برمودا ٹرائی اینگل

بحراوقیانوس کے ایک مثلث کی طرح سمندری علاقے کو برمودا ٹرائی اینگل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونہ برمودا میں، دوسرا پروٹوریکو میں اور تیسرا کونا فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔ برمودا مثلث کی شہرت کا باعث وہ حیرت انگیز واقعات ہیں جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان واقعات کے مطابق کئی بحری اورہوائی جہاز اس بحری اور ہوائی جہاز اس بحری علاقے سے گزرتے ہوئے لاپتہ ہوگئے اور ان کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔

اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں کہ جن کے باعث اسکو شیطانی یا آسیبی مثلث Devil's Triangle بھی کہا گیا ہے۔ ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی اور مافوق الفطرت واقعات شامل ہیں۔ ان ماوراء طبیعی داستانوں (یا واقعات) کی تفسیر کیلیۓ جو کوششیں کی گئی ہیں ان میں بھی اکثر غیر معمولی اور مسلمہ سائنسی اصولوں سے ہٹ کر ایسی ہیں کہ جن کیلیۓ کم از کم موجودہ سائنس میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ ان تفاسیر میں طبیعیات کے قوانین کا معلق و غیر موثر ہوجانا اور ان واقعات میں بیرون ارضی حیات کا ملوث ہونا جیسے خیالات اور تفکرات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان گمشدکی کے واقعات میں سے خاصے یا تقریباً تمام ہی ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایک معمہ کی خصوصیت وابستہ ہو چکی ہے اور ان کو انسانی عمل دخل سے بالا پیش آنے والے حوادث کی حیثیت دی جاتی ہے۔ بہت سی دستاویزات ایسی ہیں کہ جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کو تاریخی اعتبار سے ملاحوں کیلیۓ لیۓ ایک اسطورہ یا افسانوی مقام کی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ مختلف مصنفین اور ناول نگاروں نے بھی اس مقام کے بیان کو الفاظ کے بامہارت انتخاب اور انداز و بیان کی آرائش و زیبائش سے مزید پراسرار بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

برمودا تکون کے بارے میں مختلف تھیوریاں:۔
برمودا تکون کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جگہ ایک دروازے کی حیثیت رکھتی ہے جہاں دوسری دنیا سے آنے والی مخلوق اس دنیا میں داخل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اسے وقت کا خلاء کہتے ہیں جہاں آنے والی ہر چیز وقت کے خلاء میں گم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے سمندر کی تہہ میں ڈوبے ہوئے اٹلانٹس کے سگنلز کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ لیکن سائنس اور ماہرین اس سب کو حقیقت کے منافی اور من گھڑت افسانوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔

اس کے علاوہ اس کا ایک سبب پانی کی تیز لہروں کو قرار دیا جاتا ہے جو ہر ہونے والے حادثے کے نشان کو اس طرح صاف کر دیتی ہیں کہ ان کا نشان تک نہیں ملتا۔اس کےعلاوہ ایک وجہ علاقائی موسم بھی بتایا جاتا ہے جو اچانک بادو باراں اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے جہاز غائب ہوتے ہیں اور اموات واقع ہوتی ہیں۔

کچھ دانشور ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں تین سمندروں گلف آف میکسیکو، اٹلانٹک اور کیریبئن کے پانیوں کا میلاپ ہوتا ہے۔ اور ان کے پانیوں کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے اس میں ایسی مقناطیسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو اپنے اوپر سے گزرنے والی ہر چیز کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ اور بعد میں تیز لہریں وقت کے ساتھ ساتھ اس کا نشان مٹا دیتی ہیں۔

برمودہ تکون کے متعلق ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ھے کہ اس علاقے میں زیرسمندر زمین سے میتھین کا اخراج ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پانی کی کثافت بہت کم ہو جاتی ہے۔ اور کوئی جہاز پانی میں تیر نہیں سکتا۔ یہی گیس جب فضا میں شامل ہو جاتی ہے تو پھر فضا میں‌کسی بھی جہاز کے انجن میں‌تیزی سے آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اور وہ گر جاتا ہے ۔

بعض مفکرین کے نزدیک ایک سبب یہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی اور امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی ہے جن سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے یہ من گھڑت قصے گھڑے گئے۔ (اب چونکہ اڈوں والا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا اس لیے عرصے سے سمندر کے اس حصے میں ہونے والے پراسرار واقعات بھی نہیں ہوئے)۔

کچھ مفکرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں امریکہ نے ایسی لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں انسانوں کے خاتمے کے لئے مہلک ترین ہتھاروں کی تیاری اور تجربات کا کام کیا جاتا ہے۔ اور لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ نہ چلے اس لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا۔

بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ شدید سمندری طوفانوں میں جہازبرقی روکا شکار ہوئے ہونگے جبکہ بعض ماہرین قیاس کرتے ہیں کہ اس علاقے کو سمندر میں موجود کوئی بہر ہی طاقتور مقناطیسی قوت بحری اورہوائی جہازوں میں نصب ریڈیائی آلات پر اثرانداز ہوجاتی ہے جس سے سارا نظام ہی معطل ہو کر رو جاتا ہے۔

کچھ مذہبی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ برمودہ تکون اصل میں دجال کا مسکن ہے۔

بہر حال۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ افواہیں' کہانیاں حقیقت اور اندازے جتنے بھی ہوں حقیقت یہ ہے کہ آج کی 21ویں صدی کی حیرت انگیز سائنسی ترقی کے باوجود برموداٹرائی اینگل سائنسدانوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔
اگر آُ کو اس بارے میں کچھ پتہ ہے تو آپ بھی کمنٹس میں شئیر کیجیے ۔"
ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 105081 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.