تئیس سال کا بچہ اور دُکھیاری ماں

وہ مر کے جی اٹھا تھا!

اور اب کتنی ہی زندگیوں کے لیے آس کا دیپ بنا لو دے رہا ہے۔

چلیے! وقت کی پگڈنڈی پر موڑ مُڑیں اور اس کہانی کا پیچھا کرتے کوئی تئیس برس کی مسافت طے کریں۔
15اکتوبر1989 کی دوپہر اُس گھروندے میں خوشی چہکی۔ روشن خان کے ہاں پہلی اولاد، اور پھر بیٹے کا ہونا، میاں بیوی نہال تھے۔ اس بچے نے ’عمران‘ نام پایا۔ ابھی یہ مسرت ڈیڑھ ہفتہ ہی پورا کرپائی تھی کہ اس کے گرد اندیشوں کے ناگ پھنکارنے لگے۔

ایک دن اچانک بچے کا جسم جھٹکے کھانے لگا۔ پہلی بار ماں بننے کے عمل سے گزرنے والی روشن خان کی بیوی کم عمری، ناخواندگی اور ناتجربہ کاری کے باعث اپنے بچے کی حالت پر صرف پریشان ہوسکتی تھی، چناں چہ تجربات کی دھوپ میں کُملائے چہروں والی، بچے کی نانی اور دادی اسے لے کر جناح اسپتال کی طرف دوڑیں، جہاں بچے کی حالت دیکھ کر اسے داخل کرنے سے انکار کردیا گیا۔ ان کی اگلی منزل عباسی شہید اسپتال تھی۔ ڈاکٹر نے بچے کا معائنہ کیا اور اسے بچوں کے وارڈ میں داخل کرلیا گیا۔ چار دن تک علاج ہوتا رہا۔ کوئی دو ہفتے کے عمران کے روئی کے گالوں سے جسم پر انجکشن کے نشان سیاہ دھبوں کی صورت نمودار اور ثبت ہوتے رہے۔

ننھا سا وجود موت کے آہنی پنجے میں کسمساتا رہا۔ اور پھر ایک رات ڈیوٹی ڈاکٹر نے معائنے کے بعد فیصلہ سُنا دیا کہ اس کونپل پر زندگی کا رنگ پوری طرح چڑھے بغیر ہی اُتر چکا ہے۔ چھوٹا سا جسم دو ہتھیلیوں کے سہارے اسپتال کے مردہ خانے پہنچادیا گیا۔ بیٹے اور بیٹی کی پہلی اولاد کے مرجانے کا غم ادھیڑ عمر دادی اور نانی کو نڈھال کیے ہوئے تھا، مزید ستم یہ کہ وہ اس غم میں کسی کو شریک بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ موبائل فون، جس کے لمس سے آج ہر ہاتھ کی پوریں آشنا ہیں، اس وقت تک پاکستان نہیں پہنچا تھا۔ پھر شہر کو ڈھانپے کالی رات۔ یہ سادہ لوح گھریلو عورتیں، اپنی ہی وسعتوں میں گُم، کراچی کے راستوں سے ناآشنا۔ خود پر گزر جانے والے صدمے سے بے خبر گھر تو کجا آس پاس بھی ٹیلی فون کی سہولت ندارد۔ دونوں رات بھر بیٹھی آنسو بہاتی رہیں اور اُدھر مردہ خانے میں کَلی سا جسم مُردوں کے بیچ پڑا رہا۔
اسپتال سے بہت دور پی آئی ڈی سی کے پُل سے لگی سلطان آباد کی تنگ اور آڑھی ٹیڑھی گلیوں میں بنے ایک خستہ حال مکان میں دعائیں سسک رہی تھیں۔ ملگجا اور نم دوپٹہ جھولی بنا بھیک مانگ رہا تھا۔ ماں اپنے بچے کی زندگی کے لیے گِڑگڑارہی تھی۔ دعا امید کی کوکھ سے جنم لیتی ہے، چڑھتے دن کے کسی پَل امید بانجھ ہوگئی۔ اسپتال میں مضطرب رات گزار کر اگلی صبح دونوں عورتوں نے پیغام رسانی کا انتظام کر ہی لیا۔ انھوں نے اپنے ایک رشتے دار کی دکان پر فون کیا، جو سلطان آباد ہی میں تھی، اور اسے بچے کی موت کی اطلاع دے کر یہ دل خراش خبر ماں باپ تک پہنچانے کی ذمے داری سونپی۔ اور خبررساں نے دل پر جبر کرکے اُجڑ جانے والے ماں باپ کے سینوں میں خنجر سی یہ خبر گھونپ دی۔

