مجھے حق ہے آذان کا۔۔۔

دین اسلام ایک آسمانی مذہب ہے، جو معجزاتی بھی ہے اور کراماتی بھی، جو آفاقی قواعد و ضوابط کی سےایک منفرد ضابطہ حیثیت کا حامل ہے۔ اسکے احکامات پر عمل کرنے سے انسان ولی اللہ کی ولایت اور متقی مومن کی کرامات کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔

دین اسلام انسانی زندگی کے دونون پہلؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ دنیاوی بھی اور آخرت بھی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں، کہ انسان دنیا میں ایک مقررہ مدت کے لئے آتا ہے۔ اسمیں اچھے برے اعمال کرتا ہے۔ اور پھر مر جاتا ہے۔ دنیاوی زندگی ختم ہونے کے ساتھ ہی، وہ عالم ارواح میں چلا جاتا ہے۔ یعنی اپنا دیناوی بدن، چھوڑ دیتا ہے، اور وہ امر جو اس خالی جسم کو لیکر چلتا ہے، ایک مقررہ مدت کے بعد اس سے الگ ہوجاتاہے۔ اس امر کو روح کہتے ہیں۔ جو کبھی نہیں مرتی۔ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

ہمارا دین اسلام ہمیں بتاتا ہے۔ ہر نفس نے ایک مقررہ مدت کے بعد جو اس نے دنیا میں گزارا، اسکا حساب کتاب دینا ہے۔ اپنی زندگی کو من چاہی روش پر گزارا، یا اللہ کے اھکام کے مطابق گزاری۔اچھے کا کر کے گیا یا برے کام کرکے گیا۔

اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں پر زندگی گزاری ۔ اسکے احکامات کی پابندی کی تو اللہ پاک کے انعامات کو مستحق قرار پائے گا۔ جس کے اللہ نے اس سے وعدے کئے ہیں۔ اور اللہ کے احکامات کو فراموش کرکے بغاوت کرے گا، اور نافرمانی کریگا ، تو سزاء کا مستحق قرار پائے گا۔

دین اسلام ایک ایسا ضآبطہ حیات ہے ۔ جو انسان کی بشری ، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلؤن کا احاطہ کرتا ہے۔ برے کامون اور نقصان دہ کامون سے منع کرتا ہے۔ چاہے وہ انفرادی ہون یا اجتماعی۔ اور خود انپر حد مقرر کرتا ہے۔ اور سزائیں تجویز کرتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اسی طرح جو انسان کے بشری انفرادی اور اجتماعی تقاضے ہمیں بھلائی کا راستہ بتاتے ہیں ۔ ان پر چلنے کی حکم د یتا ہے۔ جو صرف اور صرف انسانیت کی فلاح اور بہبود کے طریقے ہیں۔ انپر انعامات کا وعدہ کرتا ہے۔ بلکہ دینا میں بھی اجر عطاء فرماتا ہے۔ اور آخرت میں بھی۔

آج بنی نوؑع انسان جن حالات سے گزر رہا ہے۔ اور جو پریشانیان ہمیں روزمرہ کی زندگی میں پیش آرہی ہیں۔ وہ کہیں ایک جگہ ٹھرتی نظر نہیں آرہین۔ دیکھا جائے جب سے انسان نے دنیا میں اللہ کی وحدانیت اور حاکمیت سے منہ موڑا ہے۔ اجتماعی اور انفرادی پستیوں میں گرتا چلا جارہا ہے۔ اور جسے وہ ترقی کا نام دیکر اپنا رہا ہے۔ اللہ پاک اسے انہی نقشوں میں تباہ اور برباد کر رہا ہے۔

جس کا مشاہدہ ہم روز کر رہے ہیں۔ اسکی چند مثالیں ۔ پیش کر رہا ہون ۔ تاکہ بات سمجھ میں آئے۔
14فروری کو دنیا میں ویلنٹائیں ڈے منایا گیا۔ جس میں نوجوان جوڑے ایک دوسرے سے اظہار محبت کرتے ہیں، تنہائی میں راز و نیاز کرتے ہیں۔ اور وعدے کرتے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں ایسے 4000 جوڑون کو جو ویلنٹائین ڈے منا رہے تھے ، انکی خفیہ ویڈدیو ز تیار کی گئیں۔ اور انہیں ایک پرو ویب سائیڈ والون کو فروخت کردیا گیا ، اور اس کھناؤنی حرکت میں ملوث لوگون نے ایک رات میں کروڑون روپئے کمائے۔

