جب انتظار نعیم کو’لگا کہ جنت اتر گئی ہے میرے گھر میں!‘

جنت چونکہ زماں و مکاں کی قیدو بند سے ماوراء ہے اس لئے ممکن ہے وہاں کی فضا آزاد نظموں کیلئے زیادہ سازگار ہو ویسےنظم و ضبط کے پابندی محترم انتظار نعیم صاحب کی اجتماعی مجبوری نہیں بلکہ انفرادی صفت ہے جس سے سرمو انحراف ان کیلئے ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے آنجناب سے آزاد نظموں کی تو قع مجھ جیسے کوتاہ بین انسان کیلئے بہت مشکل تھی لیکن میں یہ بھول گیا تھا کہ انسان کے اندرچھپا ہوا منفرد شاعر کسی اجتماعیت میں ضم نہیں ہو سکتا ہے ۔ شاعری کی فطرت میں انفرادیت اور آزادی دونوں شامل ہیں ۔ شاعر کا طبعی وجودتو حدودو قیود کا پابند ہوسکتا ہے لیکن اس کی روح آزادی کی متقاضی ہوتی ہے اور جب اس پر قدغن لگے تو صدائے احتجاج کچھ اس طرح بلند ہوتی ہے ؎
جو آزادی مرا پیدائشی حق ہے
لگی تھی اس پہ کیوں قدغن؟
یہ کیا طرز سیاست تھا کہ پابندی ہوئی نافذ
زبانوں پر بیانوں پر
ستم توڑا گیا کیوں اہلِ حق کے خاندانوں پر ؟

یہی وجہ ہے کہ انتظار نعیم صاحب کی آزاد نظمیں مجھے ان کے روحانی کرب کا اظہار لگتی ہیں جو ان کی اپنی ذات سے نکل کر حالات سے ہوتا ہوا کلُ کائنات تک پھیل جاتا ہے ۔ تخلیق کے کرب و فرحت سے آراستہ’بنے ہیں خواب کچھ میں نے‘ کی پہلی نظمایک غیر مولود بیٹی کی التجا ہے مگر حرفِ آخرخود ان کا اپنی ماں سے والہانہ اظہارِعقیدت ہے ؎
میں ڈرتا ہوں
تمہاری بیش قیمت یاد کی دولت
کروں ظاہر کسی پر تو
کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے چھن جائے

اس نظم میں ایک لطیف احساس کی جس بیش بہادولت کا تذکرہ ہے وہی اولاد کو اپنی ماں کے نظروں میں ہمیشہ بچہ بنائے رکھتی ہے لیکن جب کوئی عورت اس جذبہ ٔ شفقت سے محروم ہو جائےتو وہ اپنی اولاد کیلئے زندگی کے بجائے موت کی سوداگر بن جاتی ہےاوراس کی اولاد اس طرح فریاد کناں ہوتی ہے کہ ؎
مری امی مجھے دنیا میں آنے دو
میں ننھی سی سہی
لیکن بنے ہیں خواب کچھ میں نے
انہیں تعبیر پانے دو
مجھے دنیا میں آنے دو

اس میں شک نہیں کہ عصرِ حاضر میں اکثر پہلا بیٹا اس سفاکی کا شکار نہیں ہوتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا پرست اور آرزومند خواتین پہلی اولاد کو بھی بلا تفریق ِ جنس ضائع کردینے سے پس و پیش نہیں کرتیں۔تیسرے یا چوتھے لڑکے کے ساتھ یہ معاملہ بے دریغ ہوتا ہے ۔ایک ایسے سفاک معاشرے میں جہاں اپنی اولادتک بے رحمی سے دوچار ہوغیروں سے رحم و کرم کی توقع کرنا دیوانے کا خواب نہیں ہے تواور کیا ہے؟ جو سماج ایک معصوم سی بچی کے اس دنیا میں آنے کا روادر نہیں اس میں مظلوم و مقہور خواتین کی حالت کا بیان ایک اور نظم میں ملاحظہ فرمائیں؎
کہ اس افسردہ عورت کے
ابھی تک سامنے ایک ڈھیر پتھر ہے
اور اس کو توڑتے رہنا ہی بس اس کا مقدر ہے!

ہمارے مہان بھارت میں غیر انسانی سلوک محض نادارصنف نازک تک محدود نہیں ہے بلکہ دلت سماج کے کروڈوں مردو خواتین جبرو و ظلم کی اس صدیوں پرانی چکی میں ہنوز پسِ رہے ہیں ۔ پسماندہ سماج کی فلاح و بہبود انتظار نعیم صاحب کا خاص موضوع ہے اور اس پر انہوں نے ہندی اور اردو میں کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ یہ مجموعہ بھی اس موضوع پر مؤثرنظموں سے خالی نہیں ہے ؎
دلت گھروں میں پیدا ہونا
اب بھی خطا ہے
چار ہزار برس پہلے وہ
جہاں کھڑا تھا ، وہیں کھڑا ہے!
جینا جیسے ایک سزا ہے!

