے۔ کچھ مدّت بعد ملازمت چھوڑ دی اور کیرانہ جاکر درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ ۱۱؍رجب۱۲۷۰ھ کو آگرہ میں پادری فنڈسر کو ایک مناظرے میں شکستِ فاش دی اور انجیل میں تحریف ثابت کردی۔ جہادِ آزادی ۱۸۵۷ء میں مولانا کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ کی گرفتار ی کے لیے انگریزوں نے ایک ہزار روپے کا انعام مقرر کیا۔ لیکن آپ ایک بادبانی کشتی کے ذریعے جدّہ پہنچے اور مکہ مکرمہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ کلکتہ کی ایک صاحبِ حیثیت خاتون صولت النساء بیگم کے مالی تعاون سے مدرسہ صولتیہ قائم کیا اور وہاں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ جب نہر زبیدہ کی دوبارہ کھدائی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تو آپ اِس کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ سلطان عبدالحمید نے آپ کو قسطنطنیہ بلایا اور ضعفِ بصارت کا علاج کرایا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔آخر واپس مکہ مکرمہ آگئے اور ۷۵ سال کی عمر میں وفات پائی اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ عیسائیت کے رد میں ان کی شاہکار کتاب’’اظہارالحق‘‘ پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہے۔

شیخ احمد دیدات
شیخ احمد دیدات یکم جولائی۱۹۱۸ء کو ہندوستان کے ضلع سُورت میں پید اہوئے۔۱۹۲۷ء میں انہوں نے اپنے والد کے ساتھ جنوبی افریقہ ہجرت کی۔ وہ بچپن ہی سے بڑے ہونہار اور آگے بڑھنے والے طالب علم تھے۔ انہوں نے دنیا کے تمام براعظموں میں ہزاروں لیکچر دئیے اور عیسائی مبلّغوں کے ساتھ کامیاب مباحثے کیے۔ مذاہب کے تقابلی جائزے کے سلسلے میں انہوں نے تمام براعظموں کا سفر کیا اور امریکا کے پروٹسٹنٹ حلقوں اور آنجہانی پوپ جان پال دوم سے بھی مکالمہ کیا۔ سچائی کے دفاع پر ان کی استقامت کی وجہ سے ان پر فرانس اور نائجیریا میں داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی۔

ہزاروں غیر مسلموں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے اور اسلام کی نشر واشاعت کی خدمات کے سلسلے میں انہیں۱۹۸۶ء میں شاہ فیصل ایوارڈ سے نواز اگیا۔

شیخ احمد دیدات قرآن سے زیادہ بائبل کے عالم تھے اور وہ اس کی تعلیمات سے زیادہ شناسا اور ماہر تھے۔ ان کی اسی سوجھ بوجھ اور تقابلی تناظر نے بہت سے عیسائیوں کو اپنے مذہب کے بارے میں ازسرِ نو سوچنے پر مجبور کردیا۔ ۸؍اگست ۲۰۰۵ء کو وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک
مکالمہ بین المذاہب کے حوالے سے ان دنوں ڈاکٹر صاحب کی خدمات قابلِ دید اور قابلِ قدر ہیں۔

یہاں ہم مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت کے پیش نظر اس حوالے سے ایک جامع نصاب کا ذکر کیے دیتے ہیں:
خا کہ بر ا ئے دوسا لہ تخصص فی مقا رنتہ الادیان

درسی مواد: ۱- احکام اہل الذمہ/ ابن القیم الجوزیہ ،۲- اظہارالحق / مولانا رحمت اﷲ کیرانوی، ۳- تعارف سیاسیات /سیدراشد علی، ۴-تحفۃ الہند/ مولانا محمد عبیداﷲ (اننت رام) ، ۵- الملل والنحل /علامہ شہرستانی، ۶- الملل والاھواء والنحل / علامہ ابن حزم، ۷- الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اہل البدع والزندقۃ / ابن حجر ہیتمی، ۸-الفرق بین الفرق/ عبدالقاہر بغدادی، ۹- محاضرات فی الفرق والادیان یعنی (مکالمہ بین المذاہب )ولی خان المظفر، ۱۰- مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ / پروفیسر غلام رسول چیمہ، ۱۱- مقارنۃ الادیان / ڈاکٹر شلبی،۱۲- الاسلام والمستشرقون/ علامہ ندوی،۱۳- خطبات دیدات / شیخ احمد دیدات۔

عام مطالعے کے لیے ہماری کتاب(مکالمہ بین المذاہب) کے آخر میں جتنی کتابوں کی فہرست دی گئی ہے ان تمام تک رسائی اور وقتاً فوقتاً ان سے استفادہ از حد ضروری ہے، البتہ ان میں سے کچھ کتابیں مطالعے کے لیے لازمی قرار دی جائیں اور ان کا باقاعدہ امتحان بھی ہو، نیز اس موضوع میں تخصص والوں کے لیے عربی انگریزی زبانوں کے ساتھ ساتھ چائنا اور ہندی بھی کچھ نہ کچھ ضروری ہوتی ہیں، خاص کر چین اور انڈیا میں کام کرنے والوں کے لیے نیز کمپیوٹر میں مہارت بھی اس کا اجباری حصہ ہوگا۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 817018 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More