ایک رات میں 4000 ہزار نوجوان لڑکیون کی زندگی صرف صرف ویلنٹائیں ڈے کی وجہ سے برباد ہوگئیں۔ اس گھناؤنی حرکت کا ذمہ دار آپ کس کو ٹھرائیں گے۔ اس معاشرہ کو ، والدین کو یا ان بچیوں کو جو اب ذلت کی وجہ سے ، کہیں منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہیں۔

اوپر دئے گئے اعداد شمار صرف کراچی شہر کے ہیں۔ اسمیں سمن آباد، ملیر ، لانڈھی۔ اور کینٹ میں موجود ہوٹلز ، آئیسکریم پارلرز، فاسٹ فوڈ ریستوران، شامل ہیں، جہان باقاعدہ طے شدہ پروگرام کے مطابق، کیبن تیار کئے گئے، جہان جوپہلے ہی سے خفیہ کیمرے نصب کئے گئے، اور ریکاڈنگ کے مکمل انتظامات کئے گئے تھے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے، علاقے کے تھانون کے انچارج، اور بذات خود پولیس والے پوری طرح پروٹیکشن فراہم کر رہے تھے۔ جنہیں ایک معروف ٹی وی چینل کی ٹیم نے بے نقاب کیا۔

اسکے علاوہ کھوکھرا پار، طارق روڈ، اور ڈیفنس کے علاقوں میں بھی ایسے ہی انتظامات کئے گئے تھے۔ اور سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ، یہ تمام علاقے ایک مخصوص اور کراچی کی معروف سیاسی پارٹی کے نامزد علاقے ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے۔ ان تمام کاروائیون کے پیچھے بڑے بڑے سرکردہ افسران، اور سیاسی لیڈران کی پشت پناہی کے ثبوت بھی سامنے آئے ہیں۔ مجھے حیرت ہے۔ کہ ایک معروف ٹی وی چینل کی ٹیم جب رپورٹنگ کے لئے پہنچی تو انہیں ، سخت اور خطرناک نتایج کی دھمکیان دی گئیں۔ اور بعض جگہ ہاتھا پائی بھی کی گئی۔

ابھی اس واقعے اور صدمے سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کہ ایک اور شرمناک اور درد ناک خبر سننے کو مل گئی۔ ( قاید اعظم کے مزار پر جہان قایئد کی قبر ہے، وہان کی انتظامیہ بھی اس چگہ کو اسی طرح کے قابلِ مذمت اور مکروہ کام میں ملوث پائی گئی ہے۔ نوجوان جوڑون کو ڈھائی ڈھائی ہزار روبے میں عیاشی اور منہ کالا کرنے کے لئے جگہ فرا ہم کی جاتی ہے۔ اور اس کھناؤنے کاروبار میں مزار کی انتظامیہ پولیس اور افسران شامل ہیں۔ اور یہ لوگ اتنے دلیر اور بے حیاء ہیں۔ کہ ٹی ؤی چینل کی ٹیم کو بکڑ کر بند کردیا، اور انپر تشدد کیا۔ اسمیں بھی مائینڈ سیٹ ملوث ہے۔ جوہمیں اوپر نظر آرہا ہے۔

روز ایک تازیانہ، روز ایک دہشت کا چابک، روز ایک ذہنی اور اعصابی اذیت، روز ایک نفسیاتی جھٹکا۔ جس طرف جاؤ دہشت سے پھٹی آنکھیں، وحشت ذدہ چہرے، کسی کو عزت کا خوف، کسی کو جان کا خوف، کسی کو مال کا خوف، کیا کراچی اسی کا نام ہے۔