روشن خان کا بڑا بھائی محبت خان کچھ عزیزوں کے ساتھ میت لینے اسپتال پہنچ گیا، اور بچے کی میت کی کارروائی شروع ہوگئی۔

موت کا صدمہ سہنے والے گھر میں جنازے اور تدفین سے متعلق انتظامات ہونے لگے۔ تعزیت داروں کے لیے دریاں بچھ گئیں، کھانا کھلانے کا اہتمام ہوگیا، یہاں تک کہ قریب واقع قبرستان میں ایک ننھی سی قبر تیار ہوگئی۔

اب بس ورثا کو بچے کی لاش ملنا تھی، پھر گھر تک کا سفر، اور پھر چار کندھوں کے بہ جائے دو ہاتھوں پر اُٹھا جنازہ مُٹھی بھر مٹی تلے دفن ہوجانا تھا۔ لیکن منظر بدل گئے، معجزہ ہوگیا، ماں کے دستِ دعا نے موت کے پنجوں سے زندگی چھین لی۔ حوالگی کی کارروائی کے آخری لمحات میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے بچے کے بہ ظاہر بے جان جسم میں زندگی کی رمق پالی۔ اچھی طرح معائنہ کیا گیا۔ وہ زندہ تھا، بیماری اور مردہ خانے کی خنکی میں رات گزارنے کے باوجود۔ خوشی سے ہانپتے محبت خان نے صدمے سے نڈھال بھائی تک اطلاع پہنچائی، تو پَل کے پَل میں گھر کا ماحول کچھ سے کچھ ہوگیا۔ فرات بہاتی آنکھیں برکھا برسانے لگیں۔ تعزیت کے کلمات مبارک باد میں بدل گئے۔ اور غم کا کھانا دعوت میں تبدیل ہوگیا۔

بچے کا علاج دوبارہ شروع کردیا گیا۔ اسے ایکیو بیٹر میں رکھ دیا گیا تھا، جہاں اس کے جسم سے منسلک نالیاں زندگی کا راستہ بنی اسے موت کی دہلیز سے واپس لارہی تھیں۔ حیات اس کے بدن میں سانسوں کی صورت موجود اور سینے میں دھڑک دھڑک کر اپنے ہونے کا اعلان کر رہی تھی، مگر جسم جنبش سے محروم تھا۔ آخر کار وہ پوری طرح زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ ماں باپ نے سکون کا سانس لیا اور اسے گھر لے آئے۔
مسیحائی نے سانسوں کی ٹوٹتی مالا تو جوڑ دی، مگر دوائیں اور انجشکن اپنے منفی اثرات دکھاکر رہے۔ اس خوب صورت بچے کے ہاتھ کہنیوں کے پاس سے سُکڑ کر چھوٹے اور اتنے کم زور ہوگئے کہ ان کے لیے ذرا سا وزن بھی بھاری پتھر ہوگیا، اور جسم کے مختلف حصوں پر پڑجانے والے سیاہ دھبے ہمیشہ کے لیے عمران کی کہانی کا نشان بن گئے۔ شیرخوارگی کی عمر نے یہ راز چھپائے رکھا کہ عمران ذہنی طور پر نارمل نہیں ہے۔ ٹھیک دو سال بعد ماں باپ پر انکشاف ہوا کہ ان کا لال دوسرے بچوں سے مختلف ہے اور اس کے دماغی توازن کا پلڑا عقل کے ربط کے بہ جائے دیوانگی کے بکھراؤ کی جانب جھکا ہوا ہے۔

