ایک صوفی کی ڈائری

ہمارے اذن کی بات کب ہے، ہمیں کون جانتا ہے، ہم تو گمنام راستوں پر چلنے والے وہ مسافر ہیں جو احساس تھکن سے بھی محروم ہو چکے ہیں، ہماری آبلہ پائی اور شکستہ نوائی کی کہیں پذیرائی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس تھک گئے؟ نہیں مرشد! تو چلو پھر ۔۔۔۔ مت دیکھو ان زخموں کی طرف، سب کچھ تمہارے اختیار میں ہے تم نے خود خریدے تھے یہ زخم ۔۔۔۔یہ درد۔۔۔یہ تنہائی ۔۔۔۔اگر کہو تو سودا ترک کر دیتے ہیں، تم ہمیں بھول جاؤ ہم تمہیں تیاگ دیتے ہیں- نہیں مرشد ! میں نے ایسا نہیں سوچا، اگر نہیں سوچا تو پھر اٹھ کر مقابلہ کر ۔۔۔۔کیسا مقابلہ؟ ہم نے تمہیں یہ زخم نہیں دیے، ہم نے تمہیں یہ تنہائی نہیں دی، ہم نے تمہیں دکھ نہیں دیے۔۔۔۔تم ہار جاتے ہو بار بار اور وہ دور کھڑا ہنستا ہے، کون مرشد! تیرا حریف تیرا دوست ۔۔۔ابلیس، مگر مرشد میں کمزور ہوں اور دنیاوی تقاضے اور ضروریات مجھے بھٹکا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اسی لئے تو کہا ہے تم نہیں اٹھا سکتے یہ بوجھ، چھوڑ دو ، سودا ترک کر دو، چلے جاؤ بے حضور ہو کر ۔۔۔۔۔ نہیں مرشد نہیں اس دفعہ نہیں ہاروں گا بیشک جان چلی جائے۔ ( اردو میں ترجمہ شدہ ہے)

وہ یہ صفحہ لیکر میرے پاس آئی اور مجھ سے اسکی وضاحت کا تقاضا کر نے لگی، وہ نیوزی لینڈ میں یوگا کی عبادت گاہ کا ایک سینٹر چلاتی تھی اور اسکے علاوہ روحانی عبادت پر کئی کتابیں پڑھ چکی تھی میں نے کہا تمہیں یہ کہاں سے ملا کہنے لگی یہ حضرت عیسیٰ کے ایک مرید کی ڈائری کا ایک صفحہ ہے میں نے کہا تمہیں اس میں سے کیا سمجھ نہیں آتا کہنے لگی، مرشد، بوجھ، سفر، ابلیس وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا یہ تصوف کی لائن ہے اور لفظوں کے احاطہ سے باہر ہے ہر لفظ کا ایک مطلب ہوتا ھ اور جب تک اللہ نہ سمجھائے وہ لفط گنک ہوتا ہے میں اگر تمہیں کہہ دوں کہ مرشد سے مراد روحانی استاد ہوتا ہے تو کیا تمہاری سمجھ میں آ جائے گا کہنے لگی میرے لئے کوئی آسان رستہ ڈھونڈو میں تمہارے رب سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا رب سے ملنے کی کچھ شرطیں ہیں وہ پوری کر لو وہ تم سے ہم کلام ہو جائے گا۔ کہنے لگی فوراً بتاؤ ابھی پوری کرتی ہوں۔ میں نے کہا ابھی پہلی شرط پوری کر لو باقی وہ خود بتا دے گا کہنے لگی بولو، میں نے کہا ضبط نفس اور پھر اسکی تفصیل بتائی اور اسکی تربیت کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ اس نے روزے رکھنے شروع کردیئے کچھ دن بعد اس نے مجھے ایک اور تحریر دکھائی ترجمہ کچھ یوں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گند کا اور طہارت کا کوئی جوڑ نہیں، نور کا اور خاک کا کوئی ملاپ نہیں، طلب کا اور حصول کا کوئی وقت نہیں بندے کا فنا کے بعد ملاپ ہے معبود کے ساتھ۔

وہ بہت خوش تھی کہ اسے خواب میں کوئی جواب ملا ہے میں نے کہا تم فنا کو سمجھتی ہو کہنے لگی ہاں موت لیکن عیسیٰ کے مرید نے بھی تو کہا تھا کہ اب نہیں ہاروں گا بے شک جان چلی جائے۔ میں نے کہا واہ مولا واہ تو ہر رنگ میں لا جواب ہے بے مثال ہے، تو فقیروں کو بادشاہ بنا دیتا ہے اور جسے چاہے نواز دیتا ہے تیرے نزدیک بندہ بندہ ہے سنی شعیہ نہیں۔ وہ بی بی سینٹ صافی کے نام سے مشہور ہوئی اور اسکی عبادت گاہ پر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا وہ خود کو عیسائی نہیں کہتی تھی نہ مسلماں بلکہ صوفی کہتی تھی جمعرات شام کو آپ اس سے مل سکتے تھے ایک روز میں بھی چلا گیا وہ مجھ سے کہنے لگی تم اس رستے سے کیوں بھاگتے ہو آؤ اس طرف آؤ جہاں موت کا بھی مزہ ہے، جہاں درد کا بھی لطف ہے، جہاں وہ بولتا ہے دل سے، دھڑکن سے میں حیران تھا کہ کل تک جس کو میں لفظوں کا مطلب سمجھا رہا تھا آج وہ مجھے قائل کر رہی تھی پھر مجھے شاہ حسین کے وہ اشعار یاد آنے شروع ہوئے اور میں انہیں زور زور سے پڑھ کر روتا جا رہا تھا اور سینٹ صافی کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے جیسے وہ ایک ایک لفظ سمجھ رہی ہے

نیو لا لیا اس بے پروا دے نا
اس دین دنی دے شاہ دے نال

قاضی ملاں متی دیندے
کھرے سیانے راہ دسیندے
عشق کی لگے راہ دے نال

ندیوں پار رانجن دا تھانہ
کیتا کول ضروری جاناں
ترلے پاندی ملاح دے نال
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 22028 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More