حلال حرام

دو سال قبل کسی کام سے میرا مظفرآباد جاناہوا۔ رات اپنے ایک دوست کے ساتھ گزاری جو نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کوہالہ میں بطور انجینئر کام کر رہا تھا۔رات خوب گپ شپ ہوئی۔ گپ شپ میں اس نے گزشتہ اتوار کا ایک واقعہ سنایا جو میرے لیے دلچسپی کا باعث تھا۔ وہ میں آپ کو بھی سُنائے دیتا ہوں۔آپ میرے دوست کی زبانی ہی سنیں تو زیادہ اچھا رہے گا۔

’’یہاں نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کوہالہ میں ہم کافی سارے انجینئرز کام کرتے ہیں۔ کچھ منچلے پاکستانی انجینئرز بھی ہیں۔ کچھ چائنیز انجینئر بھی ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں۔گزشتہ اتوار کو ہم نے’’ پیرچناسی‘‘ کی سیر کا پروگرام بنایا۔ پیر چناسی اپنی خوبصورتی کی مثال آپ ہے ۔ آؤٹنگ، انجوائے اور چِل کر نے کا پورا اہتمام موجود تھا۔ گاڑی میں لکڑیاں ، دیگچہ اور دیگر لوازمات بھی رکھے گئے۔ پیر چناسی پہنچ کر مختلف ٹولیوں میں بٹ کر انجوائے کرنے کے لیے دائیں بائیں نکل گئے، کوئی گھنٹہ بعد جب ہم دوبارہ اگھٹے ہوئے تو ہمارہ ایک گروپ بڑا ایکسائیٹڈ تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا ایک’’ معرکہ‘‘ مار لائے ہیں۔ نیچے جنگل سے ایک موٹا تازہ بکرا پکڑ لائے تھے۔ کچھ مولوی ٹائپ دوستوں نے اعتراض کیا لیکن ان کا یہ اعتراض نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا۔چھوٹے گوشت کے لیے تو ہم ویسے ہی ترستے رہتے تھے اب جو اﷲ کی نعمت ہاتھ آئی تو کفران نعمت کیوں کرتے۔مختلف پلان ترتیب دیے جانے لگے، ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق ڈش تیار کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ لیکن پہلے تو مسئلہ درپیش تھا بکرے کو ذبح کرنے کا۔ ہم میں سے کوئی بھی بکرا ذبح کرنا نہیں جانتا تھا۔ کافی پریشانی ہوئی، کوئی اور بندہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ زیادہ دیر کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ اس سے پہلے کہ کوئی بکرے کا حقیقی وارث آجائے اور ہم ہاتھ آئی دولت سے محروم ہوجائیں۔ ہماری چہ مگوئیاں سن کر ایک چائینی انجینئر جو ہم سب سے بڑا تھااور کافی عرصے سے پاکستان میں مقیم تھا۔ اس سے پہلے گوادر پورٹ پر بھی کام کر چکا تھا۔ نہ صرف اردو زبان جان اور بول سکتا تھا بلکہ دین اسلام کے بارے میں کافی معلومات رکھتا تھا۔ ہمارے پاس آیا اور پریشانی اور تاخیر کی وجہ دریافت کی۔ ہم نے بتایا کہ ہم میں سے کوئی بھی بکراذبح کرنا نہیں جانتا۔ اُس نے کہا یہ بھی کوئی مسئلہ ہے آپ دو بندے بکراپکڑیں اور میں چھری سے گردن کاٹ دیتا ہوں۔ ہم سب نے بیک زبان کہا اس سے تو بکرا حرام ہوجاتا ہے ہم اس کو صحیح اسلامی طریقے سے ذبح کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ حلال ہو۔ ہماری اس بات پر وہ کھلکھلا کر ہنسا۔ کافی دیر تک ہنستا رہا۔ ہمیں غصہ آنے لگا کہ یہ ہمارے ایک دینی فریضے کا مذاق اڑا رہا ہے۔ کافی دیر ہنسنے کے بعد وہ بولا ’’ابے شریفو! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ چوری کے بکرے کو حلال طریقے سے ذبح کر کہ تم اپنے لیے حلال کر لو گے؟ یہ چوری کا بکرا ہے تم اسے ذبح کر کہ کھاؤ یا ایسے ہی مار کر، یہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا‘‘ یہ بات سُن کر ہم سب بھیگی بلی بن گئے۔اتنی اتنی بڑی ڈگری رکھنے کے باوجود ہم میں سے کوئی بھی اتنا عام سا فلسفہ نہیں سمجھتا تھا جو ہمیں ایک غیر مسلم نے عام سے لفظوں میں سمجھا دیا۔ جب یہ حقیقت ہم پر آشکار ہوئی تو ہم نے باہمی فیصلہ کیا کہ بکرا جہاں سے پکڑا گیا تھا وہاں ہی چھوڑا جائے گااور ہم ان ہی چیزوں پر اکتفا کریں گے جو ہم ساتھ لائے ہیں۔ اس ٹرپ کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ہمارا دین کے معاملے میں نقطہ نظر واضح ہو گیا۔‘‘

