مجھے حق ہے آزان کا۔۔۔۔۔3۔۔۔۔۔بے حسی

 ایک بین الاقوامی ویب سائیڈ پر پچھلے ہفتہ ایک خبر دیکھی، اور دل دہل گیا۔ اور اسبات کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکا، اور تسلیم کرنا پڑا۔ کہ ہمارے دشمن۔ یہود و نصارا، ہم مسلمانون کو تباہ کرنے اور برباد کرنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور ہم بحیثیت قوم کس قدر تنزلی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس پر بھی حیران اور پریشان ہوں۔ کیا لکھون یا کہوں، زبان گنگ ، بازو شل، اور دماغ سن ہو چکا ہے- ۔

پھر مجھے وہ چڑیا یاد آجاتی ہے، جو آتش نمرود کو بجھانے کے لئے ، اپنی ننھی چونچ میں پانی لاتی تھی، اور آگ پر ڈال دیتی تھی۔ اس آگ کے آلاؤ پر جسمیں حضرت ابراہیم ؑ کو پھینکا جانا تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا، کہ تو جو حرکت کر رہی ہے ۔ کیا اس سے آگ بجھ جائے گی۔ اس چڑیا نے جواب دیا ۔ میں جانتی ہون نہیں۔ لیکن میں کل اللہ کے دربار میں کہہ سکون گی، ائے اللہ میں نے اپنی طاقت اور بساط کے مطابق کوشش کی تھی، میں ان میں شامل نہیں تھی، جو تماشہ دیکھنے والے تھے ۔ تو میں تو پھر اشرف المخلوقات میں سے ہوں، میں اگر برائی کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن برائی کا شکار ہونے والے لوگون کو اسبات کی حقیقت سے آگاہ تو کر ہی سکتا ہون۔ کہ ہوشیار ہو جاؤ دشمن تمھارے ایمان پر غیرت پر، تمھاری تہذیب پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ تمھاری معصوم بچیون کو غلیظ اور گمراہ کن لٹریچر پڑھایا جارہا ہے۔ تمھاری نسلون کو برباد کیا جارہا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔ کیو نکہ مجھے حق ہے آذاں کا۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے اللہ کے حضور پیش ہوکر کہہ تو سکون کا کہ ائے میرے رب، تونے مجھے جو شعور، عقل ، اچھے برے کی سمجھ دی تھی، اور جو میرے نبی ﷺ نے حکم دیا تھا۔ کہ برائی سے روکو اور اچھائی کی تلقین کرو ۔۔ سو میں اسکا پورا حق ادا نہیں کرسکا۔ لیکں جو کرسکا وہ کیا ۔

وہ دل ہلا دینے والی خبر یہ ہے کہ اندرون سندھ سرکاری اسکولون میں چھ یا دس سال کی بچیون کے کورس میں ایسی کتابین اور مضامین پڑھائے جارہے ہیں، جس میں مرد اور عورت کے جسمانی اور جنسی ملاپ، اسکے بعد کے مراحل، حمل ، اور اسقاط حمل، اسکی کیفیات، اور حمل کے ذائع کرنے میں استعمال ہونے والی گولیان، اور احتیاطی تدابیر بذریعہ تصاویر سمجھایا اور پڑھایا جارہا ہے۔ اور محکمہ تعلیم سندھ نے اسکی باقاعدہ اجازت دی ہے۔ اور اس کام میں بیرونی این جی اوز کی سرپرستی حاصل ہے۔ جن کی سرپرستی یہودی اور امریکن ادارے کر رہے ہیں ۔ اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ اور ہماری قوم کے چند بے ضمیر لوگ ، جنکے پاس نہ ایمان کی دولت ہے، نہی انکی کو ئی اخلاقی اقدار ہیں۔ اور جو یہودی بدنام زمانہ تنظیمون الامناٹی، اور فری میسن، کے ممبر ہیں۔ ان این جی اوز کی سربراہی کر رہے ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے، جس کا مذہب ، ثقافت، تہذیب، اور معاشرتی اقدار دوسرے مذاہب، اور معاشرون سے بلکل جدا اور منفرد ہیں۔ اس میں بسنے والی تمام قومون کا مذہب اسلام ، ہے، جو ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور ایک نبی ﷺ کے امتی کہلانے میں فخر مھسوس کرتے ہیں۔ جہان ، مان ، بہن ، بیٹی، اور بیوی کو عزت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جہان عورت کی عزت، کو باپ، بھائی ، اور بیٹے اپنی غیرت سمجھتے ہیں۔ اور اسکی حفاظت کرتے ہیں۔ جہان بیٹی اپنے باپ اور بھائی کی حرمت اور تقدس کا نشان ہوتی ہے۔ اس وطن کی ہر بیٹی، اپنی عزت اور حرمت پر مٹنے کو اپنی جان سے زیادہ قیمتی سمجھتی ہے۔ جہان کی آزاد خیال لڑکی بھی حیاء اور عفت کو مقدم سمجھتی ہے۔ یہ سب کیون ہے، اسلئے کہ وہ مسلمان پہلے ہے۔ اور عورت بعد میں۔