عصر حاضر میں اس سنگین مسئلہ کا شعورواحساس نہ صرف مٹتا جارہا ہے بلکہ اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ غیرانسانی بے حسی کا ایک نہایت ہی کربناک منظر ہمیں نظم ’ایکسڈنٹ‘ میں نظر آتا ہے جس میں ایک نوجوان کے سڑک حادثے میں موت پر وہاں موجود لوگوں کے تاثرات ان کی سنگدلی کی عکاسی کرتے ہیں ؎
سب کے چہرے پہ تھی ناگواری عیاں
تھے لبوں پر یہ الفاظ جیسے رواں :
’’جب بھی دیکھو یہاں اک نیا حادثہ
ختم ہوتا نہیں ’جام ‘ کا سلسلہ
وقت اکثر ہے برباد ہوتا یہاں !‘‘
الغرض جتنے منہ اتنے ہی تبصرے
اس سے بے فکر زخمی بچے یا مرے
چوک تھا جیسے اک مظہرِ بے حسی
آدمیت سے عاری تھا ہر آدمی

اس بے حسی کےعالم میں جبکہ عام انسانوں کا لہو ارزاں ہو چکا ہے اور مسلمانوں کا خون ناحق تووطن ِعزیز میں سب سے بڑا پونیہ کاریہ( کارخیر) ٹھہرا دیا گیا ہے شاہد اعظمی کے بہیمانہ قتل پرمعروفصحافیاجیتساہیکےاظہار غم پر انتظار نعیم اپنے مخصوص انداز میں حیرت کا اظہار کرکے معاشرے کوکچھ اس طرح آئینہ دکھاتے ہیں کہ ؎
ساہی کل تم کیوں روئے؟
شاہد تو اک مسلمان تھا
اورمسلم کے قتل پہ رونا
اشک بہانہ
میرے دیس کی ریت نہیں ہے!
پھر تم نے کیوں توڑی ریت؟
جب شاہد کا ذکر ہوا تو
ساہی کل تم کیوں روئے؟
بولو ساہی! کیوں روئے؟

مسلمانانِ ہند کے سلگتے مسائل مثلاً فسادات، شہادت بابری مسجد،دہشت گردی کے الزامات،کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ہونے والے نت نئے مظالم اور حکومت کی ان میں شمولیت و چشم پوشی کی داستان ’بنے ہیں خواب کچھ میں نے‘ کی مختلف نظموں میں نہایت دلنشیں انداز میں بیان ہوئی ہے لیکن وہ اس کیلئے جہاں فسطائی جماعتوں اور سیکولر حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں وہیں ملتِ اسلامیہ کی بھی اپنے فرضِ منصبی سے غفلت پر گرفت کرتے ہیں۔اس نازک فریضے کو ادا کرتے ہوئے ان کی اپنائیت اور دردمندی دیکھیں کہ اپنے آپ کو سب کے ساتھ شامل کرکے فرماتے ہیں ؎
خدا کا شکر ہے
میں بھی مسلماں ہوں
مگر مجھ کو صفا جیسی کسی چوٹی پہ چڑھنے سے تکلف ہے
تڑپ مجھ میں نہیں کوئی کہ کیسے روشنی پھیلے
نہ طائف سی کہیں بھی سنگ باری ہی ہوئی مجھ پر
نہ میں نے پیٹ پر پتھر کبھی باندھا
نہ میں نے فلسفہ بدرو احد کا اب تلک سمجھا
میں پھر بھی ہوں سرورِ فتح مکہ کا تمنائی

اس نظم میں درمیان سے کئی مصرعہ میں نےطوالت کے سبب حذف کردئیے جن میں سیرتِ حضور اکرم ؐ کا بیان نہایت خوبصورت انداز میں ہوا ہے لیکن اس کے باوجوداس آزادنظم کی روانی کسی پابند نظم کے اشعار کی مانند باقی رہتی ہے یہی ان نظموں کا طرۂ امتیاز ہے ۔ ویسے’ لائن آف کنٹرول ‘نامی نظم میں یہ غنائیت شباب پر ہے جہاں ایک کے بعد ایک دلنشیں مصرعے اس روانی کے ساتھ آتے ہیں کہ کسی پہاڑی جھرنے کا گمان ہوتا ہے ۔ اسلوب بیاں سے قطع نظر امت مسلمہ کی دگر گوں حالت کا ادراک رکھنے کے باوجود انتظار نعیم صاحب کسی قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ امید جتاتے ہیں ؎
مگر میں پھر بھی پر امید ہوں ،غم خوار آئیں گے
مدینہ(پھر سے ) دہراتے ہوئے انصار آئیں گے

انتظار نعیم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے قائل نہیں۔ان کی دعا بھی دعوتِ عمل اور عزم و حوصلہ کی غماز ہے ؎
الٰہی !دے ہمیں توفیق
ہم بیدار ہوجائیں
ضرورت ہو اگر جانوں کا بھی نذرانہ دینے کی
تو ہم تیار ہو جائیں
الٰہی !ان درندوں کو خس و خاشاک کرنا ہے
مدد مولیٰ! زمیں سے ان کا قصہ پاک کرنا ہے

دعوت و عزیمت کی شاہراہ کے مراحل اور منزل کا یقین اس کتاب کی روح رواں ہے جس کا اظہار مختلف انداز میں ہوتا ہے مثلاً ؎
لہو، جو بہتا رہا ہے وہ سرخ رو ہوگا
خوشا! اے اہلِ وفا جشنِ آرزو ہوگا

’بنے ہیں خواب کچھ میں نے‘ پر اپنے تاثرات کو میں اس نظم کے اقتباس پر ختم کروں گا جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ یہ نظم کے جی بی سے سبکدوش نو مسلم الیکزنڈر کی شہادت پر خراجِ تعزیت ہے ؎
الیکزنڈر!
خدا کی رحمتیں تم پر رہیں سایہ فگن ہر دم
کہ تم نے حق نوائی کی نئی تاریخ لکھی ہے
خدا کا قرب پانے کو
بغاوت کفر سے کی ہے
اسی کے مرکزِ الحاد نے تم کو سزا دی ہے
یہ حیرت ہے کہ وہ اب بھی نہیں واقف
کہ ظالم اپنی تدبیروں کی زد میں خود ہی آکر ٹوٹ جاتا ہے!
جو حق پر جان دیتا ہے
ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223879 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.