اللہ!

اللہ!
وہ ذاتِ کبریا جو ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا‘ جس کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ کوئی انتہا ‘ جو ہر شئے کا خالق اور پروردگار ہے‘ اور کویٴ اس کا خالق نہیں‘ نا کویٴ اس کا بیٹا ہے نا بیٹی‘ ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں‘ جسے ہر شے اِلٰہ مانتی ہے اور جس کی تمام مخلوق عبادت کرتی ہے‘ جس میں تمام صفاتِ الہیہ پنہا ہے اور جو واجب لوجود ہے جو لا محدود وسعتوں والا ہے ‘ لا محدود حکومت والا ہے ‘ لا محدود خزانوں کا مالک ہے ‘ لا محدود برکتوں والا ہے ۔۔۔۔۔ اس نے اپنی لا محدود عقل و فہم‘ علم و حکمت سے اپنا ذاتی نام ’’ اللہ ‘‘ رکھا ہے اور ہمیں بتا یا ۔

اللہ!
وہ ذاتِ کبریا کی ذات کی طرح‘ اسم ’’ اللہ ‘‘ میں بھی لا محدود وسعت ہے‘ لا محدود برکت ہے‘ لا محدود خزانے ہیں اور اسکی لا محدود علم ، حکمت ، عظمت ، قدرت …. غرض کہ تمام لا محدود صفات الہیہ پنہا ہے۔ قرآن و احادیث میں یا کسی اور ماخذ سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے جتنے اسماء صفات کے ذکر ملتا ہے یہ اسم ’’ اللہ ‘‘ عزت و جلال اور رتبہ میں سب سے بڑھ کر ہے۔

اللہ!
اس اسم مبارک میں تمام صفاتِ الہیہ یعنی اسمائے حسنہ کی ساری کی ساری صفات مجتمع ہیں۔ اس کے علاوہ کویٴ بھی ایسا اسم نہیں جو تمام صفات کو ظاہر کرے بلکہ اسم ’’ اللہ ‘‘ کے علاوہ ہر صفاتی نام صرف ایک ایک صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً رحمن سے رحمت ‘ رزاق سے رزاقیت اور رب سے ربوبیت وغیرہ وغیرہ صفات ظاہر ہوتی ہے۔ ربوبیت و رزاقیت ظاہر کرنے کے لئے رحمن نہیں بولا جائے گا اور نہ ہی رب یا رزاق بولنے سے رحمت کی صفت واضح ہوگی لیکن ربوبیت‘ رزاقیت اور رحمت وغیرہ تمام صفات کے لئے ’’ اللہ ‘‘ بولا جائے گا۔

اللہ!
کے علاوہ دوسروں پر بھی بعض اسمائے صفات کا اطلاق ہوتا ہے ‘ جیسے رحیم‘ حکیم‘ عزیز وغیرہ لیکن ’’ اللہ ‘‘ صرف اور صرف ذاتِ واحد کے لئے بولا جائے گا۔

اگر انسان صرف اسم ذات ’’ اللہ ‘‘ کو سمجھ لے تو شرک و کفر کا قلعہ قمع کرنے کیلئے یہی کافی ہے۔
کیونکہ جب وہ اپنی پوری فہم و ادراک کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ نام ’’ اللہ ‘‘ لے گا تو اسکے دل و دماغ میں توحیدیت کا رنگ سما جائے گا ۔

اللہ!
زبان پہ آتے ہی اس کے قلب کا تعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے جُڑ جائے گا اور اس کی عقل سلیم یہ گواہی دے گی کہ

• ؃ اس کائنات کا خالق‘ رازق اور مدبر صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ ( توحید ربوبیت)
• ؃ تمام اقسام کی عبادات صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔( توحید الوہیت)
• ؃ اسماء حسنہ یعنی اللہ تعالیٰ کے صفات جو قرآن و احادیث میں بیان ہویٴ ہیں‘ بغیر کسی تاویل و تحریف کے صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔(توحید صفات)

توحید ربوبیت‘ توحید الوہیت اور توحید صفات ہر لمحہ ہمارے دل و دماغ میں رچی بسی رہے اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر لمحہ تدبر و تفکّر کریں ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسی لئے تدبر و تفکّر کرنے پہ اتنا زور دیا ہے۔ ہم تدبر و تفکّر کرکے ہی توحید کو صحیح طرح سمجھ سکتے ہیں۔

آج مسلمانوں میں شرک بدعت عام ہے۔ اگر لوگ تھوڑی سی غور و فکر کرلیں تو کم از کم شرک کے ظلمتوں سے نکل سکتے ہیں۔ اس کے لئے کویٴ علامہ بنے کی ضرورت نہیں۔ ایک عام مسلمان اپنے روز مرہ کی زندگی جن اسلامی شعائر کو اپنائے ہوئے ہے صرف اُسے سمجھتے ہوئے سر انجام دے تو شرک سے نکلنے کے لئے یہی کافی ہوگی۔

مثلاً:

ہر مسلمان اپنے کام کے آغاز’’ بسم اللہ ‘‘ سے کرتا ہے ۔۔ ۔ شروع اللہ کے نام سے ۔۔ابتدا بابرکت نام اللہ کے ۔
اب اگر ’’ بسم اللہ ‘‘ کہتے ہی وہ ایک لمحے کو سونچے اور سمجھے کہ
میں کس کے نام سے شروع کر رہا ہوں؟
یہ اللہ کون ہے؟
کونسا اللہ ؟
اس اللہ کی حقیقت کیا ہے ؟
آخر اللہ کے نام سے ہی کیوں؟
تو اسے خود ہی جواب ملے گا اور وہ خود ہی کہہ اُٹھے گا:

اللہ!
جس نے مجھے اس کام کو کرنے کی توفیق دی ہے۔ جو میرا رب ہے۔ جو خالق ‘ مالک ‘ رازق ہے۔ جو یکتا ہے اور اکیلے ہی اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ ۔
۔۔۔۔۔ تو یہ اسکے ’ توحید ربوبیت ‘ سمجھنے کے لئے کافی ہو گی۔۔۔۔۔

اسی طرح جب وہ نماز میں تکبیر تحریمہ ’ اللہ اکبر ‘ کہتے ہوئے ایک لمحے کو اپنے ذہن میں سونچے کہ
ہم کس کی عبادت کرنے جارہے؟
وہ کیسا ہے؟
اس سے ہمارا کیا رشتہ ہے؟
آخر اسکی عبادت ہی کیوں؟
تو یہ دل پکار اُٹھے گی:

اللہ!
کی ‘ جو سب سے بڑاہے ۔ جس نے ہمیں صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔۔۔
تو پھر اور کسی کی عبادت کیوں ؟
۔۔۔ یہ ’توحید عبادت‘ سمجھنے کے لئے کافی ہے۔

اور اگر اب بھی نہیں سمجھ آیٴ تو ’’ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ‘‘
’’ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘
۔۔۔ تک پہنچتے پہنچتے ’توحید عبادت‘ سمجھ میں آ جانی ہی چاہئے۔

نماز کے بعد کی مسنون دعائیں‘ آیت الکرسی‘ تسبیحات وغیرہ پڑھنا اور روز مرہ کی بے شمار دعائیں ’توحید صفات‘ سمجھنے کے لئے کافی ہیں‘ اگر انسان عقل سلیم کو کام میں لگائے۔

بازار میں پڑھنے کی دعا:

لاَ إِلہَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، یُحْیِی وَیُمِیتُ ، وَھُوَ حَیٌّ لاَ یَمُوتُ، بِیَدِہِ الْخَیْرُ، وَھُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ

’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کاکوئی شریک نہیں ٗ اقتدار اسی کا ہے وہی شکرو تعریف کا مستحق ہے وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اس کے لیے موت نہیں ۔ ساری بھلائی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے او روہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ (ترمذی)

۔۔۔اگر سمجھ لیا جائے تو اس میں توحید کے ہر اقسام شامل ہے۔

لیکن بات ہے ساری شرک سے بچنے کی اور سب سے پہلے یہ عقیدہ ہو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ شرک کی گناہ کو کبھی نہیں معاف کرے گا کیونکہ شرک سب سے بڑی گمراہی اور ظلم عظیم ہے۔

جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے:

إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨﴾ سورة النساء

یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس نے واقعۃً بہتان بادھا (اللہ پر اور ارتکاب کیا) سب سے بڑے گناہ کا۔

إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦﴾ سورة النساء

بے شک اللہ اس جرم کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سوا سب کچھ معاف ہوسکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾ سورة لقمان

اور (یاد کیجئے) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ اسے نصیحت کر رہا تھا: اے میرے فرزند! اﷲ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شِرک بہت بڑا ظلم ہے،

اور شرک سارے اعمال صالح کو ضائع کر دے گا:

لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٦٥﴾ سورة الزمر

اگرتم نے شرک کیا تو ضرور تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گے

وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٨٨﴾ سورة الأنعام

اور اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وه سب اکارت ہوجاتے

پیارے مسلمان بھائیوں !

اللہ سب سے بڑا ہے اور اسی لئے ’اللہ‘ کے ساتھ شرک کرنا سب سے بڑا گناہ جس کی بخشش نہیں۔
شرک انسانی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ آج بے شمار مسلمان بھی اسی شرک کے لعنت میں مبتلا ہونے کے باوجود کہتے ہیں کہ وہ شرک نہیں کر رہے کیونکہ وہ شرک کے مفہوم کو سمجھتے ہی نہیں۔ ان کے نزدیک شرک صرف ’مورت‘ بنا کر پوجنے کا نام ہے۔

لیکن اصل یہ ہے کہ شرک کی حقیقت کو جانے بغیر شرک سے بچنا ممکن نہیں۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’ اے لوگو! شرک سے بچ جاوٴ کیونکہ یہ چیونٹی کے چلنے کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔‘‘
کسی صحابی نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں جبکہ یہ چیونٹی کے رینگنے کی آواز سے بھی زیادہ مخفی ہے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ تم یوں کہا کرو:

اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا نَعْلَمُهُ ، وَنَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا نَعْلَمُهُ

" یا اللہ! ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ہم جانتے بوجھتے کسی کو تیرا شریک ٹھہرائیں اور لا علمی میں ہونے والے خطاوٴں سے تجھ سے بخشش کے طلب گار ہیں۔"

شرک کے بارے میں بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے‘ تب ہی ہم آج کے پر فتن دور میں اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو شرک جیسے عظیم گناہ سے بچا سکیں گے۔

اللہ سے دعا ہے جو کچھ لکھا اسے قبول کریں۔
اللہ ! وحدہ‘ لا شریک سارے مسلمانوں کو شرک کی ظلمتوں سے نکال کر اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کو عروج بخشیں ۔اور ہمیں اور ہمارے خاندان‘ دوست احباب اور آئندہ نسلوں کو شرک سے ہمیشہ کیلئے محفوظ کر د یں۔ آمین

Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 63188 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More