تعلیمی ادارے ، فحاشی، عیاشی کا اڈہ بنتے جارہے ہیں۔ کسی یونیورسٹی، کسی کالج ، کسی اسکول میں جاکر دیکھ لیں، طالب علم ، لڑکے اور لڑکیان کلاسون کی بجائے ٹک شاپ، کیفے ٹیریا، کینٹین میں بیٹھی نظر آتے ہیں۔ کہیں گروپس کی شکل میں کہین جوڑون کی صوت میں کیس درخت کی آڑ میں، پروفیسر اور استاد ، فارغ اور کامن روم میں بیٹھے خوشگپیان لگاتے نظر آتے ہیں۔

جہان انہیں، ریاضی، سائینس، معاشیات، اور دیگر علوم پڑھنے تھے، وہان بے غیرتی، بے حیائی، اور آزاد خیالی کا درس دیا جارہا ہے۔ ویلنٹائیں ڈے منانے کا درس دیا جارہا ہے۔ انہی ادارون میں، بڑے گھرانون کے لڑکے اور لڑکیان،چمکتی کاڑیون میں اپنی مان باپ کی حرام کی کمائی لٹاتے نظر آتے ہیں۔ تو دوسری طرف متوسط طبقے کے لڑکے اور لڑکیان ، ان کے عالیشان گاڑیان اور قیمتی ملبوسات دیکھ کر اپنے احساس کمتری کو مٹانے کی کوشش میں ناجائز ذرائع کا شکار ہو رہے ہیں ۔

ایک طرف ملک کے حکمران بوڑھے گدھون کی طرح میرے وطن کو نوچ رہے ہیں، اور اس کوشش میں ہیں ، کہ بچا کچا جو کچھ ہے، وہ لیکر نکل جائیں، دسری طرف جن لوگون کو ہم نے نجات دہندہ بنا کرا سمبلیون میں پہچایا وہ بھی ہمارہے ہی بچون کو سہشت گرد، ٹاگٹ کلر، اور بھتہ کور بناکر تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ہزارون ذہین اور باشعور نوجوان بوری بند لاشون میں ملے، ہزارون نوجوان جو اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا بننا چاہتے تھے، انکی لاشین آٹھانی پڑگئین، جن کے ہاتھون میں کتابین ہونی چائیے تھیں ، وہ کلاشنکوف لئے گھوم رہے ہیں۔

جس قوم کے کارنامون سے ، اخلاق سے اور انصاف کے نظام سے دنیا سبق لیتی تھی، جو کردار کے غاری تھا، اخلاق ، شرافت، اور حیاء کے پر وردہ تھے، آج انسانیت تو کیا ، حیوانون سے بھی بدتر ہوگئے۔ اپنی ہی عزتون کے دشمن ہوگئے۔ جیہیں بہنون کے سر پر حیاء کی چادر دینی تھا۔ انہون نے ہی اسے تار تار کردیا۔ ایک شبنم کی موت پر جسے گولیمار پر بس نے کچل دیا تھا۔ اُتھ کھڑی ہوئی تھی۔ آج وہی قوم اپنی ہی کتنی شبنمون کی برہنا ویڈیو بناکر بازار میں فروحت کرنے نکل کھرے ہوئے ہیں۔

آج پورا کرچی بے غیرتی کی افیون کھا کر بے حس پڑا ہے۔ چاہئیے تو یہ تھا۔ کہ لوگ ان بے غیرت قانون کے رکھوالون کو انکے تھانون سمیت آگ لگا دیتے، تمام ہوٹلون، آئیسکریم پارلرز، بیوٹی پارلرز کو آگ لگادتے۔ جو اس مکروح کاروبار میں ملوث پائے جاتے، ان ٹی ؤی چینلز کا آگ لگ دیتے ، جو ویلنٹائیں کے پروگرام نشر کر رہے تھے۔ ان اعوانون کو آگ لگا دتے جو ملک کیےسوداگر اور عوام کی تقدیر کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔

کاش آج ہم اپنے دشمن کو پہپچان سکتے۔ جو ہمارے اند ہی چھپا بیٹھا ہے،۔ وہ ہے ہمارا نفس، ہماری خواہشات کو وہ سمندر جو ہمارے اند موجیں مار رہا ہے۔ اور اپنے ساتھ لگا ہواہے۔ آج ہم اپنے نفس کے غلام بن چکے ہیں۔ ہم اللہ پاک کے اور اپنے نبی ﷺ کے فرمودات کو بھول چکے ہیں۔

