کھوکھلے معمار

اللہ رب العزت کروڑوں رحمتیں نازل کریں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر کہ جن کی کاوشوں اور محنتوں سے یہ وطن عظیم ہمیں ملا۔انہوں نے اپنی تحریک میں جن کو ہمیشہ ترجیح دی اور ساتھ ساتھ رکھا، جن سے خصوصی محبت تھی وہ ہیں ’’طالب علم‘‘۔ جن کو قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ مستقبل کا معمار سمجھتے بھی تھے اور کہتے بھی تھے۔ کوئی بھی سیاسی یا مذہبی تحریک اسی وقت عروج پہ ہوتی ہے جب طلبہ کی ایک تعداد ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ یعنی سادہ لفظوںمیں کہوں تو طالب علم وہ ہیں جو انقلاب لانے کا مؤجب بنتے ہیں۔ان طالب علموں کا ہتھیار ان کا قلم اور ان کاخزانہ ان کی کتابیں ہیں۔

لیکن یہ کیا !!میری نگاہوں کے سامنے یہ کیا منظر ہے ؟؟میں صادق آباد کے اوور ہیڈ بریج کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ میں نے دو پندرہ یا سولہ سال کے طالب علم دیکھے جو بڑی ہی دلیری کے ساتھ وہاں اپنے خزانے یعنی کتابوں کے بستے کے ساتھ ایک کھیل کھیل رہے تھے۔ وہ کھیل کیا تھا ؟؟؟

ایک طالب علم پل کا جہاں پہ جوڑ بنتا تھا وہاں پہ ایک سلائیڈ بنتی تھی ،وہاں بیٹھا تھا اور دوسرا نیچے کھڑا تھا۔ پہلا طالب علم اپنا بستہ اوپر سے نیچے پھینکتا پھر دوسرا طالب علم وہ بستہ نیچے سے اوپر پھینکتا۔ ایک لمحے کیلئے تو میں بالکل حیرا ن کھڑا ہوگیا کہ یہ کیا ہے؟؟؟؟ پھر جب انہوں نے مجھے اپنی طرف دیکھتے پایا تو رک گئے اور کچھ لمحوں کے بعد باہم محو گفتگو ہوئے ’’ اوئے اماں مارے گی‘‘۔تو انہوں نے بستہ وہیں رکھ لیا اور کتابیں نکال کہ پھر اسی کھیل میں مشغول ہوگئے۔

یہ ہیں ہمارے ملک پاکستان کے مستقبل کے معمار جو علم سے دور اور اپنے خزانے کا ضیاع کرکے کھوکھلے ہو رہے ہیں۔اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟

اس بارے میں اپنی رائے بیان کرنے کی بجائے میں چاہتا ہوں کہ وہ مشاہدے درج کروں جو موجودہ جمہوری وغیر جمہوری ادوار کے نظام کی خرابی کی وجہ سے طاب علموں کے تعلیم و سکول ،ادب و احترام سے دور ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ہوا کچھ یوں کہ 2010ء کی سخت گرمی میں جب جون جولائی کا سورج اپنے آب وتاب میں ہوتا ہے پڑھے لکھے طالب علموں کو پتا چلا کہ رحیم یار خان کی سول کورٹ میں میٹرک کی بنیاد پر جونئیر کلرک کی پوسٹ کیلئے آسامیاں خالی ہیں تو کثیر تعداد میں ضلع بھر کے نوجوان درخواستیں جمع کروانے پہنچے ۔جن میںمیرا ایک دوست بھی تھا ۔جب درخواستیں جمع ہوگئیں تو ٹیسٹ والے دن معلوم ہوا کہ گورنمنٹ آف پاکستان کی جانب سے 25سیٹوں پر بھرتی کیلئے کہا گیا تھا جبکہ درخواستیں جمع کروانے والوں کیا تعداد 2500ہے۔ گورنمنٹ کامرس کالج میں ٹیسٹ تھا ،انتظامیہ نے صرف دس دس بندوں کے اندر آنے کا انتظام کیا تھا۔ باقی تمام لوگ باہر روڈ پر کھڑے رہے۔پھر جب سورج نے آگ برسانا شروع کی تو قریب میں ایک قبرستان تھا ۔اس میں درختوں کے سائے میں جابیٹھے۔وہاں میں نے دیکھا ایک نوجوان سگریٹ پی رہا ہے اور قبر کے اوپر بیٹھا سسٹم کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ کافی دیر ان کی گفتگو سننے کے بعد مجھ سے رہا نہ گیا،میں نے پوچھا بھائی !آپ کی تعلیم کتنی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے M.Comکیا ہوا ہے۔