یہ واقعہ پڑھ کر آپ با خوبی جان گئے ہوں گے کہ دین اسلام کے بارے میں ہم کتنے کور ے اورہمارے تصورات کتنے بودے ہیں، ہم دین اسلام کے معاملے میں کس حد تک خود فریبی کا شکار ہیں۔یہ کہانی صرف ان پاکستانی انجینئرز کی نہیں ۔ ہم سب دین کے معاملے میں کہیں نہ کہیں خود فریبی کا شکار ہیں۔پوری رات بجلی چوری کی چلتی ہے، گیزر پانی گرم کرتا ہے اور اسی پانی سے وضو کر کہ تہجد کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ چوری کی بجلی کے بلب جلتے ہیں اور اس کی روشنی میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے۔’’ اوپر‘‘ کی کمائی سے عمرہ کی ادائیگی ہوتی ہے، والدین کو حج بھی کروایا جاتا ہے اور معاشرے میں نیک نامی بھی کمائی جاتی ہے۔پٹواری صاحب پورا دن لوگوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور شام کو خیرات بانٹ کر خوب نیک نامی بھی کماتے ہیں۔ ہمارے پروفیسر صاحبان بچوں کو ایمانداری کا درس دیتے نہیں تھکتے اور گورنمنٹ سے لاکھ روپے تنخواہ لے کر ادارے اپنے چلاتے ہیں اور وقت اور صلاحتیں دونوں ہی ادھر دیتے ہیں اور پھر بھی بڑے نیک اور اﷲ والے انسان بھی کہلواتے ہیں۔ماسٹر صاحب حلال روزی پر تو بہت زور دیتے ہیں اورصلاحتیں اور محنت ٹیوشن اکیڈمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ معاشرے کے بڑے بڑے نیک ،نمازی، حاجی اور مولانا صاحبان دوسروں کو حلال اور محنت کی کمائی کی تلقین کرتے ہیں اور خود بینک میں سود پر رقم فکس کروا دیتے ہیں۔ جیب میں حرام کی کمائی ہوتی ہے اور شہر بھر میں حلال گوشت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ کاروبار شراب فروشی کا ہوتا ہے اورمسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ 2011ء کی بات ہے میں پنجاب یونیورسٹی لاہورمیں تھاڈاکٹر عطا الرحمن صاحب (سابق چیرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان) سے ملنے جم خانہ ہوٹل جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ چھوٹی سی بہت ہی پیاری مسجد آئی ساتھیوں نے بتایا یہ مسجد معروف اداکارسلطان راہی نے بنوائی تھی۔ اﷲ قبول فرمائے وہ قبول کرنے والی ذات ہے ۔ مجھے سلطان راہی کی ذات سے اختلاف نہیں اور نہ ہی میں اس کے اس نیک عمل میں کھوٹ نکالنا چاہتا ہوں۔لیکن میں سوچ رہا تھا جس طرح کی کمائی سلطان راہی نے کی کیا ایسی ہی کمائی سے خیرات و زکاۃ قبول فرمائی جائے گی۔