اولاد تو ماں باپ کے خوابوں کی تکمیل کا نام ہے۔ اس کی شکل میں وہ اپنے ارمانوں کے بکھرے رنگوں لکیروں کو تصویر ہوتے دیکھتے ہیں۔ اپنا ادھورا پن اس کے ذریعے مکمل کرنا چاہتے ہیں، سو، اگر اولاد میں کوئی ایسا نقص ہو جو خود اس کی تکمیل کے آڑے آجائے، تو اسے زندگی دینے والوں کی زندگی کانٹوں کا بستر بن جاتی ہے۔ روشن خان اور اس کی بیوی اپنے بچے کو مکمل انسان کے روپ میں دیکھنے کی خواہش کے تحت مختلف در کھٹکھٹاتے رہے۔

کبھی یہ اسپتال کبھی وہ مطب، کبھی یہ علاج کبھی وہ نسخہ۔ وہ باربار روشنی کی سمت بڑھتے، مگر منزل پر اندھیرا ان کا منتظر ہوتا۔ سٹی گورنمنٹ میں مالی کی حیثیت سے ملازم روشن خان کی آمدنی کسی نہ کسی طرح رزق کی کیاری سینچ رہی تھی، مگر بچے کے علاج پر اٹھنے والی رقم نے صحت کے مراکز آنے جانے پر اُٹھنے والے خرچے کے ساتھ مل کر اس کی کمر دوہری کردی۔ کم سن عمران سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر عاری تھا۔ وہ عام بچوں کی طرح حوائج ضروریہ کی بابت ماں باپ کو اشارۃً بتانے سے قاصر تھا۔ چناں چہ کہیں بھی بیٹھے بیٹھے کپڑے خراب کرلیتا۔ اسے اسکول میں داخل کرایا گیا، مگر وہاں اپنے آپ پر اس کی بے اختیاری نے اسے بچوں کے لیے تماشہ اور استانیوں کے لیے مسئلہ بنادیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بستے پر پیشاب کردیتا تھا۔

اسکول کی انتظامیہ کی معذرت کے ساتھ عمران کی تعلیم کا سلسلہ اسے ایک حرف سے بھی آشنا کیے بغیر ختم ہوگیا۔ بچے کو ’’خاص‘‘ سے عام بنانے کے لیے راستوں پر بھٹکتے قدم اس وقت رک گئے، جب آخر کار ڈاکٹروں نے اس جوڑے کو امید کے کرب سے نجات دلاکر مایوسی کا سکون عطا کردیا۔ ’’آغا خان اسپتال میں اس کے دماغ کا ایکسرے ہوا، جس کے بعد ڈاکٹر کہنے لگے کہ اس کے دواعلاج کا سلسلہ ختم کردو۔ بارہ، پندرہ یا بیس سال کی عمر تک ٹھیک ہوجائے گا، مگر اس کا دماغ سات سال کے بچے کے ذہن جتنا ہی رہے گا۔‘‘ روشن خان کی بیوی اور عمران کی ماں نے آس اور نراش کے طویل سفر کی کہانی سناتے ہوئے بتایا۔ روایات میں مضبوطی سے جکڑے خاندان کی یہ عورت اپنا نام بھی نہیں لے سکتی۔ سو، اس نے ہمیں اجازت نہ دی کہ اس دُکھی مگر عظیم عورت کا نام اس تحریر میں دمکے۔ عظیم عورت! جی ہاں، مگر تفصیل کچھ سطروں بعد آئے گی۔