اس لمحے میں خیالوں کی ایک نئی دنیا میں گم ہوگیا کہ ’’یہ کیسی ستم ظریفی ہے ؟؟ لاکھوں روپے خرچ کرکے ایک بندہ M.Comتک کی تعلیم مکمل کرتا ہے ۔ والدین اپنی ساری محنتیں اسکی تعلیم پہ خرچ کردیتے ہیں۔ وہ دل لگا کہ خوب محنت کرکے یہ ڈگریاں حاصل کرتا ہے تو صلے میں اس کو یوں دھکے ملتے ہیں۔‘‘کیوں؟؟؟؟؟؟؟

ایک سکول کی انتظامیہ نے مجھے نئی معلمات کے انٹرویو کیلئے بلایا ۔دیگر تین ممبران کے ساتھ میں ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں بیٹھ گیا۔ باری باری امیدواران کو بلایا گیا۔ایک خاتون ایسی آئی جس نے MScسائیکالوجی کی ہوئی تھی ۔جب اس کا انٹرویو میں چناؤ ہوگیا تو اس نے اپنی تنخواہ کا پوچھا ۔اس سکول کے ہیڈ ماسٹر نے 2013ء جیسے شدید مہنگائی کے زمانے میں اس کی تنخواہ 4000روپے سکہ رائج الوقت مقرر کی۔میرے لئے یہ بات بھی شدید حیران کن تھی ۔جب ایسانظام ہوگا جس میں طالب علموں نے سکولوں میں فیسیں بھی بھرنی ہیں ، مار بھی کھانی ہے اور ان کوپڑھ لکھ جانے والے طلباء کے حالات ایسے نظر آنے ہیںتو پھر انہوں نے بستے اور کتابوں کی خودکشیاں نہیں کروانی تو اور کیا کرنا ہے؟؟جب ان کو یہی نظر آنا ہے کہ ایک ان پڑھ مکینک یا مزدور ایک دن کا 500روپیہ کماتا ہے اور ایک پڑھا لکھا ماسٹرز ڈگری ہولڈر ایک دن کے فقط 133روپے کما سکتا ہے تو ظاہری بات ہے وہ تعلیم کی بجائے مزدوری کو ترجیح دیں گے ۔

حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ طلباء کے مستقبل کے بارے میں سوچے ۔ان کو قرضہ کی بجائے ملازمت کے مواقع فراہم کرے۔یا پرائیویٹ فرموں میں کام کرنے والوں کیلئے کم از کم ایسے قوانین بنائے کہ جب وہ لاکھوں روپے حکومت کو دے چکے ہوںاور ڈگریاں حاصل کرکے ملازمت کیلئے ان اداروں میں جائیں تو ان کی حوصلی شکنی نہ ہو۔پرائیویٹ اداروں کے لئے لازم قرار دیا جائے کہ تنخواہ کا فیصلہ میرٹ پر کیا جائے۔ جناب حکومتی ذمہ داران صاحبان !ہم کروڑوں روپے ٹیکس اور اربوں روپے کے بلز ادا کرتے ہیں تو ہمارا حق ہے کہ ہمیں تعلیم مکمل کرنے پر وہ سہولیات بھی دی جائیں جن کا وعدہ ہم سے کتابوں اور اداروں میں کیا جاتا ہے۔ہمیں ملک کے ’’معمار‘‘ بننا ہے نہ کہ ’’پڑھے لکھے راجگیر‘‘۔خدارا میرے ملک کے بچوں کا اپنا سمجھیں ۔جن کے والدین آپ کی دانائی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کو اپنا نمائندہ مقرر کرتے ہیں تاکہ آپ ان کے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے ملکی وسائل کو بہتر ترتیب دیں۔نئی حکومت اور سیای امیدواران سب سے التماس ہے کہ ذاتی رنجشوں کو چھوڑ کر ملک کی عوام کی حالت سنواریں۔تاکہ کل جب آپ کے بچے ووٹ کے حصول کیلئے ہمارے بچوں کے پاس آئیں تو ہمارے بچے یہ احساس کرتے ہوئے ان کو اپنا نمائندہ مقرر کریں کہ ان کے والد نے اپنے اقتدار میں ہمارے ساتھ ظلم نہیں کیا تھا۔

راشد محبوب
About the Author: راشد محبوب Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.