جیل۔۔۔۔۔تعذیب خانہ یا تہذیب کدہ

کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے قانو ن سازی کی جاتی ہے ۔قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور ریاست کے تمام افراد ان قوانین کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کا احترا م کیا جاتا ہے ۔ اور جب تک ریاست کے افراد اور ادارے ان قوانین کا احترام کرتے ہیں تب تک کاروبار ریاست صحیح سمت میں گامزن رہتا ہے ۔ اور جہاں کہیں قانون شکنی ہوتی ہے تو ریاست حرکت میں آتی ہے اور تادیبی کاروائی کرتی ہے ۔ ریاست میں امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داری پولیس کے محکمے پہ عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی جرم کو ہونے سے روکے لیکن اگر کوئی قانون شکنی کا مرتکب ہو جاتا ہے تو یہ بھی پولیس کی ذ مہ داری ہوتی ہے کہ وہ مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں لائے اور عدالت کے فیصلے کے مطابق اسے سزا دی جائے۔ اس مقصد کے لیے جیل خانہ کا نظام وضع کیا جاتا ہے جو پولیس کے محکمے کے تحت چلایا جاتا ہے۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مجرموں کو سزا دی جائے تاکہ وہ آئندہ اس جرم سے باز رہیں اور قانون شکنی نہ کریں ۔ مجرموں کو سزا دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ معاشرے کے دیگر افراد کو بھی قانون شکنی کے مضمرات سے آگاہ کیا جائے ۔
کسی بھی مجرم کو جرم سے باز رکھنے کے لیے دو راستے اختیارکیے جا سکتے ہیں ایک ترغیب کا دوسرا ترھیب کا جیل میں دونوں طریقوں سے کام لیا جاتا ہے ۔ البتہ مختلف النوع ریاستوں کی طرف سے مختلف رویے سامنے آتے ہیں ۔ فلاحی و اصلاحی ریاستوں میں مجرموں کو بھی ملک کاشہری تصور کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق متعین کیے جاتے ہیں ۔ انہیں ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کیے پہ نادم ہوں اور جرم کی دنیا سے خود کو علیحدہ کر لیں اور ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہوں ۔جبکہ دوسری جانب جبروتی اور نو آبادیاتی نظام ہے جہاں مجرم کو مجرم کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے اور اسے ایذا رسانی کے ذریعے دیگر انسانوں کے سامنے ذلیل و خوار کیا جاتا ہے اور حتی الوسع کوشش کی جاتی ہے کہ اسے نشان عبرت بنادیا جائے۔

اگر ہم دین کی طرف رجوع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دین نے سزا و جزا ایک نہایت ہی متوازن تصور پیش کیا ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ۔ہمارا دین ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ سزا و جزا کا مالک صرف اﷲ تعالی ہے ،اس نے سزا و جزا کے لیے دن متعین کیا ہے جس دن ہر انسان کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے اور کوئی بھی مجرم اس دن بچ نہ پائے گا۔دوسری جانب ریاست پہ یہ ذمہ داری بھی عائد کی ہے کہ وہ ایسا ماحول فراہم کرے جس میں کوئی بھی شہری جرم کی طرف آمادہ ہی نہ ہو اور پھر بھی جو لوگ کھلے بندوں حدود اﷲ سے تجاوز کریں انہیں سزائیں دی جائیں تاکہ معاشرے کے دیگر افراد ان کے شر سے محفوظ رہیں اور جرم کا دائرہ کار وسعت اختیار نہ کرسکے۔اسلام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ عائد کرتا ہے تاکہ نیک اور صالح افراد معاشرے میں نیکی کو عام کریں اور برائی سے لوگوں کو منع کریں ۔ اسکے باوجود بھی اگر کچھ لوگ سرکشی پہ اتر آئیں تو ان کے لیے کڑی سزائیں بھی تجویز کرتا ہے ۔

