رشوت اور دو نمبری کے ٹریننگ سینٹر

حسب معمول کورٹ ٹائمنگ آف ہونے کے بعد میں اپنے چیمبر سے نکلنے کی تیاری کر رہا تھا کہ دفعتاًمضبوط قد وقامت کے مالک ایک صاحب اندر داخل ہوئے۔خوب صحت مند اورباریش تھے، ماتھے پر محراب اُن کے نمازی ہونے کی غمازی کر رہا تھا۔سفید کرتا اور پاجامہ، ہاتھ میں تسبیح ،سرپر سفید پگڑی اورپاؤں میں جرابوں کی جگہ موزے ان کے تبلیغی بھائی ہونے کی نشاندہی کر رہے تھے۔ سلام دعا کے بعدتشریف فرما ہوئے۔سنئیر وکیل صاحب کے بارے میں استفسار کیا۔ بتایاکہ وہ آج چھٹی پر ہیں ۔ میں نے پیشہ وارانہ انداز میں عرض کی کوئی ہمارے لائق خدمت۔ ٹھنڈی آہ بھری ، کچھ پریشان پریشان سے دیکھائی دے رہے تھے۔ بولے ’’اس ملک میں سلامتیِ ایمان ممکن نہیں‘‘میں نے عرض کی خیر سے،؟میں سمجھا نہیں ، ہوا کیا؟وہ دوبارہ گویا ہوئے ’’میری کہانی لمبی ہے پھرکبھی سناؤں گاابھی آپ کا وقت ضائع ہوگا‘‘ مجھے توگھر کوئی خاص کام نہ تھا سو ان کی ’’کہانی‘‘ سننے کے لیے بیٹھ گیا۔ میں نے عرض کی علامہ صاحب آپ بات کریں مجھے کوئی جلدی نہیں۔ وہ دروازے سے باہر فضاؤں کو گھورتے ہوئے گویا ہوئے’’ہم دو بھائی ہیں، ایک بھائی سرکاری ٹیچر ہیں اور میں چھوٹی موٹی دکان کرتا ہوں ۔ پہلے تو میرادین اسلام سے عام سا تعلق تھا لیکن والد صاحب کی وفات نے مجھے دین کے خاصہ قریب کر دیا۔ انہی دنوں تبلیغی جماعت ہمارے محلے کی مسجد میں قیام پذیر تھی میری بھی ان سے علیک سلیک بنی اور میں بھی اس جماعت میں شامل ہوگیا۔ کچھ عرصے کے بعد راوئیونڈ اجتماع تھا میں بھی خوشی خوشی اجتماع میں گیا وہاں سے میری دعوت و تبلیغ کے لیے اندرون سندھ کے لیے تشکیل ہو گئی۔ 40دن دعوت و تبلیغ کرنے کے بعد واپسی ہوئی اور پھر چار ماہ کے لیے بلوچستان کی طرف تشکیل ہو گئی۔کرتے کرتے وہ چار ماہ بھی مکمل ہوگئے اور تقریباًساڑھے پانچ ماہ کے بعد میں واپس اپنے گاؤں پہنچا۔ گھر واپسی پر پتہ چلا کے میرے گھر سے دور ہونے کا فائدہ میرے بڑے بھائی صاحب نے خوب اٹھایا اور پٹواری سے مل ملا کر تمام موروثی جائیداد کا انتقال اپنے نام کروالیا۔ رشوت سے کام چلاتے ہوئے جھوٹے دو گواہ بھی پیش کر کے یہ ثابت کیا گیا کہ محروم والد کے صرف وہی ایک بیٹے ہیں اور حقیقی و قانونی وارث بھی وہی ہیں۔ ’’مال پانی‘‘ میں کچھ حصہ غالباً تحصیل دار صاحب کو بھی پہنچا اور انتقال تصدیق بھی ہوگیا ۔

میری واپسی تک یہ معاملہ چار ماہ پرانا ہوچکا تھا۔ مجھے بہت صدمہ پہنچا دوسرے دن صبح پٹواری کے پاس جا پہنچا۔ پہلے پہل تو پٹواری نے میری طرف دیکھنا بھی گواراہ نہ کیا کافی تک و دو کے بعد موصوف میری طرف متوجہ ہوئے۔میری ساری کتھا سننے کے بعد بڑی دیدہ دلیری سے بولے آپ کے بھائی صاحب نے بیس ہزار دیے تھے آپ تیس ہزار دے دیں میں انتقال منسوخ کروا دوں گا۔ میں نے لا حول پڑی۔ رشوت! توبہ توبہ۔رشوت کے بارے میں اﷲ اور اس کے رسول کے احکامات بتائے ۔ وہ زیر لب مسکرائے اور بولے ہمیں اوپر حصہ دینا ہوتا ہے آپ کوئی اور بندہ تلاش کریں جو رشوت کے بغیر کام کرتا ہو۔ پھر گرداور، نائب تحصیل دار، تحصیل دار ،ایس ڈی ایم اور ڈی سی سب کے دروازے کھٹ کھٹائے مسلسل ٹال مٹول،سمجھ نہ آئے یہ لوگ ان کرسیوں پر کس کام کے لیے بیٹھے ہیں۔یوں لگتا کہ سب ملے ہوئے ہیں اور پٹواری کو ان سب کی شہہ حاصل ہے۔ تنگ آکر تھانے کا رخ کیا ۔ تین چار گھنٹے تو ایس ایچ او صاحب سے ملنے ہی نہیں دیا گیا۔ بار بار کہا جاتا وہ ابھی مصروف ہیں خداخدا کر کہ ملاقات کا ’’شرف‘‘ بخشا گیا ۔ ساری داستان غم سننے کے بعد بڑے جوشیلے لہجے میں بولے مسئلہ ہی نہیں آپ کو ضرور انصاف ملے گا۔ آپ محرر سے مل لیں اور پرچہ کٹوا دیں کل تک آپ کا بھائی حوالات میں بند ہوگا۔دل خوش ہوا ، نئی امید لگی۔اب جو محرر سے ملا تو پتہ چلا دس ہزار سے مٹھی گرم کریں تو فوری پرچہ کٹ جائے گا ۔ میں حیران و پریشان اس کے منہ کی طرف دیکھ رہاتھا۔ بہتیرا چیخا کہ یہ رشوت ہے، غلط ہے، گناہ ہے لیکن ان کے کان میں جوں بھی نہیں رینگی۔کہہ رہا تھا ’’او بھائی میاں!یہ رشوت نہیں اوپر کی کمائی ہے۔اگر جیب گرم نہیں ہوگی تو ’’نظر کرم‘‘بھی نہیں ہوگا۔‘‘ رشوت ایسے مانگ رہے تھے جیسے ان کا پیدائشی اور قانونی حق ہے۔ میرا ایمان کچھ وقت کے لیے ڈولنے لگا۔ ایک طرف کروڑوں کی مالیت کی جائیداد ہے اور دوسری طرف ایمان۔ جتنا میں رشوت سے دور بھاگ رہا تھا اتنا ہی انصاف کے نام نہاد ’’ادارے‘‘ مجھے رشوت کی ترغیب دے رہے تھے۔ جن سے میں انصاف مانگ رہا تھا وہ میرے ایمان کا سودا کر رہے تھے۔ میں نے بہت منت کی، ایس ایچ او سے دوبارہ ملنے کی کوشش کی لیکن تمام کوشش ناکام ہوئیں۔ بوجھل قدموں سے واپس آگیا۔ اب عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹانے سے اس لیے ڈرتا ہوں یہ سول کیس ہے وطن عزیز میں سول کیس کئی نسلوں تک چلتے ہیں ۔ اب میں اگر کیس کر کہ آنے والے کئی سال عدالتوں کے چکر لگاتا رہا تومیں دنیا کا اور کوئی کام نہیں کر سکوں گااور اپنی اولاد کو ورثے میں عدالتوں کے چکر، وکیلوں کی بھاری بھرکم فیس، مثلیں اور فائلیں ہی دے کر جاؤں گا اور پتہ نہیں کتنی نسلیں اس دیوانی لڑائی میں الجھی رہیں۔ اب میں آپ سے مشورہ کرنے آیا ہوں مجھے کیا کرنا چاہئے۔ کیونکہ مقامی سطح پر مصلحت کی ہر ممکن کوشش کی لیکن دولت اور جائیدادنے بھائی صاحب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ خون سفید ہوگیا ہے۔وہ کسی صورت ماننے کو تیار نہیں‘‘ وہ اپنی روداد غم سنانے کے بعد جواب کے لیے میری طرف دیکھنے لگے۔ میں خود الجھ گیا۔کیا مشورہ دوں؟ رشوت کا تو میں کسی صورت مشورہ نہیں دے سکتا تھا ۔ ’’الراشی والمرتشی کلا ہما فی النار‘‘کی حدیث میرے ذہن میں تازہ تھی۔میں نے کافی سوچ کے بعد ان کو وہی مشورہ دیا جو کوئی بھی پروفیشنل وکیل دے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ چارہ کار بھی نہ تھا۔ پٹواری سے لے کر اعلیٰ انتظامیہ تک کسی سے خیر کی امید نہ تھی الی ماشااﷲ۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا نہیں جا سکتا تھا۔ وہی انصاف کے حصول کے لیے سالا سال دھکے۔عدالتیں، وکیل، مثلیں اور تاریخیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اور میں سوچ میں ڈوبا تھا صرف یہ علامہ صاحب ہی نہیں ہم سب ہی کہیں نہ کہیں اپنا ایمان بیچتے ہیں۔ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے ہر ادارے میں بیٹھے ہیں۔ تھانے کے بینچ سے لے کے ایوان اقتدار کی سڑھیوں تک ہر جاہ دلال ایمان کا سودہ کرنے کے لیے بیٹھے ملیں گے۔ آپ اپنا حق لینے جائیں گے حق ملے گا نہیں ایمان کھو دیں گے۔ رشوت چور بازاری، لوٹ مار ، سفارش، پرچی سسٹم، سرخ فیتہ، مٹھی گرم ہر وہ گُر سیکھ کر آئیں گے جو آپ کے ایمان کا لٹیرا ہے۔ ٹریفک سارجنت سو روپے پر گاڑی کے کاغذ کو درست ہونے کی سند دے دے گا، تھانے میں بیٹھا پولیس سپاہی چند سکوں کے عوض بے گناہ کو اندر کر دے گا، پیسے نہ ملنے پر کسی ظلم کی چکی میں پستے انسان کا پرچہ نہیں کاٹا جائے گا۔پیسے لے کر ایف آئی آر میں وہ کچھ لکھا جائے گا جس کا کیس سے دور پار کا بھی واسطہ نہ ہوگا۔ پولیس کو پیسے دے کر آپ مخالف پارٹی کو اذیت ناک سزا دلواسکتے ہیں۔ پٹواری انتقال جائیداد، فردنمبرکی نقل، عکس مساوی کی عکسی نقل اور صرف زمیں کی نشاندہی کے لیے معصوم اور غریب شہریوں سے دس ہزار سے ایک ایک لاکھ فیس وصول کرتے ہیں جن چیزوں کی بلا معاوضہ ادائیگی ہی ان کی اصل ذمہ داری تھی۔ گورنمنٹ ہسپتال ہو یا نادارہ آفس، پاسپورٹ آفس ہو یایوٹیلیٹی سٹور،ائیرپورٹ یا ریلوے سٹیشن آپ پیسے والے ہیں واچ مین، سیکورٹی گارڈکی مٹھی گرم کر کہ سب سے پہلے کام کروا لیں، ایمان تو جائے گا کام تو ہو جائے گا اور جاتے ہوئے ایک تھپڑ ان کے منہ پر رسید کرتے جائیں جو اس زمانے میں ایمان بچانے کے لیے کئی گھنٹوں سے ذلیل و خوار ہو رہے ہوں۔ آپ اگر رشوت لینا اور دینا نہیں جانتے تو کسی بھی کام کے لیے سرکار کے غلاموں اور قوم کے ’’خادموں‘‘ کے پاس چلے جائیں وہ سب کچھ سیکھا دیں گے اور اگروہ دبے اور چھپے لفظوں میں بات کریں جو آپ کی سمجھ میں نہ آتی ہو تو ان ہی کے چھوڑے دلال آپ کو گِدھوں کی طرھ اردگرد منڈلاتے نظر آجائیں گے۔ جو کھل کر واضح اور دو ٹوک الفاظ میں سمجھا دیں گے کہ آپ نے کس موقع پر کیا کرنا ہے۔ کس کو ،کس وقت، کتنے اور کہاں پیسے دینے ہیں ۔افسوس کہ قوم کی خدمت پر معمور ادارے دراصل رشوت اور دو نمبری کے ٹریننگ سینٹر بن چکے ہیں۔ یہاں ہر دو نمبری کی ٹریننگ ملتی ہے۔ اﷲ اس ملک کی خیر کرے۔
Touseef Afaaqi
About the Author: Touseef Afaaqi Read More Articles by Touseef Afaaqi: 7 Articles with 6751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.