اللہ پاک قرآن میں سورۃ آلِ عمران آیت نمبر 178 میں ارشاد فرماتے ہیں (ترجمعہ) ۔ اور جن لوگون نے کفر اختیار کیا۔ وہ ہر گز یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں۔یہ ان کیلئے بہتر ہے۔ ہم تو انہیں اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں۔ کہ وہ گناہون میں اور بڑھ جائیں۔ اور ان کے لئےرسواء کن عذاب ہوگا۔

(تفسیر) میں وضا حت ہے " دنیا میں کفار کو جو مہلت دی جارہی ہے اس سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مہلت ان کے حق میں بہتر ہے۔ انہیں تو صرف اس لئے مہلت دی جارہی ہے ، کہ وہ کفر اور سرکشی میں مزید آگے بڑھتے جائیں اور انکے گناہون میں مزید اضافہ ہوجائے، پھر آخرت مین رسوا کس عذاب میں مبتلاہوجائیں۔ (مزید معلومات کے لئے پڑھئے ترجمعہ اور تفسیر الاعراف 7: آیات 183۔182)"

ایک جگہ اور فرمایا سورۃ 188 آلِ عمران۔(ترجمعہ) یہ لوگ جو اپنے برے اعمال پر خوش ہورہے ہیں۔ اور چاہتے ہیں ، کہ انکے ناکردہ اعمال پر بھی ان کی تعریف کی جائے۔ انہیں آپ عذاب سے محفوظ نہ سمجھیں ، انہیں دردناک عذاب ہوگا۔

تفسیر) اس آیت مبارکہ میں ایسے تمام لوگون کی مذمت کی گئی ہے ، جو ریا کاری اور نام نمود کی خاطر کام کرتے ہیں، یا کام تو کم کرتے ہیں لیکن اس سے زیادہ کا اظہار کرتے ہیں۔ یا جو خوبی ان کے اندر یہیں ہوتی اسے اپنبی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے بارے میں کوئی جھوٹا دعوٰی کیا تاکہ لوگون کے سامنے بڑائیکا اظہار کرے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کا وقار کھٹا دیتے ہیں۔ (مسلم) ابو سعید خدری ؐ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) بیان فرماتے ہیں، کہ رسول اکرم ﷺ جب کسی غزوہ میں جاتے تو منافقین پیچھے رہ جاتے تھے اور اپنی چالاکی پر خوش ہوتے تھے، اور آپ ﷺ کی واپسی کے بعد آپ ﷺ کے پاس آکر عذر پیش کرتے تھے، اور چاہتے تھے کہ جو اجر کا کام انہون نے نہیں کیا اس پر بھی انکی تعریف ہو ۔ اسپر آیت نازل ہوئی ۔(بخاری۔۔۔۔مسلم)