مر کے جی اٹھنے والے بچے کے ماں باپ کے لیے یہی کافی تھا کہ ان کا بیٹا ایک عمر کو پہنچ کر کسی حد تک ہوش کی دنیا میں آجائے گا، چاہے اس کی راہ نمائی کرتی عقل عمر کی ساتویں منزل ہی پر ٹھیرچکی ہو۔
ڈاکٹروں کا فیصلہ آگیا، اب سماج کے مفت مشورے آنے کا مرحلہ تھا۔ ’’لوگ کہتے تھے کہ اسے کسی مزار پر چھوڑ دو۔ یہ اﷲ والا ہے، اسے رکھ کر تمھیں نقصان ہوگا۔ مگر ہم نے کہا کہ ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے۔‘‘ عمران کا نصیب کہ اسے ایسے ماں باپ ملے جو ناخواندہ ہونے کے باوجود یہ جانتے ہیں کہ ماں باپ ہونے کے کیا فرائض ہیں۔ انھیں یہ پتا ہے کہ مذہب کسی ایسی رسم کسی ایسے رواج کی اجازت یا حکم نہیں دے سکتا جو کسی مسلمہ انسانی قدر کا خون کردے۔ وہ اپنے بچے کے ہاتھوں میں بستہ تو نہ دے سکے، مگر اسے کشکول بھی نہیں تھمایا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ بچہ معاشی سہارا بنے کے بہ جائے ’’بوجھ‘‘ ہی بنا رہے گا، مگر غربت بھوگتے اس جوڑے نے افلاس کے سبب اولاد کو ’’قتل‘‘ نہیں کیا۔ عمران کو مزار کی نذر کردینے کا مشورہ دینے والے لوگ ایک ایک کرکے خاموش ہوگئے۔

عمران تئیس سال کا ہوچکا ہے، مگر یہ برس فقط اس کے قدو قامت پر گزرے ہیں، اس کی عقل بچپن کی معصومیت پر تھم چکی ہے۔ وہ اپنے ہر جذبے کا بے ساختہ اور پور شدت کے ساتھ اظہار کرتا ہے۔ ’’مجھے کہیں سے آنے میں دیر ہوجائے تو بگڑ جاتا ہے۔ کہتا ہے جاؤ، میرے گھر مت آؤ، مجھ سے بری طرح لڑتا ہے۔‘‘ ممتا اپنے بیٹے کی معصوم محبت کا ذکر بڑے پیار سے کر رہی تھی۔ اور عمران اپنے ذکر پر شرم سے دوہرا ہوا جارہا تھا۔ اسے کسی بات پر غصہ آجائے تو چیختا چلاتا ہے اور دو دو دن تک کھانا پینا چھوڑے رکھتا ہے۔

ہمارے سماج ہر معاملے میں انتہاؤں کو چھونے کا عادی ہے۔ ذہنی معذور افراد کے ساتھ بھی یہی رویہ برتا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ہوش وخرد سے بے گانہ یا عام ذہنی سطح سے کہیں کم عقل رکھنے والے انسانوں میں سے کوئی تماشہ بنایا جاتا ہے تو کسی کو ’’اﷲ لوک‘‘ کا روپ دے کر اس کی خوش میں اپنی اغراض کا راستہ تلاش ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے عمران دوسری قسم میں شمار ہوتا ہے۔ وہ پورے محلے کا چہیتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر برائی سے دور یہ پاک دل ’’بچہ‘‘ خدا کے اتنا قریب ہے کہ ان کے من کی مُرادیں اس کی دعا میں ڈھل کر قبولیت کی منزل پالیتی ہیں۔ چناں چہ وہ اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سلطان آباد کی گلی جیسی مرکزی سڑک کے کونے پر جلیبی کا اسٹال لگائے بیٹھا شارق، عمران کو اپنے چھوٹے سے کاروبار کے لیے برکت کا باعث سمجھتا ہے۔ وہ اسے اپنے پاس بٹھا لیتا ہے اور بدلے میں جلیبیوں کا تحفہ دیتا ہے، جو عمران کو بہت پسند ہیں۔ ’’ہاں مجھے جلیبی بہت اچھی لگتی ہے۔۔۔۔مٹھائی پسند نہیں۔‘‘ عمران کی معصومیت نے ہمارے سوالوں کا بڑا دل چسپ جواب دیا۔ اس کا بھول پن یہ تک نہیں جانتا کہ جلیبی بھی مٹھائی ہے۔ اس علاقے کا ایک اور باسی شبیر پولیس سے وابستہ ہے۔ اس نے عمران کو گھمانے پھرانے کا فریضہ اپنے ذمے لے رکھا ہے۔

وہ اپنے پیارے دوست کوکبھی سی ویو کا نظارہ کراتا ہے، کبھی کسی اور تفریحی مقام کی سیر پر لے جاتا ہے۔ لوگ اپنی دعائیں، خواہشات اور آرزوئیں عمران کی ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں اور وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ عموماً اس سے نوکری مل جانے کی دعا کرائی جاتی ہے۔ انھیں اس کے الفاظ کی بارگاہِ الٰہی میں مقبولیت پر اتنا اعتماد ہے کہ وہ اسے فی دعا چالیس سے پچاس روپے بھی دیتے ہیں۔