اب اگر ہم وطن عزیزکے جیل خانہ جات کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہم جس حد تک اسلامی و فلاحی مملکت ہونے کا دعوی کرتے ہیں ہمارے ملک کی جیلیں اس کے اتنا ہی متضاد تصور پیش کرتی ہیں ۔ انگریز کے نوآبادیاتی دور کے جیل نظام کوتاحال بدلا نہیں جا سکا۔ہماری جیلیں خوفناک اور عبرت ناک ضرور ہیں مگر مصلح نہیں ہیں ۔ وہاں کا ماحول ایک بے گناہ قیدی کو بھی مجرم بنا دیاتا ہے ۔ جیل سے باہر آنے پہ قیدی کے دل میں قانوں کا احترام ہوتا ہے اور نہ ہی کسی سزا کا کوئی خوف۔ مجرموں پہ روا تشدد انہیں پرتشدد بنا دیتا ہے ۔اور معاشرے کا نفرت انگیز رویہ اسے مزید سماج دشمن بنا دیتا ہے ۔جیل میں رہنے سے وہ صرف ایک فن کا ماہر بن پاتا ہے اور وہ ہے قانون شکنی ۔ جیل میں رہنا گویا اسے قانون شکنی میں تجربے کی سند عطا کر دیتا ہے ۔اگر ہم مغربی ممالک کی جیلوں پہ نظر دوڑائیں تو وہ سہولیات سے آراستہ نظر آتی ہیں ۔ وہاں خوف و دہشت کا راج نہیں لیکن قیدی رہا ہونے کے بعد معاشرے کا باوقار شہری بن جاتا ہے ۔ وہاں قیدیوں کی فکری تربیت(کونسلنگ) کی جاتی ہے اور ذہنی طور پہ انہیں جرم سے آزاد کرایا جاتا ہے ۔ بعض ممالک میں تو جسمانی سزاؤں کے بجائے نفسیاتی طریقہ ٔعلاج سے احساس جرم پیدا کیا جاتا ہے اور اخلاقی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اقدار کو چھوڑا اور مغرب کے غلام ہوئے ۔جو زنداں فرنگی حکمت کا دو صدیوں میں تعمیر ہوا تھا ہم خود اسکے پہرے دار بنے بیٹھے ہیں ۔ ہمارے سفید آقا جا بھی چکے ہیں مگر ہم اب تک ان کے اسیر ہیں ۔ نہ تو ہم نے اپنے اقدار کو بحال کیا اور نہ ہی اپنے سفید آقاؤں کے فلاحی نظام کو اپنا سکے ۔ ہم بس انکے وارث بنے انہی کے نوآبادیاتی ورثے کی حفاظت کر رہے ہیں ۔

ہماری جیلوں میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ۔ لوگ جرم کا ارتکاب کرتے ہیں کیونکہ وہ بھٹک جاتے ہیں ایسے میں انہیں راہ راست پہ لانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کی اپنے شہریوں کو صحیح اور غلط میں فرق کرنے والی تعلیم فراہم کریں ،انہیں جرم و سزا سے آگاہی دلائیں انکے اذہان جرم کے خلاف تیار کریں اور ایسا ماحول فراہم کریں کہ لوگ جرم کے راستے کو اختیار ہی نہ کریں ۔ جیلوں کو تربیت گاہ بنائیں تاکہ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جایا جاسکے ۔جیل میں قید افراد کی تعلیم اور اخلاقی تربیت کا بند و بست کیا جائے۔اس حوالے سے ملک کی دینی و مذہبی تنظیموں اور نفسیاتی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ ان کے ذریعے دعوتی اور تربیتی پروگرامات کا انعقاد جیل میں کرایا جائے تاکہ ان کی ذہنی حالت بدلی جائے ۔ہماری مذہبی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ مسجدوں میں حاضر ہونے والے افراد تک خود کو محدود نہ کریں بلکہ ان افراد کو خصوصی ھدف بنائیں یہی لوگ حقیقت میں اصلاح کے حقدار ہیں ۔ اسی طرح اگر فلاحی اداروں سے معاونت حاصل کر کے فنی تعلیم وتربیت کا معقول انتظام کیا جائے تو یہی افراد معاشرے کے بہتریں افراد ثابت ہو سکتے ہیں اور اپنے پاؤں پہ کھڑے بھی ہو سکتے ہیں ۔ اگر ہماری حکومت اخلاص کے ساتھ جیل اصلاحات پہ غور کرے اور سنجیدگی سے اس معاملے پہ کام کرے تو معاشرے سے جرائم کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ مقتدر طبقے کے دلوں میں اتر جائے میری بات۔آمین۔
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 84 Articles with 91150 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More