اگر ان آیات پر موجودہ حالات کی روشنی میں غور کیا جائے، تو لگتا ہے۔ آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ۔ وہ دراصل ہمارے ہی اعمال ہیں۔ جس پر اللہ پاک نے ہمیں ڈھیل دے رکھی ہے۔ اور اب وہ وقت دور نہیں کہ ہم مزید آفات کا شکار ہوجائیں۔ اور تباہ و برباد ہوجائیں۔
آج ملک کے حالات کا بغور جائیزہ لیں ۔ تو پتہ چلتا ہے۔ کہ ہمارے ہی گناہ اور نافرمانیون کی پاداش میں ہمیں ایک سزاۓء مل رہی ہے۔
1۔ ہمارے ناایل ، نالائق، جاہل، عیاش اور بد کردار صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران۔
2۔ کرپٹ، نااہل، خودغرض، لالچی، بزدل حکمران۔
3۔ ملک میں موجود سیاسی پارٹیون کا کردار۔ (جو ملک میں آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہیں)
4۔ ہمارا میڈیا ۔ اور ٹی وی چینلز۔ جو ملک غداری میں پر حد سے گزر چکے ہیں۔ بھارتی کلچر کا فروغ۔ ڈسانفارمیشن ، جن کا ملک کی سالمیت پر کیچڑ اچھالنا کام ہے۔
5۔ غیر ملکی ایجنسیون کا ملک میں ہوتا۔ خوف ہراس، دھماکے، آتشزدگی، لوٹ مار۔ قتل و غارت گری۔ (ثبوت ہونے کے باوجود کچھ نہ کر سکنا۔
6۔ اسکولون ، کالجون اور یونیورسٹیون مین فحش لیٹریچر، اور بے حیائی کا پھیل جانا۔
7۔ شہرون میں خوف و ہراس، فائیرنگ، لوٹ مار، کا ہونا۔
اسلامی اقدار کے اور آئین کے خلاف کام کرنا۔
8۔ عدلیہ کا کردار، نا انصؑافی کا عام ہونا۔ غریب کے لئے قانون الگ ، اور امیر کے لئے قانون الگ۔
9 ۔ مہنگائی، کا بے لگام کھوڑے کی طرح بڑھنا۔
10 ۔ حکومتی ادارون کا ٹھیک سے کام نہ کرنا۔ رشورت، اقرباء پروری، اور کرپٹ ہونا۔
11۔ پولیس کا بے غیرتی کی حد سے گزر جانا۔ بدمعاشون کی سر پرستی کرنا۔ شہرون میں امن قائیم نہ کر سکنا۔
12۔ ملک کو دشمنون کے نرغے میں آجانا۔ اور اپنی ہی آبادی پر بمباری کروانا۔ مدرسون، آبادیون، پر بم گروانا۔

کیا یہ سب اللہ کے عذاب نہیں جو ہمارے گندے ، کھناؤنے اور مکروہ اعمال کا نتیجہ ہیں۔ کیا یہ سب اللہ پاک سے بغاوت کا نتیجہ تو نہیں۔ یہ سب اللہ کے عذاب ہی تو ہیں۔ جب سے ہم نے اپنے اسلامی اقدار کو چھوڑا ہے۔ ہم ایسے حالات کا شکار ہیں کہ نکلنا بھی چاہیں تو نہیں نکل سکتے۔ سوائے اسکے کہ ہم اپنی بغاوت سے باز آجائین، اور ملک میں اللہ کی حاکمیت، اور اسکے قوانین کو نافض کرین۔ اور ایک نئے سفر کا آغاز کرین۔ روٹھے ہوئے بھائیون کو منالیں۔ اور پورے ملک میں اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کے لئےاواز بلند کرین۔ اور تمام طاعوتی نظامون کو مسترد کردین۔ اور ایک نئے سفر کا آغار کرین۔ آج ہمارے ناایل حکمرانون کے سر پر قوم کے 50000 سے زاید بے گناہ شہیدون کا خون ہے۔ سب غریب کی اولاد ہیں۔ ان میں سے کسی کا بچہ نہیں مرا کسی بم دھماکے ہیں۔

یاد رکھین۔ آپ کی میری، ہم سب کی مان ایک ہے۔ یہان سب غریب ہیں۔ مفلوک الحال ہیں۔ ہم نے سب نے یہیں جینا اور یہیں مرنا ہے ۔ ہمیں اپنا قومی وقار، عزت، غیرت، حمیت ، واپس لانا ہے۔ کیونکہ۔۔۔ میں اس وطن کو گود میں پل کر جوان اور اب بوڑھا ہوگیا ہون۔ میں نے یہیں مرنا ہے۔ یہ میرے بزرگون کا ورثہ ہے جو آگ اور خون کا دریا پار کرکے آئے تھے۔ اس وطن نے مجھے جگہ دی ہے، پہچان دی ہے۔ عزت دی ہے، وقار دیا ہے۔اور سب سے بڑھ کر پہچان دی ہے ۔۔۔۔۔ میں ایک پاکستانی۔۔ ایک بوڑھا پاکستانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے مجھے حق ہے۔۔۔۔آذان کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو دونگا۔۔۔۔ کوئی آتا ہے میرے ساتھ یا نہیں۔۔۔۔
لیکن مجھے یقین ہے میرا اللہ میرے ساتھ ہے۔۔۔۔بقول علامہ اقبال :

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردون سے قطار اندر قطار اب بھی۔
فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 19529 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More