اﷲ کا ایسا پیارا ہو، اور وہ سٹے بازوں کی آنکھوں کا تارا نہ بنے، یہ کیسے ممکن ہے۔ مقامی سٹہ باز اس سے نمبر پوچھتے ہیں۔ گنتی کے نام پر اسے بس ایک سے چودہ تک کے عدد آتے ہیں، انھی میں سے کچھ عدد بول جاتا ہے اور سٹے بازوں کا کام ہوجاتا ہے۔ ’’کیا تمھیں نمبر دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ اِس سوال کا جواب ’’ ہاں‘‘ میں تھا، مگر اس کی بڑی بڑی خوب صورت آنکھوں میں ناچتی شرارت اور ہنسی بتا رہے تھے کہ وہ سٹے بازی کے ان ضعیف الاعتقاد کھلاڑیوں سے صرف کھیلتا ہے، جو اسے چند روپے دے کر قسمت آزمائی کے لیے چل پڑتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ اب تو نمبر لگا ہی لگا۔ ہاتھوں کے مسلسل چھوتے نوٹوں کے لمس نے اتنا ضرور کیا ہے کہ حرف وہندسے سے بے خبر یہ نوجوان نوٹ پہچان لیتا ہے۔

’’یہ لال والا سو کا ہے، وہ دس کا۔۔۔۔اور پانچ سو کا ایسا ہوتا ہے۔۔۔۔‘‘ اس نے اپنے سامنے رکھے جانے والے نوٹ پہچان لیے اور پانچ سو کے نوٹ کی کوئی ایسی نشانی بتانے لگا جو ہماری سمجھ میں تو نہ آئی، مگر اسے اس نوٹ کی پہچان کرانے کے لیے کافی ہے۔ وہ نوٹوں کے فرق سے تو واقف ہے، مگر ان کی قدروقیمت نہیں جانتا۔ چناں چہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ بچے اس کی جیب سے پیسے نکال لیتے ہیں اور اس کے ہاتھ میں پاپڑ کی کچھ تھیلیاں رکھ دیتے ہیں۔ اس ’’سودے‘‘ پر وہ خوش خوش گھر آتا ہے۔ ’’کبھی کبھی تو وہ مجھے سوتے سے جگادیتا ہے اور اپنے ہاتھ میں پکڑے پیسے مجھے دے کر کہتا ہے، امی! انھیں جلدی سے اپنے پاس رکھ لو، ورنہ بچے مجھ سے چھین لیں گے۔‘‘ ماں اپنے کماؤ پوت کو فخر سے دیکھ رہی تھی۔

عمران صرف دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر ہی رزق کشید نہیں کرتا، اپنے کم زور ہاتھوں کے زور پر بھی کما رہا ہے۔ وہ اپنے تایا کے ساتھ پھلوں کی ریڑھی لگاتا ہے، جس کے لیے روز صبح گیارہ بج گھر سے نکلتا ہے۔ بہ طور معاوضہ اسے ڈیڑھ سو روپے ملتے ہیں، جو وہ ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔

عمران کو ہر بُرائی سے نفرت ہے، مگر نشہ کرنے والے تو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ منشیات کا عادی کوئی شخص اسے اپنے پاس بٹھانا چاہے تو وہ اسے جھڑک کر چلا آتا ہے۔ شاید اس نفرت کا سبب باپ کا اس لت میں مبتلا ہونا ہے۔ روشن خان ایک محبت کرنے والا شوہر اور باپ ہے۔ بیوی کی عزت کرتا ہے، بچوں سے پیار کرتا ہے۔ اور عمران پر تو فدا ہو ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے ہاتھوں سے نہلاتا دھلاتا ہے۔ اس کے دہکتے غصے کو اپنی شفقت کی رجم جھم سے سرد کرتا ہے۔ نادان بیٹے کی ’’گستاخیوں‘‘ پر بھی اسے گلے سے لگا کر چوم لیتا ہے۔ لیکن چرس کی سنہری ٹکیہ نے اس کے کردار اور اخلاق کی ساری سفیدی کو سیاہ کردیا ہے۔

