’’ماں‘‘ایسی نہیں ہو سکتی ۔۔؟

لمبی اڑان کے بعد گھونسلے میں چڑیا واپس لوٹی تو بچوں نے پوچھاکہ’’ماں ! آسمان کتنا بڑا ہے ‘‘۔چڑیا نے بچوں کو اپنے پُروں میں سمیٹتے ہوئے کہا کہ ’’سوجاؤ! میرے بچوں وہ میرے پُروں سے چھوٹا ہے ‘‘،یہی دنیا کی وہ سچائی ہے کہ والدین سے زیادہ کوئی سایہ بچوں کیلئے بڑانہیں ہو سکتااور یہی وہ حقیقت ہے کہ ’’ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ہوتی ہیں ‘‘۔ ’’ماں ‘‘خود تکلیف اٹھاتی ہے مگر اپنے بچوں کو پریشان ہوتا نہیں دیکھ سکتی ۔لیکن جوہر ٹاؤن لاہور میں ایک سفاک ماں کے ہاتھوں 2چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کا اپنے ہی ہاتھوں قتل ایک ایسا دل ہلا دینے والا واقعہ ہے کہ جیسے سن کر پتھر سے پتھر دل انسان بھی تڑپ اٹھا ، لوگ توبہ توبہ کرنے لگے ،قیامت کی دیگر نشانیوں میں سے یہ واقعہ بھی ایک نشانی ہے کہ ایک ماں نے اپنی ہی کوکھ سے جنم لینے والے معصوم پھول جیسے بچوں کی جان لے لی ۔ادھر ٹیکسلا کے محلہ چک مظفرآباد میں ایک ’’ماں ‘‘ نے اپنی بچی کو ٹرین کے نیچے آنے سے بچانے کیلئے اپنی جان دیدی ۔سلام اُس ماں کو جس نے اپنی بچیکی زندگی کیلئے موت کو گلے لگا لیا ۔جبکہ دوسری طرف جوہر ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دلخراش واقعے میں بسمہ نامی سنگدل ماں نے اپنے دونوں بچوں کو رات اپنے ساتھ سلایا،صبح سو یر ے 2سا لہ بیٹی مناہل کو پانی میں غو طے دے کے مار ڈالا جبکہ 8 ماہ کے بیٹے یوسف کو گلا دباہلاک کر دیا ،ایک کنال کے گھر میں رہنے والی ملزمہ نے اس ظلم کے بعد میڈیا کواپنی کہا نی سناتے ہوئے بتا یا کہ خاوند بے روز گار تھا ،میں نے اپنا زیور بیچ کرکاروبار کیلئے پیسے دئیے ،سنی نے رکشہ لیا جس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اورہمیں نقصان ہو ا،تب سے ہی گھر میں فاقے تھے ،میرے بچے 3دن سے بھوکے تھے ،انہیں مزید بھوکا نہیں دیکھ سکتی تھی، ہمارے پاس بچوں کے کپڑوں اور دوائیوں کیلئے بھی پیسے نہیں تھے جبکہ سسرالیوں کیساتھ میکے والوں نے بھی مدد کرنا چھوڑ دی تھی۔خاتون نے مزید بتا یا کہ ہماری 4سال قبل گھر والوں کی مرضی سے شادی ہوئی،جب سنی کا رشتہ آیا تو اسکے ماں باپ نے بتا یاکہ ہمارے بیٹے کے پاس متعدد گاڑیاں ہیں جسے وہ کرائے پرچلاتا ہے ،مگرشادی کے بعد پتہ چلا کہ سنی نشے کا عادی اور جواء کھیلتا ہے جبکہ کوئی کام بھی نہیں کرتا۔ المیہ یہ ہے کہ بچوں کامقتل بننے والاگھر ایک کنال رقبے پرمحیط ہے اوروہاں 2گاڑیاں بھی موجود تھیں،گھردیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ یہاں فاقہ کشی بھی ممکن ہے۔ ابتدائی تفتیش میں ملزمہ نے بچوں کو قتل کرنے کی وجہ غربت بتائی جس کے باعث وہ انکی پرورش نہیں کر سکتے تھے۔ دوسری جانب تفتیش کے بعد پولیس کا کہنا ہے کہ ملزموں کے بیانات میں کئی شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں اس لئے دیگر اہم پہلو بھی زیر غور ہیں۔حقائق تو مکمل تفتیش کے بعد ہی سامنے آ سکیں گے ۔