ہم نے دین کو بالکل ہی ایک پرائیویٹ معاملہ بنا دیا ہے۔دین اور دنیا کو دو الگ الگ دائروں میں تقسیم کر دیا ہے۔ دین کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ بندہ نماز پڑھ لے، کبھی کبھارقرآن پاک کی تلاوت کر لے۔بغیر وضو کے کسی کی نماز جنازہ پڑ ھ لے، سال میں دو عید کی نمازیں ادا کرلے، میلاد کے موقع پر ’’محفل میلاد‘‘ کروادے، محرم کے مہینے میں میٹھے چاول پکا کر بانٹ دے، کسی مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں حصہ ڈل دیں تو وہ پکا اور خالص مسلمان ٹھہرے گا۔ ’’یہ جہاں میٹھا اگلا جہاں کس ڈِٹھا‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہو کرباقی معاملات میں وہ آزاد ہے۔جو چاہے کرے اس کے ’’مومن ‘‘ ہونے پر فرق نہیں پڑے گا۔ لوگ اس کو بہرحال مومن ہی سمجھیں گے۔

تمام اخلاقی حدود پھلانگ چکنے کے بعدبھی ہم پکے مسلمان ہیں۔ حاجی، نمازی اور دین دار بھی ہیں۔ ہمارے اخلاقی انحطاط کا جنازہ نکل چکا ہے۔ یہاں اب حلال کی تمیز یہ رہ گئی جو ہاتھ آیا وہ حلال ہے اور جو ہاتھ سے نکل گیا وہ حرام ہے اور اگر کوئی اﷲ کا نیک بندہ فی الحقیقت حلال و حرام کی تمیز کرے تو اسے یہ کہہ کر مایوس کیا جائے گا کہ یہاں کھایا اس نے نہیں جس کو ملا نہیں۔ مفت کی شراب قاضی بھی پی جاتا ہے۔ یعنی میاں صاحب تم جو نیک بنے پھرتے ہو اصل میں تمیہں برائی اور حرام خوری کا موقع ہی نہیں ملا۔ اگر تمہیں یہ موقع ملتا تو تم بھی ضرور کرتے۔ گویا اس کو ترغیب دی جا رہی ہے جب ملے تو تم بھی ہاتھ صاف کر لو۔ہمارے نیکی اور بدی، حلال و حرام کے تصورات اپنے ہی بنائے ہوئے ہیں۔ نماز پڑھ لینا، خیرات بانٹ دینا، مسجد میں چندہ دے دینا تو نیکی ہے لیکن کاروبار میں ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی،ادھار کا ریٹ الگ نقد کا الگ، سود پر قرض دینا، اچھی چیزوں کی نمائش کر کہ خراب چیزیں بیچ دینا، پڑوسی کی زندگی کو اجیرن کر دیناکسی بھی ذمرے میں برائی نہیں ہے۔ یہ سارا کچھ کر کہ آپ نماز پڑھ لیں، تھوڑی بہت خیرات کر لیں، آپ جنتی تصور ہوں گے ۔ببانگ دہل رشوت لے کر کچھ پیسے مسجد میں چندہ دے دیں آپ معاشرے کے نہایت ہی نیک آدمی متصور ہوں گے۔ہم نے معاشرے میں نیکی و بدی کو اس بری طرح خلط ملط کر دیا کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آخر یہ کیا ہے؟ میں اس کو خدا فریبی کہوں یا خود فریبی۔۔۔۔ آخر ہم کس کو دھوکہ دیتے ہیں خدا کو یا خود کو۔۔۔۔۔۔
Touseef Afaaqi
About the Author: Touseef Afaaqi Read More Articles by Touseef Afaaqi: 7 Articles with 6753 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.