نواب اکبر بگٹی جنہیں موت پر بھی اختیار رہا - آخری پارٹ

رواں آپریشن کو ہم منصوبہ بند کاروائی کہتے ہوئے ماضی کی جوج کشیوں کا تسلسل کہہ سکتے ہیں، تاہم اس بار بلوچ مزاحمت کو ایک چیز سابقہ مزاحمتوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ کہ اس بار پہلی دفعہ بلوچ قیادت مکمل آزادی کا نعرہ لیئے ہوئے میدان میں نکل پڑی ہے- اگر بلوچ اسلام آباد ے ساتھ اپنے وجود کو زخمی محسوس کرتا تھا اب وہ باسٹھ سالہ تجربہ و تشخیص کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ یہ کوئی معمولی زخم نہیں بلکہ کینسر ہے- یہ رہے گا تو بلوچ بحیثیت قوم نہیں رہے گا-

اس نتیجے پر پہنچنے کیلئے نواب صاحب کے تاریخی الفاظ کا مطالعہ از حد ضروری ہے جو آپ اسلام آباد کو آخری بار بات چیت کا موقع دینے سے پہلے کہہ چکے تھے، جنہیں نامور صحافی انور ساجدی نے اپنی کتاب “نواب اکبر بگٹی قتل کیوں کیا گیا!“ میں یوں نقل کیا ہے- “ہماراسب سے قیمتی اثاثہ ساحل، ہمارے ہاتھوں سے چلا گیا ہے۔ ہماری سب سے بڑی دولت گیس چلی گئی سوال یہ ہے کہ اب کس بات پر مزاکرات کروں، چند سالوں کے دوران پوری ساحلی پٹی آباد کاروں سے بھر جائے گی، بلوچ اقلیت میں چلے جائیں گے، ان کی حیثیت اجنبی یا ریڈ انڈین جیسی ہوگی، پورٹ ان کے ہاتھوں میں ہوگی تمام سرکاری ملازمتیں ان کو ملیں گی، کارخانوں،اہم کاروبار اور معیشت پر ان کا کنٹرول ہوگا، وہاں بلوچ چپڑاسی، چوکیدار، مالی اور بیروں کی صورت میں نظر آئیں گے اور ان کی حالت کراچی کے بلوچوں سے بھی بدتر ہوگی- لہٰذا ایسی صورت میں جب کہ سب کچھ واضح ہے، وہ مذاکرات کی آڑ میں ایک ایسی ستاویز پر میرا انگھوٹا لگوانا چاہ رہے ہیں کہ جس کا مقصد اپنی سرزمین سے بے دخلی کے سوا کچھ نہیں ہے- لہٰذا اب جبکہ میری عمر دو کم اسی برس ہے عمر کے اس حصے میں کوئی سمجھوتہ کر کے میں اپنے چہرے پر سیاہی ملنا نہیں چاہتا اور نہ ہی اپنی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگوانا پسند کرونگا، مجھے پتہ ہے کہ ان کے مذاکرات کا کیا مقصد ہے وہ سوئی میں گیس کی تنصیبات کیلئے مزید انتظامات کرنا چاہتے ہیں چھاؤنی کی تعمیر شروع کرنا چاہتے ہیں، انہیں مذاکرات کے ذریعے مزید کچھ وقت چاہیے، مجھے معلوم ہے کہ بات چیت دوبارہ شروع ہوجائے تو اس کا نتیجہ صفر ہی نکلے گا، وہ زور آور ہیں وہ کبھی وسائل ہمیں نہیں دیں گے کیونکہ اپنے وسائل سے وہ ملک کو اور ریاستی اداروں کو چلا رہے ہیں یہ کہنا کہ ہر صوبے کو اس کے وسائل پر اختیار دیا جائے مقتدرہ کی شہ رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے اس لئے وہ انتہا تک جائیں گے، ہم کمزور ہیں اس لئے کمزور کے ہاتھ میں اپنی سرزمین، ننگ و ناموس بچانے کیلئے واحد راستہ مزاحمت ہے- لہٰذا میں ہر طرح کی صورتحال کیلئے تیار ہوں“-

اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد نواب صاحب کے پاس صرف دو راستے تھے ایک اسلام آباد کی شرائط پر نئے بلوچ معاہدوں پر دستخط کر کے بلوچ قوم و سرزمین کیلئے بدنام ہو کر مرتے- دوسری صورت میں مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے بلوچ قوم و سرزمین کا قرض چکا کر سربلندی کے ساتھ موت کو شکست دیتے- پہلی صورت میں شاید مزید چند سال خوش و خرم زندگی نصیب ہوتی دوسری صورت میں دشواریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور ساتھ ہی ایک ایسی موت کا امکان بھی تھا جس پر زندگی بھی رشک کرے- ایک ایسی موت جس کی صرف فرمائش کی جاسکتی ہے اس کی آمد، زمان و مکان پر کسی کا اختیار نہیں، لیکن نواب اکبر بگٹی شہید کی شہادت کے واقعات کے تمام پہلو دیکھنے پر یہ شک یقین میں بدل جاتا ہے کہ آپ شاید دنیا کی ایک خوش نصیب ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے جسے موت پر بھی اختیار رہا، پوری زندگی بلوچی شان سے جینے کے بعد موت کو اس وقت قریب آنے کی اجازت دے دی جب اس موت کی قیمت زندگی سے کئی گناہ زیادہ ہوچکی تھی----“
Baloch Voice
About the Author: Baloch Voice Read More Articles by Baloch Voice: 13 Articles with 13685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.