جس گلشن میں بہا ر کا کوئی موسم نہیں

یہ کیا گلشن ہے جس گلشن میں لوگو
بہا روں کا کوئی موسم نہیں ہے
میں ان کروڑوں پاکستانیوں میں سے ایک ہوں جو کسی بھی سیاسی پارٹی اور تنظیم کے ممبر نہیں.میں نہ ہی کسی وزیر ،مشیر، جاگیردار، جرنیل ،جج یا جرنلسٹ کی رشتے دار ہوں نہ کسی مولانا، سیٹھ، سفیراور بیوروکریٹ کی اولاد ہوں .میرا اس زمین سے تعلق ایک بچے کے ماں سے تعلق جیسا ہے اس زمین نے مجھے بےغرض پیار دیا ہے اور میں اس سے اپنی بھرپور وفاداری نبھاتی ہوں.میرے والدین نے میری تربیت میں اس زمین سے محبت کو ایک لازمی جز بنایا. میری ماں نے مجھے دیانتداری، سچ اور مظلوم کے حقوق کے لیے آواز اور قلم اٹھانے کی زمہ داری سونپی تھی اور یہ ذمہ داری میں اپنی ماں اور اس دھرتی ماں دونوں کے لیے نبھاتی رہوں گی انشاللہ

تین مہینے پہلے میں نے دیانت داری اورسچ کے ساتھ فیصلہ کیاتھا کہ میں کوئٹہ سے اسلا م آباد کی طرف مارچ کرنے والے مظلوموں کی آوازبنوں گی میں نے مقدور بھرکوشش کی گو انکی آواز مجھ سے زیادہ بہتراورطاقتور ہے کیونکہ کہتے ہیں “جس تن لا گے وہی جانے ” مگر یہی ایک بات مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں آج ان لوگوں سے مخاطب ہوں جو میری.طرح نہ تو جبری گمشدہ بھائیوں کی بہنیں ہیں اور نہ مسخ شدہ لاشیں اٹھانے والی مائیں

اے وہ لوگو ! جو اس کرب اور دکھ سےعاری ہو اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی طرف نظر دوڑا ؤ ! آج وہ تمھارے پاس ہیں اس لیے تم نہ تو کسی کے دکھہ کو جان پا رہے ہو اور نہ یہ تکلیف گوارہ کر رہے ہو کہ صرف اتنا سوچ لوکہ ایک قاتل ، ڈاکو ، چور اور عادی مجرم کو تو تمہاری پولیس ،عدالتیں ،حکومتیں یہ حق دیتی ہیں کہ وہ گرفتار بھی ہو اورعدالت میں پیشیا ں بھی بھگتے اور اسکے وکیل صفائی بھی ہوں مگر ایک بلوچ کو یہ حق نہیں کہ اسے مروجہ طرایق کے مطابق گرفتار کیا جائے ، اس پر مقدمہ چلایا جائے اور پھر اس کی ضمانت ہو یا اسے سزا ملے ۔ اس کو کیوں اسکے گھر، نوکری ،سفر، کالج سے اٹھایا جاتا ہے پھر برسوں لاپتہ رکھا جاتا ہے، پھر ظلم ،زیادتی ،جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اپنے ان کا لے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کبھی اسکی لاش کو ویرانے میں چیل کوؤں اور درندوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے تو کبھی چونا ڈال کر ناقابل شناخت بنا دیا جاتا ہے ؟

یہ فرق کیوں ؟ یہ امتیاز کیوں ؟ یہ درندگی کیوں ؟
پاکستان کی تقدیر کے جھوٹے ٹھیکیدار اور انکے چیلے چانٹےکہتے ہیں کہ وہ لوگ پاکستان سے آزادی چاہتےتھے ؟ یہ کون ثابت کرے گا کہ اجتماعی قبر میں پڑی لاش پاکستان سے علیحدگی چا ہتی تھی ؟ کیا لاش اس مردہ خور گدھوں جیسے پاکستانی میڈیا اینکرز کو بتائے گی کہ میں گنا ہ گار تھی یا بے گناہ یا اسکا فیصلہ ریاست کے گونگے بھرے اندھے ادارے کریں گے ؟ کیا انہوں نے ٦٧ سال میں کبھی کوئی سچ بولا، جو اب بولیں گے؟ کون بتائے گا کہ جس لاش پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے وہ ہی بی ۔ایل۔اے کے ہتھیار بردار کی تھی یا کسی طالب علم کی یا کسی میرے جیسے صرف قلم سے سچائی کا علم بلند کرنے والے کی ؟ کون فیصلہ کرے گا کہ چونا لگا کر مسخ کیا گیا کسی ماں کا بیٹا پنجابی مزدوروں کا قاتل تھا ، بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والا دلیر تھا یا دن رات مزدوری کرکے اپنی بہن کی شادی کے خواب دیکھنے والا ایک عام سا بلوچ ؟

اگر کوئی بے وقوف ،احمق آج کل کی دنیا میں یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی کو اغوا کر کے اپنی درندگی دیکھا کر کسی کی لاش ویرانوں میں پھینکوا کر یہ کہہ دے گا کہ مرا ہوا شخص “غدار ” تھا،میرے کہنے پر یقین کرو اس لیے کہ میں نے کلف زدہ یونیفارم پہن رکھی ہے، چار بلے لگا لیے ہیں، بغل میں ایک دو ٹکے کی چھڑی دبائی ہو ئی ہے تو اسکو اپنے دماغ کاعلاج کرانا چاہیے .

ان کم عقلوں نے پہلے بھی اس زمین کی گود اجا ڑ ی تھی انکی ہٹ دھرمی، کوتا ہ اندیشی اور تکبر پہلے بھی اس دھرتی کے ایک بیٹے کو کھا گیا تھا آج یہ پھر اس بوڑھی ما ں سے اسکا ایک اورسہا را چھین لینا چاہتے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج بھی میڈیا کے گوشت خوروں کی بے رحمانہ روش وہی ہے ، عدلیہ اور حکومت کی وہی نااہلیاں اورانغیر حساس اداروں کا تو کیا ہی ذکر کریں جنہوں نے اس ماں کو بربا د کرنے میں کبھی بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی سر پر چادر تو کیا دیتے پاؤں کی جوتی بھی چھین لی ! دنیا جہاں میں رسوا کیا اور آج بھی اسکی اولاد کو ایک ایک کر کے اپنی آنا اور تکبر کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں
وہ نہیں جا نتے کہ
یہ دھرتی اسی کی ہے ،جو
ظلم کے موسموں میں
کھلے آسمانوں تلے
اس کی مٹی میں اپنا لہو گھولتا ہے “
 عینا
About the Author: عینا Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.