ملک میں موجودہ معاشرتی ناہمواریوں اور عوام و خواص کی بے حسی کے باوجود مصوم بچوں کے قتل کا جواز نہیں بنتا ۔اس سنگدل خاتون نے اپنے بچوں کی جان لے کر ’’ماں‘‘جیسی عظیم ہستی کو گالی دی ہے ،مائیں تو اپنے بچوں کیلئے اس قدر سفاک نہیں ہو سکتیں ۔ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور یا کسی ظالم کی بے اعنتائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ناجائز اولاد کو بھی مائیں قتل کرنے سے گریز کرتی ہیں اور انہیں کسی کوڑے کے ڈھیر یا ہسپتال میں چھوڑ کر غائب ہو جاتی ہیں ،مگر ان کی جان لینا پسند نہیں کرتیں ، مولانا عبدالستار ایدھی نے تو یہ سہولت بھی فراہم کر رکھی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو قتل نہ کریں ،اپنے معصوم پھولوں کو ’’ایدھی جھولے’’ میں چھوڑ جائیں ۔اسی طرح ملک بھر میں بے شمار این جی اوز اس حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ، میڈیا بھی اس قسم کی اچھی بُری خبریں وقتعاً فوقتعاً نشر کرتا رہتا ہے ،آج کل تو کسی کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ فوراً میڈیا سے رجوع کرتا ہے ۔ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سفاک ماں نے معصوم بچوں کی جان لینے سے سے پہلے کسی این جی اوز سے رابطہ کیا یامیڈیا کے سامنے اپنی پریشانی بیان کی ،اُس نے کہاں کہاں مدد کیلئے دستک دی ؟یہ وہ سوال ہیں کہ جن کا جواب تو وہ ظالم خاتون خود ہی دے سکتی ہے ۔تمام تر معاشرتی بے حسی کے باوجود ہمارے ہاں دکھی انسانیت کا درد رکھنے والے نیک دل اور خُدا ترس افراد کی کمی نہیں ،ایسا ممکن نہیں کہ کوئی اپنے مصوم بچوں کے حوالے سے کسی کو اپنی داستان غم سنائے اور وہ اُس کی مدد نہ کرے لیکن ایسانظر آتا کہ اس بیحس اور انسانیت سے عاری خاتون نے اپنے کسی اندرونی خلفشار سے مجبور ہوکر اپنے بچوں کی جان لے لی اور کسی سے مدد لینے کی زحمت تک گوارا نہیں کی اور اب اپنے گھناؤنے جرم کے بعد میڈیا پر طرح طرح کی تاویلیں پیش کرکے اپنے فعل کا جواز فراہم کر رہی ہے جو سراسر جھوٹ ہے ،خاتون کابچوں کی جان لینے کے بعدمیڈیا کے ذریعے معاشرے سے ’’جواب شکوہ‘‘طلب کرنا المیہ ہے ۔

بھوک ،غربت و افلاس کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل کرنا سراسر جہالت اور اسلام سے دوری کا شاخسانہ ہے ۔۔دنیا میں آنے والے ہر زی روح کو خوراک مہیا کرنا رب کائنات کا کام ہے ۔ انسان کو دنیا میں تکمیل کائنات کیلئے بھیجا گیا ہے ، انسان کو اپنے زیر کفالت افراد کی پرورش کیلئے صرف محنت کرناہے ، ان کے لئے رزق حلال کی جدوجہد کرناہے۔اپنی مخلوق چاہے وہ پرند ہوں یا چرند ۔۔ رزق صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات نے دینا ہے ، پتھر میں رہنے والے کیڑے کو بھی رب کائنات ہی خوراک مہیاء کرتا ہے ،ہم لوگوں کی حیثیت محض اپنے پیاروں کیلئے ایک وسیلے کی سی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے خود آسمان سے اتر کر نہیں آنا ۔۔اﷲ تعالیٰ نے جب ہر ذی روح کو خوراک کی فراہمی کا وعدہ کر رکھا ہے تو ہمیں اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھنا چاہئے ،تھوڑا دے یا زیادہ ۔۔۔ہر شخص رات کو کھانا کھا کر ہی سوتا ہے ۔ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم بھوک کی وجہ سے اپنے بچوں کی جان لے لیں۔کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بندے کو رزق دے رہا ہے ،یا کسی کو پال رہا ہے ، بچے تو اﷲ کی عطاء ہوتے ہیں ، اولاد کی خواہش سے مجبور ہوکر ہم لوگوں سے دعائیں کرواتے ہیں ۔ بڑے بڑے اولیاء اﷲ کے درباروں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں ۔ ذرا پوچھیں ! اُن والدین سے جو اپنی تمام تر کوششوں اور دعاؤں کے باوجود اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں اور ہزاروں لوگ اولاد نہ ہونے کے باعث اپنے خاندانوں کے سلسلے کو آگے بڑھانے سے قاصر ہیں ،اور دولت کے باوجود حصول اولاد کیلئے ان کی کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی ۔۔بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اﷲ تعالیٰ کے عطاء کردہ ان پھولوں کو اپنے ہاتھ سے مسل دیتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں کا الزام حکومت اور معاشرے پر تھوپ دیتے ہیں۔

کسی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ،قاتل کی معافی نہیں ،اﷲ تعالیٰ بھی قاتل کو معاف نہیں کر سکتا۔یہ خاتون بھی اپنے اس فعل کے باعث معافی کی مستحق نہیں کہ جس نے غربت کے نام پر اپنے بچوں کی جان لے لی مگر اس کو ذرا برابر بھی ان معصوموں پر ترس نہیں آیا ۔جوہر ٹاؤن غریب لوگوں کا علاقہ نہیں،یہاں امراء نے بڑی بڑی عالی شان کوٹھیاں تعمیر کر رکھی ہیں ،یہ سانحہ اہل علاقہ کی بے حسی کی بھی عکاسی کرتا کہ جہاں اردگرد رہنے والے پڑوسیوں نے بھی حقوق العباد کا خیال رکھنے کی زحمت گوارا نہ کی اوریوں یہ واقعہ رونماء ہو گیا ۔یقینا یہ سانحہ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہم سب کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارا معاشرہ معاشی بدحالی کے باعث کس قدر پستی کی طرف جا رہا ہے ، کہ ہم اپنے بچوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے ، معصوم بچوں کی جان لینے کی بجائے مذکورہ خاتون خود جان دے دیتی تو شاہد اس کے حق میں یہبہتر ہوتاکیونکہ اپنے اس جُرم کے بعد ساری زندگی اُسے پچھتاوے کے سواکچھ حاصل نہیں گا ۔بچوں کی جان لینا آسان سمجھنے والی خاتون دنیا والوں کے طعنے برداشت کرنا انتہائی دشوار امر ہوگا ۔ہم وطن عزیز کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے کے دعویدار ہیں مگر ہم کس قدر ریاست کی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے کہ جس کا جواب شائد حکمرانوں سمیت کسی کے پاس نہیں ۔
syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 116806 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.