پانچویں تراویح

بسم اللہ ارحمٰن الرحیم
اس میں پانچویں پارے کے آخری رکوع سے ساتویں پارے کے پانچویں رکوع تک تلاوت کی گئی ہے۔
چوتھی تراویح میں پڑھی جانے والی آیات میں ایک بات یہ کہی گئی تھی کہ جب کوئی سلام کرے یعنی السلام علیکم کہے تو اس سے بہتر جواب دینا چاہیے ورنہ کم از کم اتنا لوٹا دینا چاہیے۔ یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اگر کوئی سلام کا جواب سلام سے نہ دے تو گویا اس نے سلام بھی قبول نہیں کیا۔ اس بات کی اجازت دیدی جائے تو معاشرہ میں ایک دوسرے سے نفرتیں بڑھیں گی۔ انتشار ہوگا اور شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس تراویح میں اس گناہ سے معاشرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے چھٹے پارے لا یحب اللہ کا ان الفاظ سے شروع کیا گیا ہے کہ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ برائی سے اس کا ذکر کرنے کی اجازت دی گئی ہے- لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کئے جاؤ یا کم از کم برائی سے درگزر کرو تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ حالانکہ سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے-
گویا یہ بتایا کہ عفو درگزر کی عادت ڈالو۔ جس اللہ سے تم قریب ہونا چاہتے ہو اس کی شان یہ ہے کہ وہ نہایت حلیم اور بردبار ہے۔ سخت سے سخت مجرموں کو بھی رزق دیتا ہے اور برے بڑے قصور بھی معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے قریب ہونے کے لیے تم بھی عالی حوصلہ اور وسیع النظر بنو۔ پھر بتایا کہ جس طرح کھلم کھلا انکار کفر ہے اسی طرح اپنی شرائط پر ایمان لانا بھی کفر ہے یعنی ہم ایمان لاتے ہیں فلاں رسول کو مانیں گے اور فلاں کو نہیں مانیں گے اور اسلام اور کفر کے بیچ میں راستہ نکالنے کی کوشش یہ سب بھی کفر ہے۔

یہود کی تاریخ دہرائی کہ وہ کس طرح گناہ پر گناہ کرتے چلے گئے مگر ہم نے پھر بھی ان کے ساتھ معافی کا سلوک کیا۔ ایسے لوگوں سے اب بھلائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے- پھر خاص طور سے عیسائیوں کو تنبیہہ فرمائی کہ اللہ نے قرآن کی شکل میں جو نور مبین خلق کی رہنمائی کے لیے اتارا ہے اس کی قدر کرو اور گمراہی چھوڑ کر ہدایت پر آجاؤ۔ عیسائیوں سے کہا کہ اپنے دین میں غلو نہ کرو۔( غلو یہ ہے کہ جو چیز پاؤ بھر ہو اسے سیر بھر کردیا جائے۔ دین میں جو چیز مستحب ہے اسے فرض اور واجب کا درجہ دیدیا جائے اور جو شخص فقیہہ یا مجتہد ہے اسے امام معصوم بنا دیا جائے اور جسے اللہ نے رسول اور نبی بنایا ہے اسے خدائی صفات میں شریک قرار دیدیا جائے اور تعظیم سے بڑھ کر اس کی عبادت شروع کردی جائے ) یہ لوگ اس غلو کو دین کی خدمت اور بزگوں سے عقیدت سمجھتے ہیں حالانکہ خدا کےنزدیک یہ جرم ہے- عیسائیوں کی مثال اللہ نے دی کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کو اللہ کے رسول سے بڑھ کر اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ مسلمانوں کو بھی اس غلو سے بچنا چاہئے۔

سورہ مائدہ میں اللہ نے ذکر کیا کہ اس نے آخری امت کی حیثیت سے مسلمانوں سے اپنی آخری اور کامل شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ قائم رہنے اور اس کو قائم کرنے کا عہد لیا ہے۔ یہی عہد پہلے اہل کتاب سے لیا گیا تھا مگر وہ اس کے اہل ثابت نہیں ہوئے- اب مسلمانوں سے عہد لیا جارہا ہے

کہ تم پچھلی امتوں کی طرح خدا کی شریعت کا معاملے میں خائن اور غدار نہ بن جانا بلکہ پوری وفاداری کے ساتھ اس عہد کو نباھنا، اس پر خود بھی قائم رہنا اور دوسروں کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کرنا، اس راہ میں پوری عزیمت، اور پامردی کے ساتھ تمام آزمائشوں اور خطرات کا مقابلہ کرنا۔

سب سے پہلے اللہ سے باندھے ہوئے عہد کی پابندی کی تاکید کی پھر حرام مہینوں اور تمام دینی شعائر کے احترام کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہر نیکی اور تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ہرگز کسی کی مدد نہ کرنا- کھانے کی جو چیزیں حرام ہیں انہیں گنایا اور بتایا کہ دوسروں کے کہنے کی کوئی پرواہ نہ کرنا- اللہ کے کئے ہوئے حرام و حلال کی پرواہ کرو- اب یہ دین تمہارے لیے مکمل کردیا گیا ہے، اور اللہ نے شریعت کی نعمت تم پر تمام کردی ہے بس اسی کی پیروی کرو۔

