ساتویں تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج آٹھویں پارے کے آٹھویں رکوع سے نویں پارے کے چودہویں رکوع تک تلاوت کی جائے گی۔ سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دی کہ اس کتاب سے متعلق آپ کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو خبردار کردو تاکہ اللہ کی حجت ان پر تمام ہوجائے- تم پر یہ ذمہ داری نہیں کہ لوگ اس کو قبول بھی کرلیں- حقیقت میں اس کتاب سے فائدہ تو اہل ایمان ہی اٹھائیں- سب کو تنبیہہ کی کہ ایک دن ایسا ضرور آنے والا ہے جب تم سے تمہاری ذمہ داریوں کی بابت پوچھا جائے گا اور رسولوں سے ان کی ذمہ داریوں سے متعلق- اس دن جو انصاف کی ترازو قائم کی جائے گی وہ ہر ایک کے اعمال کو تول کر بتائے گی کہ کس کس کے پاس کتنا حق ہے اور کتنا باطل- اس روز فلاح صرف وہی پائیں گے جن کے پلڑے بھاری ہونگے باقی سب نامراد ہونگے- بلکہ بلکل دیوالیہ

قریش کو اور ان کے ذریعہ سے سب کو آگاہ کیا کہ تمہیں جو اقتدار حاصل ہوا ہے وہ اللہ کا بخشا ہوا ہے-اسی نے تمہاری زندگی اور اس کا سامان پیدا کیا ہے، لیکن شیطان نے تم ہر حاوی ہوکر تم کو ناشکری کی راہ پر ڈال دیا ہے- آدم و ابلیس کا واقعہ بیان کر کے واضح کیا کہ جس طرح اس نے آدم و حوا کو دھوکہ دیکر جنت سے نکلوا دیا تھا۔ اسی طرح اس نے اپنا فریب چلا کر تمہیں بھی پھانس لیا ہے،تم اس کے چکموں میں آکر اس کی امیدیں پورا کرنے کا سامان مت کرو-

اللہ نے ہر معاملے میں حق اور انصاف کا حکم دیا ہے۔ اپنی عبادت کا حکم دیا اور توحید کا حکم دیا، جبکہ شیطان بے حیائی کا راستہ دکھاتا ہے اور تم نے اس کی پیروی میں اپنے آپ کو فتنوں میں مبتلا کرلیا ہے اور دعویٰ کرتے ہو کہ یہی سیدھی راہ ہے- اللہ نے بے حیائی کو، لوگوں کے حقوق مارنے کو، سرکشی کرنے کو، شرک اور اللہ کا نام لیکر دل سے حرام حلال بنا لینے کو حرام ٹہرایا ہے- لیکن آج تم یہ سب حرکتیں کررہے ہو۔ اگر اس کے باوجود تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے ہاں ہر امت کی تباہی کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔

مقام اعراف جو جنت اور دوزخ کے درمیان اک اونچی جگہ ہوگی، ایک گروہ کو دوزخ اور جنت دونوں کا مشاہدہ کرایا جائے گا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ اللہ نے رسولوں کے ذریعے جن باتوں کی خبر دی تھی وہ سب پوری ہوئیں۔ اعراف والے جنت والوں کو مبارکباد دیں گے اور اہل دوزخ کو ملامت کریں گے- اہل دوزخ، اہل جنت سے درخواست کریں گے کہ وہ ان پر کچھ کرم کریں اور پر تھوڑا سا جنت کا پانی ڈال دیں اور جو رزق انہیں ملا ہے اس میں سے انہیں بھی کچھ دیدیں -اہل جنت جواب دیں گے کہ اللہ نے دونوں چیزیں قرآن کا انکار کرنے والوں پر حرام کردی ہیں۔

اللہ کی طرف سے اعلان ہوگا “جنہوں نے دنیا میں اللہ کی باتوں کو نظر انداز کردیا تھا، آج اللہ نے انکو نظر انداز کردیا“ کفار اپنی بدبختی اور محرومی پر افسوس اور حسرت کے سوا کچھ نہ کرسکیں گے- اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ پیدا کرنا اور لوگوں کو حکم دینا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں یہ سب اللہ کا حق ہے- بس امید ہو یا نامیدی ہر حالت میں اس کو پکارو، زمین میں وہ کام نہ کرو جس سے فساد پھیلے، قیامت ضرور آنی ہے۔ موت کے بعد زندگی کا مشاہدہ تم خود اس دنیا میں برابر کر رہے ہو کہ وہ( اللہ ) مردہ زمین کو بارش سے زندہ کردیتا ہے۔ اللہ نے تو ہر پہلو سے اپنی نشانیاں واضح کردی ہیں۔

نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام، صالح علیہ السلام ، لوط علیہ السلام، اور شعیب علیہ السلام کی قوموں کے حالات سنائے - یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہیں کہ جو قومیں زمین میں فساد پھیلاتی ہیں اور اپنے رسول کی دعوت کو جھٹلاتی ہیں اللہ تعالیٰ آخر کار انہیں مٹا دیتا ہے- ظالم قوموں کو تباہ کرنے کا اللہ کا کیا طریقہ ہے اسے تفصیل سے بتایا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو- اس خیال سے کہ شائد وہ عاجزی اختیار کریں- پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوشحالی میں بدل دیا- یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے کہ ہمارے پچھلوں پر بھی اچھے برے وقت دونوں ہی آتے رہے ہیں، آخر کار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا۔

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور خدا خوفی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان سے اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔مگر انہوں نے تو جھٹلادیا - کیا آج کے لوگ اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ہماری پکڑ اچانک ان پر رات کے وقت جب وہ سو رہے ہوں یا دن کے وقت جب وہ اپنے کھیل کود میں مصروف ہوں۔ نہیں آجائے گی؟ اللہ کی پکڑ سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔

حضرت موسٰی علیہ السلام اور فرعون کی سرگزشت بیان کی کہ “ فرعون نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو شکست دینے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیئے جو اس کے اختیار میں تھے۔ اس نے جادوگروں کو اکٹھا کیا- بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کیا، بیٹیوں کو لونڈیاں بنایا اور زبردست اقتدار کا مظاہرہ کیا، مگر انجام کیا ہوا؟؟ ہم نے ایسا انتقام لیا کہ لاؤ لشکر کے ساتھ سمندر میں غرق کردیا اور جن لوگوں کو کمزور بنا کر رکھتا تھا ان کو مشرق و مغرب کا بادشاہ بنا دیا- سورت کے اختتام پر لوگوں کو انکا عہد فطرت یاد دلایا ہے۔
“َ اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ دن کہ جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں کو ان کی نسل سے نکالا تھا اور پوچھا تھا کہ “ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا تھا ضرور تو ہی ہمارا رب ہے، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں“ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ کیا اس اعلان کو بھول گئے جو دوسروں کو خدائی میں شریک ٹہرانے لگے ہیں- بتانا یہ مقصود ہے کہ ہر انسان فطری طور پر اللہ کے رب ہونے کو جانتا ہے تو پھر اس کے احکام کے خلاف چلنے کی غلطی کیوں کرتا ہے-

اصل وجہ نفس پرستی ہے اور نفس کے پیچھے چلنے والوں کو اللہ نے کتے سے تشبیہہ دی ہے- جس کی زبان ہر وقت لٹکی رہتی ہے۔( یعنی بھوک اور جنسی خواہش انہی دو چیزوں سے اسے سب سے زیادہ دلچسپی ہے ) میرے بھائیوں اور بہنوں ! اللہ نے اس مثال سے مغربی تہذیب کی پول کھول دی ہے- اس کے شیدائیوں کی بھی یہی مثال ہے- اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس سے محفوظ رکھے-آمین

حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس کے پاس جاکر سکون حاصل کرے،۔ پھر جب عورت بوجھل ہوگئی تو مرد و عورت دونوں نے مل کر اللہ سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہونگے-مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دیدیا تو وہ اس کی بخشش و عنایات میں دوسروں کو شریک کرنے لگے کہ یہ تو فلاں نے دیا ہے- کیسے نادان لوگ ہیں کہ ان کو اللہ کا شریک ٹہراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے- بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ آپ ہی اپنی مدد پر قادر ہیں- پھر بھی اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کیجیئے۔ نیکیوں کی تلقین کئے جائیے اور جاہلوں سے نہ الجھئے-اگر کبھی شیطان اشتعال دلائے تو اللہ پناہ مانگئے- وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

تبلیغ کی حکمت بیان کرنے اور مخالفین کی زیادتیوں کا مقابلہ صبر اور ضبط سے کرنے کے بعد اللہ سے تعلق بڑھانے کے لیے نصیحت کی کہ “ اپنے رب کو صبح اور شام یاد کرو، دل ہی دل میں گریہ و زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ تم ان کو لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں- جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں، وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہوئے اس کے آگے جھکے رہتے ہیں- پس انہی کا طریقہ اختیار کرو “

آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پڑھنے، اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللہ اس قرآن کی برکتوں سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات تبدیل فرمائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1455492 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More