پولیو اور پاکستان

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پولیو ایک خطرناک اور موذی مرض ہے۔ پوری دنیا میں یہ مرض بدریج ختم ہو رہا ہے تاہم پاکستان میں اس مہم کی ناکامی کے بہت سے اسباب ہیں جن میں معاشرتی بے علمی،غلط پراپیگنڈہ اوربچے تک رسائی شامل ہیں۔

یہ تو یہ مہم گھر گھر چلائی جاتی ہے تاہم موثرآگاہی کا فقدان اور معاشرے کی بگڑہتی ہوئی صورت حال نے تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے سال 2011؁میں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ اس بیماری کی خلاف لڑنے والے حکومتی اور عالمی اداروں کے سربراہان پاکستان سے 2014تک پولیو مرض کے خاتمے کیلئے پرُعظم تھے تاہم دسمبر2011؁ میں کراچی و خیبر پختونخواہ کی پولیو ٹیم کے رضا کاروں پر حملوں اور بعد میں میں ہلاکت نے یہ خواب صرف خواب ہی کی حد تک رہنے دیا۔ بعد میں حملوں کا یہ سلسلہ مردان،صوابی اور چارسدہ تک پھیل گیا اور پولیو رضاکاروں کیساتھ ساتھ پولیس اہلکار بھی نشانہ بنتے رہے۔ سال 2011میں پاکستان میں پولیو کے198،2012 میں58،2013 میں93جبکہ 2014میں تاحال15کیسز سامنے آچکے ہیں۔

سال2013کا موازنہ کیا جائے تو بلوچستان میں صفر، شورش زدہ فاٹا میں66، پنجاب میں 7، کے پی میں11 اور سندھ میں9 کیسز سامنے آئے۔ دیکھا جائے تو بلوچستان کے حالات فاٹا سے کچھ کم مختلف نہیں تاہم کیسزکی رپورٹنگ کے نظام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان میں پولیوں ٹیموں اور انکے محافظوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیا پولیو کے قطروں کے متبادل نظام نہیں لایا جاسکتا جس سے اس مرض کو زیر کرنے میں آسانی ہو۔ یہی سوال جب ہم نے اس مرض کے ماہرین ڈاکٹر بلال اور ڈاکٹر جوہر سے کیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحت و صفائی کے ناقص صورتحال کیوجہ اور IPVیعنی انجکٹی بل پولیو ویکسین کیلئے تربیت یافتہ سٹاف کے فقدان کی وجہ سے ایسا ابھی ممکن نہیں ہوسکتا۔

اور انکی یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کے OPVیعنی پولیو کے قطروں سے ہی اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان، افغانستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں پولیو وائرد پر قابو پالیا گیا ہے۔

اور حال ہی میں بھارت نے پاکستانی شہریوں کو ویزہ جاری کرنے کیلئے پولیو سرٹیفیکیٹ کی شرط رکھ کر اقوامِ عالم کیلئے ہم پر بیرون ملک سفر اور روزگار میں مشکلات پیدا کرنے کا اپنا وطیرہ دہرایا۔ کئی ممالک نے پاکستان سے سفارتی سطح پر شکایات کی ہیں۔ کہ ان کے ممالک میں پولیو کا مسئلہ پاکستانی شہریوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ذرائع کے مطابق سعودی حکومت نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ پولیو وائرس کوکنٹرول کریں ورنہ ان کے لئے حج اور عمرے کیلئے پاکستانیوں کو ویزے جاری کرنے مشکل ہوجائینگے، اور یہی نہیں بلکہ ہر پاکستان کو سعودی سرزمین پر قدم رکھتے ہی پولیو کے قطرے پلانا بھی لازم کردیئے گئے ہیں۔

اسکے علاوہ اگر دیکھا جائے تو پولیو مہم کی ناکامی میں صرف سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ پولیو ورکرز کو تنخواہیں بھی وقت پر نہیں مل رہیں۔ انکی ملازمت غیر مستقل اور معاوضہ بھی کم ہے۔ ان مہمات کی ناکامی کی بڑی وجہ عوامی شعور و آگاہی بھی ہے حالانکہ دنیا بھر کے جید علماء کرام اور علماء حق نے اپنے فتاوہ (فتواۃ) کے ذریعے پولیو کے قطروں کو حلال اور جائز بھی قرار دیا ہوا ہے اور پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کر علماء مفتی رفیع عثمانی،مفتی منیب الرحمٰن،مفتی تقی عثمانی،علامہ ساجد میر،مولانا سمیع الحق،مولانا فضل الرحمٰن، مولانا محمداحمد لدھیانوی، علامہ ساجدنقوی، علامہ امین شہیدی اس بات پر متفق ہیں کہ تحقیق کے مطابق پولیو کے قطروں میں ایسی کوئی دواء شامل نہیں کہ جس سے کسی بھی قسم کی افزائیش نسل کو روکنا مقصود ہو، تمام علماء نے پولیو کے قطروں کو جائز اور لازم قراردیا ہے۔

جبکہ طالبان نے بھی پولیو مہم کو کوئی مخالفت نہیں کہ تاہم شکیل آفریدی کے واقعے کے بعد انکا موقف ہے کہ اگر یہ مہم جاسوسی مقاصد کیلئے نا ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے مساجد، دینی مدارس،اسکولوں،ایم پی ایز،ایم این ایز اور تمام سیاسی اور مزہبی جماعتوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا پابند کیا جائے اور ہر قسم عدالتی کیسز،جائیداد کے انتقالات،فارم ب،قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلئے پولیو سرٹیفیکیٹ لازمی قراردیا جائے۔اسکے ساتھ ساتھ علماء اپنے دینی اور جمعے کے خطبات میں پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے آگاہ کریں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Usman Ali Nashad
About the Author: Usman Ali Nashad Read More Articles by Usman Ali Nashad: 3 Articles with 3153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.