تربیت کئے ہوئے شکاری جانوروں کے ذریعہ شکار، اہل کتاب کے کھانے اور ان کی عورتوں سے نکاح کے بارے میں احکام بتائے- ساتھ ہی یہ قید بھی لگائی کہ اس اجازت سے فائدہ اٹھانے والوں کو اپنے دین و اخلاق کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے- کہیں ایسا نہ ہو کتابیہ عورت ان کے ایمان اور اس کی کے کسی تقاضے پر ڈاکہ ڈال لے۔

نماز کے لیے وضو کا حکم اور مجبوری کی حالت می تیمم کی اجازت دی- بنی اسرائیل سے عہد کا ذکر کیا کہ جب انہوں نے شریعت کی پابندی سے انحراف کیا تو اللہ نے ان پر لعنت کی-اسی طرح نصاریٰ سے عہد لیا تھا مگر انہوں نے بھی ایک حصہ بھلا دیا یعنی عبادت کے نام سے جو رسومات ہیں انکے نزدیک وہ تو دین کا حصہ ہیں مگر بقیہ معاملات جو دنیا سے متعلق ہیں ان میں خدائی ہدایت کے پابند نہیں رہے۔ اسی وجہ سے اللہ نے ان کے اندر انا اور اختلاف کی آگ بھڑکا دی- وہ آخرت تک اس کی سزا بھگتیں گے- گویا مسلمانوں کو تنبیہہ کی جارہی ہے کہ وہ عہد کی پابندی کریں۔ اگر وہ یہود ونصاریٰ کے راستے پر چلے تو پھر ان کا انجام بھی وہی ہوگا۔ ان آیات کی روشنی میں ہم تاریخ کو دیکھ سکتے ہیں اور اپنے زوال کے اسباب کو بھی جان سکتے ہیں اور ان سے نکلنے کا راستہ بھی پاسکتے ہیں۔

پھر اللہ نے بنی اسرائیل کا وہ واقعہ دہرایا کہ اس نے اپنے فضل سے انہیں نوازا اور فتح و نصرت کے وعدے کے ساتھ ہی بشارت دی کہ فلسطین کی مقدس زمین تمہاری منتظر ہے جاؤ اور اس پر قبضہ کرلو۔ مگر قوم میں بچھڑے کی پوجا یعنی دنیا پرستی نے اتنی بزدلی پیدا کردی تھی کہ وہ کہنے لگے “اے موسٰی تو اور تیرا رب جاکر لڑ کر فتح حاصل کرلیں تو پھر ہم آجائیں گے“ اس پر اللہ نے چالیس سال کے لیے ان پر ارض مقدس کو حرام کردیا اور انہیں صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا-

یہاں معلوم ہوا کہ اللہ کے مقدرات میں قوموں کے طرز عمل سے وابستہ ہیں مسلمانوں کو تاکید کی گئی کہ حدود الہٰی پر قائم رہیں اور شریعت کی پابندی کو اللہ کے قرب کا ذریعہ بنائیں اصل الفاظ یہ ہیں “اے ایمان لانے والوں اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے قرب کا ذریعہ تلاش کرو“ ( ذریعہ یہ وسیلہ وہی ہے جس کا ذکر اللہ نے حب اللہ کے نام سے کیا ہے ) یعنی اسلام کو مضبوطی سے مل کر پکڑ لو اور پوری مستعدی سے اللہ کے احکام کی پابندی کرو اور اللہ کی راہ میں اپنی قوتیں لگا دو۔ اللہ کے عذاب سے یہ چیز چھٹکارہ دلانے والی ہے۔ اس کے سوا کوئی چیز نفع نہیں پہنچائے گی۔

چوری کی سزا بتائی کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو اور اس سزا کو بے رعایت نافذ کرو، قسموں کو پورا کرنے کی تاکید کی اور اگر ( کسی جائز سبب سے ) قسم توڑنی پڑ جائے تو اس کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا کہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ یا نہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو ورنہ تین دن کے روزے رکھو پھر بتایا کہ شراب، جوا، اللہ کے سوا کسی چیز کو عبادت کے لیے گھڑنا یہ سب شیطانی کام ہیں تاکہ شیطان ان چیزوں کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے-

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت کی کہ آپ بالکل نڈر ہوکر اہل کتاب سے کہہ دیں کہ اگر تم توریت، انجیل اور اس قرآن کو قائم نہ کرو پھر اللہ کے ہاں تمہاری کوئی حیثیت نہیں- اللہ سے صرف ان کو نسبت حاصل ہوگی جو ایمان اور عمل صالح سے نسبت قائم کریں گے۔

نصاریٰ کے کفر کو بیان کیا کہ انہوںنے عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات کے بالکل خلاف حلول یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام میں اتر آنے اور اسی طرح تین خداؤں کے عقیدے گھڑ لئے، اس کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کا اصل مرتبہ ظاہر کیا۔

بنی اسرائیل پر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی لعنت کا حوالہ دیا اور بتایا کہ یہ کیسے کتاب اور ایمان کے دعوے دار ہیں کہ مسلمانوں کے مقابلے میں بت پرستی کرنے والے مشرکین مکہ کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں بہتر بتاتے ہیں- یہ سب اسلام دشمنی ہے۔

کیونکہ آج پڑھا جانے والا آخری رکوع اس سے آگے کے رکوع کی تمہید ہے اس لیے اس کا مفہوم انشاء اللہ کل کے رکوع کے ساتھ بیان کیا جائے گا ( اگر زندگی رہی تو)

آج کی تروایح کا بیان ختم ہوا- اللہ ہم سب کو قرآن پڑھنے، اس کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ اللہ اس قرآن کی برکتوں سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات بہتر بنائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1462028 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More