ہماری بدنصیبی یہ ہے، کہ ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ، جو درس و تدریس سے وابستہ ہے، وہ بے حسی اور احساس ذمہ داری کو بھول چکا ہے۔ اور یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب تعلیمی ادارون میں ان افراد کو بھرتی کیا جانے لگا، جو سفارشی یا رشوت دے کر اس محکمہ پر قا بض ہونا شروع ہوئے، نا اہل اور غیر ذمہدار افسران نے اس محکمہ کو دونون ہاتھون سے لوٹنا شروع کیا۔ جن کی سرپرستی اسکے وقت کے حکمران کرتے تھے ، اور یہ سلسلہ ابتک جاری ہے۔ اور آج محکمہ تعلیم ایک ایسا مافیا بن چکا ہے۔ جو ملک اور قوم کے نوجوانون کے مستقبل سے کھیل رہا ہے۔ گورنمٹ اسکولون کی تعداد، اور تعمیر ناکافی اور ناقص ہے، اور زبون حالی کا شکار ہے۔ گزشتہ 67 سالون میں جہان اسکولون کا ایک جال ہونا چائیے تھا۔ وہان گنتی کے چند اسکول نظر آتے ہیں، جن میں ہمیشہ سے تدریسی عملے کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے، کہ اکثر اسکولون کے اساتذہ ، اپنے بڑون کی ملئے بھگت سے ، اپنی آدھی تنخواہ وصول کرتے ہیں، اور آدھی تنخواہ افسران بالا ہڑپ کر جاتے ہیں، وجہ اسکی یہ ہے کہ، وہ صرف تنخواہ والے دن آتے ہیں، جبکہ انکے پورے مہینے کی حاضری محکمہ والے لگا دیتے ہیں۔ اور وہ دوسرے پرائیوٹ اسکولون میں فی سبجیکٹ کے حساب سے تنخواہ لیتے ہیں، اور اسبات کی گارنٹی دیتے ہیں، کہ امتحان میں جو مضامیں انکے ذمہ ہیں ۔ وہ پاس کروا دینگے۔ اسی لئے امتحا نات کے دنون میں یا تو پیپر آؤٹ ہوجاتے ہیں، یا پھر استاد اپنی موجودگی میں نقل کرواتے ہیں۔ اور ایسے کئی واقعات بذریعہ ٹی وی اور اخبارات منظر عام پر آچکے ہیں۔ افسوس اسبات کا ہے ، کہ آج تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ یہ محکمہ کی طرف سے یہ حکومت کی طرف سے۔ ہر طرف چل سو چل ہے۔