نشے کے ساتھ اس کی بے پرواہی بھی بیوی بچوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ کئی کئی روز کام پر نہ جانے کے سبب تن خواہ کٹ جاتی ہے، اور آمدنی گھٹ جاتی ہے۔ عمران کو یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ ’’تم میری امی کو پریشان کرتے ہو، تم اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے نشہ کر رہے ہوگے تو میں تم لوگوں کو پتھر ماروں گا اور سر پھاڑ دوں گا۔‘‘ وہ ماں کی محبت میں باپ کو دھمکانے لگتا ہے، تو اپنی حمایت میں سینہ تانے کھڑے بیٹے پر ماں کو تو پیار آتا ہی ہے، باپ بھی اپنے لال پر نثار ہوجاتا ہے۔ اسے چمکارتا ہے، سینے سے لگاتا ہے اور آیندہ چرس نہ پینے کا وعدہ کرتا ہے۔ مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہوتا۔

روشن خان کے دو اور بیٹے بھی ہیں، اکیس سالہ عدنان اور اٹھارہ سالہ نعمان۔ انھوں نے باپ سے غربت کے ساتھ ورثے میں بے پرواہی بھی پائی ہے۔ ماں کی بھرپور کوششوں کے باوجود انھوں نے پڑھ کے نہ دیا، نہ ہی انھیں روزگار کے لیے تگ ودو کرنے کی کوئی فکر ہے۔ سب سے چھوٹے بھائی نعمان کو اب کچھ خیال آیا ہے، اور اس نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جوڑتے ہوئے ساتویں جماعت میں داخلہ لے لیا ہے۔ ’’مجھے تو نہ شوہر سے سُکھ ملا نہ اولاد سے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں شکستِ آرزو کا دُکھ سلگ اُٹھا۔ وہ اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ اور کسی باعزت روزگار سے وابستہ دیکھنا چاہتی ہے۔ بڑا بیٹا تو اس کے خواب کو تعبیر دینے کے قابل ہی نہیں، دونوں چھوٹے بیٹے بھی ماں کا ارمان کو حقیقت نہ بناسکے۔

اس حوصلہ مند عورت کا اچھی زندگی کا سپنا گھر کے درودیوار سے جھلکتا ہے۔ اوپر کی منزل پر بنے کرائے کے چھوٹے سے مکان کے فرش سے لے کر پلنگوں پر بچھی چادروں اور افراد خانہ کے لباس تک، یہ گھر صاف ستھرے ماحول کا عکاس ہے۔ زندگی بہتر بنانے کی خاطر روشن خان کی بیوی اور عمران کی ماں آغا خان کمیونٹی سینٹر اور ایک اسکول میں ماسی کی ملازمت بھی کرتی رہی ہے، کہ اسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہیں۔ ’’کبھی کبھی تو گھر میں ایک پیسہ نہیں ہوتا، مگر ہم کسی سے نہیں مانگتے۔‘‘ خودداری اور پاکیزہ آرزوؤں نے اس کے سانولے اور عام سے چہرے کو ایک عجیب تمکنت اور وقار عطا کردیا ہے۔

اس کی آنکھوں میں نہ جانے کتنے خوابوں کے کانچ ٹوٹ بکھرے ہیں، کہ یہ آنکھیں دمک اٹھی ہیں۔ ایسا ہی ایک خواب عمران کے سر پر سہرا دیکھنے کا بھی ہے۔ ’’دل تو بہت چاہتا ہے کہ اس کی بھی شادی ہو، مگر قسمت ہی نہیں تو کیا کریں۔‘‘ اس نے عمران کو دیکھتے ہوئے بڑے رسان سے کہا، جو ماں کے دُکھ سے بے خبر مستقل مسکرا رہا تھا۔

یہ ’’دُکھ بیتی‘‘ ختم ہوئی، مگر عمران اور اس کی ماں کی کہانی زندگی کے راستوں پر ابھی سفر طے کر رہی ہے۔

M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 26737 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.