تنقید

 تحریر: محمدعمران ظفر ہرن پور

کہا جا تا ہے کہ دنیا میں سب سے آسا ن کا م دوسروں پر تنقید کرنا ہوتا ہے اور مشکل کام اپنی اصلا ح کرنا ہوتا ہے زیادہ لوگ آسان کام ہی کرتے ہیں مشکل کام سے بچنے کی کوشش ہی کی جا تی ہے ہاں پر کچھ لوگ مشکل کام کرنے کے بھی شوقین ہوتے ہیں جب تک ہم مشکل کام کرنے کی عادت نہیں بنائیں گے تو پھر ہمارے لئے کام مشکل ترین ہوتے جائیں گے ۔

یہاں پر بھی ہم مشکل کو چھوڑ کر آسان کام کو ہی سمجھنے کی سعی کرتے ہیں یعنی تنقید کا تذکرہ کرتے ہیں ایک تنقید برائے اصلاح ہو تی ہے اور ایک تنقید برا ئے تنقید ۔یہ جو لفظ ہے تنقید اس کو اگر اس طرح پڑھیں" تن قید" یعنی جسم کو جکڑنا جسم کو مشکل میں ڈالنا یا کسی کو پریشان کرنا ۔" تن قید" کو دو حوالوں سے سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں پہلا انداز تو یہ ہے کہ جب کوئی بیمار پڑجائے تو اس کے علاج کے لیے ضروری ہے۔ جسم کو دوائی اور ٹیکے وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ وہ تندرست ہو جائے اس لیے یہ تنقید ضروری ہو جاتی ہے ورنہ جسم بیمار سے بیمار ہوتا جا ئے گا اور جسم تکلیف میں مبتلا ہو جا ئے گا اس لیے یہ" تن قید"یعنی تنقید ہمیں خوشی سے قبول کر نی چا ہیے بلکہ معا لج یعنی جس نے یہ تنقید کی ہے اس کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں ایک مشکل سے بچایا ہے اور مزید مشکل میں پڑ نے نہیں دیا۔ مطلب یہ ہوا ہم میں کو ئی خامی تھی کسی ہمدرد نے ہمیں اس سے آگاہ کر دیا اور ہم نے اس خامی کو دور کر دیا۔

دوسری تنقید برائے تنقید ایسے ہی ہے جیسے کسی کو اس طرح "تن قید" کرنا کہ اس کا قصور تو کچھ اورنہیں لیکن اسے پکڑ کر ایسے ہی مارنا شروع کر دیا جائے اور اس کے جسم کو زخمی کر دیا جائے ایسا کرنے والے کو مجرم ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ جرم کا مر تکب ہوا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی میں خامی تو نہ ہو ۔لیکن بلاوجہ اس پر تنقید کرنا شروع کر دی جائے جو کسی طرح بھی ٹھیک نہیں سمجھا جائے گا۔

سمجھ تو یہی آ تی ہے کہ اگر تنقید کوئی بطور معا لج کرے تو پھر تو ٹھیک ہے اور اگر بطور مجرم کر ے تو ایسی تنقید اچھی نہیں۔ ہمیں بھی چاہیے بطور معا لج ہی تنقید کریں نہ کہ بطور مجرم۔اور اس کے سا تھ سا تھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چا ہیے کہ اگر ہم پر تنقید ہو رہی ہے تو کرنے والا معالج ہے یا مجرم اگر تو معالج ہے تو پھر اس کا شکریہ ادا کرنا چا ہیے جو ہمارے جسم کو قید سے آزاد کرا رہا ہے اور اگر مجرم ہے تو اس کا فیصلہ اس ذات پر چھوڑدیں جو اس کو سزادے سکتی ہے اور اس کی سزا سے کوئی بچ نہیں سکتا۔
 

MUHAMMAD IMRAN ZAFAR
About the Author: MUHAMMAD IMRAN ZAFAR Read More Articles by MUHAMMAD IMRAN ZAFAR: 29 Articles with 35071 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.