آج کا المیہ یہ ہے ۔ اگر وہ نصابی کتابیں، شہری اسکولون میں پڑھائی جاتیں، تو شہرون کی باشعور عوام اسپر احتجاج کر تے ، اور وہ فحش لٹریچر جو چوتھی یا آٹھوین جماعت کی طالبات کو کورس میں شامل کیا گیا ہے۔ منظر عام پر آجاتا۔ لیکن اس دفعہ سندھ گورنمٹ اور محکمہ تعلیم کے بے ضمیر اور بے غیرت افسران نے ملکر یہ زہریلا تعلیمی مواد ، اندورن سندھ کے اسکولون میں معصوم بچیون میں مفت تقسیم کیا ہے، اور کیا جارہا ہے۔ جبکہ چند اسکولون میں پڑھایا بھی جارہا ہے۔ کیا وہ اپنے بچے اور بچیون کو پڑھاسکتے ہیں۔ اور وہ تصاویر اور پوسٹر جو دیہاتون میں معصوم بچیون کو دیکھائی جارہیں ہیں، جنکے والدین انپڑھ اور جاہل ہیں، اور استادون کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اخلاقی ، اور شرعی طور پر جائز ہے۔ اور کیا ہمارے ملک کے حکمران ، اکابرین، علماء اور مشائخ ان باتون سے اسقدر لاعلم ہیں۔ جنہیں ہم اپنے ملک کا باشعور طبقہ سمجھتے ہیں۔

افسوس اور دکھ اسبات کا ہے، کہ ہمارے ملک کے اعلاء تعلیمی ادارے بھی، اسی بے حیائی، اور بے غیرتی کو فروغ دے رہے ہیں، کالجون اور یونیورسٹیون میں تعلیم کی بجائے ناچ گانے ، اور بے حیائی کے فیسٹیول منائے جارہے ہیں۔ ہمارے ملک کا وہ نوجوان طبقہ جس نے آگے چل کر ملک کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، انڈین کلچر، بے حیائی، اور بے غیرتی کی دلدل میں پھنسایا جارہا ہے۔ اور ان تعلیمی ادارون کے پروفیسر، لیکچرر، اور چانسلر ز بھی ان پارٹیون میں بے غیرتی اور بے حیائی کا بھرپور مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ سب ایک اسلامی مملکتِ پاکستان میں ہورہا ہے۔ جس ملک کی بنیادی اساس ہی ۔ لا الہٰ الاللہ پر رکھی گئی تھی۔
علامہ اقبال ؒ نے شاید اسی موقعہ کے لئے فرمایا تھا:
اللہ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ۔ املاک بھی، اولاد بھی، جاکیر بھی فتنہ۔
ناحق کے لئے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ۔ شمشیر ہی کیا نعرہء تکبیر بھی فتنہ۔
ٹھیک ہی کہا تھا میرے آقائے دوجہان ﷺ نے میرے بعد فتنو ن کادور آئے گا۔ لوگوں وہ دور آگیا، جیسا کہ اوپر کے اشعار میں فرمادیا ۔ کہ تعلیم بھی فتنہ، اولاد، جاگیر، شمشیر، اور نعرہء تکبر بھی فتنہ ، آج اگر ہم اپنے اطراف میں دیکھیں ، تو ہر طرف فتنے ہی فتنے نظر آتے ہیں۔ اس وقت سن لو جس نے میری اور میرے صحابہ کا اتباع کیا ، وہ کامیاب ہوگا۔ ورنہ اللہ کے عذاب کا شکار ہوگا۔

مجھے ایک بزرگ کی ایک بات آگئی، سوچتا ہون بیان کردون۔ ایک بزرگون کی نشست میں ، میں بھی موجود تھا۔ ایک صاحب نے سوال کیا حضرت یہ فرمائیں ، میں جب بھی فلم یا ٹی وی کا کوئی پروگرام دیکھنے بیٹھتاہون، تو نیند نہین آتی، چاہے ساری رات گزر جائے ۔ لیکن جب میں قرآن پڑھنے بیٹھتاہون، یا کسی ذکر کی محفل میں بیٹھتا ہون، تو فورا" سستی، اور نیند آنے لگتی ہے۔ ایسا کیون ہوتا ہے۔

حضرت صاحب نے جواب دیا ، نلکہ سوال کیا میان یہ بتاؤ، کانٹون کے بستر پر نیند اچھی آتی ہے یا پھولون کے بستر پر ۔ ؟ موصوف نے جواب دیا ۔ حضرت ۔ پھولون کے بستر پر نیند اچھی آئے گی۔ آپ نے فرمایا ، بس یہی میرا جواب ہے۔ فرمایا " جو علم انسان کو نفسانی خواہشات، اور مادی خواہشات کی طرف لے جائے، وہ کانٹون کا بستر ہے۔ جس میں دنیاوی علوم شامل ہیں۔ اور دوسرے روحانی علوم ہیں، جو انسان کے لئے پھلولون کے بستر کا کام کرتے ہیں۔ انسان کو جسمانی اور روحانی طور پر تقویت پہنچاتے ہیں۔ اور انسان کو اعلیٰ مقام عطاء فرماتے ہیں۔

