نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں میں پاکستان کا عالمی ریکارڈ

پاکستان کا آئین انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔اسلامی جمہوریی پاکستان جنوبی ایشیاء کے شمال مغرب وسطی ایشیاء اور مغربی ایشیاء کیلئے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خودمختار اسلامی ملک ہے۔20 کروڑ کی آبادی کیساتھ یہ دنیا کا چھٹا بڑاآبادی والا ملک ہے۔اسکے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے پاکستان کے مشرق میں بھارت، شمال مشرق میں چین اور مغرب میں افغانستان اور ایران واقع ہیں۔ پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ اور یہ نام چودھری رحمت علی نے 1933ء کو تجویز کیا تھا۔پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واکھان بارڈر تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کا سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتا ہے۔

موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں مہر گڑھ اور وادیی سندھ کی تہذیب پنپی تھی اس علاقے پر یونانی ایرانی عرب,ہندو افغان منگول اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔یہ علاقہ مختلف سلطنت جیسے موریا ،حخمانیشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ ،مغول سلطنت ،مغلیہ سلطنت ،درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اسکے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء میں ہندوستان کے مشرق مغرب میں ایک آزاد اور خودمختار اسلمی ریاست قائم ہوئی۔پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی میں اسکا مشرقی حصہ الگ ہوکر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔

پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے اسکے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اسکا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے جیسا کہ اسکی فوج دنیا کی ساتھویں بڑی فوج ہے اور اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیاء کی دوسری ایٹمی طاقت ہے اسکی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔

یوں تو پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹی طاقت ہونے کا دعویدار ہے اور ملک کی کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں پاکستان کی قیادت میں دنیا بھر میں انقلاب برپا کرنے کے نعرے بھی بلند کرتی ہیں۔لیکن حال ہی میں برطانوی تنظیم سیو دی چلڈرن SAVE THE CHILDREN کے دنیا کے 120 ملکوں میں دفاتر ہیں اور دوسرے ملکوں میں بھی اس کے نمائندے کام کرتے ہیں۔ جو بچوں کی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے ایک برطانوی ادارے نے تیار کی ہے ۔اس کی رپورٹ کے مطابق ملک میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر مرنے والے بچوں کے حوالے سے پاکستان میں صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ اس شعبہ میں پاکستان اپنی تمام تر ہیلتھ کیئر سہولتوں اور خوشحالی کے باوجود افغانستان ، نائیجیریا ، سرالیون ، صومالیہ اور گنی بسای سے بھی پیچھے ہے۔ اس وقت پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 40.7 چوبیس گھنٹے کے اندر جان دے دیتے ہیں۔ یہ شرح بچوں کی ہلاکت کی بلند سطح والے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں 10 بچے فی ہزار بچہ زیادہ ہے۔اس فہرست میں جن دوسرے ملکوں کو شامل کیا گیا ہے ، ان کی قومی پیداوار ، سماجی حالات ، سیاسی ڈھانچہ یا صحت کی سہولتیں پاکستان سے کئی گنا ابتر ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کا اس فہرست میں سب سے آگے ہونا شرمناک اور افسوسناک حقیقت ہے۔ 2012ء میں دنیا بھر میں 10 لاکھ بچے پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر جاں بحق ہو گئے تھے۔ جبکہ اسی برس 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے 66 لاکھ بچے ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تعداد 1990ء کے مقابلے میں نصف ہو چکی ہے۔ اس وقت ہر سال مرنے والے کم عمر بچوں کی تعداد سوا کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہر سال مزید 20 لاکھ بچوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔بچوں کی کثیر تعداد میں ہلاکت کو جدید دنیا کے لئے شرمناک قرار دیتے ہوئے ایک زبردست چیلنج بتایا گیا ہے۔ اس وقت دنیا میں 5 سال سے کم عمر کے 18 ہزار بچے روزانہ مر رہے ہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے نوزائیدہ بچوں کے مرنے کے عوارض کو جاننا اور حالات میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ اس طرح بچوں کی زندگی طویل کرنے اور بہتر صحت پرداخت کے لئے بہتر سہولتیں فراہم ہو سکیں گی۔

گزشتہ 25 برس میں بچوں کی ہلاکت میں کمی کے لئے کئی اقدامات کئے گئے ہیں۔ بچوں میں ویکسی نیشن میں اضافہ ہؤا ہے، خاندانی منصوبہ بندی کو بہتر بنایا گیا ہے ، بچوں کو بہتر خوراک فراہم کی گئی ہے اور علاج کی سہولتیں عام ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں عمومی اقتصادی بہتری کی وجہ سے بھی مختلف ملکوں میں بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتوں کے علاوہ مقامی سطح پر اور خاندانوں نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے 25 برس میں بچوں کی ہلاکت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ بھارت میں پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر مرنے والے بچوں کی تعداد 6 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ گویا دنیا میں کل مرنے والوں میں 60 فیصد بچے اپنی پیدائش کے پہلے ہی دن بھارت میں ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود پہلے روز مرنے والے بچوں کی شرح کے اعتبار سے بھارت کا شمار 10 بدترین ملکوں میں نہیں ہوتا جبکہ پاکستان اس فہرست میں نمبر ایک پر ہے۔ 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مرنے والے بچوں میں سے بھی نصف کا تعلق بھارت سے ہی تھا۔ تاہم گزشتہ 25 برس میں اس حوالے سے انڈیا میں صورتحال بہتر ہوئی ہے۔اس رپورٹ کو سامنے آئے کئی روز ہو چکے ہیں لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اس حوالے سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جس کی آبادی نسبتاً نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود یہ بات افسوسناک ہے کہ نہ صرف ملک میں اوسط عمر نہایت کم ہے بلکہ نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت میں بھی یہ ملک سرفہرست ہے۔پاکستان کی حکومت ، سیاسی و سماجی تنظیمیں عام طور سے یہ شکوہ کرتی رہتی ہیں کہ دنیا پاکستان کے بارے میں منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ تاہم جب حقائق کی بنیاد پر کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے تو کسی بھی سطح پر اس پر ردعمل ظاہر کر کے بہتری کے لئے اقدامات کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

تعلیم ، معاشی حالت اور سماجی صحت کی سہولتوں کے اعتبار سے اگرچہ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل نہیں ہے لیکن اس کا شمار بدترین ملکوں میں بھی نہیں ہوتا۔ حکومت کے مقابلے میں عام لوگوں کی معاشی حالت بھی بہتر ہے۔ صدقات اور زکوۃ کی مد میں ہر سال کھربوں روپے ملک کی مذہبی تنظیموں اور مدرسوں کو دئیے جاتے ہیں جن کا کبھی کوئی حساب منظر عام پر نہیں آتا۔ایک ایسے معاشرے میں نوزائیدہ بچوں کی صحت کے حوالے سے اس قدر لاپرواہی نہ صرف سرکاری کوتاہی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ملک کی سماجی و دینی تنظیمیں بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کو کنٹرول کرنے کے لئے لوگوں میں شعور کو بہتر بنانے کے علاوہ زچہ و بچہ کو چند بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صورتحال عام طور پر لاپرواہی اور مناسب توجہ نہ دینے یا بروقت طبی سہولتیں میسر نہ آنے سے پیدا ہوتی ہے۔حکومت کے علاوہ ملک میں سرگرم سماجی تنظیموں کو بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے وسیع پیمانہ پر بچوں کی نگہداشت کے لئے سہولتیں بہتر بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 179629 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.