آج ہمارا دشمن ہم سے زیادہ علم رکھتا ہے، وہ جانتا ہے۔ کہ اسلام واحد مذہب ہے، جو انسان کو انسانیت کی معراج پر پہنچا دیتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے۔ کہ ان کے لئے مسلمان اتنا خطرناک نہیں جتنا انکا مذہب اسلام اور اسکی تعلیمات خطرہ ہیں۔ اور وہ صدیون سے اسی کوشش میں ہے ۔ کہ ہمیں ان تعلیمات سے دور کردے، اور اسکے لئے وہ دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے، آج کا مسلمان بھٹکا ہوا ہے۔ اور کسی بھی وقت وہ اپنے سہی راستے پر واپس آسکتا ہے۔ اور ہمارے لئے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ اسی لئے ہمارے چالاک اور مکار دشمن ایک طرف سے نہیں چارون طرف سے یلغار کر رہے ہیں۔ ہماری، روحانیت، ہماری تعلیمات، مذہبی رسومات، ثقافت، معاشرت، کے ساتھ ساتھ، نفسیات، اھساسات، اور اب ہمارے بچون کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔

جس کا نتیجہ اور اثرات نظر آرہے ہیں، مثلا" ہمیں آج کھانے پینے کی چیزون میں اسبات کا خیال ہی نہیں رہا۔ کہ ہم جو کھا رہے ہیں، وہ حلال ہے یا حرام، ہمارے انداز بدل دئیے۔ برگر، ماسٹ فوڈ، سافٹ ڈرنک، کھانا اور سڑک کے کنارے، اور کھڑے ہوکر کھانا، چلتے پھرتے کھانا۔ اور ہم اس فیشن کو اپناتے چلے جارہے ہیں۔ کسی زمانے میں مخلوط طریقہ تعلیم معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اب ہم اسے فیشن سمجھ کر اپنا رہے ہیں۔ پہلے ہمارے مردون اور عورتون میں ایک اخلاقی قدرین ہوتی تھیں، آج ہمارے مرد اور خواتین فیشن کے نام پر جن لباسون میں اپنے گھر کی عورتون کو لیکر کھومتے نظر آتے ہیں۔ وہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی واقف ہوں۔

کیونکہ آج یہ نظریہ عام کردیا گیا ہے۔ کہ اسکے بغیر ہم ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکتے۔ ہمارے ادارے، اور حکمران ، اور لیڈران چاہے وہ سیکولر خیالات کے حامی ہون، یا مذہبی خیالات رکھنے والے، سب اس ترقی کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ اور یہی ہمارا سب سے بڑا دشمن ہم سے چاہتا ہے۔ کہ ہماری نسلون کو اس حد تک گمراہ کردے، کہ پھر واپسی کو راستہ ہی نہ بچے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم اور ہماری نسلیں کس طرف جارہی ہیں۔ اور ان سب کا ذمہ دار کون ہے۔ آج ہم اپنے بچون کو خوو ہاتھ سے پکڑ کر انگریزی اسکولون میں داخل کروانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور جسکا نتیجہ ہم کبھی ویلنٹائین ڈے، اور کبھی اسکولون میں جنسی کتابون کی تعلیم کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

میں یقین سے کہہ سکتا ہون 80٪ فیصد والدین ایسے ہیں ، جو نہ خود نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہی اپنے گھر والون کو اس طرف مائل کرتے ہیں۔ بلکہ بعض گھرانے ایسے بھی ہیں، اگر انکا کو ئی بچہ، نماز کے لئے جانا چاہے، تو گھر والے اسکا مذاق اڑاتے ہیں۔ اور اسکی تذہیک کرتے ہیں۔

آج ہم خود اپنے دشمنون کا دیرینہ خواب پورا کرنے جارہے ہیں۔ اور بلواسطہ، یا بلاواسطہ یہود و نصارا کے ہاتھ مظبوط کر رہے ہیں۔

لیکن آج بھی ہمیں ایسے لوگ نظر آتے ہیں۔ جو اسلامی نظریات کے حامی ہیں، اور ملک میں اسلامی شریعت حقیقی معنو ن میں دیکھنا چاہتے ہیں، جو جانتے ہیں، کہ ہماری انے والون کی نسلون کی بنیاد اگر اسلامی نظریات پر نہ رکھی گئی، تو ہم کہیں کے نہیں رہینگے۔ دوسری طرف تمام دنیا کے مسلمان ہم کو اپنا نجات دہیندہ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دو دھائیون سے ملک میں جو خرابیان پیدا ہوئی ہیں، اور جس سرعت سے پھیلی ہیں۔ اگر انکا اسوقت تدارک نہ کیا گیا ، تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستان کو نام و نشان بھی دنیا کے نقشے پر نہ رہے۔

دنیا جانتی ہے ۔ بلکہ میں تو یہ کہون گا۔ کہ یہود و نصارا یہ جانتے ہیں ۔ کہ انکے راستے کی سب سے بڑی روکاوٹ پاکستان ہے۔ اور اسکو مٹانے کے لئے دشمن اپنی ایڑی چوتی کا زور لگا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ، کہ غدارون کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر وطن عزیز کی بقاء کا سودا کرچکے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان ایک زمیں کا صرف ٹکڑا ہی نہین ، بلکہ اسلامی نظریات اور اللہ کی ایک عنایت ہے۔ جسکی حفاظت کے لئے ہزارون فرزندان توحید سربکف تیار کھڑے ہیں۔ جو اسلام کی بقاء کی جنگ لڑنے کو اپنے لئے ایک سعادت سمجھتے ہیں، اور جنکی ھفاظت اور مدد کوئی انسان نہیں۔ بلکہ اللہ پاک اپنی قدرت سے کر رہے ہیں۔ اور انکی نصرت بھی کر رہے ہیں۔

آج جس قسم کی تعلیم پاکستان کے اسکولون میں ، اور جو روشن خیالی ہمارے ملک کی یونیوسٹیون میں دی جارہی ہے۔ کیا یہ اس قابل نہیں ، کہ انہیں آگ لگا دی جائے، ہان ایسے تمام اسکول اور کالج جو ہمارے بچون کو علم کی روشنی دینے کی بجائے، بے حیائی، اور بے راہ روی کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ ایسے تمام تعلیمی ادارے، جو ہماری بچیون کو ناچ گانے اور فحش جنسی لٹریچر پڑھا رہے ہیں ، انہیں ہمیں اپنے ہاتھون سے مٹا دینا چائیے۔ اور ان استادون کو بھی چوراہون میں سنگسار کردینا چائیے جو ہماری نسلون کے دشمن ہیں۔

میں ایک مرتبہ پھر یہی کہون گا ۔ اللہ پاک ہمیں سنبھلنے کو وقت دےرہا ہے۔ ہمیں پھر اپنا سبق یاد کرنا ہوگا۔ جسکی طرف حضرت علامہ اقبال ؒ دعوت دے گئے ہیں۔
سبق پڑھ پھر شجاعت کا صداقت کا عدالت کا
لیا جائے کا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔

ہمیں ایک مرتبہ پھر متحد ہوکر اللہ پاک سے اپنی کوہتائیون کی معافی مانگنی ہوگی، اپنے درمیان سے کالی پھیڑون کا چن چن کر نکلنا ہوگا، اپنے اطور ، کردار، کا از کود محاسبہ کرنا ہو گا ۔۔ اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا۔ اپنے ایمان اور یقین کی ڈگمگاتی کشتی کو ، یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کے سہارے سنبھالنا ہوگا۔ اور دنیا کی امامت کا بیڑا اٹھانا ہوگا ۔۔۔ اپنے لئے، اپنے معصوم بچون اور بچیون کے لئے، اور انکے مستقبل کے لئے، اور لا الہٰ الاللہ کی حُرمت اور پاسبانی کے لئے۔۔۔ اور بے حسی کے اس لبادے کو اُتارنا ہوگا۔۔۔ میں تو کہون گا ۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔ مجھے ہے حق آذان کا ۔۔۔۔۔۔
فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 19713 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More